0
Sunday 14 Oct 2012 11:18

دہشتگردی کے خاتمے کیلئے کمزور اتفاق رائے؟

دہشتگردی کے خاتمے کیلئے کمزور اتفاق رائے؟
تحریر: ڈاکٹر حسن عسکری

مذہبی انتہا پسندی، تشدد اور دہشت گردی پاکستانی ریاست اور معاشرہ کے لئے بڑے خطرے ہیں۔ اگر ان کی روک تھام کی طرف مکمل توجہ نہ دی گئی تو پاکستان ایک غیر موثر ریاست بن جائے گا اور معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گا۔ دہشت گردی کے کسی بڑے واقعہ کے بعد ملک میں اس کو ختم کرنے کے لئے آوازیں بلند ہوتی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی اور تشدد کے خاتمے کے لئے تمام قوم اٹھ کھڑی ہوئی ہے اور عنقریب ان خرابیوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی اتنے پیچیدہ مسائل ہیں کہ ان کے جلد ختم ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ اگر آئندہ پانچ سات سالوں میں پاکستان ان کے زور کو توڑ دے تو اسے بڑی کامیابی سمجھا جائے گا۔ 

تشدد اور دہشت گردی کی مذمت تمام سیاسی جماعتیں، سماجی تنظیمیں اور افراد کرتے ہیں، لیکن جب اس ردعمل کا تفصیلی تجزیہ کیا جاتا ہے تو تشدد اور دہشت گردی کے خلاف باہم رضامندی کمزور نظر آتی ہے۔ اتفاق رائے اس وقت ختم ہو جاتا ہے جب اس کی وجوہات کی بات کی جاتی ہے اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ کس نے دہشت گردی کی کارروائی کی ہے۔ اس خرابی کے خاتمے کے لئے ضروری اقدامات کی نوعیت پر بھی اتفاق رائے نظر نہیں آتا۔ بہت سے حلقے دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں، لیکن ان تنظیموں کے خلاف بات کرنے سے پرہیز کرتے ہیں جو دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری لیتی ہیں یا جن پر ایسا کرنے کا الزام لگتا ہے۔
 
ملالہ یوسف زئی پر حملے کی تقریباً تمام سیاسی اور سماجی حلقوں نے مذمت کی، لیکن بہت سے حلقوں، خصوصاً اسلامی جماعتوں نے طالبان پر تنقید نہیں کی۔ ان کے بیانات میں حملہ آوروں کا ذکر نہیں ملتا، جبکہ طالبان نے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ حکومت مخالف سیاسی جماعتوں نے اس واقعہ کو حکومت پر تنقید کا ذریعہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ حکومت کی ناکامی ہے کیونکہ حکومت اپنے ایک شہری کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوئی۔ اس قسم کے بیانات سیاسی مصلحتوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ کچھ لوگ سیاسی بنیادوں پر اور کچھ مذہبی فرقہ واریت کی بنیاد پر ان غیر ریاستی تنظیموں پر تنقید نہیں کرتے جو اپنے مذہبی اور سیاسی ایجنڈے کے حصول کے لئے تشدد کا راستہ اپناتی ہیں۔
 
بعض عناصر نظریاتی تنگ نظری یا کم فہمی کی وجہ سے یہ ماننے کیلئے تیار نہیں کہ اس قسم کے واقعات میں وہ تنظیمیں سرگرم ہیں جن کے نام عام طور پر لئے جاتے ہیں۔ بعض عناصر دہشت گردی کو اسلام اور غیر اسلامی دنیا خصوصاً مغربی ممالک کے درمیان ”جنگ“ کا حصہ سمجھتے ہوئے متشدد تنظیموں کو مغرب کے خلاف صف آرا مجاہدین سمجھتے ہوئے ان سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔ ان حلقوں کے خیال میں حکومت پاکستان کی دہشت گردی کے خاتمہ کی پالیسی درحقیقت امریکہ اور مغرب کے ساتھ دینے کے مترادف ہے، لہٰذا ان کے خلاف قوت کا استعمال درست ہے۔ پاکستانی معاشرے میں دائیں بازو کے سیاسی عناصر اور مذہبی حلقوں کی اس سوچ کی وجہ سے مذہبی انتہا پسندی اور متشدد رویہ رکھنے والی تنظیموں کو قائم رہنے کیلئے اچھی خاصی ہمدردی اور حمایت مل جاتی ہے۔ 

پاکستان کی صرف تین سیاسی جماعتیں دہشت گردی کے خلاف واضح سوچ رکھتی ہیں اور یہ جماعتیں طالبان اور دیگر انتہا پسند تنظیموں کو دہشت گردی کا ذمہ دار سمجھتی ہیں۔ ان جماعتوں کے نام یہ ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی، باقی جماعتوں کا رویہ مشکوک ہے اور ان کی تنقید کا نشانہ حکومتی اور فوجی پالیسیاں ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کافی حد تک طالبان کی حمایتی ہے۔ مسلم لیگ نواز شریف گروپ کے رویہ میں ابہام ہے، مسلم لیگ کے دوسرے گروپوں کی پالیسی بھی واضح نہیں ہے۔
 
اسلامی جماعتیں طالبان اور دیگر سخت گیر اور انتہا پسند تنظیموں کی براہ راست یا بالواسطہ حمایت کرتی نظر آتی ہیں۔ البتہ بریلوی اور شیعہ مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء اور مذہبی حلقے طالبان اور دیگر انتہا پسند تنظیموں کے سخت مخالف ہیں۔ وہابی، دیوبند اور اہل حدیث مکاتب فکر کے قائدین اصولی سطح پر تشدد کے خلاف ہیں، لیکن پاکستان میں موجود طالبان اور دیگر تنظیموں کے لئے واضح ہمدردی رکھتے ہیں یا تنقید سے پرہیز کرتے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ طالبان اور دیگر مذہبی تنظیمیں پاکستان میں تشدد نہیں کرتیں۔ ان کے خیال میں یہ کام ہندوستان، اسرائیل اور امریکہ کے ایجنٹ کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ مذہبی اکابرین کا خیال ہے کہ ملالہ کے حادثہ کا سہارہ لیکر مذہبی حلقوں کو بدنام کیا جا رہا ہے۔
 
پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ جنرل ضیاءالحق کی فوجی حکومت نے ریاستی، سماجی اور تعلیمی عمل کے ذریعے مذہبی قدامت پسندی انتہا پسندی اور جہادی رجحانات کو امریکی تعاون سے پاکستان میں فروغ دیا۔ نوجوانوں کے ذہنوں میں ان رجحانات کے لئے خصوصی ہمدردی پیدا کی گئی۔ یہ سلسلہ ضیاءالحق کے دور حکومت کے بعد بھی جاری رہا۔ افغانستان اور کشمیر میں اپنی پالیسیاں چلانے کے لئے فوج نے شدت پسند مذہبی عناصر کا سہارہ لیا۔ اس طرح 1985ء سے 2005ء کے طویل عرصہ میں پاکستان کی ایک جنریشن کا مائنڈ سیٹ (MIND SET) مذہب کے حوالے سے انتہا پسندانہ رویہ اور جہادی نعرہ لگانے والی تحریکوں اور تنظیمیں کو درست سمجھنے لگا۔ 

اس مائنڈسیٹ میں غیر مسلم اقوام خصوصاً مغربی ممالک کی طرف سے منفی جذبات نمایاں ہیں اور کچھ ممالک کے حوالے سے سخت قومیت پرستی کو فروغ دیا گیا۔ جب ہندوستان اور امریکہ کی بات ہوتی ہے تب پاکستان کی خود مختاری پر بہت زور دیا جاتا ہے، لیکن اگر طالبان یا دیگر مذہبی تنظیمیں پاکستان کی بالادستی اور خود مختاری کو رد کر دیں تو اسے قابل اعتراض نہیں سمجھا جاتا۔ مذہب کے حوالے سے سخت گیر سوچ کو مسلح طریقہ کار سے نافذ کرنے والوں سے ہمدردی رکھنے والی جنریشن اب سویلین، حکومتی اور فوجی اداروں میں درمیانے عہدوں تک پہنچ چکے ہیں، جو دہشت گردی کی موجودہ جنگ میں پاکستان کے کردار کو درست نہیں سمجھتے اور پاکستان کے تمام مسائل کا ذمہ دار امریکہ کو تصور کرتے ہیں۔ 

اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر پاکستان کے حکومتی اور فوجی حلقے ملالہ کے واقعہ کے بعد طالبان کے خلاف کسی بڑی فوجی کارروائی کو شروع کریں گے تو پاکستان کے دائیں بازو اور اسلامی حلقے اس کی مخالفت کریں گے۔ فوج کو مکمل قومی حمایت حاصل نہ ہوگی۔ طالبان کے حمایتی حلقے حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ فوجی کارروائیوں کو روک کر طالبان سے مذاکرات کئے جائیں۔ یہ طالبان دوست عناصر فوجی کارروائی روکنے کی اپیل صرف حکومت پاکستان سے کرتے ہیں، لیکن طالبان کو جنگی کارروائیاں روکنے کے لئے نہیں کہتے۔ تشدد اور مسلح کارروائیاں طالبان کی طرف سے بھی ہو رہی ہیں۔ 

مذاکرات کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ دونوں اطراف مذاکرات کے حق میں ہوں۔ ابھی تک طالبان قیادت کی طرف سے مذاکرات کی بات نہیں ہوئی۔ یہ لوگ پاکستان کی ریاست اور اس کے آئین کی بالادستی کو رد کرتے ہوئے اپنی مذہبی سوچ کو دوسروں پر زبردستی نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے رجحانات حوصلہ شکن ہیں، اس مسئلہ پر پاکستانی معاشرہ نااتفاقی کا شکار ہے، حکومت اور فوج کے لئے یکسوئی سے دہشت گردی کے خلاف بھرپور کارروائی فی الحال مشکل ہوگی۔
"روزنامہ جنگ"
خبر کا کوڈ : 203399
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش