0
Wednesday 10 Aug 2011 15:07

پہلے ویسی قیادت تلاش کریں!

پہلے ویسی قیادت تلاش کریں!
تحریر:طاہر یاسین طاہر
  یہ بجا ہے کہ تقدیر پر کسی کا زور نہیں، مگر تھوڑی سی تدبیر کرکے تقدیر کے سامنے سینہ سپر ہوا جا سکتا ہے۔ کیا نااہل قیادت ہمارا مقدر بن چکی ہے؟ یقیناً جواب نفی میں ہے۔ جب یہ کہا جائے کہ نااہل قیادت ہی ہمارا مقدر ہے تو پھر قیادت کے بجائے دوش ذات الٰہی کو دیا جا رہا ہوتا ہے۔ ہم انہیں کیوں نہیں کوستے جو ہماری ناکامیوں اور محرومیوں کا اصل سبب ہیں؟ گاہے یہ کہہ کر حکمران طبقے کی حفاظت کی جاتی ہے کہ جیسی قوم ہو گی ویسے ہی حکمران اس قوم پر مسلط کیے جائیں گے۔ یہاں بھی حکمرانوں کو بری الذمہ قرار دے کر قوم کو موردالزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ لاریب پاکستانی قوم ذہین، فطین اور معاملہ فہم ہے۔ مگر قیادت کے فقدان کا کیا جائے، ایک ذہین لیڈر اوسط درجے کی قوم کو بھی بلندیوں پر لے جاتا ہے مگر لاکھوں کروڑوں ذہین لوگ مل کر بھی ایک لیڈر پیدا نہیں کر سکتے۔
ہمیں ماننا پڑے گا کہ خرابیاں ہمارے اندر ہیں، انہیں دور کرنا ہو گا۔ خواہشات پالنے میں کوئی قید نہیں، ویسے بھی ہم خوابوں کی حسین وادیوں میں خیمہ زن رہتے ہیں۔ ہفتہ عشرہ قبل اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب جناب عبداللہ ہارون کا مختصر بیان نظر سے گزرا، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ایران سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ جناب عبداللہ ہارون کی خواہش مبنی بر صداقت ہو گی۔ وہ ایک عالمی ادارے میں وطن کیلئے خدمات سرانجام دے رہے ہیں، انہوں نے وہاں ایرانی موقف کی گونج اور اس کی پذیرائی بھی ضرور سنی ہو گی۔ سچے محب وطن کی طرح ان کے دل میں بھی جذبہ پیدا ہوا کہ پاکستان بھی ایران کی طرح عالمی استکبار کی ستم ظریفوں کے سامنے سینہ سپر ہو جائے۔ میں ہفتہ بھر سوچتا رہا کہ ہم ایران سے کیسے سبق حاصل کر سکتے ہیں، میں نے اس فکر کے نتیجے میں جو نتائج اخذ کیے وہ کچھ اس طرح سے ہیں کہ ایرانی قوم آج بلندیوں کے جس سفر پر ہے یہ ایک دو برس کی محنت نہیں بلکہ اس کے پیچھے یقیناً کوئی سحر انگیز شخصیت یا فکر کارفرما ہے۔
 میں نے فکر کی تو یہ راز کھلا کہ امریکہ جب اپنے لاڈلے پہلوی کی پیٹھ تھپکا رہا تھا اور ایرانی ثقافت و حمیت کے درپے تھا تو اللہ نے ایرانی قوم کو شہید مرتضیٰ مطہری جیسی باکمال شخصیت عطا کی۔ شہید مرتضی مطہری نے اپنے قلم و بیان کے ذریعے اسلامی انقلابی کی راہ ہموار کی، جبکہ امام خمینی رہ نے اس انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کر کے دنیا پر حیرتوں کے دروا کر دیئے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایران کے انقلاب کی اساس ایک نظریہ پر ہے۔ رضا شاہ پہلوی جب عالمی استعمار کی سفارت کر رہا تھا تو اس وقت مطہری و خمینی الٰہی احکامات کی تدریس و ترویج میں صعوبتیں برداشت کر رہے تھے۔ انقلاب کی خواہش رکھنا ہمارا حق ہے مگر ویسی جاں ریزی کیلئے ہم کبھی بھی تیار نہ ہوئے۔ حیرتوں کے کئی در اس وقت مزید وا ہوتے چلے جاتے ہیں جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہم انقلاب اور تبدیلی کی خواہش تو رکھتے ہیں مگر انھی فرقوں کی چادر میں لپٹی مذہبی جماعتوں اور لسانی گروہوں سے جو اپنی اپنی خواہشات کی مسند پر بیٹھے انقلاب انقلاب کی گردان کر رہے ہیں۔
لاریب کہ ہم بحیثیت مجموعی ابھی تک اپنے لیے درست سمت کا تعین ہی نہ کرسکے۔ 
ہم ایسے لوگ ہیں جو محمد علی جناح کو بابائے قوم اور علامہ اقبال کو مصور پاکستان تو کہتے ہیں، ان کا یوم پیدائش و وصال بھی بڑے اہتمام سے مناتے ہیں، مگر ہم تبدیلی کیلئے کبھی نوڈیرو کی طرف دیکھتے ہیں تو کبھی رائے ونڈ کی طرف، پھر ہم کامیابی کا درس بھلا ایران سے کس طرح حاصل کر سکتے ہیں۔؟ بھلا ہم حمیت کا سبق برادر اسلامی ممالک سے کس طرح سیکھیں گے؟ ہمیں پہلے اپنی سمت کا تعین کرنا ہو گا، ہمیں اپنے اندر سے کسی مرد خدا پرست کی تلاش کرنا ہو گی۔ کسی مطہری و خمینی کو ڈھونڈنا ہو گا۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ ہم نے اپنے ہر گلی محلے میں نام نہاد انقلابی مجاور پیدا کیے ہوئے ہیں جو عمل کی بجائے صرف خواہش کی پیروی کرتے ہیں۔ مگر ایرانی قوم نے اس درس کو فراموش نہیں کیا جو امام نے انہیں دیا۔ بجا فرمایا، رہبر معظم نے، امام خمینی کی 22 ویں برسی کے موقع پر کہ "ایرانی قوم کی امام کے ساتھ گہری محبت کا خلاصہ صرف قلبی محبت اور لگاﺅ میں نہیں بلکہ اس محبت و الفت کامفہوم یہ ہے کہ امام کے مکتب اور ان کی راہ روش پر پوری قوم دل و جان کے ساتھ پابندی اور پائیداری کے ساتھ گامزن ہے۔"
اور ہم؟ ہم قائداعظم سے لفظی محبت تو کرتے ہیں مگر ان کے مقصد کو بھول گئے، ہم علامہ اقبال کو مصور پاکستان تو تسلیم کرتے ہیں مگر ان کے فلسفہء خودی کو بھلا دیا۔ جو عبداللہ ہارون نے کہا وہ پوری پاکستانی قوم کے دل کے آواز ہے۔ مگر یہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ایرانی قوم کی قیادت اور وہاں کا نظام مملکت بہت مضبوط ہے۔ اصحاب خوش گمان معاف رکھیں تو کہتا چلوں کہ ہم موجودہ سیاسی قیادتوں کے طفیل مزید تباہی کی طرف تو جا سکتے ہیں، بلندی کی طرف نہیں۔ آج ہم میں کوئی احمدی نژاد نہیں، کیا فضل الرحمان جیسے نام نہاد مذہبی رہنما جو فرقہ پرستی کے پانی سے وضو کرتے ہیں وہ کسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں۔؟ ہماری ہر طرح کی موجودہ سیاسی قیادت اپنے کم تر سیاسی مقاصد کیلئے پوری قوم تو کیا، پوری مسلم امہ کا سودا کرنے سے بھی گریز نہیں کرے گی۔ 
خواہشات پالنے میں کوئی قید نہیں اور پھر خواہش بھی ایسی جس میں قوم کیلئے درد اور ہمدردی کی بو ہو۔ ایسی خواہشات قابل قدر ہوتی ہیں مگر ہمیں ایرانی قوم سے سبق لینے سے قبل ایک لمحے کو یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ تبدیلی فوراً نہیں آتی۔ اس کیلئے ویسی جدوجہد اور قربانی درکار ہے جو ایرانی قوم نے دی۔ دنیا میں باوقار ایرانیوں کی طرح زندہ رہنے کیلئے ہمیں ویسی ہی قیادت کو تلاش کرنا ہو گا۔ قوم الحمداللہ ذہین ہے۔ بس، مثبت تبدیلی کیلئے کسی مرد خدا پرست کو تلاش کرنا ہو گا۔ ایسا شخص جو بوریا نشین بھی ہو، جس کا ایمان بھی کامل ہو اور جس کا قبلہ واشنگٹن کی بجائے کعبة اللہ ہی ہو۔ جس کا دل مظلوم فلسطینیوں کیلئے بھی دھڑکتا ہو۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب کی خواہش بڑی قابل تحسین ہے۔ مگر وہ جدوجہد وہ جذبہ جو ایرانی قوم نے دکھایا؟ اور پھر سب سے بڑھ کر ویسی قیادت؟ صبا کے لہجے میں بہار کا سخن کہنے والے عبداللہ ہارون بھی تہیہ کر لیں کہ ہم ویسی ہی قیادت پیدا کریں گے، جیسی ایرانی قوم نے پائی۔ قومیں جدوجہد کریں اور ظلم و جبر کے خلاف سینہ سپر ہونے کیلئے عزم صمیم پیدا کرلیں تو الٰہی عدل انہیں خمینی رہ جیسا مرد درویش عطا کرتا ہے۔ ایسا رہنما جو عالم کفر کی ہر سازش کا پامردی سے مقابلہ کرتا ہے اور بالآخر عالم اسلام جلد یا بدیر، باآواز بلند یا دبے لفظوں میں اس کی جرات کی نہ صرف داد دیتا ہے بلکہ اس کی تقلید کو نجات اور کامرانی کاذریعہ مانتا ہے۔ ہم ضرور کامران ہوں گے، مگر قیادت کے طفیل اور موجودہ قیادت اس کی اہل نہیں۔
خبر کا کوڈ : 90803
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش