0
Sunday 9 Jan 2022 12:43

گیس کا بحران، حل کیا ہے؟

گیس کا بحران، حل کیا ہے؟
تحریر: سید منیر حسین گیلانی

اس وقت پاکستان میں توانائی کا بحران شدت اختیار کرچکا ہے۔ اس بحران کی وجہ سے جہاں عوام تنگ ہیں، وہیں صنعت کار بھی تکلیف میں ہیں۔ پہلے سے مہنگائی کی چکی میں پسے عوام کو کھانا پکانے کیلئے گیس دستیاب نہیں۔ متبادل کے طور پر استعمال ہونیوالی گیس اور لکڑیاں بھی مہنگی ہوچکی ہیں، جبکہ صنعتکار جن کے پاس ایکسپورٹ آرڈر ہیں، وہ مہنگے فیول کی وجہ سے اوپن مارکیٹ میں مقابلہ کی سکت نہیں رکھتے۔ مہنگے داموں دستیاب متبادل توانائی کی وجہ سے صنعتکاروں نے اپنی ملیں بند کر دی ہیں۔ پاکستان کے تمام شہروں میں گیس نایاب ہے۔ وفاقی وزیر حماد اظہر صاحب صبح کے ناشتے، دوپہر اور شام کے کھانے پر گیس دینے کا وعدہ بھی پورا نہیں کرسکے۔ گیس کو بجلی کی پیداوار کو جاری رکھنے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔

عوام کی حالت یہ ہے کہ خواتین چولہے اور سلنڈر لے کر گھروں سے نکل آئی ہیں اور سڑکوں پر احتجاج کر رہی ہیں۔ وہ پوچھتی ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کے ڈی چوک کے دعوے اور وعدے کہاں گئے؟ ان کے سابقہ حکومتوں پر لگائے گئے الزامات کہاں ہیں؟ زمینی حقائق کا حکومتی دعووں سے کوئی تعلق نہیں۔ گیس سستی ہونا تو درکنار، دستیاب بھی نہیں، جبکہ گیس کے بل پہلے سے زیادہ آرہے ہیں۔ اس وقت عوام جن شہری مسائل سے دوچار ہیں اور تاریخ شاہد ہے کہ شاید شہری مسائل کے حوالے سے عوام نے اتنی بے بسی اور تنگدستی پہلے کبھی نہیں دیکھی، جس کرب سے عوام اس وقت گزر رہے ہیں۔ اس حوالے سے جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی نے عوامی مسائل کو اجاگر کرنے کیلئے احتجاج بھی کئے ہیں۔

پاکستان ان حالات سے نبرد آزما کیوں ہوا؟ عام آدمی بھی جانتا ہے کہ یہ ساری نااہلی حکومتی وزراء کی ہے، خصوصاً وزیر توانائی حماد اظہر کی نافہمی اور ناتجربہ کاری کیساتھ معاملات کو ڈیل کرنے کی صلاحیت بھی گیس بحران کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔ مہنگائی ہے جو حکومت کے کنٹرول میں نہیں آرہی اور تبدیلی کے جھوٹے دعوے اور بلند بانگ وعدے کرنے والی، تبدیلی سرکار اب مہنگائی سرکار کی پہچان رکھتی ہے۔ اس سلسلے میں ہم حکومت کو ان مشکل حالات سے نکلنے کے لیے چند تجاویز دیتے ہیں، جن پر عمل کر لیا جائے تو پاکستان کی مشکلات کم ہوسکتی ہیں اور بچت بھی ہوسکتی ہے۔ سب سے پہلے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا شکریہ ادا کرنا چاہیئے، جنہوں نے قطر سے ایل این جی کا 14 ڈالر کے حساب سے سودا کیا ہوا تھا اور سال رواں جنوری سے مئی تک چار کارگو کی پہلے سے بکنگ موجود ہے اور وہ پاکستان کی ملکیت ہیں، انہیں آنا ہی ہے۔

صرف ہم ہی نہیں اس وقت یورپ اور انگلینڈ میں بھی گیس کی قلت ہے، جس کی وجہ سے مارکیٹ میں گیس کے نرخ 34 ڈالر سے اوپر جا چکے ہیں۔ اگر پاکستان کی حکومت نے 14 ڈالر ایل این جی کا قطر کیساتھ معاہدہ کیا ہے، تو اس پر اوپن مارکیٹ میں ٹینڈر کال کریں تو مقررہ تاریخ تک آجائیں گے، جبکہ موجود ذخائر کو اوپن مارکیٹ میں بیچا جائے تو میرا خیال ہے کہ قطر حکومت کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ اس سے تقریباً 100 ملین ڈالرز پاکستان کما سکتا ہے، کیونکہ پاکستان کے پاس فرنس آئل اتنی زیادہ مقدار میں موجود ہے کہ اسے سٹور کرنے کی مزید گنجائش نہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ایل این جی کی بجائے فرنس آئل کے ذریعے بجلی پیدا کرنیوالے پلانٹس کو چلایا جائے، جس سے بجلی کی قیمت بھی کم ہو جائے گی۔ اس سے عوام پر مہنگائی کا بوجھ بھی کم ہو جائے گا اور 100 ملین ڈالرز کی بچت بغیر کسی پیشگی ضمانت کے پاکستان کو مل جائے گی۔

ایک اہم تجویز یہ بھی ہے کہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ جس کا افتتاح، پیپلز پارٹی کی حکومت کے آخری دنوں میں کیا گیا تھا، آنے والی مسلم لیگ نون کی حکومت نے امریکی خوف کی وجہ سے اس پر کام جاری نہیں رکھا، جبکہ پی ٹی آئی کی حکومت کو بھی ساڑھے تین سال ہوچکے ہیں، اس نے تو اس منصوبے پر پیشرفت تو کیا، کبھی کوئی بات بھی نہیں کی۔ ہمارا خیال ہے کہ حکومت زیرالتوا پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ بحال کرے تو پاکستان کی ملکی ضروریات اچھے طریقے سے پوری ہوسکتی ہیں اور حکومت کو عوام سے ملنے والی بددعائیں، دعاوں میں تبدیل ہوسکتی ہیں۔
(مضمون نگار ممتاز سیاستدان اور اسلامک ڈیموکریٹک فرنٹ کے چیئرمین ہیں)
خبر کا کوڈ : 972684
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش