0
Wednesday 20 Mar 2013 21:09

عبوری وزیراعظم سے قومی توقعات

عبوری وزیراعظم سے قومی توقعات
تحریر: جنرل (ر) عبدالقیوم
 
1993ء کے وسط میں جب میں بطور بریگیڈئر گوجرانوالہ چھاونی میں اپنے فرائض سرانجام دے رہا تھا تو جی ایچ کیو سے حکم ملا کہ دو دوسرے بریگیڈئیرز کے ہمراہ ہمیں نئے عبوری وزیراعظم جناب معین قریشی کے پاس حاضر ہونا ہے، تاکہ وہ مختلف امیدواروں کے انٹرویوز کے بعد ایک موذوں ملٹری سیکرٹری کا انتخاب خود کرسکیں۔ یہ پہلا موقعہ تھا کہ میں وزیراعظم کے دفتر میں داخل ہوا۔ معین قریشی صاحب نے پہلے تو قومی سلامتی کے کچھ امور پر سوالات کئے، پھر پوچھا کہ آپ نیشنل ڈیفینس کالج میں پڑھاتے بھی رہے ہیں، وہاں جنگی علوم کے علاوہ اور کیا پڑھایا جاتا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ نیشنل ڈیفنس کالج، جو اب قومی دفاعی یونیورسٹی ہے، میں عسکری حکمت عملی یا ملٹری اسٹریٹجی کے علاوہ نیشنل پالیسی پر بھی بہت زیادہ بحث ہوتی ہے اور افواج پاکستان اور سول بیوروکریسی کے اعلٰی آفیسرز کو نیشنل Interests، نیشنل Purpose اور قومی سلامتی یا نیشنل سکیورٹی کے علاوہ دفاعی، خارجہ اور اقتصادی پالیسیوں سے وابستہ پاکستان کے چوٹی کے ماہرین آکر لیکچر دیتے ہیں اور بہت کھلے مباحثے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ عبوری وزیراعظم نے میری فیملی بیک گراؤنڈ سے متعلق بھی چند سوالات کئے۔ انٹرویو کے بعد مجھے بتایا گیا کہ وزیراعظم نے خاکسار کو ان کے ساتھ بطور ملٹری سیکرٹری کام کرنے کی منظوری دی ہے۔ میں دعا گو ہوا کہ اللہ مجھے اس اہلیت اور بصیرت سے بھی نوازے کہ میں عبوری وزیراعظم کی توقعات پر پورا اتر سکوں اور پاکستان کے سب سے اعلٰی دفتر میں ایک بہت اہم عہدے پر بیٹھ کر، اللہ سے ڈرتے ہوئے، اپنی پاکستانیت کا حق ادا کر سکوں۔
 
آدھے گھنٹے کے انٹرویو میں جب معین قریشی صاحب سوالات کرکے میری شخصیت اور اہلیت کو بھانپ رہے تھے تو میں ان کے سوالات کی نوعیت، گہرائی، طرز گفتگو اور چہرے کے تاثرات سے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا تھا کہ پاکستان جیسے بہت ہی اہم ملک کی وزارت عظمٰی کے خاردار مسند پر بیٹھ کر عبوری وزیراعظم کس حد تک اپنے مشن میں کامیاب ہوں سکیں گے۔ مجھے یہ پتہ تھا کہ معین قریشی نے گورنمنٹ کالج لاہور سے Role of Honors کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ وہ ایک بین الاقوامی سطح کے ذہین معاشی ماہر ہونے کی بدولت ورلڈ بینک میں سینئر وائس پریذیڈنٹ کے عہدے تک جا پہنچے۔ نہایت دیانتدار اور فرض شناش ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک اچھے انسان ہیں، لیکن پاکستان سے ایک لمبے عرصے کی غیر حاضری سے ان کو پاکستان کے اصلی معاملات یا زمینی حقائق کا پتہ تھا نہ وہ State Apparatus کی Working سے آشنا تھے۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے پاکستان میں کبھی بھی کوئی ملازمت نہیں کی تھی۔ اچھی بات یہ تھی کی میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو دونوں نے معین قریشی کے نام پر رضا مندی کا اظہار کیا تھا۔ لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ دوہری شہریت کے مالک قریشی صاحب امریکہ سے آئے تھے اور انھوں نے امریکہ چلے جانا تھا اور وہ چلے گئے۔ انتخابات کے سارے انتظامات الیکشن کمیشن نے کرنے تھے، اس لئے معین قریشی صاحب کی زیادہ تر توجہ معاشی معاملات کے سدھارنے پر لگی رہی۔
 
اس سلسلے میں وہ محدود وقت میں جو کچھ کرسکتے تھے، انہوں نے نہایت دیانتداری اور حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہو کر شاہد جاوید برکی کی مدد سے صرف اقتصادی میدان میں کرنے کی کوشش کی، خوش قسمتی سے اس وقت ماحول پرامن تھا۔ دھماکوں اور دہشتگردی کا دور دور تک نشان نہ تھا۔ لیکن پھر بھی ملکی معاملات کو چلانا کوئی پھولوں کی سیج نہ تھا۔ IMF سے متعلق بہت ساری ہدایات جاری کی گئیں۔ بی بی سی، سی این این، ٹائمز اور نیوز ویک جیسے اہم ترین بین الاقوامی نشریاتی اداروں اور رسالوں کو وزیراعظم نے انٹرویوز دیئے اور انتخابات کے دوران مرحوم فاروق لغاری جیسے کئی امیدواروں نے دھاندلی کی سخت شکایات بھی کیں، جن سے عقلمندی سے نمٹا گیا۔ اس کے علاوہ وزیراعظم نے سینیٹ کے کئی اجلاسوں میں بھی حاضری دی۔ ڈیفالٹرز کی لسٹ کے اخبارات میں چھپنے سے سیاستدانوں نے شور مچایا، لیکن وزیراعظم نے پرواہ نہ کی۔ اس کے علاوہ بہت سارے آرڈینس بھی جاری کئے گئے۔
 
آج 20 سال کے بعد پاکستان کے معاملات حد درجہ گھمبیر ہیں، مالی مشکلات اتنی ہیں کہ اس کی پاکستانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے اہم مذاکرات اور اس کے نتیجے میں دور رس فیصلے کرنے ہونگے۔ دہشتگردی روز کا معمول ہے۔ انرجی کا ایسا بحران ہے کہ شائد ہی افریقہ کے کسی غریب ترین ملک کا بھی یہ حال ہو۔ اس کے علاوہ یہ بھی ایک سچی بات ہے کہ بین الاقوامی سطح پر ملک تنہائی کا شکار ہے، امریکہ چین کو گوادر بندرگاہ دینے کا ٹھیکہ دینے پر خوش ہے نہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن والے منصوبے کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے۔ ہندوستان ہماری سرحدوں کے ساتھ اسلحے کے انبار لگا رہا ہے۔ ہمارے دریاؤں پر دھڑا دھڑ بند باندھے جا رہے ہیں۔ افغانستان سے بھارت کی بلوچستان اور فاٹا میں انگشت بازی بھی جاری ہے۔ یہ بغل کی چھریاں چلانے کے ساتھ ساتھ بھارت منہ سے رام رام کا ورد بھی جاری رکھے ہوئے ہے اور دکھ کی بات یہ ہے کہ اس رام رام کے راگ پر ہمارے کچھ نام نہاد روشن خیال جھوم رہے ہیں۔
 
ان بدترین حالات میں پاکستان کا مالی بحران عبوری دور حکومت میں شدت اختیار کرسکتا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر جھڑپیں بھی ہوسکتی ہیں، دہشتگرد لوگوں کو یرغمال بنا سکتے ہیں۔ ہوائی جہاز ہائی جیک ہوسکتے ہیں یا انتخابات کو ملتوی کروانے کے لئے کوئی اور ایمرجنسی کی صورت حال بھی پیدا کی جاسکتی ہے۔ ایسے حالات میں عبوری وزیراعظم اور چاروں وزرائے اعلٰی کو بہت اہم اور حساس فیصلے کرنا ہونگے۔ اس لئے نئے عبوری وزیراعظم یا وزرائے اعلٰی کے چناؤ کے وقت یہ نہ سوچا جائے کہ مختلف سیاسی پارٹیوں کے مفادات کا کون بہتر خیال رکھ سکتا ہے، بلکہ سوچ یہ ہونی چاہئیے کہ ملکی مفادات کے تحفظ کے لئے کون سی شخصیات زیادہ موزوں ہیں۔ ایک معروف قلم کار مشرف زیدی نے 20 مارچ کی ایک انگریزی اخبار میں لکھا۔
"A care taker government does not have the legitimacy, the authority, the mandate or the right to make any decisions that may have a bearing beyond elections"
یعنی عبوری حکومت کو پاکستان کے مستقبل سے متعلق دورس فیصلے کرنے کا کوئی آئینی یا قانونی حق ہے نہ اتھارٹی۔
 
یہ بات میرے خیال میں درست نہیں، عبوری حکومت آئینی اور قانونی ہے اور اس پر دستور کوئی ایسی پابندی نہیں لگاتا کہ وہ عبوری دور میں پاکستان کی سالمیت اور مفادات کے تحفظ کے لئے کوئی فیصلہ نہ کرسکے۔ ظاہر ہے ساٹھ دنوں میں عبوری وزیراعظم پاکستان کی خارجہ پالیسی کا رخ موڑنے کی طرف تو نہیں جائے گا، نہ کسی ملک کے خلاف اعلان جنگ کرے گا، لیکن اگر عبوری مدت میں پاکستان کی سالمیت پر کسی نے حملہ کیا، یا بین الاقوامی سطح پر اگر پاکستان کے مفادات کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی تو عبوری وزیراعظم یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس سلسلے میں ضروری فیصلے دو ماہ بعد عوامی مینڈیٹ سے منتخب ہو کر آنے والے عوامی نمائندے کریں گے۔ اقتصادیات اور انرجی کے معاملات میں بھی ایک دن ضائع کئے بغیر اہم فیصلے ضرور کرنے چاہئیں، لیکن ایسی صورت میں عبوری وزیراعظم اور اس کی معاشی ٹیم بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت اور ان کے معاشی ماہرین کو ضرور اعتماد میں لیں۔
 
اس پس منظر میں عبوری وزیراعظم سے قوم کی توقعات کچھ یوں ہونگی۔
1) اپنے حلف کا پاس رکھتے ہوئے مکمل غیر جانبدار رہے اور الیکشن کمیشن کی رہنمائی اور بھرپور مدد کی جائے، تاکہ منصفانہ انتخابات کا انعقاد مقررہ مدت میں ہوسکے اور اقتدار کی امانت عوام کے منتخب نمائندوں کے ہاتھوں میں چلی جائے۔
2) مالیاتی کوتاہیوں کے تدارک پر فوری توجہ دیتے ہوئے اپنی بہترین مالیاتی ٹیم کو اس طرح استعمال کیا جائے کہ کرپشن، رشوت اور ٹیکس چوری کرنے والوں پر قانون بجلی کی طرح گرے۔
3) انرجی کے مسائل کو حل کرنے کے لئے چوری اور ضیاع کو بند کیا جائے۔ تھرمل پاور پلانٹس کی فوری مرمت ہو۔ ایران سے گیس پائپ لائن منصوبے کی شفافیت کو بہتر کرتے ہوئے اسے آگے بڑھایا جائے۔
4) غیر قانونی طور پر قرضے معاف کروانے والے ڈیفالٹرز، ماضی میں جعلی ڈگریوں پر انتخابات لڑنے والوں، دوہری شہریت کو چھپا کر دھوکہ دینے والوں، رشوت لینے والوں اور ایسے امیدواروں کو جو غیر اخلاقی حرکات کرتے ہوئے پکڑے گئے ہوں یا ٹیکس چوری کے الزامات میں ملوث ہوں، انتخابات سے دور رکھا جائے۔
 
5) صوبوں کے آئی جی، ڈی آئی جی، چیف سیکرٹری حتیٰ کہ ڈی سی اوز ان غیر سیاسی افراد کو تعینات کیا جائے جو اچھی شہرت کے حامل ہوں۔ اسی طرح پرنسپل سیکرٹری سمیت سارے فیڈرل سیکریٹریز کی بھی چھان بین کرکے کرپٹ اور سیاسی طور پر جانبدار لوگوں کو الگ کر دیا جائے۔
6) دفتر خارجہ اور بیرونی سفارت خانوں میں سیاسی بنیادوں پر لگائے گئے سفیر فوراً ہٹا کر وہاں پیشہ ور سفارت کار لگائے جائیں۔
7) یہ بہترین موقع ہوگا کہ کراچی کی ہر سیاسی جماعت میں موجود ان دہشت گردوں کو دبوچ لیا جائے، جن کا ذکر سپریم کورٹ نے اپنے ایک حالیہ فیصلے میں کیا تھا۔
8) قانون کی حکمرانی ایسی ہو کہ اگر جنرل عبدالقیوم بھی ٹریفک کا قانون توڑے، ٹیکس یا بجلی چوری کرے تو شام کو جیل میں ہو۔
قارئین !! اس میں شک نہیں کہ پاکستان کی خوشحالی کا راز صرف ایسی قانون کی حکمرانی میں ہے، جس کی گرفت سے اعلٰی عہدے پر بیٹھے ہوئے بھی نہ بچ سکیں۔
خبر کا کوڈ : 248068
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش