0
Monday 17 Jun 2013 01:36

ترکی کے ڈرامے اور نسل نو

ترکی کے ڈرامے اور نسل نو
تحریر: سید اسد عباس تقوی

پنبہ کجا کجا نہم
ہمہ تن داغ داغ است
وطن عزیز اور اس کے عوام اس وقت متعدد معاشی، سیاسی اور معاشرتی مسائل کا شکار ہیں۔ امن و امان کی صورتحال ایسی نہیں کہ اس پر اطمینان کا اظہار کیا جائے۔ آئے روز کے دھماکوں، توانائی کی ابتر صورتحال نے اس بے چینی کی کیفیت کو دوچند کر دیا ہے۔ گذشتہ روز بلوچستان کی سرزمین پر ہونے والے دو بڑے واقعات کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔ معصوم پچیاں جو حصول علم کے لیے اپنے گھروں سے مہد علمی تک پہنچی تھیں کو لحد تک پہنچا دیا گیا۔ صرف یہی نہیں سفاک قاتلوں نے مجروحین کو بھی نہ بخشا۔ اسی طرح بلوچستان کے پرفضا مقام زیارت میں قائم قائداعظم کی آخری اقامت گاہ جسے قومی اثاثے کے طور پر محفوظ کیا گیا تھا، کو بمب دھماکوں کے ذریعے مسمار کر دیا گیا۔ اس مقام کی ایک علامتی حیثیت تھی، جس کو تباہ کرکے دراصل اس علامت سے برات کا اظہار کیا گیا۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ملک کے معروف تجزیہ نگار اوریا مقبول جان کے مطابق حالیہ واقعات گذشتہ دنوں آپریشن کے دوران ماری جانے والی دو بلوچ خواتین کے بدلے کی کوشش ہوسکتے ہیں۔ معاملات اس حد تک کیسے پہنچے، ملک کی مخلص قیادت اور سکیورٹی اداروں کو اس پر بہت غور و خوض کی ضرورت ہے۔
 
یہ معاملات اپنی جگہ اہم ہیں، تاہم میرا آج کا موضوع سخن نہیں۔ میں یہاں اس مسئلے کی جانب اشارہ کرنا چاہتا ہوں جو توانائی، معیشت، سیاست اور امن و امان کے مسائل کے پردے میں عوام اور حکمرانوں کی نظروں سے اوجھل ہے یا بے اعتنائی کا شکار ہے۔ ایک ضروری خبر کی تلاش میں ملک میں شائع ہونے والے انگریزی اخبار International Herald Tribune کی 15 جون 2013ء کی اشاعت میری نظر سے گزری۔ اس اخبار کے ویک اینڈ ایڈیشن میں مختلف چیزوں پر تبصرے کئے جاتے ہیں۔ اخبار کے صفحہ نمبر 20 پر اوپری حصے میں دی گئی سرخی کو پڑھ کر تو جیسے میرے پاؤں کے نیچے سے زمین ہی نکل گئی۔ اس سرخی کو میں کن الفاظ میں بیان کروں، مجھے سمجھ نہیں آتا۔ انگریزی سرخی کچھ یوں تھی Lesson in female libido and lust یہ سرخی تبصرہ کرنے والے لکھاری نے ڈینیل برگ نامی لکھاری کی کتاب what do women want? پر جمائی تھی۔ مضمون کو تبصرے کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی لیکن اس تبصرے میں ایسی باتیں تحریر تھیں جو شاید مغربی معاشرے میں تو قابل قبول ہوں، تاہم پاکستان جیسے اسلامی ملک کی کسی عوامی اشاعت میں ان باتوں کا شائع ہونا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ 

سائنسی تحقیق پر تبصرے کے پردے میں فحش باتیں، جن کا بیان کسی بھی اخلاقی تحریر میں ممکن نہیں، پاکستان میں شائع ہونے والے ایک اخبار میں پڑھ کر میں حیرت زدہ رہ گیا۔ یہ اخبار اس سے پہلے کیا کیا شائع کرچکا ہے، میں نہیں جانتا۔ افسوس تو یہ ہے کہ وہ ادارے جو ملک میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر نظارت کے ذمہ دار ہیں اس اخلاق باختگی سے اب تک نابلد ہیں یا جان بوجھ کر آنکھیں چرائے ہوئے ہیں۔ معاملہ اس اخبار کی مذکورہ اشاعت تک ہی محدود نہیں۔ ملک کے معروف انٹرٹینمنٹ چینلز پر چلنے والے برادر ملک ترکی کے بہت سے ڈرامے ایسے ہیں جن میں دکھائی جانے والی عریانیت اور فحاشی کے باعث ان پر پابندی کے لیے سپریم کورٹ میں متعدد درخواستیں زیر التوا ہیں۔ سننے میں آیا ہے کہ ہمارے نجی چینلوں پر چلنے والے ترکی کے یہ ڈرامے فارسی، دری اور عربی زبانوں میں ترجمہ کروا کر افغانستان اور عرب ریاستوں کے ٹی وی چینلز پر بھی چلائے جا رہے ہیں۔ 

سوال یہ ہے کہ کیا یہ ڈرامے اتفاقاً چل رہے ہیں یا کسی عالمی نشریاتی سازش کا حصہ ہیں؟ کیا ان ڈراموں کے ذریعے کوشش کی جا رہی ہے کہ امت کی نوجوان نسل کو ایسی اقدار کا درس دیا جائے جو ان کے دین و مذہب سے متصادم ہیں؟ ڈراموں میں سر عام شراب پیتے نوجوان اور اس میخواری کے نتیجے میں لڑکھڑاتے اور عزتوں سے کھیلتے امیر زادے ہمارے بچوں کے ذہنوں پر کیا نقوش ثبت کریں گے؟ سکرٹس میں ملبوس نیم برہنہ ترک خواتین اور ان کی اخلاق باختہ حرکات ہماری بچیوں کے ذہنوں کو کس جانب لے جائیں گی؟ کیا ہماری نئی نسل غیر ارادی طور پر اپنے لاشعور میں بس جانے والی ان تصاویر اور ڈراموں کی تقلید کی کوشش نہیں کرے گی۔ یہ ڈرامے پاکستان میں میڈیا کے لیے کون سے اخلاقی معیارات متعین کرنے کی کوشش ہے۔؟ 

میری نظر میں ترک معاشرے میں لبرل سرکار کی سرپرستی میں رواج پانے والی اقدار اور اس ملک میں ہونے والی ترقی کے مابین تعلق ظاہر کرکے اسے مسلم امہ کے سامنے ایک مثال کے طور پیش کیا جا رہا ہے، تاکہ غیر محسوس طریقے سے پوری امت امسلمہ سے روح محمدی نکال کر اسے معاشی، سیاسی، سائنسی، علمی اور ثقافتی لحاظ سے مغرب کا مرہون منت کر دیا جائے، یا کم از کم اسلام سے بیزار کرکے ایک فکری، اخلاقی اور ثقافتی خلا میں دھکیل دیا جائے۔ ان ڈراموں اور نام نہاد ثقافتی پروگراموں کے ذریعے اسلام کی شدت پسندانہ تصویر سے بیزار نوجوانوں کو دوسرے گڑھے کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔ کل یہ نوجوان کہ سکتے ہیں کہ ایک مسلم اکثریتی ملک ہونے کے باوجود اگر ترکی میں یہ سب جائز ہے تو پاکستان، افغانستان، عرب امارات، اردن، مصر، تیونس، الجزائر، شام، لبنان میں اس کی اجازت کیوں نہیں۔؟
 
طرفہ تماشہ یہ کہ معصوم پیمرا کو آج تک عریانیت اور فحاشی کی تعریف ہی معلوم نہیں۔ ترک ڈراموں پر پابندی کے لیے پیمرا کے خلاف دی جانے والی ایک درخواست میں درخواست گزار کے موقف کے جواب میں پیمرا کا کہنا ہے کہ ملک کے آئین میں عریانیت اور فحاشی کی کوئی واضح تعریف موجود نہیں، پس ان ڈراموں میں عریانیت یا فحاشی کا تعین کیسے کیا جاسکتا ہے۔ بات انتہائی تکنیکی نوعیت کی ہے، نومنتخب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسمبلی میں موجود اکثریتی ووٹ سے استفادہ کرتے ہوئے پہلی فرصت میں عریانیت اور فحاشی کی واضح تعریف متعین کرے اور باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے ملک کے الیکڑانک اور پرنٹ میڈیا پر ہونے والی اخلاق باختگی، اسلام ستیزی کا سدباب کرے۔
 
یہ مسئلہ امن و امان، معیشت، سیاست اور قومی سلامتی کے امور سے کسی طور کم اہمیت نہیں۔ ویسے تو آئین میں واضح طور پر تحریر ہے کہ ملک کے قانون کا مصدر قرآن و سنت ہے اور کوئی بھی قانون اس مصدر سے متصاد م نہیں ہوگا لیکن یہ شق انہی قوانین پر لاگو ہے جو باقاعدہ پارلیمنٹ سے پاس ہوچکے ہیں۔ بہر حال قرآن و سنت کی حاکمیت پر یقین رکھنے والے اداروں کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی بھی قانون سازی سے قبل، الہی قوانین میں درج عریانیت اور فحاشی کے معیارات کو مدنظر رکھتے ہوئے میڈیا کے لیے ضابطہ اخلاق وضع کریں، تاکہ نئی نسل کو اخلاقی و ثقافتی افلاس سے بچایا جاسکے۔
خبر کا کوڈ : 274052
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش