1
Monday 3 Oct 2022 14:33

مجلس علمائے شیعہ کے رہنماء علامہ سید عبدالحسین الحسینی کا خصوصی انٹرویو

مجلس علمائے شیعہ کے رہنماء علامہ سید عبدالحسین الحسینی کا خصوصی انٹرویو
علامہ سید عبدالحسین الحسینی کا بنیادی تعلق ضلع ہنگو کے علاقہ ابراہیم زئی سے ہے، انہوں نے ابتدائی تعلیم کوہاٹ سے حاصل کی۔ جسکے بعد جامعۃ المنتظر لاہور سے مذہبی تعلیم حاصل کی۔ پنجاب یونیورسٹی سے عربی میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ دو سال تک جامع مسجد محمد علی سوسائٹی کراچی میں خطیب کی حیثیت سے ذمہ داریاں بھی ادا کیں۔ اسکے بعد وہ سعودی عرب چلے گئے اور وہاں سپریم کورٹ کے ترجمان کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ پاکستان واپسی پر وحدت کونسل کے سینیئر نائب صدر کے طور پر عہدہ سنبھالا اور پھر مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے قومی و ملی ذمہ داریاں سنبھالیں، اسوقت علامہ سید عبدالحسین الحسینی مجلس علمائے شیعہ پاکستان خیبر پختونخوا کے نائب صدر ہیں، ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے علامہ سید عبدالحسین الحسینی کیساتھ ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: خیبر پختونخوا کی درسی کتب میں حضرت ابوطالب علیہ السلام کی شان میں گستاخی کا معاملہ سامنے آیا، گوکہ اس حوالے سے حکومت نے ایکشن لے لیا ہے، موجودہ صورتحال سے آگاہ کیجئے گا۔
علامہ سید عبدالحسین الحسینی: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ بہت شکریہ، آپ نے درست فرمایا۔ یہ معاملہ سامنے آنے کے بعد مجلس وحدت مسلمین اور مجلس علمائے شیعہ کے قائدین اور علمائے کرام فوری طور پر میدان عمل میں آئے اور ہم نے صوبائی سطح پر اس معاملہ کو بھرپور انداز میں اٹھایا، بات دراصل یہ ہے کہ یکساں نصاب تعلیم پر ہمیں شروع دن سے اختلاف رہا ہے، ہمارا موقف ہے کہ اس نصاب تعلیم میں کئی چیزیں غلط ہیں، جنہیں درست کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے ایم ڈبلیو ایم کی نصاب کمیٹی کے سربراہ علامہ مقصود علی ڈومکی نے کئی حکومتی و سرکاری شخصیات اور وزراء سے ملاقاتیں کیں اور اپنا مدلل موقف پیش کیا۔ اس کے بعد جب خیبر پختونخوا ٹیکسٹ بک بورڈ کی اس بھونڈی غلطی یا نااہلی کا انکشاف ہوا تو ہم نے پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت اور صوبائی حکومت کے سامنے یہ معاملہ رکھا، اس حوالے سے علمائے کرام نے فرنٹ پر آکر اپنا رول ادا کیا، یہ بات خوش آئند ہے کہ صوبائی حکومت اور سیکرٹری تعلیم نے نہ صرف اپنی غلطی تسلیم کی بلکہ اس کتاب پر پابندی عائد کرتے ہوئے واپسی، نئی اشاعت اور ذمہ داران کیخلاف کارروائی کی یقین دہانی کرائی، جوکہ میں سمھجتا ہوں کہ خوش آئند ہے اور علماء کی جانب سے فوری طور پر اس معاملہ پر اپنا کردار ادا کرنے کی وجہ سے صوبائی حکومت نے فوری ایکشن لیا، جس پر ہم ان کے مشکور ہیں۔

اسلام ٹائمز: اس قسم کے معاملات تسلسل کیساتھ سامنے آتے رہتے ہیں، اس کی وجہ اور اس مسئلہ کا مستقل حل کیا ہے۔؟
علامہ سید عبدالحسین الحسینی: بالکل ایسا ہی ہے، بعض اوقات اس میں کم علمی اور نااہلی کے معاملات سامنے آئے ہیں اور بعض اوقات تعصب اور سازش کا عنصر بھی رہا ہے، تاہم اس حالیہ معاملہ کے حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے، جب تحقیقات ہوں گی تو معاملہ سامنے آئے گا۔ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے اس معاملہ پر فوری ایکشن لیکر اچھا اقدام کیا، تاہم میں سمجھتا ہوں کہ مستقل میں اس قسم کے معاملات کو روکنے کیلئے حکومت کو ٹھوس قدم اٹھانا ہوگا، تمام مکاتب فکر کے جید علمائے کرام کی مشاورت اور منظوری کے بعد نصاب تعلیم تشکیل پانا چاہیئے، امریکہ اور مغرب کی کوشش ہے کہ مسلمانوں کے نصاب تعلیم کو یرغمال بنایا جائے، اپنی اس مزموم کوشش کو عملی جامہ پہنانے کیلئے وہ اپنے گماشوں کو استعمال کرتے ہیں۔ ہم غیرت مند قوم ہیں، پاکستان تمام مسالک کا یکساں ہے، ہم یہاں یہ کوشش کامیاب نہیں ہونے دیں گے کہ کسی بھی مسلک کے مقدسات کی توہین کی جائے۔

اسلام ٹائمز: ٹرانس جینڈر ایکٹ کے حوالے سے ایم ڈبلیو ایم اور مجلس علمائے شیعہ کیا موقف رکھتے ہیں۔؟
علامہ سید عبدالحسین الحسینی:
اس حوالے سے ہمارا موقف بالکل واضح ہے، ایسی کوئی بھی قانون سازی جو شریعت اور آئین پاکستان کی بنیاد کیخلاف ہو اسے ہرگز قبول نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں تک حقوق کی بات ہے وہ ہر پاکستانی شہری کا بنیادی حق ہے، لیکن ان حقوق کی آڑ میں غیر شرعی اور غیر اسلامی کاموں کی اجازت ہرگز نہیں دی جاسکتی۔ ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ کی شق 3 انسانی وقار کے بھی منافی ہے، اس میں ضروری ترامیم ہونی چاہیئے، مذکورہ شق ہر کسی کو یہ قانونی حق فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنی صنفی شناخت کا تعین اپنی تصوراتی فکر اور مرضی کے مطابق کرے۔ اس حوالے سے ہمارے قائد علامہ راجہ ناصر عباس جعفری واضح کر چکے ہیں کہ یہ عمل معاشرتی بگاڑ اور بے راہ روی کا باعث بن سکتا ہے، صنفی شناخت میں اگر کوئی مسئلہ ہے تو اسے نفسیاتی و طبی طریقہ کار سے طے کیا جانا چاہیئے تاکہ اس قانون کو ناپاک مقاصد کے لئے استعمال نہ کیا جا سکے۔ خواجہ سرا معاشرے کا قابل احترام حصہ ہیں اور انہیں مرد و خواتین کی طرح بنیادی حقوق حاصل ہونے کی تائید انسانی وقار اور احترام آدمیت کا تقاضا ہے۔ 

اسلام ٹائمز: ایران میں ایک مرتبہ پھر انسانی حقوق کی آڑ میں احتجاجی مظاہرے ہوئے اور انقلاب اسلامی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی، اس صورتحال کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟  
علامہ سید عبدالحسین الحسینی: امریکہ اور اسرائیل نے اپنی سرتوڑ کوششیں کرلیں کہ کسی طرح ایران اور انقلاب اسلامی کو کمزور کریں، ان کی ہر کوشش ہر مرتبہ ناکام ہوئی۔ اس مرتبہ انہوں نے پہلے کی طرح ایک مرتبہ پھر عوامی سطح پر اپنے گماشوں کے ذریعے انسانی حقوق کے خوبصورت نعرے کو استعمال کرتے ہوئے عوام کو بغاوت پر اکسانے کی کوشش کی، لیکن اس مرتبہ بھی ان کی تمام تر سازشوں کو رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے لب سے نکلے ایک جملے نے ناکام بنادیا۔ امریکہ و اسرائیل یہ جان چکے ہیں کہ وہ انقلاب اسلامی اور ایران کو اس طرح شکست نہیں دے سکتے، اس لئے اب ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ایران کو اندرونی طور پر نقصان پہنچائیں، انشاء اللہ اپنی اس کوشش میں جس طرح پہلے وہ ناکام رہے ہیں، آئندہ بھی ناکام رہیں گے۔ 

اسلام ٹائمز: اسی قسم کی صورتحال اربعین سے قبل عراق میں بھی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، کیا اس کے پیچھے بھی استعماری طاقتیں تھیں۔؟
علامہ سید عبدالحسین الحسینی: جی بالکل۔ مقتدیٰ الصدر نے عراق کے حالات خراب کرنے کی کوشش کی، اس افراتفری کا مقصد اربعین کی عظمت کو متاثر کرنا تھا، لیکن آپ نے دیکھا کہ مرد قلندر آیت اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی کی بصیرت نے کس طرح اس سازش کو ناکام بنایا اور اس سال اربعین پر تاریخی ریکارڈ شرکت ہوئی۔ مقتدیٰ الصدر نے عراق سے غداری کی، اس نے عراق اور اسلام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ اسی وجہ سے وہ رسوا ہوا اور ابھی مزید بھی ہوگا۔ اب ملت تشیع دنیا بھر میں بیدار ہوچکی ہے اور رہبر معظم سید علی خامنہ ای اور سید علی سیستانی کی قیادت میں بیدار اور متحد ہے۔ 
خبر کا کوڈ : 1017166
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش