0
Friday 14 Dec 2012 15:25

محضر زہراء محضر زہراء ہے

محضر زہراء محضر زہراء ہے
تحریر: سید میثم ہمدانی
Editor_umeed@yahoo.com 
 
انسان کی زندگی میں نظریہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ نظریہ ایک انجن اور موٹر کی مانند ہے جیسے انجن کے بغیر گاڑی نہیں چلتی، نظریہ کے بغیر انسان باقی نہیں رہ سکتا۔ یہ نظریہ ہے کہ جس کی خاطر جان بھی قربان کی جاسکتی ہے۔ اگر انسان سے نظریہ کو چھین لیا جائے اور اس کی زندگی کا کوئی ہدف و مقصد نہ ہو تو اس کا باقی رہنا محال ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے مغربی معاشروں یا ان طبقات میں کہ جہاں انسان اپنے ہدف سے آشنا نہ ہو یا اپنی زندگی کو بے ہدف اور بے مقصد سمجھے، وہاں خودکشی جیسے واقعات میں اضافہ ہو جاتا۔ پاکستان میں ایک عرصہ دراز سے پیروان اہلبیت (ع) اپنے ایمانی اور مقدس ہدف کی خاطر جدوجہد کر رہے ہیں اور اسی ہدف کے تحت اپنی زندگی بھی قربان کرتے ہیں۔ اہلبیت (ع) کی اطاعت اور خصوصاً واقعہ کربلا نے پیروان حق کو ایک ایسے نظریہ سے روشناس کرایا ہے کہ جس کی خاطر سب کچھ قربان کیا جاسکتا ہے۔ واقعہ کربلا میں ہمارے لئے ہر قسم کی قربانی اور ہر قسم کا نمونہ موجود ہے۔ کربلا میں خواتین کا کردار، کربلا میں بچوں کا کردار، کربلا میں جوانوں کا کردار، کربلا میں بوڑھوں کا کردار، کربلا میں اصحاب کا کردار، کربلا میں رہبر کا کردار، یہ سب کردار پیروان کربلا کے لئے نمونہ عمل ہیں۔ 

پیروان کربلا عمر کے جس حصہ میں بھی ہوں انکے لئے نمونہ عمل موجود ہے، بچے ہوں تو علی اصغر (ع) کا کردار ہے، جوان ہوں تو علی اکبر (ع) کا کردار موجود ہے، خواتین ہوں تو جناب زینب (س) کا کردار موجود ہے، بوڑھے ہوں تو حبیب ابن مظاہر (ر) کا کردار ہے اور اسی طرح رہبران ملت کیلئے حسین ابن علی (ع) کا کردار موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیروان کربلا دنیا میں مصنوعی اور من گھڑت نمونوں اور کرداروں کے محتاج نہیں ہیں۔ پاکستان کی ملت تشیع کی سرخ تاریخ میں بھی تمام کردار موجود ہیں۔ انہی کرداروں میں ایک "محضر زہراء" بھی ہے۔ محضر زہراء، سکینہ بنت الحسین (ع) اور شھداء کربلا کی دختران کی پیرو ہے۔ محضر زہرا کو اس دنیا میں کسی من گھڑت نمونہ عمل کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کی قربانی بلند ہدف اور عظیم مقصد کی خاطر ہے۔ اتنی عظیم قربانی کو کسی دنیاوی کردار کے ساتھ تولنا اس عظیم قربانی کی عظمت کی توہین ہے۔

ہمارے ہاں ایک غلط رواج جو بن گیا ہے یا بنایا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ بعض لوگ ان قربانیوں کے بعد حکومتی معاوضوں کے منتظر ہوتے ہیں اور شاید بعض جگہ تو حکومت سے معاوضہ کا مطالبہ بھی ہوتا ہے۔ گویا حکومت کی جانب سے معاوضہ کی ادائیگی کی صورت میں اس قربانی کی قیمت ادا کر دی گئی ہے، جبکہ اس قربانی کی قیمت کی ادائیگی اس مادی جہان میں ادا کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ اس قربانی کی قیمت تو یہ ہے کہ : "من مات علی حب آل محمد مات شھیدا" خدا کے حضور شھادت کے درجہ پر فائز ہونا اور خدا کی جانب سے مخلوقات خدا پر شاھد اور گواہ کی منزلت پانا ہی اجر عظیم ہے۔ سیدہ محضر زہراء زیدی بھی اسی راہ کی راہ رو ہے۔ اب اتنی عظیم قربانی کو اگر ایک صوبہ کے گورنر کی جانب سے ملالہ یوسف زئی کے ساتھ مقایسہ کیا جائے تو گویا سونے کا کوئلہ کے ساتھ موازنہ ہے۔ سیدہ محضر زہراء زیدی کراچی کی ملالہ نہیں ہے بلکہ ملالہ یوسف زئی اگر کسی ہدف اور مقصد کے تحت قربانی دے اور پھر کردار زینبی (س) پر چلتے ہوئے یزیدیت زمان کو بے نقاب بھی کرسکے، نہ یہ کہ بڑے یزید کی چھتری تلے جا کر پناہ لے لے تو ممکن ہے کہ وہ سوات کی محضر زہرا ہوسکے۔ محضر زہراء کو ملالہ کے ساتھ ملانا ناانصافی اور ظلم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ "محضر زہراء محضر زہراء" ہے۔
خبر کا کوڈ : 221177
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش