1
Sunday 24 Feb 2013 19:52

امریکہ، اسرائیل بمقابلہ شام

امریکہ، اسرائیل بمقابلہ شام
تحریر: ایس این حسینی

شام کے موجودہ حالات پر امریکہ اسرائیل اور یورپی ممالک کو یقینا خوشی ہو گی۔ جو اپنے ایک کٹر دشمن کو انہی کے پیدا کردہ بھنور میں دیکھ رہے ہیں، جس نے انکے مفادات کے خلاف اور انکے پالتو درندے اسرائیل کے خلاف کبھی حماس کی مدد کی تو کبھی حزب اللہ کی علی الاعلان کمک اور اس سلسلے میں نہ تو ان قوتوں کا کوئی خیال رکھا، نہ ہی اقوام متحدہ کے امریکہ ساختہ قوانین کا۔ امریکہ اور اسکے اتحادی اب اپنے زعم میں شامی حکومت سے یہ کہتے ہوں گے، یہ مکافات عمل ہے جاؤ اب اس حمائت کرنے کا مزہ چکھو، اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے فوجیوں اور شہریوں کو بالکل محفوظ رکھتے ہوئے صرف پیسہ اور ہتھیار کے ذریعے مسلمانوں کو آپس میں خون کی ندیاں بہاتے دیکھ کر دور سے تماشا دیکھتا ہو گا۔ کیونکہ جن دہشتگردوں سے اسے خود خطرہ لاحق ہے انہیں اب اپنے ایک بڑے دشمن کے خلاف اپنے ہی مفادات کے لیے استعمال کر رہا ہے، چنانچہ اسے اس سے بڑی خوشی کیا ہو سکتی ہے۔ 

اس سلسلے میں پوری دنیا خصوصا عالم اسلام بالاخص پاکستانی عوام اور ان سے بڑھ کر وطن عزیز کے میڈیا پر تعجب ہے کہ وہ شام کے متعلق بیانات اور تبصرے کچھ ایسے انداز میں پیش کر رہے ہیں، گویا فلسطین یا کشمیر کی آزادی کی جنگ لڑی جا رہی ہو۔ وہ شام جس نے اپنے عوام کو دنیا کے مختلف مسلم ممالک پر مسلط تمام عرب بادشاہوں اور آمروں کے مقابلے میں زیادہ حقوق دیئے ہیں، اور یہ کہ یہ واحد عرب ملک ہے جو امریکہ اور اسرائیل کا مخالف ہے اور فلسطینی مقاومت کا زبردست حامی رہا ہے، یہاں تک کہ حماس کے لیڈروں نے گذشتہ سال قطر کی شاہ فیملی کے داماد یوسف قرضاوی سے بھی احتجاج کیا تھا کہ پوری عرب دنیا میں صرف شام کی حکومت ہے جو ہماری مدد کر رہی ہے، جبکہ دوسرے تمام عرب بشمول خلیجی و افریقی ممالک بالخصوص سعودی عرب میں عوام کو کسی قسم کے حقوق اور آزادی حاصل نہیں۔ یہ سب امریکہ کے نہایت مخلص ساتھی بلکہ پٹھو ہیں، یہ سارے حکمران اس علاقے میں ہر وقت امریکہ کے مفادات کے لئے کام کرتے ہیں۔ یہ حکمران خود ڈکٹیٹر ہیں، اسی لئے عرب کے یہ سارے امریکی پٹھو، دنیا بھر خصوصا علاقے کے ڈکٹیٹروں کی ہر طرح کی معاونت کرتے ہیں۔ پھر ان سب میں سے خاص طور پر سعودی عرب، جس نے بن علی کو پناہ دی، عبداللہ صالح کو پناہ دی۔ حسنی مبارک کو بچانے کے لئے ڈالروں اور ریالوں کی بوریاں کھول دیں، مگر عوام نہ مانے۔ اسی طرح بحرین میں پانچویں امریکی بیڑے کی نگہبان خلیفہ حکومت اور اسکے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے سینکڑوں پرامن مظاہرین کو ستم کا نشانہ بنایا۔ 

ہمیں پوری دنیا خصوصا اپنے میڈیا پر، انکی دوغلی پالیسی کیوجہ سے، بہت تعجب ہے کہ تیونس، مصر، یمن، بحرین، اردن اور سعودی عرب میں 80 تا 90 فیصد عوام، اپنی امریکہ دوست حکومتوں کے خلاف احتجاج کریں تو ایک طرف اگر یہ حکومتیں بشمول امریکہ ایک دوسرے کے ساتھ بھرپور تعاون کرکے انہیں کچل ڈالتے ہیں، تو دوسری جانب مبینہ طور پر آزاد میڈیا انہیں کوئی کوریج نہیں دیتا۔ گویا ان حکمرانوں کی طرح یہ بھی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اور رہی بات اقوام متحدہ کی، ان سے شکوہ ہی کیا کیونکہ وہ تو امریکہ ہی کا بنایا ادارہ ہے، جس میں دوسرے ممالک صرف ممبر شپ حاصل کرتے ہیں۔ اس سے آگے کچھ نہیں۔ اب اس سے بڑھ کر حیرانکن بات یہ کہ انہی عرب ممالک کے وسط میں انہی کے ہم زبان عرب ملک شام پر ایک نظر دوڑائیں۔ شام میں حالت یہ ہے کہ انکے خلاف امریکہ اسرائیل، عرب دنیا اور یورپی یونین نے متفقہ الائنس بنایا ہوا ہے، مذکورہ بالا ممالک میں مقامی عوام جمہوری انداز میں صرف احتجاج کر رہے تھے، مگر انہیں یہ منظور نہ تھا جبکہ شام میں یہی ممالک باہر سے مداخلت کرکے اسلحہ اور دنیا کے ہر نقطے سے کل کے دہشتگرد القاعدہ اور طالبان کو جمع کرکے شام بھیج رہے ہیں، اور شام میں جنگ لڑنا تو کیا عوامی تباہ کاری کے لئے بھرپور زمینہ سازی کر رہے ہیں۔ عمارات، عبادتگاہوں، املاک، مقدس مقامات اور آثار قدیمہ کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ میڈیا الٹا باغیوں کی حمایت میں بیانات اور تبصرے پیش کر رہا ہے۔

اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ شام میں چونکہ حکومت امریکی اور اسرائیلی مفادات کے خلاف ہے، اس نے ہمیشہ اسرائیل مخالف تنظیموں کی ہر لحاظ سے معاونت کی اور اس نے 2006ء میں حزب اللہ کی ہر لحاظ سے معانت کی، چنانچہ وہی سابقہ قرضے چکائے جا رہے ہیں، اور اس حکومت کو ہٹانے کے لئے ایک مخصوص مقامی اقلیت کے ساتھ، بڑی تعداد میں بیرونی دراندازوں کو فنڈز سمیت بھاری مقدار میں اسلحہ فراہم کیا جا رہا ہے، جسے حکومت کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے، یہ سب کچھ امریکہ کے پہلو بلکہ گود میں رہتے ہوئے یہ حکمران اور یہ لوگ کر رہے ہیں، امریکہ کی اجازت نہ ہو تو یہ لوگ اپنے ممالک میں بھی کوئی قدم اٹھا نہیں سکتے، کیونکہ امریکی خوف سے بلکہ انکے اشارے سے سعودی عرب نے انتہا پسند اسلام سے کروٹ بدل کر خواتین کو اب چند ایک ایسے حقوق دینے کا اعلان کر دیا ہے جنہیں انکی نظر میں اس سے قبل کفر تصور کیا جاتا تھا۔

یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ پوری دنیا اس حقیقت سے واقف ہے کہ مشرق وسطی میں امریکہ کے دو شہپر تھے۔ ایک مصری حکومت، جس کا سہارا تو کسی حد تک ٹوٹ گیا، جبکہ دوسرا شہپر سعودی عرب اور اسکے حکمران آل سعود خاندان ہے۔ دوسرے معاملات کی تو بات ہی کیا، اس ملک کے لئے تو اسلامی سال کا کیلنڈر بھی امریکہ نے تیار کیا ہے اور ہر سال مسلمانوں کے عبادات کے ایام حج اور عیدین اور رمضان المبارک ایک یا دو دن قبل منواتے ہیں۔ جس کیوجہ سے پوری دنیا کی طرح پاکستان خصوصا ہمارے خیبر پختونخوا کے عوام کو ایک بڑے مسئلے کا سامنا ہے۔

پاکستان کے امریکہ دشمن مسلمانوں اور خصوصا میڈیا پر تعجب ہے جنہوں نے عربوں بالخصوص سعودی حکمرانوں کی ایسی اسلام دشمن پالیسیوں پر چپ سادھ لی ہے۔ ہمارے بعض امریکہ دشمن صحافی جیسے حامد میر وغیرہ، دوسرے موضوعات میں، امریکہ پر تو خوب تنقید کرتے ہیں مگر جب عربوں کی باری آتی ہے تو انکے منہ بند ہو جاتے ہیں، کیا انکو اندازہ نہیں کہ اگر شام امریکہ کے ہاتھ میں چلا گیا تو اسرائیل کو مصر کی جگہ دوسرا متبادل مل جائے گا، اور اسرائیل ایک بڑے خطرے سے ہمیشہ کے لئے بچ جائے گا۔ اسرائیل کو تو اس سے قبل زیادہ خوف شام سے ہی  تھا کیونکہ یہ حزب اللہ اور حماس کا اعلانیہ حامی تھا، جبکہ مصر میں اسرائیل نواز حکومت کی سرنگونی کے بعد تو اسکی تمام امیدیں ٹوٹ گئی تھیں۔ جو دونوں جانب سے دشمنوں کے نرغے میں آگیا تھا، اور یہ کہ ان دونوں کے ساتھ ایران کے بہتر تعلقات نے تو اس کی نیندیں حرام کر رکھی تھیں۔ 

تو کیا یہی انصاف ہے؟ دشمن سے تو شکوہ نہیں کیا جا سکتا، کیا مسلمانوں کو یہ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ یہ سب کچھ امریکہ اور اسرائیل کی خوشنودی کے لیے ہو رہا ہے، اور کیا انہوں نے روس کے ساتھ مجاہدین کی جنگ سے سبق نہیں سیکھا جسے شروع میں  مقدس جہاد کہا جا رہا تھا، لیکن بعد میں لکھی جانے والی کتابوں میں یہ انکشاف ہوا کہ یہ مقدس جہاد نہیں بلکہ امریکی مفادات، یعنی اسکے سب سے بڑے حریف روس کے خلاف جنگ تھی، جس کے لئے سادہ لوح اور اسلام سے بےپناہ محبت رکھنے والے افغانوں کو استعمال کیا گیا۔ اسماعیل ساگر نے اپنی کتاب "افغانستان پر کیا گزری" میں انکشاف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ افغانستان میں جنگ کے اختتام اور مجاہدین کی کامیابی پر افغان جہاد کی ایک اہم شخصیت نے یہ اعتراف کیا کہ یہ سب کچھ چارلی نے انجام دیا۔ (مطلب یہ کہ اس میں، خدا کی مدد شامل تھی نہ ہی مجاہدین کا کوئی کردار تھا) واضح رہے چارلی امریکی حکومت کی طرف سے مجاہدین کو ہتھیار پہنچانے والا خصوصی نمائندہ تھا جو افغانستان میں رہ کر مجاہدین کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر ہتھیار تجویز کرتا تھا اور پھر امریکہ اسکی سپلائی کو یقینی بناتا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا شام میں وہی کھیل تو نہیں دہرایا جا رہا؟ کیا شام کی لڑائی امریکی یا اسرائیلی مفادات کی لڑائی تو نہیں؟ ہر اہل فکر یقیناً اس سوال کے جواب سے بخوبی واقف ہے۔
خبر کا کوڈ : 242141
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش