1
Friday 24 Dec 2021 23:10

یمن میں سعودی اتحاد کی ناکامی اور پلان بی کا اجراء

یمن میں سعودی اتحاد کی ناکامی اور پلان بی کا اجراء
تحریر: محمد رضا مرادی
 
امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے دعوی کیا ہے کہ انصاراللہ یمن اور ایران میں اختلافات نے جنم لیا ہے جس کے باعث یمن میں ایرانی سفیر وہاں سے وطن واپس آنے کے خواہاں ہیں۔ اس کے جواب میں انصاراللہ یمن کے ترجمان محمد عبدالسلام نے اپنے ٹویٹر پیغام میں لکھا: "بغداد کی وساطت سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان ایک عراقی ہوائی جہاز کے ذریعے یمن میں ایرانی سفیر کو تہران منتقل کرنے کا سمجھوتہ طے پایا تھا جس کی بنیادی وجہ ایرانی سفیر کی خرابی صحت تھی۔" انہوں نے مختلف ذرائع ابلاغ پر پھیلائی جانے والی افواہوں کو مسترد کرتے ہوئے انہیں حقیقت سے دور قرار دیا۔ سعودی میڈیا نے بھی اس خبر کو خوب اچھالا اور ایران اور انصاراللہ یمن کے درمیان تعلقات کو نشانہ بنایا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سعودی عرب اور اس کے حامی ممالک کی اس نفسیاتی جنگ کا مقصد کیا ہے؟
 
2015ء میں یمن کے سابق صدر عبد ربہ ہادی منصور نے استعفی پیش کر دیا اور ملک سے فرار ہو کر سعودی عرب چلے گئے۔ اس وقت سے انصاراللہ تحریک کی فورسز دارالحکومت صنعاء سمیت یمن کے کئی حصوں کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہیں۔ سعودی حکام نے یمن میں انصاراللہ کو لبنان میں حزب اللہ کا دوسرا نسخہ قرار دے کر اس کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا اور 2015ء میں ہی یمن کے مستعفی صدر کو اقتدار میں واپس لوٹانے کے بہانے اس ملک کو فوجی جارحیت کا نشانہ بنایا جو اب تک جاری ہے۔ ابتدا میں سعودی ولیعہد کا دعوی تھا کہ چند ہفتوں میں ہی جنگ میں مکمل کامیابی حاصل کر لی جائے گی لیکن آج تک مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ تحریر حاضر میں یمن جنگ میں سعودی عرب کی مرحلہ وار شکست اور ناکامیوں کا جائزہ لیا جائے گا۔
 
1)۔ انصاراللہ کی مشروعیت کا اعتراف
آل سعود رژیم نے ابتدا میں عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ انصاراللہ یمن کو ایک غیر قانونی دہشت گرد گروہ قرار دیں۔ لیکن جب جنگ میں انصاراللہ کو وسیع پیمانے پر کامیابیاں حاصل ہونا شروع ہوئیں تو نہ صرف سعودی عرب بلکہ عالمی برادری بھی اسے ایک سیاسی گروہ کے طور پر تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئی۔ سعودی فرمانروا کے بیٹے شہزادہ خالد بن سلمان، جو نائب وزیر دفاع بھی ہیں، نے 11 نومبر 2019ء کے دن عمان کا اچانک دورہ کیا۔ باخبر ذرائع نے بتایا کہ اس دورے کا مقصد انصاراللہ یمن کے ساتھ معاہدہ کرنا تھا۔ یمن کے معروف تجزیہ نگار اور لکھاری عباس الضالعی نے اس بارے میں لکھا کہ اس سفر کے دوران شہزادہ خالد بن سلمان نے انصاراللہ یمن کے ایک وفد سے ملاقات کی تھی۔ یہ یمن کے مقابلے میں سعودی عرب کی پہلی شکست تھی۔
 
2)۔ یمن کا دفاع کے مرحلے سے گزر کر جارحانہ مرحلے میں داخل ہونا
سعودی عرب نے 2015ء سے یمن کو شدید فضائی حملوں کا نشانہ بنا رکھا ہے جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر عام یمنی شہریوں کی شہادت اور زخمی ہونے کے علاوہ یمن کا انفرااسٹرکچر بھی تباہ ہو چکا ہے۔ سعودی عرب ان اقدامات کے ذریعے یمن کی انقلابی قوم کو جلی ہوئی زمین سے روبرو کرنے کے درپے تھا۔ ان حملوں کے ساتھ ساتھ یمن کے خلاف شدید محاصرہ بھی جاری رہا اور ہر قسم کا ایندھن، غذائی مواد اور ادویہ جات بھی یمن میں داخل نہیں ہونے دی گئیں۔ ان تمام اقدامات کا اصل مقصد یمن کے شمالی علاقوں میں انصاراللہ تحریک کے خلاف عوام کو اکسانا تھا۔ لیکن گذشتہ دو سال سے جنگ کا پانسہ پلٹنا شروع ہو گیا اور اس کی وجہ انصاراللہ یمن کی جانب سے دفاعی حکمت عملی چھوڑ کر جارحانہ حکمت عملی اپنانا تھا۔
 
اب تک انصاراللہ یمن سعودی عرب کے خلاف 8 بڑی فوجی کاروائیاں انجام دے چکی ہے جن میں آرامکو نامی سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات، دارالحکومت ریاض، فوجی ہوائی اڈوں اور چھاونیوں پر میزائل اور ڈرون حملے شامل ہیں۔ اس وقت بھی یمن کے انتہائی اسٹریٹجک اہمیت کے حامل صوبے مارب میں انصاراللہ فورسز کی پیشقدمی جاری ہے اور وہ صوبے کے مرکز یعنی مارب شہر تک پہنچ چکی ہیں اور اس کا گھیراو کر رکھا ہے۔ یاد رہے یہ شہر یمن میں سعودی نواز مسلح عناصر کا آخری گڑھ ہے اور اس شہر کی آزادی جنگ میں فیصلہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف سعودی حکام یمن کے خلاف جارحانہ حکمت عملی سے پیچھے ہٹ کر دفاعی حکمت عملی اختیار کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اس کی ایک مثال سعودی عرب کی جانب سے ایران سے مذاکرات کا آغاز ہے۔
 
3)۔ پلان بی کا اجراء
سعودی ولیعہد یمن کے خلاف واضح شکست کے بعد اب "متبادل منصوبے" یا وہی پلان بی کے اجراء کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ اس مرحلے میں اصل مقصد ایران اور انصاراللہ یمن کے خلاف اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ جنگ کے گذشتہ سات سالوں کے دوران سعودی عرب نے ہمیشہ یہ دعوی کیا ہے کہ ایران یمن کو میزائل اور ڈرون فراہم کر رہا ہے اور انصاراللہ یمن کی طاقت کا اصل سبب ایرانی امداد ہے۔ لیکن اب انصاراللہ کو ایران کا مخالف ظاہر کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ سعودی حکمران انصاراللہ یمن سے مذاکرات شروع کرنا چاہتے ہیں لہذا اس سے پہلے وہ ایران اور انصاراللہ میں دشمنی کے بیج بونا چاہتے ہیں۔ سعودی عرب پہلے مرحلے پر انصاراللہ سے عاری یمن اور دوسرے مرحلے پر انصاراللہ کے ہمراہ لیکن ایران سے عاری یمن کا خواہاں ہے۔
خبر کا کوڈ : 970123
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش