0
Thursday 21 Nov 2013 22:12
بندوق اٹھا کر بدلہ لینے کا رواج ملک اور قوم کیلئے مفید نہیں

سانحہ راولپنڈی میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے، مذہبی جماعتوں نے اچھا رول ادا کیا، حاجی غلام علی

سانحہ راولپنڈی میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے، مذہبی جماعتوں نے اچھا رول ادا کیا، حاجی غلام علی
 حاجی غلام علی کا شمار صوبہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے جوان سیاستدانوں میں ہوتا ہے، آپ اس وقت جمعیت علمائے اسلام کی مرکزی شوریٰ کے رکن ہیں، اور سینٹ آف پاکستان کے رکن بھی ہیں۔ حاجی غلام علی ضلع ناظم پشاور کی حیثیت سے ذمہ داریاں ادا کرچکے ہیں۔ اپنی نظامت کے دور میں کئی ترقیاتی کام کروانے کی وجہ سے بھی جانے جاتے ہیں۔ آپ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے قریبی رشتہ دار بھی ہیں۔ حاجی غلام علی کیساتھ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ملک کی سیاسی صورتحال سمیت سانحہ راولپنڈی اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے تناظر میں ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: خبریں یہ مل رہی ہیں کہ جے یو آئی (ف) مرکزی حکومت کا حصہ بننے جا رہی ہے، اس حوالے سے آپ کیا کہیں گے۔؟
حاجی غلام علی:
دیکھیں، میاں نواز شریف صاحب کو جب مینڈیٹ ملا تھا تو اسی وقت ہماری ان سے بات چیت ہوئی تھی، اور کچھ چیزیں طے شدہ ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم نے اپنے ایجنڈے کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ پوائنٹس پیش کئے تھے۔ انہوں نے تو پہلے دن سے ہمیں کہا تھا کہ آپ وزارتیں لے لیں، لیکن ہم نے کہا کہ پہلے ذرا ایک دوسرے کیساتھ ہم آہنگی ہوجائے اور ہمارے منشور کے نظریاتی نکات اجاگر ہوجائیں۔ اس کے بعد ہم حکومت کو جوائین کرلیں گے۔ ہم نے اس دوران دیکھا کہ یہ کس حد تک ہمارے مطالبات پر عملدر آمد کرتے ہیں۔ ہمارے لئے وزاتیں اتنی اہم نہیں تھیں، جتنے کہ وہ نکات تھے۔

اسلام ٹائمز: تو کیا آپ کی جماعت نون لیگ حکومت کی اب تک کی کارکردگی سے مطمئن ہے۔؟
حاجی غلام علی:
ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ مطمئن ہیں، پاکستان کے جو موجودہ حالات ہیں اور جس طرح کی صورتحال تبدیل ہوتی جا رہی ہے، اس میں کافی مشکلات ہیں اور عوام کی جس طرح توقعات ہیں ان پر دو فیصد بھی عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ دوسری طرف آپ کو ملک کے حالات، ملک کی اکانومی اور جاری بدامنی کی صورتحال کو بھی دیکھنا ہوگا۔ موجودہ حکومت اپنی کوشش تو کر رہی ہے لیکن عوام اب تک ان سے مطمئن نہیں ہیں، کیونکہ مہنگائی دن بہ دن بڑھ رہی ہے۔ عوام نے موجودہ حکمرانوں کو، وہ چاہئے کسی بھی جگہ پر ہوں، کو مینڈیٹ اس بنیاد پر دیا تھا کہ مہنگائی ختم ہوگی، بدامنی ختم ہوگی، لوڈشیڈنگ ختم ہوگی۔ 

یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ ہم لوڈشیڈنگ کو بھی کم عرصہ میں ختم کریں گے، حالانکہ یہ ممکن نہیں تھا، صرف الیکشن کے وعدے تھے۔ اب تو حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ ہمیں تو لوڈشیڈنگ کو ختم کرنے کیلئے ایک مدت اور چاہئے، یعنی مزید دس سال درکار ہیں۔ اب تو عوام یہ فیصلہ کریں گے کہ وہ دس سال انتظار کرتے ہیں یا نہیں۔ ہم اسمبلی میں اپنے حجم کے مطابق حکومت پر دباو ڈالتے ہیں، اور خاص طور پر مہنگائی، بدامنی اور بے روزگاری کیساتھ ساتھ اسلامی قوانین کا نظام اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عملدآمد کروانا وغیرہ جیسے معاملات پر ہمارا فوکس زیادہ ہے۔

اسلام ٹائمز: خیبر پختونخوا حکومت کے حوالے سے کیا کہیں گے، اب قومی وطن پارٹی حکمران اتحاد سے باہر ہوگئی ہے۔ کیا آئندہ کسی سیاسی جوڑ توڑ کے ذریعے کوئی دوسری حکومت آسکتی ہے۔؟
حاجی غلام علی:
حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے صوبہ میں اس وقت حکومت نہیں ہے، کیونکہ جس شخص کو حکومت کی ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھایا گیا یعنی پرویز خٹک اس کے ہاتھ میں اسٹیرنگ نہیں، بلکہ اسٹیرنگ درحقیت بنی گالا میں ہے۔ اس حکومت کی کسی قسم کی کارکردگی سامنے نہیں آ رہی۔ ہم سیاسی لوگ ہیں، ہم نے یہ نہیں کہا کہ دو یا تین ماہ حکومتی کارکردگی کیلئے کافی وقت ہوتا ہے، بلکہ پوری الیکشن مہم کے دوران عمران خان کا نعرے تھا کہ ہم 90 روز کے اندر بلدیاتی الیکشن کروائیں گے، ہم کسی ایم پی اے کو فنڈ نہیں دیں گے، ہم کرپشن کا خاتمہ کریں گے، ہم میرٹ کو یقینی بنائیں گے۔ اب آپ دیکھیں کہ انہوں نے جو چار، پانچ مین باتیں کیں تھی، ان پر بھی عملدرآمد نہیں کراسکے۔ شائد انہیں پہلے حکومت کا تجربہ نہیں تھا۔ اب تمام صوبائی حکومتیں بلدیاتی الیکشن کروا رہی ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم فروری اور مارچ میں بھی تیار نہیں ہیں۔ تین ماہ تو چھوڑیں، چھ ماہ گزر گئے، اب مزید چھ ماہ میں بھی یہ الیکشن کروانے کیلئے تیار نظر نہیں آتے۔ دوسری بات یہ کہ انہوں نے کہا تھا کہ ایم پی اے کو فنڈ نہیں دیں گے، انہوں نے ایم پی اے کو فنڈ جاری کر دیا۔

تیسرا یہ کہ انہوں نے کہا تھا کہ ہم گڈ گورننس لائیں گے اور کرپشن کا خاتمہ کریں گے۔ آپ خود دیکھیں کہ ابھی مہینہ نہیں گزرا اور اخبارات کے ذریعے لسٹ شائع ہوگئی ہے۔ یہ تو خود کہہ رہے ہیں، ان پر ابھی کسی نے الزام نہیں لگایا۔ بدامنی بھی صوبہ میں انتہاء کو پہنچ چکی ہے۔ عمران خان چونکہ سیاست سے عملی طور پر جڑے ہوئے نہیں تھے اور وہ دھرنا دینے وزیرستان جا رہے تھے، اب جب ان کی اپنی حکومت آگئی ہے تو پشاور میں بھی دھرنا نہیں دے سکتے۔ بعض ایشوز پر انفرادی پرواز اچھی چیز نہیں ہے۔ نیٹو سپلائی کا معاملہ ہے، ڈرون حملے ہیں یا ملک کے جو دیگر مشترکہ مسائل ہیں، ان پر تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لیکر چلنا چاہئے۔
 
اب مثلاً نیٹو سپلائی کی مثال لے لیں، ہم پہلے بھی کہتے تھے اور اب بھی کہتے ہیں کہ نیٹو سپلائی کو روکنا صوبائی حکومت کا کام نہیں ہے۔ یہ وفاق کا مسئلہ ہے، جس طرح کہ مولانا فضل الرحمان صاحب نے کہا ہے کہ ایک اور اے پی سی بلائیں اور اس میں یہ فیصلے کئے جائیں۔ پھر پوری قوم ان فیصلوں پر کھڑی ہوگی۔ تحریک انصاف نے خود ہی اس کا فیصلہ کرلیا، پھر کہا کہ صوبائی حکومت دھرنا دے گی اور نیٹو سپلائی بند کرے گی۔ جب انہیں معلوم ہوگیا کہ حکومتیں دھرنا نہیں دیتیں تو کہتے ہیں کہ پارٹی دھرنا دے گی۔ تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں اگر حالات بگڑے ہوئے ہیں تو اس میں ناتجربہ کاری کا عنصر بھی شامل ہے۔

اسلام ٹائمز: سانحہ راولپنڈی کے بعد ملکی صورتحال نے نیا رخ لے لیا ہے، جے یو آئی اس حوالے سے کیا موقف رکھتی ہے کہ یہ واقعہ کس کی سازش ہے۔؟
حاجی غلام علی:
دیکھیں، سانحہ راولپنڈی ایک بہت بڑا سانحہ ہے، اس میں حکومت کی غفلت بھی ہے، پولیس کی غفلت بھی ہے اور بین الاقوامی ہاتھ بھی اس میں ملوث ہوسکتا ہے، کیونکہ ملک پہلے ہی بدامنی کا شکار ہے اور ملک میں خانہ جنگی پیدا کرنے کی بہت بڑی کوشش کی گئی ہے۔ بےگناہ لوگوں کو مسجد کے اندر شہید کرنا اور مسجد کو آگ لگانا ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔ اس حوالے سے جے یو آئی سمیت مذہبی جماعتوں نے ایک اچھا رول ادا کیا۔ اس معاملہ کو بھڑکایا نہیں، بلکہ کہا کہ یہ ملک کیخلاف دشمن کی چال ہوسکتی ہے۔ اور ابھی بھی ہمارا یہ موقف ہے کہ جو لوگ بھی اس سانحہ میں ملوث ہیں، انہیں گرفتار کرکے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے، تاکہ لوگوں میں یہ احساس پیدا ہو کہ قانون موجود ہے، اور ہمارا رکھوالا قانون ہے۔ خود بندوق اٹھا کر بدلہ لینے کا رواج ملک اور قوم دونوں کیلئے مفید نہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ سانحہ راولپنڈی ملک کے حقیقی ایشوز سے عوام کی توجہ ہٹانے کی سازش ہوسکتی ہے۔؟
حاجی غلام علی:
جی بالکل، آپ نے دیکھا کہ آج بھی ہمارے چاروں صوبوں میں بدامنی کے واقعات رونماء ہوئے۔ بنک لوٹے گئے ہیں، پولیس کو مارا گیا ہے، فوج پر حملہ ہوا ہے۔ کوئی ملک اس طرح حالت جنگ میں بھی نہیں ہوتا جس طرح کہ آج پاکستان ہے۔ لہذا ایسے وقت میں قوم کو متحد ہونا پڑے گا، اپنے دشمن کیخلاف ایک واضح پالیسی بنانا ہوگی۔ ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی لائے، اور امریکہ کے اتحاد سے نکل کر قومی امنگوں کے مطابق پالیسی تشکیل دی جائے، تاکہ کم از کم قوم کی یکجہتی کا اظہار ہوسکے۔
خبر کا کوڈ : 323294
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش