0
Sunday 8 Jun 2014 20:34
لاپتہ افراد کے معاملے میں اب تک مشکلات کا سامنا ہے

بلوچستان سمیت ملک بھر میں امن چاہتے ہیں تو خطے میں جیو اور جینے دو کی پالیسی اپنانا ہوگی، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ

تیس سالہ جہادی پالیسی کی غلطیوں کو دوبارہ نہیں دہرا سکتے
بلوچستان سمیت ملک بھر میں امن چاہتے ہیں تو خطے میں جیو اور جینے دو کی پالیسی اپنانا ہوگی، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ صوبہ بلوچستان کے وزیراعلٰی و نیشنل پارٹی کے چئیرمین ہیں۔ آپ 15 جنوری 1958ء بلوچستان کے علاقے تربت میں پیدا ہوئے۔ آپ نے بچپن میں ابتدائی تعلیم روایتی انداز سے مسجد میں قرآن پاک پڑھنے سے کی۔ 1965ء میں آپ نے انٹر سائنس کیا۔ اچھے نمبر آنے پر آپ کو بولان میڈیکل کالج کوئٹہ میں داخلہ مل گیا- 1982ء میں آپ نے ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کیا۔ 1988ء میں آپ نے قوم پرست رہنماء ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کے ساتھ مل کر نئی سیاسی جماعت، بلوچ نیشنل موومنٹ کی بنیاد رکھی۔ اسی اتحاد سے آپ نے الیکشن لڑا اور صوبائی امیدوار بننے میں کامیاب رہے۔ اپنی سیاسی زندگی کا آغاز بلوچ اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن سے کیا۔ انتخابات کے بعد وہ اکبر بگٹی کی کابینہ کے وزیر صحت منتخب ہوئے۔ 2004ء میں میر بخش بزنجو کی جماعت نے ان سے سیاسی اتحاد کر لیا۔ وہ 1993ء میں وزیر تعلیم بھی رہ چکے ہیں۔ 7 جون 2013ء کو انھیں وزیراعلٰی بلوچستان بنایا گیا۔ بلوچ قبائل میں ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ آپ نیشنل پارٹی کے سینیٹر بھی رہ چکے ہیں۔ گذشتہ دنوں جنرل محمد موسٰی کالج علمدار روڈ میں منعقدہ تقریب میں ان کی ایک سالہ حکومتی کارکردگی، صوبے میں جاری انسرجنسی، لاپتہ افراد کے معاملے، فرقہ وارانہ دہشتگردی سمیت دیگر اہم موضوعات پر ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے نہایت کم وقت میں ایک مختصر انٹرویو کیا، جو قارئین کے لئے پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: بلوچستان میں اسوقت آپکی حکومت ہے، ایف سی کی ہے، بلوچ مسلح گروہوں کی یا کسی اور ادارے کی ہے۔؟
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ: یقیناً میں سمجھتا ہوں‌ کہ حکومتوں کا پیمانہ عوام ہوتی ہے اور یہ عوام ہی کا مینڈیٹ جو اس وقت مخلوط اتحادی حکومت، جن میں نیشنل پارٹی، پشتونخوامیپ، مسلم لیگ (ن) ہے، یہ ان سب کی حکومت ہے۔ باقی کچھ صوبائی ادارے ہیں، جبکہ کچھ وفاقی ادارے ہیں، اگر میں یہ کہوں کہ وفاقی ادارے میرے اختیار میں ہیں، تو یہ کہنا بھی غلط ہوگا۔

اسلام ٹائمز: کیا ایف سی بھی آپکے ماتحت ہے یا اسکی کمانڈ آرمی جنرلوں کے ہاتھ میں ہے۔؟
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ: ایف سی بنیادی طور پر وفاقی حکومت کے ماتحت ہے لیکن صوبے میں انہیں کسی قسم کی مدد یا رہنمائی کی جب ضرورت ہوتی ہے تو وہ بلوچستان حکومت سے بھی مدد طلب کرتی ہے، اسی طرح جب ہمیں مدد کی ضرورت ہو تو ہم ایف سی کو بلاتے ہیں۔ لہذا ایف سی وفاق اور صوبائی حکومت دونوں کے ماتحت ہے۔ ایک وزیراعلٰی ہونے کی حیثیت سے میری اس ذمہ داری میں مزید اضافہ ہوتا ہے کہ میں ایف سی کو ایسی کسی بھی حرکت سے روکوں، جو وفاقی و صوبائی حکومتوں کے تعلقات کو بگاڑے۔ ابھی ہم نے شروعات کی ہیں اور ہماری کوشش ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومت دونوں ایک ہی پیج پر رہیں۔

اسلام ٹائمز: صوبائی و وفاقی حکومت تو پچھلی حکومت میں بھی ایک پیج پر تھی، اور اب بھی ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ ایف سی کی لیڈر شپ آرمی کے ہاتھوں میں ہے۔ تو کیا آپکی حکومت اور آرمی ایک پیج پر ہیں یا نہیں۔؟
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ: دیکھئے میں ملٹری لیڈر شپ کی بات نہیں کرتا۔ میں اپنی وفاقی حکومت کی بات کرتا ہوں۔ میری اتحادی مسلم لیگ (ن) اور وفاقی حکومت ہے۔ لٰہذا ملٹری لیڈر شپ وفاق کے ماتحت ہے۔ اب یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح انہیں چلاتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ماضی میں بلوچ وزیراعظم بھی بنے، بلوچ وزیراعلٰی بھی بنے لیکن اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد وہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس اختیار ہی نہیں تھا۔ تو اس لئے لوگ کہتے ہیں کہ جس کے پاس اختیار ہو، کم از کم اسے جوابدہ ہونا چاہیئے۔ لٰہذا میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اس وقت آپکے پاس صرف اقتدار ہے یا اختیار بھی ہے۔؟
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ: آپ نے بہت اچھا سوال کیا۔ دیکھئے جہاں تک بلوچستان کی بات ہے، تو صوبے کے اختیارات میرے پاس ہیں۔ باقی اگر میں یہ کہوں کہ تمام سکیورٹی ادارے میرے اختیار میں ہیں، تو یہ بالکل نہیں۔ مثال کے طور پر پولیس، لیویز اور بی سی سمیت وہ ادارے جو صوبے کے ماتحت ہیں وہ سب میرے اختیار میں ہیں۔ لٰہذا صوبائی حکومت کے تمام آئینی اختیارات میرے پاس ہیں۔

اسلام ٹائمز: صوبے کے کتنے فیصد حصے پر آپکا کنٹرول ہے، کتنے پر ملٹری کا ہے اور کتنے پہ عسکریت پسندوں کا ہے۔؟
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ: صوبے کے وزیراعلٰی ہونے کی حیثیت سے پورے بلوچستان پر میرا کنٹرول ہونا چاہیئے، لیکن یہاں پر انسرجنسی بھی ہے، آزادی کی تحریک بھی چل رہی ہے۔ یعنی پریشانیوں کا سامنا بھی ہمیں ہی ہے۔ جیسے اب ڈیرہ بگٹی میں ہمیں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ مکران جو میرا علاقہ ہے، وہاں مشکلات ہیں لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ آواران میرے ہاتھ سے بالکل نکل چکا ہے، یا وہاں پر میرا ڈی سی یا پولیس نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بلوچستان کو سیاستدانوں اور سرداروں نے برباد کیا، جبکہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اسے فوجی جنرلوں اور انکے اداروں نے برباد کیا۔ آپ کس نتیجے پر پہنچے ہیں۔؟
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ: بلوچستان کی مشکلات اور اسکی پسماندگی کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ یہاں پر شروع سے ایک مائنڈ سیٹ تھا، جو یہ کہتے تھے کہ ہم اس ملک کا حصہ نہیں رہیں گے۔ دوسرا مائنڈ سیٹ وقت کے ساتھ ساتھ بنتا گیا، یعنی انکی یہی سوچ تھی کہ چند لوگوں کو خوش کرو اور پوری عوام پر حکومت کرتے رہو۔ یہ مائنڈ سیٹ فوجی جنرلوں، سیاستدانوں اور میڈیا سمیت ہر طبقے میں موجود تھا۔ لہذٰا اب وقت کے ساتھ ساتھ لوگ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہمیں عوام پر توجہ دینی ہوگی۔ اب میرا وزیراعلٰی بننا خود ایک مثبت تبدیلی ہے۔ نہ میرے پاس اکثریت تھی اور نہ ہی میں‌ نے وزیراعلٰی بننے کی خواہش ظاہر کی۔ محمود خان اچکزئی صاحب نے میاں صاحب کے سامنے میرا نام تجویز کیا اور وہ اس پر راضی ہوگئے۔ لہذا آہستہ آہستہ چیزیں صحیح ہو رہی ہیں۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان میں لاپتہ افراد کے معاملے پر کس حد تک پیشرفت ہو پائی ہے۔؟
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ: میری دکھتی رگ یہی ہے۔ میں خود بار بار وفاق سے یہی کہہ رہا ہوں کہ یہ ہیومن رائٹس کا مسئلہ بن چکا ہے۔ ہمیں اس کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ اسکے علاوہ سکیورٹی اداروں کیساتھ بھی ہم لگے ہوئے ہیں۔ انشاءاللہ ہمیں اُمید ہے کہ اگر ہم مسخ شدہ لاشوں میں کمی لانے میں کامیاب ہوئے ہیں، یا صوبے میں جو مسلح پرائیویٹ دفاع تھا، اسے ختم کیا ہے۔ تو مجھے امید ہے کہ مسنگ پرسنز کے معاملے پر بھی ہمیں کامیابی نصیب ہوگی۔

اسلام ٹائمز: ماما قدیر کوئٹہ سے کراچی اور پھر اسلام آباد تک پیدل مارچ اور فریاد کرتے رہے۔ انکے آنسو آپ تک کیوں نہیں پہنچ پائے۔؟
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ: ماما قدیر میرا پرانا دوست ہے۔ ہم دونوں اس سیاسی جدوجہد میں اکٹھے شامل ہوئے تھے۔ اسکے علاوہ فرزانہ کو میں اپنی بیٹی سمجھتا ہوں، انکے والد مجید میری جماعت میں خضدار کے صدر تھے۔ لیکن حالات کچھ اس طرح ہوئے کہ آج ان کا اعتماد مجھ سے بھی ختم ہوچکا ہے۔ وزیراعلٰی بننے کے بعد میں انکے پاس گیا لیکن بدقسمتی سے انہیں منانے میں کامیاب نہیں ہوا، جبکہ میری کوشش ہے کہ کسی طرح بلوچ عوام کے اعتماد کو دوبارہ بحال کرسکوں۔

اسلام ٹائمز: ایک سال میں کیا آپ کسی بھی ناراض بلوچ رہنماء‌ کو منانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔؟
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ: کاش کہ میں‌ کسی ایک کو بھی منانے میں کامیاب ہو پاتا۔ یہاں پر جو مختلف مسلح گروہ بی ایل اے، بی ایل ایف اور بی آر اے ہیں، میری کوشش ہے کہ انہیں کسی طرح سمجھا سکوں کہ پچھلے پندرہ سالوں سے جو لڑائی چل رہی ہے، اس سے بلوچوں کو فائدہ ہوا ہے یا نقصان۔ بحیثیت ایک سیاسی کارکن میں یہی سمجھتا ہوں کہ اس سے بلوچ عوام کو نقصان ہوا ہے۔

اسلام ٹائمز: اگر آپ ان ناراض بلوچوں‌ کو نہیں منا پائیں گے، تو کون انہیں مرکزی دھارے میں‌ شامل کر پائے گا۔؟
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ: دیکھئے آپ مجھ سے بھی اتنی زیادہ توقعات وابستہ نہیں رکھیں، لیکن مجھ میں ایک پولیٹیکل ول موجود ہے۔ میرا ماننا یہی ہے کہ کسی بھی طرح اعتماد سازی کر سکوں۔ اسکے لئے سب سے پہلے ہم نے کہا کہ مسخ شدہ لاشوں کو بند کیا جائے، پھر لاپتہ افراد کا مسئلہ اور نمبر تین مہاجرین کی بحالی۔ لہذٰا مذاکرات سے قبل میں نے یہ تین شرطیں رکھی تھی۔ تاکہ اعتماد سازی ہوسکے۔ اب مسخ شدہ لاشوں اور مہاجرین کی بحالی میں کسی حد تک ہم کامیاب ہوگئے ہیں۔ مسئلہ صرف لاپتہ افراد کا رہ گیا ہے۔ بلوچ عوام کی ایک مخصوص نفسیات ہے اور ہمیں اسے سمجھنا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: بلوچ مسلح گروہوں سے مذاکرات کیلئے بلوچستان میں کب اے پی سی بلائی جائے گی۔؟
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ: وفاقی سطح پر منعقد ہونے والی اے پی سی میں مجھے بالکل اختیارات دیئے گئے، تاکہ میں بلوچوں کو قومی دھارے میں واپس لا سکوں، لیکن اس اے پی سی سے قبل ہمیں ہوم ورک کرنا ہوگا۔ ایک انتہائی پیچیدہ مسئلہ ہے، جسے حل کرنے کیلئے ہمیں وقت درکار ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا آپکو لگتا ہے کہ حیربیار مری، برہمداغ بگٹی یا اللہ نظر بلوچ سمیت دیگر کی ناراضگی کو آپ ختم کر پائینگے۔؟
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ: اس معاملے پر میں نہ زیادہ پرامید ہوں، اور نہ اس قدر نااُمید۔ میری محنت اور نیت یہی ہے کہ کسی طرح انہیں منا سکوں۔ ہمارا ارادہ یہی ہے کہ سب کو کسی بھی طرح ڈائیلاگ کیلئے آمادہ کرسکیں۔

اسلام ٹائمز: اسٹیٹ کو چینلج کرنے والا اس وقت سب سے بڑا گروہ کونسا ہے۔؟
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ: ہر گروہ اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے۔ اگر ڈیرہ بگٹی، نصیر آباد میں جائیں گے تو وہاں بی آر اے ہے۔ بولان، سبی، کوہلو جائیں گے تو وہاں بی ایل اے ہے۔ پھر کچھ علاقے مستونگ، آواران، پنجگور اور تربت میں بی ایل ایف زیادہ سرگرم ہے۔

اسلام ٹائمز: طالبان کیساتھ جنگ بندی اور مذاکرات کے کونسے اثرات بلوچستان پرمرتب ہونگے۔؟
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ: طالبان سے جنگ بندی کے مثبت اثرات کوئٹہ سمیت پورے بلوچستان پر پڑینگے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ طالبان کیساتھ مذاکرات بلوچستان میں ناراض بلوچوں کیساتھ مذاکرات کی راہ بھی ہموار کرینگے۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان میں کون کونسے ممالک مداخلت کر رہے ہیں۔؟
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ: بلوچستان میں کئی غیر ملکی ایجنسیاں سرگرم ہیں۔ اس پورے خطے میں اس قدر مداخلت ہے کہ آپ کسی بھی ملک کی مداخلت کو خارج از امکان قرار نہیں دے سکتے، لیکن بلوچستان کے مسئلے میں بنیادی طور پر افغان اور بھارتی ایجنسیاں ملوث ہیں۔ لہذٰا ہمیں تمام ممالک کیساتھ اب دوستی کا ہاتھ بڑھانا ہوگا۔ افغانستان، بھارت، ایران، سعودی عرب سمیت اس خطے میں آباد تمام ممالک کیساتھ اپنی خارجہ پالیسیوں پر نظرثانی کرنا ہوگی، اور ایک حد تک میاں صاحب اس میں پیشرفت بھی کر پائے ہیں۔ بلوچستان سمیت پورے پاکستان میں جاری دہشتگردی کے مسئلے کو آپ ایک سمت میں نہیں دیکھ سکتے۔ اگر ہم اس پورے خطے میں امن لانے میں کامیاب ہوئے، تو براہ راست اس کا اثر بلوچستان پر بھی پڑے گا۔ ہمیں جیو اور جینے دو کی پالیسی پر عمل کرنا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: ایک رائے یہ بھی ہے کہ چونکہ بلوچستان میں پڑوسی ممالک کے مخالف بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس لئے اسکے ردعمل میں بلوچستان ان ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے ردعمل کا شکار بنتا ہے۔؟
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ: اس میں تو کوئی شک نہیں۔ ہماری جو 30 سالہ جہادی پالیسی تھی، یا ہم نے جو کچھ بویا ہے، وہ ہم خود کاٹ رہے ہیں۔ ہم نے سویت یونین کے خلاف جو محاذ بنایا، پھر طالبان فیکٹر آگیا۔ اب ہمارے تمام بارڈرز کھلے ہوئے ہیں۔ اگر میں یہ کہوں کہ یہاں پر ایک بھی غیر ملکی نہیں، تو یہ سب سے بڑا جھوٹ ہوگا۔ لہذٰا ہمیں بارڈر پر نگرانی مزید سخت کرنی ہوگی۔

اسلام ٹائمز: آر پار افغانوں کو ایک ثابت کرنے کا کیس آپکے اتحادی محمود خان اچکزئی صاحب لڑ رہے ہیں۔ ان سے کبھی اس حوالے سے بات ہوئی ہے، کہ یہ اس طرح نہیں چلے گا اور بارڈر کو کنٹرول کرنا ہوگا۔؟
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ: دیکھئے بہت سی چیزوں میں انکے اپنے پارٹی مفادات ہیں، اور ہمارے اپنے پارٹی مفادات ہیں لیکن ہمارے مشترکہ مفادات میں ٹکراؤ پیدا نہیں ہوتا۔ کبھی کبھار اگر کرتے ہیں تو ہم اسے سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ لہذٰا میرے خیال میں اگر آپ یہ سوال محمود خان اچکزئی صاحب سے خود کرلیں تو بہتر ہوگا۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان کے میگا پروجیکٹ گوادر پر اب تک کیا پیشرفت ہو پائی ہے۔؟
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ: گوادر پچھلے کئی سالوں سے اہمیت کا حامل علاقہ رہا ہے۔ لیکن اب اسکی اہمیت میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مجموعی طور پر گوادر میں جو پیشرفت ہوگی وہ صوبے اور ملک کی عوام کو فائدہ پہنچائے گی۔ بحیثیت ایک بلوچ قوم پرست میں وہاں پر بلوچوں کو اکثریت میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں وہاں بھی کسی بھی کالونی والے رویئے کو برداشت نہیں کرونگا۔

اسلام ٹائمز: پچھلے پندرہ سالوں سے شیعہ ہزارہ قوم پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اور آپکی حکومت میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ کیا آپ نے اس حوالے سے کوئی خاطر خواہ اقدامات کئے ہیں۔؟
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ: بلوچستان میں جیسا کہ آپ کو بھی معلوم ہے، کہ یہاں پر شیعہ، سنی، ہزارہ اور دیگر اقوام میں کبھی شدت پسندی اور لڑائی کی بات نہیں ہوئی۔ البتہ یہاں پر تمام اقوام اکٹھے زندگی بسر کرتی تھیں۔ یہاں پر شیعہ سنی سب ایک دوسرے کے بھائی تھے اور ہیں لیکن ریاستی سطح پر انتہا پسندی کو جو فروغ دیا گیا، اس سے بلوچستان سمیت پورے پاکستان کو شدید نقصانات اُٹھانا پڑا۔ یہ ایک مخصوص مائنڈ سیٹ ہے، جن میں لشکر جھنگوی، طالبان سمیت مختلف لشکر شامل ہیں۔ جو کوئٹہ سمیت پورے ملک میں دہشتگردی کر رہے ہیں، لیکن اب میں یہ سمجھتا ہوں کہ میاں صاحب اس حوالے سے سنجیدہ ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ ہماری پوری صوبائی حکومت بھی ان گروہوں کی مخالف ہے جبکہ ریاست نے بھی اس حوالے سے اپنی پالیسی پر نظرثانی کر رکھی ہے۔ ماضی میں جو غلطیاں ہوئی، اسکے ازالے کیلئے کچھ وقت تو درکار ہوگا۔
میں جب بھی علمدار روڈ آیا تو نم آنکھوں اور افسردہ دل کیساتھ آیا ہوں، لیکن آج سید داؤد آغا کی تقریب کو دیکھ کر میں بہت خوش ہوا ہوں۔ آج پہلی مرتبہ میں اپنے بھائیوں کے پاس خوشی کیساتھ آیا ہوں۔ شیعہ ہزارہ قوم کے تمام شُہداء میرے اپنے شُہداء ہیں اور جتنے بھی شہُداء ہوئے ہیں انکو سلام پیش کرتا ہوں۔ لہذا اتنی قیمتی جانوں کے ضیاع کے بعد اب ہم سب کو ملکر بلوچستان کے امن و بھائی چارے کیلئے کام کرنا ہوگا۔ اگر ہم مسائل سے بھاگیں گے، تو اسے کوئی بھی حل نہیں کر پائے گا۔

خبر کا کوڈ : 390227
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش