0
Thursday 20 Mar 2014 17:04

ضلع چاغی میں شدت پسندوں کی عدم موجودگی شرح خواندگی میں اضافے کا باعث بنی، امان اللہ نوتیزئی

ضلع چاغی میں شدت پسندوں کی عدم موجودگی شرح خواندگی میں اضافے کا باعث بنی، امان اللہ نوتیزئی

امان اللہ نوتیزئی صوبہ بلوچستان میں ضلع چاغی کے محکمہ تعلیم کے ڈی ای او (ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر) ہیں۔ آپ کا بنیادی تعلق بھی اسی ضلع سے ہے۔ امان اللہ نوتیزئی گذشتہ 5 سالوں سے اس عہدے پر فائز ہیں۔ ضلع چاغی کے تعلیمی انتظامات مکمل طور پر آپ کے ذمے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی گزشتہ صوبائی حکومت کی جانب سے آپ کو ضلع کے تعلیمی نظام میں بہتری لانے کی وجہ سے آل بلوچستان اعزازی شیلڈز سے بھی نوازا گیا۔ "اسلام ٹائمز" نے ان سے ضلع چاغی کی موجودہ تعلیمی صورتحال اور انتظامی کارکردگی کے حوالے سے گفتگو کی ہے، جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: چاغی ڈسٹرکٹ کی موجودہ تعلیمی صورتحال کو آپ کس طرح دیکھتے ہے۔؟
امان اللہ: چاغی ڈسٹرکٹ کی موجودہ تعلیمی صورتحال بہتری کی جانب بڑھ رہی ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں چاغی پاکستان کا سب بڑا ضلع ہے۔ اسی لئے ہماری کوشش رہتی ہے کہ چاغی کے کونے کونے تک تعلیم کو صحیح انداز میں پہنچایا جا سکے۔ میرا تعلق بھی ضلع چاغی سے ہے۔ لہذا چاغی کے تمام بچوں کو میں‌ اپنی اولاد سمجھتا ہوں اور انہیں تعلیم حاصل کرنے میں جو مشکلات پیش آتی ہیں، ان سے بھی بخوبی واقف ہوں۔ یہ کہنا بھی غلط ہوگا کہ چاغی میں تعلیم کے حوالے سے کوئی مسئلہ نہیں۔ لیکن میری کوشش ہے کہ جہاں تک ممکن ہو، میں اپنے ضلعے کے تعلیمی مسائل کو جلد سے جلد حل کر سکوں۔ یہاں پر چند علاقوں میں استاتذہ کی اسامیاں ابھی تک خالی ہیں، جسکی وجہ سے ہمیں چند مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اسکے علاوہ چاغی میں شرح خواندگی چالیس فیصد ہے اور ہمیں اُمید ہے کہ جلد اس میں اضافہ ہوگا۔

اسلام ٹائمز: کیا محکمہ تعلیم ضلع چاغی کے طالب علموں کی تعلیمی ضروریات پوری کر پا رہا ہے۔؟
امان اللہ: اس سوال سے قبل آپ یاد رکھیں کہ یہاں پر 229 سرکاری اسکولز، 6 پرائیوٹ اور 6 اسکولوں کو این سی ایچ ڈی کی جانب سے بنایا گیا لیکن یہاں کے اکثر گاؤں میں اسکولز کا قیام عمل میں نہیں لایا گیا، جسکی وجہ سے طالبعلموں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہیں۔ ہم نے وفاق سے کئی بار یہ مطالبہ کیا ہے کہ یہاں پر زیادہ سے زیادہ اسکولز قائم کئے جائیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر انہی چند بنیادی مسائل پر قابو پا لیا جائے تو کافی حد تک مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ضلع چاغی کی انتظامی صورتحال کس حد تک اطمینان بخش ہے۔؟
امان اللہ: ہر کسی کو معلوم ہے کہ چاغی پینتالیس ہزار آٹھ سو کلو میٹر علاقے پر محیط ہے۔ دوسری جانب مرکزی ضلع کے پاس علاقے کے اسکولز کی نگرانی کیلئے کوئی سیٹ اپ موجود نہیں۔ خاص طور پر گنجان آباد علاقوں میں ڈی ڈی او اور ڈی او آفیسرز کو اب تک گاڑیاں بھی مہیا نہیں کی گئی۔ اسکے باجود ہمارے افسران دور دراز علاقوں میں اسکولز کی نگرانی کیلئے اپنی مدد آپ جایا کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: یہاں پر اسکولز میں اساتذہ اور طالبعلم اکثر غیرحاضر رہتے ہیں۔ اسکی وجہ کیا ہے۔؟
امان اللہ: اسکی وجہ خالی آسامیاں‌ ہیں لیکن اکثر اسکولوں میں تعلیمی نظام بہتری سے چل رہا ہے۔ بہت جلد ہماری کوشش ہے کہ خالی آسامیوں پر قابل اساتذہ کی تعیناتی کو یقینی بنایا جائے اور یہ ہماری ہی ذمہ داری ہے کہ کسی بھی اسکول میں اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنائیں۔

اسلام ٹائمز: ضلع چاغی کے تعلیمی سسٹم میں بہتری کیلئے کونسے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔؟
امان اللہ: ضلع چاغی کی تعلیمی انتظامیہ کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے میری پوری کوشش ہے کہ سسٹم میں بہتری لائی جائے۔ خاص طور پر طالب علموں کو اسکولوں میں لانے کیلئے مختلف طریقے اپنائے جا رہے ہیں۔ علاوہ ازیں قابل اساتذہ کو میرٹ کے مطابق تعینات کرنے کے سلسلے میں اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ علاوہ ازیں ہم نے علاقہ ایم پی اے اور ایم این اے سے بات کی ہے اور انہوں نے اس ضمن ہماری مکمل معاونت کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

اسلام ٹائمز: ضلع چاغی میں خواتین کی تعلیم کے حوالے سے آپ کیا کہیں گے۔؟
امان اللہ: مجھے یہ کہنے میں بہت خوشی محسوس ہوتی ہے کہ یہاں پر خاص طور پر والدین اپنی بچیوں کو تعلیم حاصل کرنے کیلئے حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اپنے گھر سے انہیں کسی قسم کے دباؤ کا سامنا کرنا نہیں پڑتا۔ یہاں پر بچیوں کیلئے تین ہائی اسکولز، نو مڈل اسکولز اور 52 پرائمری اسکولز ہیں۔ ہم انتظامیہ پر مزید زور ڈال رہے ہیں کہ وہ اس حوالے سے مزید اقدامات کریں لیکن دور دراز علاقوں میں‌ اسکولز نہ ہونے کی وجہ سے بچیوں کو تعلیم حاصل کرنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اسلام ٹائمز: اس وقت کتنے طالب علم کتنے اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔؟
امان اللہ: لڑکوں کے پرائمری اسکولز کی تعداد 141، مڈل اسکولز 15 اور ہائی اسکولز کی تعداد 9 ہیں۔ جبکہ لڑکیوں کیلئے 52 پرائمری اسکولز، 9 مڈل اسکولز اور تین ہائی اسکولز ہیں۔ یعنی کل 229 اسکولز ضلع چاغی میں اس وقت موجود ہیں، جن میں 23،781 طالبعلم تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا صوبے کے میگا پروجیکٹس سے طالب علموں کو اسکالر شپ فراہم کی جا رہی ہیں۔؟
امان اللہ: مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہیں کہ سندک اور ریکوڈک پروجیکٹس سے کسی قسم کی اسکالر شپ فراہم نہیں کی جا رہی۔ اگر انتظامیہ کو اس حوالے سے طالب علموں کیلئے اسکالر شپ دینی بھی پڑی تو وہ مجھ سے رابطہ کرینگے۔

اسلام ٹائمز: علاقے میں کوالٹی ایجوکیشن کس طرح لائی جا سکتی ہے۔؟
امان اللہ: کوالٹی ایجوکیشن کو یہاں پر لانا کوئی مسئلہ نہیں۔ اگر صوبے کی حکومت اور میگا پروجیکٹس ہمیں مدد کریں تو ہم بہتر تعلیمی نظام کا اجراء کرسکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز:‌ سابق ڈی سی او نے یہاں پر لینگوئج سینٹر قائم کئے تھے۔ موجودہ ای ڈی او چاغی اس ضمن میں کیوں اقدامات نہیں اُٹھا رہے۔؟
امان اللہ: میں آج تک انکے اس اقدام کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ لیکن جہاں تک میرا یا میری ٹیم کا تعلق ہے تو ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں کی لینگوئج سینٹرز کا قیام کرسکیں۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ حکومت نے آپ کو تعلیم کے حوالے سے بہتر انتظامی کارکردگی دکھانے پر اعزازی شیلڈز بھی دیں، اس حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
امان اللہ: پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت نے گورنر مگسی کی سربراہی میں مجھے اعزازی شیلڈز کے انعامات دیئے لیکن اسکی اصل وجہ یہ ہے کہ ضلع چاغی میں شدت پسندوں کو کبھی کوئی جگہ نہیں دی گئی۔ وہاں کے عوام پرامن اور مہذب ہیں۔ علاوہ ازیں انتظامیہ نے بھی کبھی شدت پسندوں کو اس علاقے میں گھسنے کی اجازت نہیں دی۔ جسکی وجہ سے آج پورے ضلع میں شرح خواندگی میں کافی حد تک بہتری آئی ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ چاغی اور بلوچستان کے دیگر اضلاع کی تعلیمی صورتحال کا کسطرح موازنہ کرینگے۔؟
امان اللہ: ضلع چاغی کے قابل طالبعلموں نے ہر میدان میں بہتر کارکردگی دکھائی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے دالبندین کے ایک طالب علم نے بی اے کے امتحان میں پنجاب کالج سے پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔ اسکا مطلب ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام قدرے بہتر ہے اور میں اس سے مطمئن ہوں۔

خبر کا کوڈ : 363946
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش