0
Saturday 25 Dec 2021 15:38

جناح کا پاکستان، جو ایک خواب بن گیا؟

جناح کا پاکستان، جو ایک خواب بن گیا؟
تحریر: ارشاد حسین ناصر

قوم آج بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا 145واں یوم پیدائش منا رہی ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی ولادت کے ساتھ دنیا بھر میں حضرت مسیح عیسیٰ روح اللہ کا یوم ولادت بھی منایا جاتا ہے، جسے مسیحی برادری کرسمس کا نام دیتی ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح، اقلیتوں کے حوالے سے بہت ہی واضح موقف رکھتے تھے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے جس پاکستان کیلئے جدوجہد کی، وہ ہر قسم کے تعصبات سے بالا تر تھا۔ قائد اس حوالے سے بہت ہی واضح موقف رکھتے تھے، جسے انہوں نے کئی ایک مقامات پر اپنی تقاریر میں بھی صراحت کیساتھ دہرایا، مگر افسوس کہ آج قائد اعظم کے ان فرامین اور افکار کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ اگر ہم پاکستان کے مقدمہ لڑنے کی جدوجہد پر نظر دوڑائیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ انھوں نے قیام پاکستان کے لیے جیسا مقدمہ لڑا، ویسا دنیا کی تاریخ میں آج تک کسی نے بھی نہ لڑا ہوگا۔ وہ جیسا پاکستان چاہتے تھے، اس کے بارے انہوں نے 11 اگست 1947ء کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ”آپ کا تعلق کسی مذہب سے ہوسکتا ہے۔ کسی بھی نسل اور کسی بھی عقیدہ کے ساتھ ہوسکتا ہے، یہ صرف اور صرف آپ کا ذاتی معاملہ ہے۔ ریاستِ پاکستان کا ان معاملات سے کوئی سروکار نہیں ہے۔"

وہ کہتے تھے کہ "یقین جانیے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے درمیان تمام تفریقات کا خاتمہ ہو جائے گا، اکثریت اور اقلیت کی تقسیم بے معنی ہو جائے گی۔ میرے خیال میں عقیدے، رنگ و نسل کی بنیاد پر کی جانے والی تفریق بھارت کی آزادی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو ہم کب کے آزاد ہوچکے ہوتے۔ ہمیں اپنے ماضی سے سبق سیکھنا ہوگا۔ پھر کہا کہ۔۔۔"آپ آزاد ہیں، آپ آزاد ہیں، آپ پاکستانی ریاست کے آزاد شہری ہیں۔ آپ کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ آپ کو اپنے مندروں میں جانے کی آزادی حاصل ہے۔ آپ کو اپنی مساجد میں جانے کی آزادی حاصل ہے۔ پاکستانی ریاست کے تمام شہریوں کو ان کے مذاہب اور عقیدوں کے مطابق اپنی عبادت گاہوں میں جانے کی آزادی حاصل ہے۔ میں ایسا مذہبی بنیادوں پر نہیں کہہ رہا ہوں، کیونکہ مذہب تو ہر شخص کا انفرادی معاملہ ہے، لیکن ہم سب لوگوں کے درمیان سیاسی طور پر مذہب اور عقائد کا فرق ختم ہو جانا چاہیئے۔

ایک تحقیق کی تو لکھا تھا کہ 1946ء میں رائٹرز کے نمایندے ڈول کیمبل کو انٹرویو دیتے ہوئے قائد اعظم کا کہنا تھا کہ ”نئی ریاست ایک جدید جمہوری ریاست ہوگی، جس میں اختیارات کا سرچشمہ عوام ہوں گے۔ نئی ریاست کے ہر شہری کے مذہب، ذات یا عقیدے کی بنا کسی امتیاز کے یکساں حقوق ہوں گے۔“ قائد اعظم محمد علی جناح کے پاکستان پر آج نظر دوڑائیں تو ہر طرف مارا ماری اور چھینا جھپٹی کا منظر دکھائی دیتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ قائد کی وفات کے بعد سے ہر ایک اس خطہء ارضی پاکستان کو نوچنے کیلئے ایوان اقتدار میں آتا ہے۔ نفرتیں کاشت کی جاتی ہیں اور اس کا پھل کبھی مساجد کی صفوں میں کھڑے نمازی خون میں نہلاتے ہیں، کبھی اقلیتی عبادت خانوں میں بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیل کے دیا جاتا ہے۔ گذشتہ پینتیس سال تو انتہائی دلخراش اور غم ناک گذرے ہیں، اتنا خون بہایا گیا ہے کہ شاید قیام پاکستان کیلئے نہ بہایا گیا ہو، شہر شہر گلی گلی بے گناہوں کے خون سے رنگین ہوئی ہے۔

افسوس کہ قائد کے پاکستان کو اس حال تک پہنچانے میں ہر ایک نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ سیاستدان، مذہبی جغادری، پارلیمینٹیرینز، وزراء، اسٹیبلشمنٹ، فوجی طالع آزما، صحافت اور درس و تدریس سے وابستگان، اعلیٰ ترین عدالتوں میں متمکن انصاف کا ترازو تھامے آنکھوں پہ پٹی باندھے عدالتی سورماؤں نے اور عوام بھی اپنے امراء اور قائدین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنا حصہ ڈالنے سے نہیں گھبرائے۔ گویا اس گلشن کی تباہی کا ذمہ دار ہر ایک ہے، کوئی زیادہ کوئی کم، آج قائد کا پاکستان ایک خواب بن گیا ہے، جس کا حصول ایک آرزو بن چکی ہے۔ آپ دیکھیں کہ 14 جولائی 1947ء کو دہلی میں ایک پریس کانفرنس میں اقلیتوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے انتہائی صراحت سے جواب دیا۔ ''اقلیتوں کا تحفظ کیا جائے گا، ان کا تعلق خواہ کسی فرقے سے ہو۔ ان کا مذہب یا دین یا عقیدہ محفوظ ہوگا۔ ان کی عبادت کی آزادی میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کی جائے گی۔

انہیں اپنے مذہب، عقیدے، اپنی جان اور اپنے تمدن کا تحفظ حاصل ہوگا۔ وہ بلا امتیاز ذات پات اور عقیدہ ہر اعتبار سے پاکستان کے شہری ہوں گے۔ ان کے حقوق ہوں گے اور انہیں مراعات حاصل ہوں گی اور اس کے ساتھ ساتھ بلا شُبہ شہریت کے تقاضے بھی ہیں، لہٰذا اقلیتوں کی ذمہ داریاں بھی ہوں گی۔ وہ اس مملکت کے کاروبار میں اپنا کردار بھی ادا کریں گی۔ جب تک کہ اقلیتیں مملکت کی وفادار ہیں اور صحیح معنوں میں ملک کی خیر خواہ ہیں اور جب تک مجھے کوئی اختیار حاصل ہے، انہیں کسی قسم کا اندیشہ نہیں ہونا چاہیئے۔
'' پرامن دنیا یا عالمی امن اس وقت بھی ایک بین الاقوامی موضوع ہے۔ یہ ہر دور میں ایک اہم ایشو رہا ہے، اس دور میں بھی ایسا ہی تھا۔ اس حوالے سے قائد اعظم کے افکار بالکل واضح تھے۔ لندن ایک عشایئے میں انہیں مسلم لیگ کی مقامی قیادت مدعو کرنا چاہتی تھی۔ انہوں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: ''ابھی تو تعمیر پاکستان کا عظیم تر کام باقی ہے۔ ہم دنیا میں اس نئی عظیم خود مختار اسلامی ریاست کو مکمل اتحاد، نظم اور ایمان کے ساتھ تعمیر کرسکیں گے۔ مسلمانان ہند پوری صلاحیت سے اپنی ذمہ داری پوری کریں گے اور امن عالم کے لئے اپنا کردار ادا کریں گے۔''

15 اگست 1947ء کو پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس کی افتتاحی تقریب پر قوم کے نام پیغام میں انہوں نے قطعی انداز میں کہا: ''امن اندرون ملک اور امن بیرون ملک ہمارا مقصد ہونا چاہیئے۔ ہم پُرامن رہنا چاہتے ہیں اور اپنے نزدیکی ہمسایوں اور ساری دنیا سے مخلصانہ دوستانہ تعلقات رکھنا چاہتے ہیں، ہم کسی کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتے۔ ہم اقوام متحدہ کے منشور کے حامی ہیں اور امن عالم اور اس کی خوشحالی کے لئے اپنا پورا کردار ادا کریں گے۔'' بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا نام تو ہر ایک لیتا ہے، ہر ایک شاید خود کو ان کا وارث بھی سمجھتا ہے مگر کون ہے، جو ان کی طرح اپنی سوچ میں وسعت رکھتا ہے۔ کون ہے جو ان کی طرح پاکستان، امت مسلمہ اور غریب عوام کا درد محسوس کرنے والا ہو، شائد کوئی بھی نہیں۔ اس وقت منظر نامے پر موجود ہر ایک کسی نہ کسی تعصب یا تنگ نظری کا شکار ہے۔ ہر ایک میں کمزوریاں، خامیاں اور کوتاہیاں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ ان کا یوم ولادت مناتے ہوئے اس پاک وطن کیلئے دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ اللہ اس کو دشمنوں کے شر اور سازشوں سے محفوظ رکھے۔ مایوسی کو کفر کہا جاتا ہے۔ لہذا امید کا دامن تھامے ہوئے ہوئے ہم قائد کی جدوجہد کے حاصل اور علامہ اقبال کے خوابوں کی عملی تفسیر کو درست رکھنے کیلئے اپنے حصہ کی شمع جلائیں، اس ملک کو سنواریں، اسے شاد و آباد رکھیں، تاکہ ہماری اگلی نسلیں اس سے بہتر ماحول میں پروان چڑھ سکیں۔
خبر کا کوڈ : 970258
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش