0
Thursday 23 Jan 2014 13:50

آپریشن ۔۔۔ آخری حل

آپریشن ۔۔۔ آخری حل
تحریر: ارشاد حسین ناصر

دہشتگردی پاکستان کے گلے کی وہ ہڈی بن چکی ہے جسے اب ہم نگل پا رہے ہیں نہ اگلا جاسکتا ہے، بلکہ اس کے باعث پاکستان کا دم گھٹتا نظر آتا ہے، سانسیں اکھڑی اور کبھی کبھار تو وجود کو بھی خطرات محسوس ہونے لگتے ہیں، ہمارے قارئین بخوبی آگاہ ہیں کہ یہ ہڈی پاکستان کے گلے میں ضیاءالحق ٹھونس کر گیا تھا، جس نے ایک منتخب جمہوری وزیراعظم کو اقتدار سے ہٹا کر تخت پر قبضہ کیا اور 11سال تک مارشل لاء کے زور پر آمرانہ حکومت کی۔ اس دوران پاکستان کے ہمسائے افغانستان میں روس سے جنگ چھڑ گئی، جس میں امریکہ نے اپنا کھیل کھیلا اور ضیاءالحق کے ذریعے جہاد کے مقدس نام پر سعودیہ کے ساتھ ملکر اپنا مقصد حاصل کیا۔ دنیا بھر سے جہاد کے مقدس نام پر مسلم نوجوانوں کو بھرتی کرکے روس کے ساتھ لڑوایا، جہادی تنظیموں اور مخصوص فکر کے ہزاروں دینی مدارس و مکتب کھولے گئے۔
 
1988ء میں روس تو افغانستان سے چلا گیا اور ہم نے فتح کے شادیانے بجائے، ہمارے حوصلے اس قدر بلند ہوئے کہ اس کے بعد دہلی کے لال قلعے پر پرچم لہرانے کی بڑھکیں لگانے لگے۔ روس چلا گیا مگر پوری دنیا سے لائے گئے جہادی ان کے اسلحہ کے ذخائر، تنظیمیں، نیٹ ورک اور 11 سال تک دی گئی سہولیات پاکستان کے گلے کی ہڈی بن گئے۔ آج تک یہ ہڈی ہمارے گلے میں اٹکی ہوئی ہے، آج تک ہم اسی کا پھل کاٹ رہے ہیں، جو لوگ کل دہلی کے لال قلعے پر پرچم لہرا رہے تھے، آج دہلی کے ہاتھ کا کھلونا بنے ہوئے ہیں اور پاکستان کے طول و عرض میں اپنا پرچم لہرانا چاہتے ہیں، یہ لوگ موقعہ کی تلاش میں بھی ہیں اور مواقع پیدا بھی کر رہے ہیں۔ آج عملی طور پر افغانستان محفوظ ہے نہ ہی پاکستان، اتنے افغان تو روس سے جنگ میں نہیں مرے تھے جتنے جہادی گروہوں نے افغانستان پر قبضہ کی جنگ میں اور پھر طالبان کے وجود میں آنے اور افغانستان پر قبضہ کے نئے فیز شروع ہونے کے بعد مارے گئے ہیں۔ ایسے ہی طالبان کی نام نہاد حکومت ختم ہونے اور نائین الیون کے بعد پاکستان پر طالبان کی مسلط کردہ جنگ میں معصوم و بیگناہ عوام بم دھماکوں، خودکش حملوں اور دیگر تخریبی کاروائیوں میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

دہشت گردی کا تین دہائیوں سے جاری یہ طویل سلسلہ مختلف شکلوں اور صورتوں میں ہر دور میں ہمارے گلے کی ہڈی بنا رہا ہے، کبھی خودکش حملوں کی سیریز کی شکل میں تو کبھی افواج پاکستان اور فورسز پر بدترین حملوں کی صورت میں یہ سامنے آیا، کبھی خفیہ ایجنسیز اور اداروں کے دفاتر پر شدید حملوں کی شکل میں تو کبھی عبادت گاہوں، مساجد، مدارس، مزارات پر بارود کے ڈھیر سے دہشت گردانہ حملوں کی صورت میں یہ مسئلہ سامنے رہا۔ کبھی اس مسئلہ نے مذہبی جلوسوں، ماتم، میلاد کے پروگراموں میں خودکش حملوں کی شکل اختیار کی تو کبھی علماء کرام، واعظین عظام کی ٹارگٹ کلنگ کی شکل میں ناسور بن کر سامنے آیا، کبھی سیاسی قائدین کو نشانہ بنا کر اس دہشت گردی نے اپنے منحوس وجود کا احساس دلوایا تو کبھی معصوم و نہتے نمازیوں اور جنازے پڑھتے مسلمانوں کو چیتھڑوں میں بدل کر یہ منحوس کھیل کھیلا گیا۔
 
پاکستان اور پاکستانیوں نے دہشت گردی، تخریب کاری، جہالت، درندگی، سفاکیت اور حیوانیت کی ہر شکل و صورت دیکھ لی ہے۔ آپ خود ہی سوچیں کہ جیتے جاگتے انسانوں کو تیز دھار خنجروں کیساتھ اللہ اکبر کی صدا کے ساتھ ذبح کئے جانے سے بھیانک اور دلدوز منظر کیا ہوسکتا ہے۔ انسانیت، اسلام، دین، مکتب اور دنیاوی قوانین کون اس کی اجازت دیتا ہے؟ سوات، قبائلی علاقہ جات اور صوبہ خیبر پختونخوا میں سینکڑوں اسکولوں کو بارود لگا کر مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کرنے والوں کو سکوں نہ ملا تو ابراہیم زئی کے اسکول کو معصوم بچوں سمیت اڑانے کی منحوس سازش کی، تاکہ پھول جیسے بچے ایسے بکھر جائیں جیسے گلاب کی پتیاں بکھر جاتی ہیں اور ہر سو چیخ و پکار اور نوحہ وفغاں کی صدائیں گونجیں، مگر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا جس نے اعتزا ز حسن کی شکل میں ایک باغیرت، شجاع، بہادر سپوت کہ جس پر اہل وطن کو فخر و ناز ہے، وہاں بھیج دیا تھا، جس نے اپنی جان کی پرواہ نہ کی اور سینکڑوں طالبعلموں کی جان اور اپنے مادر علمی کو بچانے میں کامیاب ٹھہرا۔۔۔!

دہشت گردی کا اس قدر طویل اور منظم سلسلہ آیا صرف رونے دھونے سے ختم ہوسکتا ہے؟ کیا اس منظم دہشت گردی کو صرف پالیسیاں بدلنے اور نئی پالیسیاں بنانے سے ختم کیا جاسکتا ہے؟ کیا صرف بیانات، خیالات اور سوالات سے یہ دہشت گردی ختم کی جاسکتی ہے؟ کیا بزدل، کنفیوژ اور اقتدار کے پجاری حکمران اسے ختم کرسکتے ہیں؟ کیا افتخار محمد چوہدری کی اندھی عدالت اور جاوید چوہدری کی نابینا، زرد صحافت سے اس کا خاتمہ ممکن ہے؟ کیا درندوں، وحشیوں، جنگلیوں، جاہلوں اور سفاکوں سے امن کی بھیک اور جان کی امان مانگ کر اس سے چھٹکارا ممکن ہے۔۔۔ ہرگز ہرگز نہیں! اگر ایسا ممکن ہوتا تو یہ ملک اب تک امن و ترقی کا گہوارہ بن چکا ہوتا۔
 
وزیرستان، سوات اور دیگر کئی علاقوں میں دہشت گردوں سے مذاکرات نہیں ہوئے تھے، انہیں گلے میں ہار نہیں پہنائے گئے، ان کے مطالبے پر شرعی عدالتیں اور قاضی کورٹس قائم نہیں کی گئیں، پھر بھی ان لوگوں نے وطن کے سپوتوں کو اپنی درندگی کا نشانہ بنایا اور ایک کے بعد دوسرا مطالبہ دہراتے رہے۔ یہی لوگ تھے جنہوں نے ملک کے دارالخلافہ اسلام آباد میں لال مسجد کو اپنا مرکز بنایا اور اسلامی نظام نافذ کرنے اور شرعی عدالتیں قائم کرتے رہے، متوازی عدالتی نظام قائم کرنے اور لوگوں کو شرعی سزائیں دینے کے اعلان سے کون واقف نہیں، لوگوں سے کہا جا رہا تھا کہ اپنے فیصلے ان سے کروائیں، اپنے کاروبار کو ٹھیک کر لیں اور ڈنڈے کے زور پر دارالحکومت میں عوام کی زندگی اجیرن کر دی تھی۔

موجودہ حکمران جو ان دہشت گردوں سے الیکشن مہم کے دوران ضمانت اور امان لیکر اقتدار تک پہنچے تھے۔ انہوں نے مسند اقتدار سنبھالتے ہی یہ اعلان کیا تھا کہ وہ مذاکرات کریں گے اور طالبان کو سمجھائیں گے، یہ اپنے ہی لوگ ہیں جو بھٹک گئے ہیں، یا حالات نے انہیں اس نہج تک پہنچا دیا ہے، موجودہ حکمران مسلسل مذاکرات کا ڈھول پیٹ رہے ہیں اور دہشت گرد اپنے انداز سے اس کا جواب دے رہے ہیں۔ مذاکرات کی پالیسی کا جواب لاشیں بھیج کر دیا جاتا ہے۔ جرنیل، کرنیل اور سپاہیوں کی لاشوں کے پرخچے اڑا کر مذاکرات کا پیغام دیا جا رہا ہے، افواج پاکستان کے کتنے ہی جوانوں کو حالیہ دنوں میں مذاکرات کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔
 
بنوں، راولپنڈی، کراچی اور ملک کے کئی علاقوں میں ہونے والے حملوں کے ساتھ مذاکرات کیلئے آمادگی کا پیغام دیا گیا ہے، جسے طالبان حمایتی منور حسن نے خیر سگالی سے تعبیر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن اور تبلیغی مراکز پر حملے کرنے والے طالبان کیسے ہوسکتے ہیں۔۔۔۔ گویا طالبان کوئی نیک، پارسا، متقی اور پرہیز گار مخلوق کا نام ہے جو پہاڑوں اور غاروں میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرتے ہیں، موصوف سے ان کے اہل جماعت ہی پوچھیں کہ قاضی حسین احمد جیسی اعتدال پسند شخصیت پر حملہ کس نے کیا تھا اور ان کے خلاف کئی منٹ کی ویڈیو ریکارڈنگ بھی کسی حکیم اللہ کے ہم شکل نے کروائی تھی، تاکہ طالبان بدنام ہوں۔

حقیقت یہ ہے کہ طالبان نامی دہشت گرد ٹولہ اسلام و پاکستان کیخلاف برسر پیکار ہے، جن کا انسانیت، اسلام اور اخلاقیات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ وحشی اور جنگلی لوگ ہیں، یہ سفاک ہیں، قاتل ہیں، درندے ہیں، ان کو موجودہ جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام کی شکل میں سرپرست ملے ہوئے ہیں، یہ دھوکہ دینے کیلئے اسلام کے عالم گیر غلبہ کا نعرہ لگاتے ہیں، جس کا اصل مقصد اسلامی ممالک کو استعمار گردی اور امریکہ گردی کی بھینٹ چڑھانا ہے۔ انہی کی بدولت امریکہ عراق، افغانستان اور کئی دیگر ممالک میں وارد ہوا۔ پاکستان جو ایک ایٹمی اسلامی مملکت ہے، کو امریکہ، بھارت و اسرائیل کے زیر نگیں رکھنا ان کا ایجنڈا ہے۔ پاکستان میں یہ بم دھماکوں، تخریبی کارروائیوں، افواج پاکستان پر حملوں اور فوجی مراکز پر دہشت گردی کرکے اسرائیل و بھارت کی خدمت سرانجام دینے میں مصروف ہیں۔ موجودہ حکمرانوں نے اگرچہ ان سے مذاکرات کی پالیسی اپنا رکھی ہے مگر جلد یا بدیر انہیں منطقی طور پر آپریشن کا فیصلہ کرنا ہی پڑے گا، اس لئے کہ ملک کی بقا انکی مکمل بیخ کنی کے بغیر ممکن نہیں اور اس کیلئے آخری حل ۔۔۔آپریشن ہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 344002
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش