0
Tuesday 12 Mar 2013 01:43

اتحاد و وحدت کے سائے تلے یقینی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے، علامہ مشتاق حسین ہمدانی

اتحاد و وحدت کے سائے تلے یقینی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے، علامہ مشتاق حسین ہمدانی
علامہ سید مشتاق حسین ہمدانی مدرسہ زینبیہ راولپنڈی کے بانی ہونے کے ساتھ ساتھ شیعہ علماء کونسل کے مرکزی سیکرٹری مالیات بھی ہیں۔ شہید علامہ عارف حسین الحسینی کے زمانے سے ملی تنطیموں سے وابستہ ہیں، تحریک جعفریہ، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور اسلامی تحریک کی مختلف تنظیمی ذمہ داریوں پر کام کرچکے ہیں۔ آپ ڈویژنل سیکرٹری، صدر آزاد کشمیر اور سپریم کونسل کے ادارے تک کام کرچکے ہیں۔ ''اسلام ٹائمز'' نے آمدہ الیکشن کے تناظر میں اتحاد بین المومنین کی افادیت پر علامہ صاحب کا انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کے لئے پیش ہے۔

اسلام ٹائمز: قارئین کی دلچسپی کے لئے اپنا تعارف کرائیں۔؟
علامہ سید مشتاق حسین ہمدانی: سید مشتاق حسین ہمدانی، مدرسہ زینبیہ کا بانی ہوں۔ راولپنڈی میں بچیوں کی تعلیم کے لئے اس سے پہلے کوئی ادارہ نہیں تھا، ہم نے اس کمی کو پورا کرنے کے لئے اس ادارے کو قائم کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ میرا تنظیمی تعارف بھی ہے۔ میں شیعہ علماء کونسل کا مرکزی سیکرٹری مالیات ہوں۔ شہید کے زمانے سے وابستہ ہوں، تحریک جعفریہ ہو، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ یا پھر بعد میں اسلامی تحریک، مختلف تنظیمی ذمہ داریوں پر کام کیا ہے۔ ڈویژنل سیکرٹری، صدر آزاد کشمیر اور سپریم کونسل کے ادارے تک الحمد اللہ کام کرنے کا موقع ملا۔

اسلام ٹائمز: حالیہ دنوں میں شیعہ نسل کشی میں شدت آئی، لیکن اس کے باوجود عملی طور پر شیعہ تنظیموں میں وحدت کا فقدان نظر آیا، وحدت المسلمین کی بات تو ہم کرتے ہیں، لیکن وحدت بین المومنین کا فقدان نظر آتا ہے، اس کی کیا وجوہات ہیں۔؟

علامہ سید مشتاق حسین ہمدانی: سب سے پہلے تو یہ دیکھا جانا چاہیے کہ وحدت کے خلاف کام کس نے کیا۔ ہمارا تو الحمد اللہ وہی سیٹ اپ ہے جو سید محمد دہلوی مرحوم، مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہ، شہید عارف حسین الحسینی اور ان کے بعد موجودہ قیادت، تو یہ سلسلہ ایک تسلسل کے ساتھ چلا آرہا ہے اور ہم اسی تنظیمی سیٹ اپ اور آئین جو شہید دے کر گئے تھے، اسی کے مطابق یہ جماعت پہلے بھی چل رہی تھی، اب بھی چل رہی ہے۔ اب میں کسی کا نام نہیں لیتا، جو لوگ اس سے الگ ہوئے ہیں۔ چاہیے تو یہ کہ وہ لوگ اس بات پر غور کریں کہ ہمار الگ ہونا درست تھا یا نہیں تھا یا آج کا دور اس بات کا متقاضی ہے یا نہیں ہے۔ کیونکہ جہاں تک شکوے شکایات کی بات ہے، یہ ہر جگہ ہوتے ہیں، لیکن اس کا احسن طریقہ یہ ہے کہ جماعت کے دائرے میں رہتے ہوئے آپ کام کریں، بات کریں۔ جیسا کہ ہم بھی کرتے ہیں، ہماری کابینہ کی میٹنگ ہوتی ہے تو مختلف لوگوں کی مختلف رائے ہوتی ہے، لیکن جب ایک فیصلہ آجاتا ہے تو پھر تنظیمی آدمی باہر جاکر اس کی تائید کرتا ہے اور اس کو لیکر چلتا ہے۔

1997ء میں بذات خود میں سپریم کونسل کے اس وفد میں شامل تھا جو مقام معظم رہبری سے ملنے گیا۔ اس وفد میں سے دو آدمی اب شہید ہوچکے ہیں، جبکہ دو زندہ ہیں۔ کل چار افراد تھے، جنہوں نے موجودہ قائد کے حوالے سے سوال کیا تھا۔ انہوں نے رہبر سے پوچھا تھا کہ کیا آغا ساجد آپ کے نمائندہ ہیں۔ سوال کرنے والوں میں سے آغا حسن ترابی شہید اور انور علی اخونزادہ شہید اور دو افراد جو زندہ ہیں وہ علامہ عابد حسینی صاحب اور ہمارے کشمیر سے غلام رضا نقوی صاحب جو ممبر رہے ہیں کشمیر کونسل کے، یہ چار افراد تھے، انہوں نے یہ سوال کیا تھا۔ میں اس بات کا شاہد ہوں کہ چاروں کے جواب میں رہبر نے یہ فرمایا کہ وہ میرے نمائندہ ہیں۔ جس طرح پہلے تھے، اسی طرح اب بھی ہیں۔ اب یہاں پر آکر بات ختم ہوجاتی۔ اگر ہم نظریہ ولایت فقیہ کے پیروکار ہیں اور یقیناً ہیں تو اگر اس ولی فقیہ کی بات کو نہیں ماننا تو اس نظریہ ولایت فقیہ کی بات کا پرچار کرنے کی کیا ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: ایک رائے سامنے آئی ہے کہ فوج یا ریاستی اداروں سے تحفظ کا مطالبہ کرنے کی بجائے اپنے تحفظ کیلئے خود اقدامات کئے جائیں۔؟

علامہ سید مشتاق حسین ہمدانی: اگر ایک منظم فوج اور ریاستی ادارے ان دہشت گردوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے تو عام لوگ کیسے کریں گے۔ دفاع کے دو ہی طریقے ہیں، ایک تو یہ کہ آپ دہشت گردوں پر حملہ آور ہوجائیں، گلی کوچے میں اعلان کر دیں، تو اس کا نتیجہ خانہ جنگی ہے اور خانہ جنگی کے متحمل ہم کسی طور بھی نہیں ہوسکتے، اور دوسری صورت جو مثبت اور احسن طریقہ ہوسکتا ہے کہ ساری قوم متحد ہو جائے۔ شیعہ نسل کشی میں شدت تب آئی ہے جب دشمن نے ہماری وحدت کے خلاف کام کیا ہے۔ وحدت سے مراد یعنی شیعہ قوم کے اندر وحدت۔ اگر اس وحدت کو دوبارہ پر کرنے کی کوشش کی جائے اور ایک پلیٹ فارم پر آنے کی کوشش کی جائے اور اگر نظریہ ولایت فقیہ کے پیروکار ہیں تو اس نظرئیے کو لیکر آگے چلیں اور سب لوگ مل کا اجتماعیت کا دفاع کریں تو یقیناً ہم اپنے دشمن کا ہر جگہ پر مقابلہ کرسکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: علامہ ساجد نقوی نے انتخابات میں بھرپور طریقے سے حصہ لینے کا علان کیا، کیا اس حوالے سے شیعہ تنظیموں کے مشترکہ سیاسی پلیٹ فارم پر کام کیا گیا۔؟

علامہ سید مشتاق حسین ہمدانی: سیاسی روابط جاری ہیں، کابینہ اور سیاسی سیل میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ہم انشاءاللہ اسلامی تحریک کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں جائیں گے۔ پوری قوت کے ساتھ جائیں گے، اتحاد بنانے کی بات کریں گے۔ پہلے بھی ہم اتحادوں میں موجود رہے ہیں۔ پی ڈی اے میں موجود رہے ہیں۔ مسلم لیگ نواز کے ساتھ ہم نے کام کیا ہے۔ پھر ایم ایم اے کے اندر بھی رہے ہیں۔ وہاں بھی ہمارے لوگ اسمبلیوں میں آئے ہیں۔ گلگت بلتستان میں بھی دو دفعہ الیکشن لڑا اور کامیاب ہوئے ہیں۔ ہم ناامید نہیں ہیں، ہم انشاءاللہ اسلامی تحریک کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں جائیں گے۔ البتہ باقی تمام تنظیموں سے ہماری خواہش ہوگی، کوشش ہوگی کہ ان سے مل بیٹھ کر بات کی جائے۔ تاکہ ایک لائحہ عمل ہو ایک آواز ہو، اس لئے کہ جب آواز میں اتحاد و وحدت کی گونج لوگ سنیں گے۔ تو یقیناً اس سے خوفزدہ ہوں گے۔ یقیناً اتحاد و وحدت کے سائے تلے ہم کامیاب ہوسکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ملی یکجہتی کونسل کی دوبارہ فعالیت اور اس کے سربراہ کی تقرری کا معاملہ کہاں پہنچا۔؟

علامہ سید مشتاق حسین ہمدانی: ملی یکجہتی کونسل فعال تو ہے، ایسا نہیں ہے کہ عدم فعال ہو، لیکن قاضی صاحب کے جانے کے بعد، ملی یکجہتی کونسل میں شامل جماعتوں کی دلچسپی کتنی باقی ہے، مورد سوال ہے، چونکہ الیکشن کی آمد آمد ہے اور اس میں مختلف الخیال جماعیتں ہیں۔ جماعت اسلامی ہے، مولانا فضل الرحمٰن کا دھڑا ہے۔ جماعت اسلامی کی وجہ سے ایم ایم اے غیر فعال ہوئی۔ شاید الیکشن کی وجہ سے فی الحال ملی یکجتی کونسل کو اتنا فعال نہ کیا جاسکے، جتنا قاضی حسین کے زمانے میں تھا۔ آغا صاحب اس کے قائمقام سربراہ ہیں۔ یہ اپنی کوششیں جاری رکھیں اور تمام لوگوں کو قریب تر لائیں۔ وہ وقت دور نہیں ہے کہ ملی یکجہتی کونسل مذہبی حوالے سے بہتریں اتحاد بن سکتا ہے اور ایک دوسرے کی عزت کرکے، ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کرتے ہوئے، ہم پاکستان کے لئے اور تمام دینی مسالک کے لئے بھی بہتر خدمت سرانجام دے سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آمدہ الیکشن کے حوالے سے قوم کے نام کیا پیغام دینا چاہیں گے۔؟

علامہ سید مشتاق حسین ہمدانی: انتخابات کے حوالے سے قوم کے لئے یہی پیغام ہے کہ اجتماعی سوچ کا مظاہرہ کریں۔ اپنی قیادت کے ہاتھوں کو مضبوط کریں۔ قائد ملت کی آواز پر لبیک کہیں اور قائد ملت جس سیاسی اتحاد میں جائیں یا تنہا الیکشن لڑیں، قوم اگر ان کی پشت پناہی کرے تو یقیناً مثبت اور بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔
خبر کا کوڈ : 246088
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش