0
Monday 24 Oct 2011 22:42

اخلاق سے عاری گروہ

اخلاق سے عاری گروہ
تحریر:تصور حسین شہزاد
 طالبان ایسی قوت بن چکے ہیں جنہوں نے امریکہ، پاکستان اور افغانستان کی مثلث کو گھما کے رکھ دیا ہے۔ امریکہ افغانستان میں ہونے والی شکست کا ملبہ پاکستان پر ڈالنا چاہتا ہے اور امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ چونکہ طالبان کی’’پیدائش‘‘ میں پاکستان نے ’’دائی‘‘ کا کردار ادا کیا تھا اب ان کی ’’ڈائی‘‘ میں بھی پاکستان ہی کردار ادا کرے۔ امریکہ پاکستان پر مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ طالبان کے خاتمے میں امریکہ سے بھی زیادہ کام کرے اور اس کیلئے اسے جو بھی قربانی دینی پڑے ضرور دے اور اگر پاکستان نے اب قربانی نہ دی تو اس کی ماضی کی ساری کارکردگی زیرو ہو جائے گی۔ اس مقصد کے لئے امریکہ نے بھارت کا دباؤ بھی پاکستان پر برقرار رکھا ہوا ہے اور خود امریکی حکام بھی آئے روز پاکستان کے دورے پر رہتے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کی پاکستان آمد کے بعد ایک مرتبہ پھر حقانی نیٹ ورک خبروں میں ہے، امریکی حکام حقانی نیٹ ورک کے بارے میں اپنے یقین کو ہر جگہ بیان کر رہے ہیں اور اُن کا خیال ہے کہ حقانی نیٹ ورک پاکستانی ریاست کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ بننے کی اہلیت رکھتا ہے، جبکہ دوسری طرف حقانی نیٹ ورک کے نام تک کو بعض پُرجوش پاکستانی تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور اِن کو یقین ہے کہ امریکہ نے ’’حقانی نیٹ ورک‘‘ کی اصطلاح محض ایک نیا ڈرامہ رچانے کے لیے گھڑی ہے اور اصل وجہ یہ ہے کہ امریکہ اور نیٹو ممالک افغانستان میں بُری طرح شکست سے دوچار ہیں اور اب اس شکست کا سارا ملبہ پاکستان پر گرانا چاہتے ہیں، ہو سکتا ہے کسی حد تک ایسا ہی ہو، لیکن حقانی نیٹ ورک کی پاکستان کے قبائلی علاقوں اور افغانستان کے کئی شہروں میں موجودگی اور غیر ملکی افواج پر حملوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
دراصل طالبان کی مرکزی جلاوطن کمیٹی جس کو ’’کوئٹہ شوریٰ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے اُس میں شامل بااثر افغانیوں میں جلال الدین حقانی کے حامی افراد کی اکثریت ہے، یہ کوئٹہ شوریٰ بنیادی طور پر بلوچستان میں میزبان ملک کی فراہم کردہ ’’سہولیات‘‘ سے پوری طرح مستفید ہوتی ہے، جس کی ایک مثال کوئٹہ شوریٰ کا بنیادی رکن اور ملا عمر کا قریبی ساتھی ملا برادر ہے جس کو کراچی میں گرفتار کیا گیا، لیکن بعد میں کوئٹہ شوریٰ کے دباؤ پر رہا کر دیا گیا۔ اس دوران بعض پاکستانی اخبارات میں ایسی کہانیاں بھی شائع کروائی گئیں کہ ملا برادر امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں مشغول تھا اور پاکستانی اداروں کی طرف سے اس کی گرفتاری کے بعد امریکی حکام نے پاکستان پر دباؤ ڈال کر اس کو رہا کروایا، لیکن ملا برادر کی رہائی اصل میں کوئٹہ شوریٰ کی طاقت کی مرہون منت تھی۔ 
20 ستمبر کو کابل میں برہان الدین ربانی کا قتل کوئٹہ شوریٰ کے حکم پر ہوا جبکہ پاکستانی ذرائع ابلاغ میں ایسی افواہیں بھی گردش کرتی رہیں کہ برہان الدین ربانی کے قتل میں براہ راست پاکستانی خفیہ ادارے ملوث ہیں۔ جہاں تک حقانی نیٹ ورک کا تعلق ہے تو یہ بات بالکل عیاں ہے کہ اگر کوئٹہ شوریٰ کے ساتھ پاکستانی سکیورٹی اداروں کے تعلقات اچھے ہیں تو اس کا واضح ترین مطلب یہ ہے کہ حقانی گروپ کے ساتھ پاکستان کا کوئی بڑا تنازع نہیں۔ جلال الدین حقانی کے بیٹے سراج الدین حقانی قبائلی علاقوں میں القاعدہ اور طالبان کے کلیدی اجلاسوں میں شرکت کرتے رہے ہیں اور اِن کے ساتھ کوئٹہ شوریٰ کے کئی ارکان بھی شامل ہوتے تھے۔ 
بلوچستان کو اگر حقانی گروپ کا دوسرا ہیڈ کوارٹر کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کیونکہ اس گروپ کے کلیدی عہدیدار جن میں عرب مجاہدین جو براہ راست القاعدہ کیساتھ تعلقات رکھتے ہیں، اِن کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سرگرم مقامی طالبان گروہ بھی شامل ہیں، جو افغانستان کے احکامات کی پاکستان اور اس کے قبائلی علاقوں میں تعمیل کرواتے ہیں۔
جلال الدین حقانی کیساتھ پاکستان کے خفیہ اداروں کے تعلقات کے بارے میں کوئی ٹھوس دعویٰ نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ طالبان اور القاعدہ گروپ اس قدر پیچیدہ نوعیت کے تعلقات کے حامل ہیں کہ بعض اوقات دو اندرونی گروہ ایک دوسرے کے ساتھ گتھم گتھا ہوتے ہیں، لیکن اِن کا بیرونی تاثر ’’اتحادی‘‘ کے طور پر قائم رہتا ہے، تاہم اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جلال الدین حقانی نے اپنے گروپ کو افغانستان اور پاکستان کے اندر بہت حد تک مضبوط اور فعال بنا رکھا ہے اور پاکستان کے قبائلی علاقوں سے افغانستان جا کر لڑنے والے جنگجوؤں کو حقانی گروپ کنٹرول کرتا ہے، اگر یہ کہا جائے کہ حقانی گروپ پاکستان کے اندر بھی اپنی حمایت رکھتا ہے تو یہ بھی غلط نہیں، کیونکہ بیرونی دنیا کے لیے یہ ماننا مشکل ہے کہ پاکستان کے اندر پاکستانی ریاست کی منشا کے بغیر کوئی بڑا جنگجو گروہ فعال رہ سکتا ہے۔
 لیکن ایسا ہوا ہے اور آج بھی ہو رہا ہے اور لاتعداد ایسے جنگجو گروہ موجود ہیں جو پاکستانی ریاست کے کنٹرول کو تسلیم نہیں کرتے، لیکن پاکستانی ریاست اِنہیں ختم کرنے میں بھی سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ بنیادی طور پر افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سرگرم جنگجو گروہوں کو پاکستان کی طرف سے اس لیے بعض رعایات مل رہی ہیں کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد اِن بالادست جنگجو گروہوں سے پاکستان توقعات وابستہ کئے ہوئے ہے اور پاکستان کے سکیورٹی اداروں میں یہ تاثر مضبوطی کے ساتھ پایا جاتا ہے کہ غیر ملکی افواج اِن ٹڈی دل جنگجوؤں کو مکمل طور پر ختم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں اور جب افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا مکمل ہو جائے گا تو اِن گروہوں کی مدد ہی سے افغانستان میں بھارت کے اثر و رسوخ کا خاتمہ ممکن ہو گا۔ 
یہ وہ ’’پُرامید‘‘ گوشہ ہے جو پاکستان کی بہت سی مشکلات میں اضافے کی اصل وجہ ہے۔ اِسی ’’اُمید‘‘ کی بنیاد پر جلال الدین حقانی اور کوئٹہ شوریٰ کے خلاف پاکستان کی طرف سے کسی قسم کی سختی کا امکان نظر نہیں آتا اور پاکستان کے بارے میں بیرونی دنیا میں خدشات بڑھتے جا رہے ہیں۔
جلال الدین حقانی اور اس کے حامی گروہوں کے بارے میں اگر پاکستان کا مؤقف جوں کا توں رہتا ہے تو آنے والے دنوں میں پاکستان کو مزید مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ امریکی افواج بعض ایسے شہری علاقوں کو بھی نشانہ بنائیں، جہاں کوئٹہ شوریٰ اور اس کے حامی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ امریکی حکام پاکستان سے یہ بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ لشکر طیبہ کے خلاف بھی کارروائی کرے، جو کوئٹہ شوریٰ اور جلال الدین حقانی کے حامی جنگجوؤں پر دباؤ بڑھانے سے بھی زیادہ مشکل کام ہے، کیونکہ ریاست کا کوئی ادارہ لشکر طیبہ کے ساتھ اُلجھنے کے حق میں نہیں۔ لشکر طیبہ اور جماعت الدعوۃ نہ صرف ریاست کے اندر اپنی’’افادیت‘‘ کو پختہ کرنے کیلئے فلاحی کاموں میں مصروف ہیں بلکہ آج اِن کا نیٹ ورک اس قدر طاقت اور سیاسی حمایت کا حامل ہے کہ اس کے خلاف کارروائی ریاست کے لیے سابقہ جنگوں سے کہیں زیادہ مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔ 
یہ دونوں گروہ ماضی میں فرقہ وارانہ فسادات میں بھی ملوث رہے ہیں کیونکہ بہت سے دہشتگردوں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے دہشتگردی کی تربیت انہی گروہوں سے حاصل کی تھی۔ امریکہ یہ چاہتا ہے کہ ان گروہوں کاصفایا ہو جائے تاکہ افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد دوبارہ یہ گروہ افغانستان کی حکومت پرقابض نہ ہو جائیں۔ دوسری جانب پاکستانی عوام بھی یہی چاہتے ہیں کہ ملک میں جتنے بھی شدت پسند گروہ ہیں ان کا مکمل خاتمہ کیا جائے تاکہ عوام پرامن زندگی بسر کر سکیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان گروہوں میں عقل نام کی کوئی چیز نہیں، جس کو یہ استعمال میں لائیں کیونکہ وزیرستان میں ہونے والے ڈرون حملوں کے جواب میں یہ امریکی املاک کو نشانہ بنانے کی بجائے بے گناہ شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں اور ان کو اپنی دہشتگردی کا شکار کرتے ہیں جو نہ اخلاقی طور پر بہتر ہے اور نہ ہی مذہب اس کی اجازت دیتا ہے۔ پاکستان کے عوام کی اکثریت معتدل نظریات کی حامل ہے، وہ پرویز مشرف کی روشن خیالی کے حامی ہیں اور نہ ضیاءالحق کے نام نہاد اسلام کو تسلیم کرتے ہیں۔ عوام اخلاق سے عاری ان گروہوں سے چھٹکارہ چاہتے ہیں، یہ نجات ان کو امریکہ دلائے یہ پاک فوج، اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں، بس ان کا مطالبہ ہے کہ انہیں ان گروہوں سے نجات دلا دی جائے۔
خبر کا کوڈ : 108919
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش