0
Sunday 21 Aug 2011 01:41

طوائف اور تماش بین

طوائف اور تماش بین
تحریر:تصور حسین شہزاد
 پاکستانیوں کی قسمت بھی عجیب ہے، ہر دور میں جو بھی حکمران اقتدار میں آئے ہیں انہوں نے عوام کو سبزباغ دکھا کر ووٹ بٹورے اور پھر عوامی دولت لوٹ کر چلتے بنے۔ حکمرانوں نے اقتدار کو ’’میوزیکل چیئر‘‘ کا کھیل بنا لیا اور باری باری اقتدار کے مزے لوٹے۔ ہر آنے والا حاکم عوام کا درد لے کر آیا اور درد دے کر چلا گیا، سیاست کا ایک انداز پنپ چکا ہے کہ صرف ذاتی مفاد کو ترجیح دی جائے اور ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ کے نام پر عوام کو بے وقوف بنایا گیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد کوئی ایسا حکمران نہیں آیا جو عوام اور ملک کا درد رکھتا ہو۔
آمریت نے جہاں ’’جمہوریت‘‘ پر اور بہت سے ’’برے‘‘ اثرات مرتب کئے وہاں ایک بہت ہی ’’برا‘‘ یہ کیا گیا کہ میڈیا کو کچھ آزاد کر دیا گیا، میڈیا میں الیکٹرانک میڈیا نے سب سے زیادہ اس ’’سہولت‘‘ کا فائدہ اٹھایا۔ ٹاک شوز میں ہونے والی گفتگو نے عوام کو ایجوکیٹ کر دیا اور اب سیاست دان اس بات پر پریشان ہیں عوام باشعور ہو گئے ہیں۔ اس باشعوری کے اثرات ابھی نچلی سطح پر نہیں پہنچے۔ پڑھا لکھا طبقہ تو کافی بدل چکا ہے اور آئندہ انتخابات میں یہ باتیں منظرعام پر بھی آ جائیں گی اور جہاں تک عام لوگوں کی بات ہے تو ان پر تھوڑی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
کراچی کے حالات، ٹارگٹ کلنگ، سیاسی پارٹیوں کی آپس کی کشمکش، اسلحے کی بھرپور نمائش، طاقت کا بھرپور استعمال، ڈرگ مافیا، بھتہ مافیا، اغوا برائے تاوان، کراچی جسے روشنیوں کا شہر کہا جاتا ہے اور پاکستانی معیشت کا دل، وہ شہر جو پورے ملک سے آنے والے ہر شہری کو بانہیں پھیلا کر خوش آمدید کہتا ہے۔ یہاں کے حالات پچھلے ساڑھے تین سال سے بد سے بدتر ہو گئے ہیں کیا یہ عوام کا قصور ہے؟ کیا جمہوریت کا قصور ہے؟ جس کے لیے وکلاء برادری سول سوسائٹی اُٹھ کھڑی ہوئی یا پھر ان حکمرانوں کا قصور ہے کیونکہ جب کوئی ڈکٹیٹر آتا ہے تو ان کی زبان سے صرف جمہوریت کا ورد ہی سننے کو ملتا ہے اور پھر یہ ایسی عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح آگے لگا کر اپنے مقصد کی جمہوریت یعنی لوٹ کھسوٹ کی جمہوریت کو پا لیتے ہیں اور پھر کیا ہوتا ہے؟ سیاسی پارٹیاں اور پارٹیوں کے نامور اور مقبول کارکن اچھی وزارتوں بلکہ کھاتی پیتی وزارتوں کے پیچھے بھاگ دوڑ شروع کر دیتے ہیں۔
حکومت کے ساتھ جو پارٹیاں ہوتی ہیں ان میں سے کچھ کو تو صحیح وزارتیں نہ ملنے پر علیحدگی اور کچھ وزارتیں کھونے پر حکومت سے علیحدگی، ان تمام سیاسی پارٹیوں کو جو حکومت میں بیٹھی ہوتی ہے اپنے اپنے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے ملکی مفادات جن میں گڈگورننس، دہشت گردی، کراچی کے حالات، ڈرون حملے، عوام کی ضروریات زندگی، بجلی، گیس، پیٹرول، چینی، دالیں، آٹا ان میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔
اصل میں کراچی کے حالات پر کیونکہ کراچی میں دو بڑی پارٹیاں اقتدار میں ہیں اب ایم کیو ایم نے تین بار حکومت سے علیحدگی اختیار کی، دو بار گورنر کے بغیر اور ایک بار گورنر سمیت اور پھر یہی ایم کیو ایم حکومت کو بلیک میل کر کے اپنے مطالبات منوا کر واپس حکومت میں آچکی ہے، ایم کیو ایم کے کچھ رہنماؤں سے کراچی کے حوالے سے بات کی جاتی ہے اور یہ سوال کیا جاتا ہے کہ آپ کی اور پاکستان پیپلز پارٹی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ حالات بہتر کریں گو کہ چھوٹی پارٹیاں جیسے کہ اے این پی کا کردار ہے تو ایم کیو ایم کی طرف سے صرف ایک ہی جواب آتا ہے کہ وزارت داخلہ ہمارے پاس نہیں اور یہ ذمہ داری حکومت کے وزراء پر آتی ہے۔
 لیکن جب ایم کیو ایم اپنے مینڈیٹ کی بات کرتی ہے تو یہ کہنے میں بالکل جھجکتی نہیں کہ ہماری پارٹی کا پچاسی فیصد کراچی میں مینڈیٹ ہے پھر جب گورنر نے اپنا استعفیٰ دیا تو حالات مزید خراب ہوئے، ایم کیو ایم نے کہا کہ ہم کسی صورت حکومت میں نہیں رہ سکتے، لیکن اس کے بعد یہ الفاظ پیپلز پارٹی کی طرف سے گونجنے لگے کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں ایم کیو ایم کو واپس لایا جائے اور گورنر کو واپس لایا جائے اور گورنر کی واپسی ہوئی۔ ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی طرف سے بیانات آنا شروع ہو گئے کہ اب گورنر واپس آ رہے ہیں، اب حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔
حالات ویسے کے ویسے ہی رہے، پھر پی پی پی نے کمشنری نظام نافذ کر دیا، جس کے حق میں ایم کیو ایم نہیں تھی اور کافی عرصے سے بلدیاتی نظام کے حق میں تھی اور پی پی پی نے مزید حالات خراب دیکھتے ہوئے انہی الفاظ کا سہارا لے کر (ملک کے وسیع ترمفاد میں) یو ٹرن لے لیا اور جہاں ایم کیو ایم کا مینڈیٹ زیادہ تھا اور ان کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے بلدیاتی نظام کی واپسی کا اعلان کر دیا، جب پی پی پی سے یو ٹرن کے بارے پوچھا گیا تو جواباً کہا گیا کہ سیاست میں کوئی بھی فیصلہ حرف آخر نہیں ہوتا۔
اگر یہی سیاست ہے تو میاں نواز شریف کو صدر آصف علی زرداری پر غصہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ مسلم لیگ (ن) بارہا یہ کہنے کے باوجود کہ ایم کیو ایم کے ساتھ سمجھوتہ نہیں ہو سکتا، میاں صاحب کی سیاست میں بھی کوئی فیصلہ حرف آخر نہیں ہوتا، کیونکہ موقع دیکھتے ہی ایم کیو ایم سے مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی ملاقاتیں شروع ہوئیں، کراچی کے حالات و واقعات کی نشاندہی اگر کی جائے تو اس کی ذمہ داری کراچی کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے اور ان دونوں میں ہی طاقت کی سیاست کا رجحان پایا جاتا ہے، اگر سیاسی پارٹیاں ملکی مفادات کو سامنے رکھ کر کام کریں تو وزارتیں لیے بغیر ملکی مفاد کے لیے کام کیا جا سکتا ہے۔
اب عوام کو سوچنا پڑے گا کہ آنے والے الیکشن میں اپنا ووٹ کیسے استعمال کرنا ہے؟ پارٹیوں کے ڈر سے ووٹ دینا ہے یا اپنے ضمیر کی آواز پر ووٹ دینا ہے، یا پھر ان سیاست دانوں کو ووٹ دینا ہے جو صرف ووٹ لینے آتے ہیں لیکن ووٹرز کی خواہشات کے مطابق سیاست نہیں کرتے۔
 یہاں میں جے یو آئی کے رہنما مولانا فضل الرحمان کی بات کرتا چلوں، پچھلے دنوں جب ان سے سوال کیا گیا کہ ڈرون حملوں پر حکومت سے علیحدگی نہیں اختیار کی جاتی، لیکن وزارتوں کے معاملات پر حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی جاتی ہے، تو محترم نے جواباً کہا کہ خالصتاً صحافیانہ ذہنیت کا سوال ہے اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور ہم نے آپ سے یعنی میڈیا سے رہنمائی لے کر سیاست نہیں کرنی۔ تو مولانا صاحب اگر ڈرون حملے، ریمنڈ ڈیوس اور ایبٹ آباد جیسے واقعات کا تعلق ملکی سیاست سے نہیں تو کس سے ہے؟
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
طوائف گھری ہو جیسے تماش بینوں میں
خبر کا کوڈ : 93321
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش