0
Friday 9 Sep 2011 11:10

آل سعود اور آل صیہون

آل سعود اور آل صیہون
تحریر:محمد علی نقوی
 سعودی عرب میں انقلابی جوانوں نے ایک بیان جاری کر کے سعودی عوام سے احتجاجی مظاہرے کرنے کی اپیل کی ہے۔ العالم کی رپورٹ کے مطابق اس بیان میں آیا ہے کہ آل سعود کے ہاتھوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاک وپاکیزہ خاندان کے افراد کی قبروں کی مسماری کی برسی پر آل سعود کے خلاف مظاہرے کئے جائيں۔
ادھر ایک سعودی مبصر فواد ابراہیم نے کہا ہے کہ سعودی عرب کی حکومت ترقیاتی منصوبوں کے بہانے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں تاریخی اسلامی عمارتوں کو مسمار کرنے کے درپے ہے۔
انہوں نے کہا کہ آل سعود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے روضۂ اطہر کو بھی مسجد النبی سےخارج کرنے اور گنبد خضراء کو منہدم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور یہ مذموم منصوبہ آل سعود کے درباری ملا بن عثیمین نے بنایا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ آل سعود نے اٹھاسی برس قبل مکہ اور مدینہ پر قبضہ کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت پاک علیھم السلام کی قبروں کو منہدم کیا تھا۔ 
ادھر انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی جیلوں میں تیس ہزار سیاسی قیدی ہیں۔ العالم ٹی وی چینل کی رپورٹ کے مطابق سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس ان سعودی عریبیہ نامی تنظیم نے ایک بیان میں کہا ہے کہ سعودی عرب کی جیلوں میں تیس ہزار ایسے سیاسی قیدی موجود ہیں جن کو نہ تو ان کا جرم بتایا گيا ہے اور نہ ہی ان کی آزادی کی کوئي تاریخ کی جانب کوئي اشارہ کیا گيا ہے۔ اور ان میں بعض افراد ایسے بھی ہیں جو بغیر مقدمے کے سولہ برسوں سے جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے زندگي گزار رہے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق تمام جیلیں سعودی عرب کے سیکورٹی اور تفتیشی ادارے کے کنٹرول میں ہیں۔ اس لئے اس بات کا امکان پایا جاتا ہے کہ سیاسی قیدیوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہو۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے محقق دینا معمود نے بھی کہا ہے کہ سعودی عرب کے خفیہ ادارے اپنا کام چونکہ بہت زیادہ خفیہ رکھتے ہیں اس لۓ انسانی حقوق کی تنظیموں کا قیدیوں کی صحیح تعداد اور ان کے حالات کے آگاہ ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔
مشرق وسطٰی کے امور کے ماہر زاید العیسٰی نے کہا ہےکہ سعودی عرب میں عوام کا ایک بڑا طبقہ غربت کا شکار ہے۔ زاید العیسٰی نے پریس ٹی وی سے انٹرویو میں کہا کہ سعودی شہزادی بسما بنت سعود کے ان بیانات کی روشنی میں کہ آل سعود کی حکومت میں وسیع پیمانے پر بدعنوانیاں پائي جاتی ہیں اور اس ملک میں ایک بڑا طبقہ غربت کا شکار ہے، اب کسی طرح کا شک باقی نہیں رہتا کہ سعودی عرب میں اصلاحات کی شدید ضرورت ہے۔ زاید العیسی نے کہا کہ سعودی عرب کی صرف پانچ فیصد آبادی تیل کی آمدنی سے بہرہ مند ہوتی ہے اور پچانوے فیصد لوگ غربت کا شکار ہیں اور یہ ایک غیر انسانی صورتحال ہے۔ زاید العیسی نے کہا کہ سعودی عرب میں اکثریت غربت کا شکار ہے اور سعودی عرب دنیا کا واحد ملک ہے جہاں خواتین کو ڈرائيونگ کی اجازت نہیں ہے اور حکومت کی نظر میں خواتین دوسرے درجے کی شہری شمار ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کی حکومت عوام کے حقوق کو پامال کرتی ہے اور انسانی حقوق کو کوئي اہمیت نہیں دیتی۔ 
زاید العیسٰی نے کہا کہ سعودی عرب دینا کے ان کچھ ملکوں میں ہے جہاں پریس کی آزادی، مذہبی آزادی یہان تک کہ انتخابات میں شرکت کرنے کی آزادی کا بھی فقدان ہے۔ زاید العیسی نے کہا کہ آل سعود کی پالیسیوں سے جو اس نے عوام کے مقابل اختیار کر رکھی ہیں یہ ملک بھی مستقبل قریب میں علاقے کے دیگر آمر ملکوں کے انجام سے دوچار ہو گا۔
ادھر بحرین میں چودہ فروری انقلاب کے اتحاد نامی دھڑے نے ایران کے خلاف سعودی عرب کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب سامراج اور صیہونیزم کے فائدے میں عرب ملکوں میں مداخلت کر رہا ہے۔ العالم کی رپورٹ کے مطابق بحرین کے اس انقلابی دھڑے نے ایک بیان جاری کر کے بحرین میں سعودی عرب کی مداخلت نیز مشرق وسطی میں عرب قوموں کے انقلابوں کو ناکام بنانے کی آل سعود کی کوششوں کی طرف اشارہ کیا ہے اور کہا ہے کہ شام میں آل سعود کی مداخلت اور شام میں بدامنی پھیلانے والوں کی حمایت جو کہ امریکہ اور صیہونی حکومت کے اشاروں پر جاری ہے، قابل مذمت ہے۔ بحرین کے اس انقلابی دھڑے نے سعودی وزیر داخلہ کے اس الزام کو سختی سے مسترد کیا کہ ایران، سعودی عرب میں مداخلت کر رہا ہے بلکہ تاکید کی ہے کہ سعودی عرب نے بحرین میں اپنے فوجی اور ایجنٹ بھیج کر جنگي جرائم اور نسل کشی کا ارتکاب کیا ہے اور سعودی عرب دیگر عرب ملکوں میں بھی مداخلت کر رہا ہے۔ 
چودہ فروری کے انقلاب کے اتحادی نامی بحرینی انقلابی گروہ کے بیان میں آیا ہے کہ سعودی عرب کی ظالم حکومت اسلامی بیداری کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے اور عرب قوموں کے انقلابوں کو سامراج اور صیہونیزم کے حق میں ہائي جیک کرنا چاہتی ہے، لیکن مصر، تیونس، یمن اور بحرین کی قومیں سعودی عرب کو تاريخی سبق سکھائيں گي۔ عراق کی حکمران پارٹی حزب الدعوۃ نے کہا ہے کہ سعودی عرب، عراق کے عوام کا قتل عام کر رہا ہے۔
العالم کی رپورٹ کے مطابق حزب الدعوۃ کے سینئر رکن علی الادیب نے بغداد میں ایک تقریب میں کہا کہ عراق کے بیشتر علاقوں میں سعودی عرب کے وہابی دہشتگرد سرگرم عمل ہیں اور سعودی عرب نے بار بار تکفیر فتوے جاری کر کے عراقیوں کے قتل عام میں حصہ لیا ہے۔ الادیب نے کہا کہ اس سے قبل بھی سعودی عرب نے اپنی شخصیات کو عراق میں دہشت گردی میں ملوث گروہوں کی مالی مدد و حمایت کرنے کی اجازت دی تھی۔ الادیب نے کہا کہ عراق کی بعض یونیورسٹیوں میں وہابی نظریات کی ترویج کی جاتی ہے۔
ادھر آل سعود نے دنیا کو تعجب میں ڈالتے ہوئے اپنے ملک میں مقیم شامی شہریوں کو اجازت دی ہے وہ دمشق کی حکومت کے خلاف مظاہرے کر سکتے ہیں۔ شام کے خلاف سعودی عرب کا یہ عجیب و غریب ردعمل ایسے عالم میں سامنے آ رہا ہے کہ تیونس اور مصر میں عوامی انقلابوں کی کامیابی کے بعد سعودی عرب میں عوام نے دسیوں مرتبہ مظاہرے کئے ہیں لیکن سعودی عرب نے عوامی مظاہروں کے خوف سے ہر طرح کے جلسے جلوس اور اجتماعات پر کڑی پابندیاں لگا دی ہیں۔
سعودی عرب کے شہزادے ولید بن طلال نے مصر کے معزول صدر حسنی مبارک اور اس کے خاندان والوں کے خلاف مقدمہ نہ چلاۓ جانے کے لۓ مصر کے حکام کو چار ارب ڈالر کی رشوت کی پیشکش کی تھی۔ ارنا نے وطن ویب سائٹ کے حوالے سے رپورٹ دی تھی کہ مصر کے معزول صدر حسنی مبارک اور اس کے خاندان والوں سے قریبی تعلقات رکھنے والے سعودی عرب کے ارب پتی شہزادے ولید بن طلال نے مصر کے بعض حکام سے ملاقات میں ان کو تجویز پیش کی ہے کہ وہ چار ارب ڈالر دینے کو تیار ہیں اور اس کے بدلے میں مصر کے حکام کو حسنی مبارک اور اس کے خاندان والوں کے خلاف مقدمہ چلاۓ جانے کی روک تھام کرنا ہو گی۔
عراق، بحرین، ایران، شام اور دوسرے اسلامی ممالک میں مداخلت سے متعلق یہ چند خبریں ظاہر کرتی ہیں کہ سعودی وہابی حکومت درحقیقت پس پردہ صہیونی ریاست کو مضبوط اور قوی بنانے کے امریکی منصوبے کو کامیاب بنانے کی کوشش کر رہی ہے، پاکستان اور افغانستان میں اسلامی شدّت پسندی کے پھیلاؤ کے حوالے سے پاکستان بدنام ہے اور مسئلے کا سارا بوجھ اور الزام پاکستان پر ڈال دیا جاتا ہے۔ 
یہ بات حیران کن ہے کہ مغربی ممالک ایک ایسے ملک پر دہشت گردوں کی مالی معاونت کا الزام لگاتے ہیں جو کہ درجنوں ممالک اور بین الاقوامی اقتصادی اداروں کا قرضدار ہے، جسکے کروڑوں شہری غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارتے ہیں۔ مگر سعودی عرب کی طرف شک کی نگاہ بھی نہیں ڈالتے۔ سعودی پادشاہت نے ہمیشہ سے شدت پسند اسلامی نظریے کو پروان چڑھانے میں مدد کی ہے، اور تیل کی دولت سے مالا مل یہ ریاست نہ صرف دہشت گردوں کی نظریاتی مدد بلکہ مالی امداد کیلئے تو ضرور مشتبہ ہونی چاہیے۔
سعودی عرب کی ملا شاہی مذہبی جنونیت کی مسلسل پرورش کر رہی ہے۔ جب پاکستان، افغانستان، انڈیا، کینیا، انڈونیشیا میں یا کہیں اور بمب کئی جانیں لیتے ہیں تو ان دہشت گردوں کی مالی امداد کے ذرایع سعودی عرب ہی سے ہوتے ہیں۔ سعودی پادشاہت شدت پسندی کے نظریے کو پھیلانے، انتہا پسندی کی طرف اُکساہٹ اور ترغیب اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے معاملے میں غیر متزلزل طور پر مرکزی کردار ادا کرتی رہی ہے۔
اگر اس بات کی وجہ تلاش کی جاۓ کہ آخر مغربی ممالک کے تمام تر شکوک و شبہات پاکستان پر ہی کیوں ہیں اور وہ سعودی عرب کی طرف بند آنکھوں سے کیوں دیکھتے ہیں تو بہت سے جواب ملیں گے۔ ایک اہم وجہ مغربی ممالک کا تیل کی دولت سے مالا مال سعودی عرب میں ذاتی مفاد بھی ہے۔ سعودی اشراف دنیا کو یہ دھوکہ دیتے ہیں کہ وہ خود بھی اسلامی انتہا پسندی اور دہشت گردی کا شکار ہیں مگر یہ ایک کھوکھلا دعوی ہے، جسکا مقصد دہشت گردی میں خود ملوث ہونے کو چھپانا ہے۔ اگر اس بات کو ذھن میں رکھا جائے کہ
یہ ایک پادشاہت ہے اور سعودی وہابی حکومت درحقیقت پس پردہ یہودی صہیونی ریاست کو مضبوط اور قوی بنانے کے امریکی منصوبے کو کامیاب بنانے کی کوشش کر رہی ہے تو معاملہ واضع ہو جاتا ہے اور اسکی واضع نشانی عراق، بحرین، ایران اور دوسرے اسلامی ممالک میں مداخلت اور پاکستان اور افغانستان میں اسلامی شدّت پسندی کا پھیلاؤ اور مسلمانوں کے مسلمہ عقائد کو اختلافی بنانا ہے اور مکہ اور مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت علیھم السلام کی قبروں کو منہدم کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کے ان اقدامات کے خلاف سعودی عرب میں انقلابی جوانوں نے ایک بیان جاری کر کے سعودی عوام سے احتجاجی مظاہرے کرنے کی اپیل کی ہے۔
خبر کا کوڈ : 97423
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش