0
Friday 10 Dec 2021 23:31

گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم کے نام کھلا خط

گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم کے نام کھلا خط
تحریر: شیر علی انجم

مُلکی میڈیا پر نشر خبروں کے مطابق گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم نے الزام لگایا ہے کہ سابق چیف آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کہا تھا کہ  سنہ 2018ء میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز شریف کو کسی بھی قیمت پر ضمانت پر رہائی نہیں ملنی چاہیئے۔ اُن کے اس انکشاف پر جہاں مُلکی سیاست اور میڈیا میں تہلکہ مچایا ہوا ہے، وہیں اسلام آباد ہائیکورٹ نے توہین عدالت کا نوٹس بھی جاری کر دیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اُس نوٹس کے جواب میں گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس نے بیان حلفی پر توہین عدالت کے کیس میں اپنا تحریری جواب جمع کرا دیا۔ جواب میں کہا گیا کہ ثاقب نثار سے گفتگو گلگت بلتستان میں ہوئی، جہاں پاکستان کے قوانین لاگو نہیں ہوتے اور وہ پاکستان کی حددود سے باہر کا علاقہ ہے۔ لہذا توہین عدالت کی کارروائی واپس لی جائے۔

تعجب کی بات ہے کہ اُن کا یہ بیان انتہائی اہم اور خطرناک ہونے کے باوجو مُلکی میڈیا پر کسی قسم کی بحث نہیں ہوئی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستانی میڈیا کس قدر گلگت بلتستان کے معاملات کو لیکر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ گلگت بلتستان سلامتی کونسل کی قراردادوں اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ریاست پاکستان کے قومی بیانئے کی روشنی میں متنازعہ اور پاکستان کے زیرانتظام ریاست جموں کشمیر کی سب سے بڑی اکائی ہے۔ لیکن زمینی حقائق قدرے مختلف ہیں۔ گلگت بلتستان کے عوام اپنے خطے کو پاکستان سے الگ نہیں سمجھتے، یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان میں دہائیوں سے شمولیت کی کی تحریک چل رہی ہے۔ مقامی اسمبلی میں شمولیت کیلئے متعدد بار قرارداد پاس ہوچُکی ہے۔ لیکن ریاست کے موقف میں آج تک کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

دفتر خارجہ کے ترجمان کا مسلسل بیان، سپریم کورٹ کے کئی فیصلوں کی روشنی میں گلگت بلتستان کی تعریف ریاست جموں کشمیر کی اکائی کے طور پر ہی کی گئی ہے۔ گلگت بلتستان میں پاکستان کی موجودگی کی تاریخ بھی مسئلہ کشمیر کی بنیاد پر ہے۔ جو ریاست پاکستان نے مظفر آباد کی حکومت سے  28 اپریل 1949ء کو کی تھی، جسے بدنام زمامہ معاہدہ کراچی کہتے ہیں۔ اس معاہدے کے دستخط کار گلگت بلتستان کے کوئی سٹیک ہولڈرز نہیں تھے بلکہ آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے چوہدری غلام عباس اور سردار ابراہیم تھے، جس کے تحت گلگت لداخ (آج کا گلگت بلتستان) کے انتظامات پاکستان کو عبوری طور پر تفویض کرکے خود ریاستی نظام کو انجوائے کرتے رہے۔ حالانکہ جس سلامتی کونسل کے قرارداد کی بنیاد پر مظفر آباد کو ریاستت نظام ملا تھا، وہی حکم گلگت بلتستان کیلئے بھی تھا، لیکن بدقسمتی گلگت بلتستان کے اُس وقت کے سیاسی رہنماوں کی لاشعوری اور اندورنی سیاسی خلفشاری کی وجہ سے دہائیوں تک پولٹیکل ایجنٹ کے ماتحت چلاتے رہے۔

یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آزاد کشمیر کو پاکستان کے قبائلیوں نے لشکر کشی کے ذریعے آزاد کروایا تھا جبکہ گلگت لداخ کی آزادی خود مہاراجہ کی آرمی میں موجود گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے افسران کی بغاوت کی وجہ سے عمل میں آیا تھی اور گلگت بلتستان کی آزادی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں تسلیم شدہ ہے، لیکن اُس آزادی کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر کے حل تک کیلئے جو حقوق ملنا تھے، اُس سے گلگت بلتستان آج تک محروم ہے۔ یوں رانا شمیم کا بیان ویسے تو بین الاقوامی قوانین کے عین مطابق ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ جب پاکستان کا کوئی شہری مُلکی اہم معاملات پر گلگت بلتستان میں بات کرے تو اُس بات کی کوئی حیثیت نہیں یا قابل سزا نہیں۔ دوسری طرف اگر گلگت بلتستان کا کوئی شہری اپنے خطے کے اندر سے سلامتی کونسل کے قراردادوں پر عمل درآمد کا مطالبہ کرے تو اُس کی قسمت میں فورتھ شیڈول کیوں۔؟ اُس کے خلاف بغاوت کا مقدمہ کس قانون کے تحت ہو رہا ہے۔؟

رانا شمیم نے اپنی گلگت بلتستان میں تعیناتی کے دوران جی بی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف کسی قسم کا ایکشن نہیں لیا۔ حالانکہ اس حقیقت کو وہ جانتے تھے کہ گلگت بلتستان کی قانونی حیثیت منفرد ہے، جس کا اظہار بھی اُنہوں نے باقاعدہ طور پر کر لیا۔ اُن کے اس بیان کے بعد سوشل میڈیا پر ہلچل مچی ہوئی ہے۔ گلگت بلتستان سے لوگ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ رانا شمیم جی بی کے عوام کو بتائیں کہ جب پاکستان کا قانون گلگت بلتستان میں نافذ نہیں ہوسکتا تو جی بی میں فورتھ شیڈول کا کالا قانون سیاسی کارکنوں، بنیادی حقوق کا مطالبہ کرنے والوں کے خلاف کیوں استعمال ہو رہا ہے؟ سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بُک، ٹیوٹر اور مختلف واٹس ایپ گروپس میں گلگت بلتستان کی نئی نسل سوال اُٹھا رہی ہے کہ جب گلگت بلتستان پاکستان کی حدود سے باہر کا علاقہ ہے تو اس خطے میں خالصہ زمینوں کی غلط تشریح کرکے خالصہ سرکار کا نام دیکر کیوں لوٹا جا رہا ہے۔؟

اس کالم کو لکھنے سے پہلے کئی اہم واٹس ایپ گروپس اور فیس بُک، ٹیوٹر پر عوامی رائے کی جانچ پڑتال کی تو زیادہ تر لوگوں کو کچھ  اس طرح کے سولات اُٹھاتے ہوئے دیکھا گیا کہ گلگت بلتستان جب متنازعہ ہے تو اس خطے میں سٹیٹ سبجیکٹ کی خلاف ورزی کس قانون کے تحت ہو رہی ہے؟ حالانکہ آزاد کشمیر میں آج بھی سٹیٹ سبجیکٹ رول نافذ ہے، گلگت بلتستان میں پنجاب کے سرمایہ دار کس طرح اونے پونے داموں پر زمین خرید کر لگژری ہوٹلز بنا رہے ہیں اور کس قانون کے تحت بیورکریسی ہزاروں ایکٹر زمین پر قابض ہے۔ کچھ اس طرح کے سوال بھی لوگ اُٹھا رہے ہیں کہ کس قانون کے تحت گلگت بلتستان میں مقامی لوکل اتھارٹی کو سپوتاز کرکے پولٹیکل ایجنٹ مسلط کیا گیا اور دہائیوں سے اس خطے کو کس قانون کے تحت کانونیل نظام کے تحت چلایا جارہا ہے۔؟

یقیناً ان سوالات سے رانا شمیم آگاہ ہونگے، لیکن گلگت بلتستان کے ساتھ انصاف کرنے کیلئے اُنہوں نے کسی قسم کا کوئی کردار ادا نہیں کیا بلکہ خود اُن کے مطابق موصوف گلگت بلتستان میں بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اُڑاتے رہے، انسانی حقوق کی پامالیوں کا کا نظارہ کرتے رہے۔ لیکن جب اپنے اوپر بات آئی تو یہ کہہ کر ٹالنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ گفتگو چونکہ ایک ایسے علاقے میں ہوئی ہے، جہاں آئین پاکستان کا اطلاق نہیں ہوتا، لہذا کسی قسم کا نوٹس نہ لیا جائے۔ رانا شمیم شائد بھول گئے ہیں کہ اسی قانون کے تحت گلگت بلتستان کے شہریوں کو پھانسی کی سزا تک ہوچُکی ہے، لیکن اُس وقت رانا شمیم نے لب کشائی نہیں کی۔ اسی قانون کے تحت گلگت بلتستان میں افسر شاہی کی حکومت ہے اور المیہ یہاں تک پہنچا کہ ڈی سی سکردو کی گاڑی کی زد میں آکر عورت ہلاک ہوگئی، لیکن معاملے کو چپڑاسی کی نوکری دیکر دبا دیا، لیکن رانا شمیم نے گلگت میں موجودگی کے باوجود کسی قسم کا نوٹس نہیں لیا۔

اسی قانون کے تحت میٹرک کے طالب علم کو فورتھ شیڈول میں ڈلا گیا، لیکن رانا شمیم کی آنکھ نہیں کھلی، کیونکہ وہ یقیناً مراعات کے نشے میں مست تھے۔ اسی قانون کے مطابق بابا جان افتخار کربلائی سمیت اُن کے دیگر ساتھی عوامی حقوق کی جدوجہد میں آٹھ سال پابند سلاسل رہے، پھر بھی رانا شمیم کو ہوش نہیں آیا کہ اس قسم کے قانون کا اطلاق گلگت بلتستان پر نہیں ہوتا۔ ممتاز قوم پرست رہنماء منظور پروانہ کی پرائیوٹ انشورنس پالیسی تک منجمد ہوچُکی ہے، لیکن رانا شمیم بے خبر رہے۔ اسی قانون کے تحت گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں اسسٹنٹ کمشنر سے لیکر ڈپٹی کمشنر تک پنجاب سے آئے ہوئے ہیں، لیکن رانا شمیم کی ذہن میں نہیں آیا کہ گلگت بلتستان کے تعلیم یافتہ لوگوں کو اپنے خطے میں روزگار کے مواقع ملنا چاہیئں۔ اسی قانون کے تحت گلگت بلتستان میں نیشنل پارک کے نام چراگاہوں کو عوام کیلئے نوگو ایریا بنایا جا رہا ہے، لیکن رانا شمیم نے گلگت بلتستان میں اپنی تعیناتی کے دوران کسی قسم کا نوٹس نہیں لیا۔

اسی قانون کے تحت گلگت بلتستان میں چائنا بارڈر پر کسٹم آفس بنا ہوا ہے، لیکن رانا شمیم کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ پوچھیں کہ جو سوست سے کما رہے ہیں، گلگت بلتستان کے خزانے میں اس کا کتنے فیصد منافع جمع ہو رہا ہے۔ لہذا رانا شمیم کو اس بات کا بھی اقرار کرنا ہوگا کہ اُنہوں نے گلگت بلتستان میں انصاف کی بالادستی کا جو حلف لیا تھا، وہ اس سے بھی منحرف ہوگئے اور گلگت بلتستان میں ہونے والی ناانصافیوں، انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزیوں میں بیوروکریسی کے ساتھ برابر کے شریک ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس صاحب کو چاہیئے کہ رانا شمیم سے پوچھا جائے کہ اُنہوں نے گلگت بلتستان میں انصاف کی بالادستی کیلئے کیا کیا؟ اور گلگت بلتستان کے حوالے سے ایک ایسے موقع پر جب سی پیک کو ثبوتاز کرنے کیلئے دشمن تاک میں بیٹھا ہے اور گلگت بلتستان جیسے بین الاقومی اسٹریجک اہمیت کے حامل علاقے میں جس طرح سے انڈیا و امریکہ کی گریٹ گیم گلگت بلتستان کے تناظر میں گذشتہ کئی سالوں سے چل رہی ہے، ایسے میں اپنی ذات کو بچانے کیلئے گلگت بلتستان میں اہم عہدے سے فارغ ہوتے ہی خطرناک بیان یقیناً مشکوک ہے، لیکن مقتدر اداروں کو تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 967950
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش