0
Friday 29 May 2015 02:45

گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق کی بازیابی کیلئے خون کا آخری قطرہ تک بہائیں گے، مولانا اسحاق ثاقب

گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق کی بازیابی کیلئے خون کا آخری قطرہ تک بہائیں گے، مولانا اسحاق ثاقب
مولانا اسحاق ثاقب کا تعلق بلتستان کے ضلع گانچھے سے ہے۔ وہ گلگت بلتستان کے قومی مسائل میں ہمیشہ سے نوربخشیہ مکتب فکر کی ترجمانی کرتے رہے ہیں، انہیں گانچھے میں نوجوانوں، غریبوں اور محروموں کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے اور وہ عوامی شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ عوام کا درد رکھنے والی نوجوان قیادت ہیں۔ گندم سبسڈی تحریک کے دوران انہوں نے صف اول کا کردار ادا کرتے ہوئے گانچھے کی نمائندگی کی اور عوام انکی جاذب شخصیت کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ وہ دینی طالب علم ہونے کے ساتھ ساتھ ایم اے اور بی ایڈ کی ڈگری کے بھی حامل ہیں۔ وہ مجلس وحدت مسلمین کے ٹکٹ پر گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی ضلع گانچھے حلقہ کے امیدوار کی حیثیت سے انتخابات لڑ رہے ہیں اور ان دنوں الیکشن کمپین میں مصروف ہیں۔ اسلام ٹائمز نے ان سے جی بی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات اور موجودہ سیاسی صورتحال کے حوالے سے انٹرویو کیا ہے، جو اپنے محترم قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: اس بات میں کس حد تک صداقت ہے کہ آپ اپنے حلقے میں کسی امیدوار کے حق میں دستبردار ہو رہے ہیں اور انتخابات کی دوڑ سے باہر جانا چاہ رہے ہیں۔؟
مولانا اسحاق ثاقب:
دیکھیں! میرے متعلق میرے حلقے میں طرح طرح کا منفی پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے، اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ مخالفین مجھ سے کتنا خوف زدہ ہیں۔ میں اپنے حلقے میں کسی کے حق میں بیٹھنے کا سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ عوام نے مجھ پر اعتماد کیا ہے اور عوام میری حمایت کے لئے تیار ہیں۔ میرے حلقے کے غریب اور مستضعف عوام کی نگاہیں میری طرف لگی ہوئی ہیں، انکی حمایت میرے لئے ہے، میں کیسے سوچ سکتا ہوں کہ میں ان سب کو مایوس کروں۔ میں عوامی توقعات پر پورا اترنے کی بھرپور کوشش کروں گا اور عوامی حقوق کے لئے جنگ لڑتا رہوں گا۔ لہٰذا یہ بات سراسر غلط ہے کیونکہ آپ مجھے بتائیں میرے حلقے میں میرے مقابلے میں جو امیدوار موجود ہیں، کیا ماضی میں عوامی مسائل پر یہ نمائندے عوام کے ساتھ کھڑے تھے یا انتظامیہ کیساتھ۔ جب گلگت بلتستان میں گندم سبسڈی بحالی کی تحریک شروع ہوئی تو ان میں سے کون تھا، جب غریب عوام کے حلق سے لقمہ چھینا جا رہا تھا تو ان میں سے کون تھا، جنہوں نے عوام کا ساتھ دیا۔ انکی تو کوشش تھی کہ گندم سبسڈی ختم ہو جائے کیونکہ یہ اشرافیہ ہیں، انہیں کوئی فرق نہیں کہ گندم کی قیمت جتنی بڑھ جائے۔ اسی طرح میں آپ سے عرض کروں کہ پاکستان میں ہونے والے افسوسناک سانحات اور واقعات پر کون ہیں جو کھڑے ہوئے۔ الحمدللہ یہ اعزاز مجھے حاصل ہے کہ میں غریبوں اور مظلوموں کے حقوق کے لئے پہلے بھی میدان میں تھا اب بھی ہوں اور ہمیشہ رہوں گا، یہاں تک کہ میں اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دونگا، لیکن غریبوں کے حقوق کی جنگ لڑنے سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹوں گا۔

اسلام ٹائمز: اس بات میں کس حد تک صداقت ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے ٹکٹ دینے سے انکار کیا تو آپ مجلس وحدت مسلمین کی طرف مائل ہوئے۔؟
مولانا اسحاق ثاقب:
میں پاکستان تحریک انصاف کے حوالے سے کوئی منفی بات کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں کیونکہ میرے حلقے میں مجھے انکی بھرپور حمایت حاصل ہے، اس پر میں تحریک انصاف کا شکر گزار ہوں اور مجھے امید ہے کہ میرے حلقے میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور کارکنان پہلے سے زیادہ میری کمپین میں حصہ لیں گے۔ جہاں تک مجلس وحدت مسلمین کا تعلق ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ قومی اور علاقائی ایشوز پر مجلس وحدت کا سٹینڈ باقی سب سے واضح، مدلل اور ملک کے حق میں ہونے کے ساتھ ساتھ دلیرانہ اور جرات مندانہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایم ڈبلیو ایم نے پاکستان میں وہ کام کئے ہیں جو اور کوئی جماعت نہیں کرسکی۔ جیسے پاکستان کا بڑا مسئلہ فرقہ واریت تھا، انہوں نے وحدت کی وہ فضا قائم کی کہ آج سنی اتحاد کونسل کے سربراہ مجلس وحدت کے انتخابات میں کمپین چلانے کے لئے گلگت پہنچے ہوئے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کا دوسرا مسئلہ دہشتگردی تھا، یہ اعزاز بھی مجلس وحدت مسلمین کو حاصل ہے کہ انہوں نے دہشتگردوں کے خلاف قیام کیا اور پاکستان آرمی کے لئے آپریشن کی راہ ہموار کی۔ اسی طرح مجلس وحدت مسلمین ہی ہے جو ملک اور دنیا بھر میں ہونے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کرتی ہے۔ لہٰذا ان اصولی بنیادوں کی وجہ سے میں نے ایم ڈبلیو ایم کو اپنے لئے بہتر پلیٹ فارم سمجھا ہے اور مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ دوسری پارٹیوں کی نسبت یہاں وسائل کے حوالے سے بھی پریشانی تھی، اگر میں کسی اور جماعت میں چلا جاتا تو شاید پیسے بھی آجاتے، لیکن میں ان تمام اصولوں پر کاربند نہیں رہ سکتا تھا جن کی بنیاد پر میں سیاست میں آیا ہوں، ان میں سے ایک دین و سیاست کی جدائی کا میرا قائل نہ ہونا ہے۔

اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین کا ٹکٹ حاصل کرنے میں کوئی مشکل تو پیش نہیں آئی اور اس تنظیم کو آپ نے کیسا پایا۔؟
مولانا اسحاق ثاقب:
جب میں ایم ڈبلیو ایم کی طرف متوجہ ہوا تو بہت سوں نے یہ پٹی پڑھانے کی کوشش کی کہ مجلس وحدت مسلمین فرقہ وارانہ اور متعصب بنیادوں پر الیکشن لڑنے کی قائل ہے، اپنے فرقے کے علاوہ کسی کو امیدوار کے طور پر متعارف نہیں کرسکتی، مختلف سطح پر مختلف دباو بھی آئے۔ چند حلقوں نے یہ بھی کہا کہ انکے پلیٹ فارم سے انتخابات لڑنے کی صورت میں سنگین الزامات آئیں گے، یہاں تک اپنا فرقہ تبدیل کرنے کے الزامات بھی آئیں گے، لیکن اس تمام تر دباو کے باوجود میں نے مجلس وحدت مسلمین کے رہنماوں سے ملاقات کی تو معلوم ہوا انکے ہاں بڑے خاندان سے تعلق رکھنا، پیسے ہونا اور ظاہری رکھ رکھاو اور فرقے کی کوئی اہمیت نہیں ہے، انکے ہاں معیار کی اہمیت ہے۔ ایم ڈبلیو ایم والوں نے کہا کہ ہم غریب کسان کا بیٹا، اہل فرد جو غریب عوام کے حقوق کی جنگ لڑنے والا صالح ہو، اسے الیکشن میں سامنے لائیں گے، اگرچہ اسکے مقابلے میں اپنے مکتب فکر کے بڑے بڑے نمائندے ہی کیوں نہ ہون۔ لہذا انہوں نے مجھے گلے لگا اپنے امیدوار کے طور پر متعارف کروایا۔ انہوں نے جتنی عزت مجھے دی، اسے میں لفظون سے بیان نہیں کرسکتا۔

انہوں نے مجھے ٹکٹ دے کر وہ سارے الزامات غلط ثابت کر دیئے جو مخالفین نے لگائے تھے۔ انہوں نے میرے مکتب کی عزت کی لاج رکھی، ہم سب مجلس وحدت مسلمین کے شکر گزار ہیں، جتنی عزت انہوں نے دی کہیں نہیں ملتی۔ جہاں تک تنظیم کا تعلق ہے تو میں یہاں پر ایک چیز آپ سے شیئر کروں کہ ایم ڈبلیو ایم بلتستان کے رہنما آغا علی رضوی اور مرکزی سربراہ علامہ راجہ ناصر کی شخصیت میں وہ خلوص، دیانت، وفاداری اور عوام کا درد ہے کہ اس دور میں کوئی ان جیسا نہیں ہوسکتا۔ مجھے فخر ہے کہ میں نے ٹکٹ علامہ ناصر عباس جعفری کے دست مبارک سے لیا اور انہوں نے جتنی محبت دی میں خود شرمندہ ہوں کہ ان کا یہ احسان کس طرح اتاروں۔ دوسری طرف جب سے میں نے مجلس وحدت مسلمین میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی ہے تو میں سمجھ رہا ہوں کہ اس روز سے میرا ایک ایک لمحہ عبادت اور میری روح کو حقیقی تسکین مل رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس راہ میں کرنے والا سفر بھی معنوی اور جہاد سے کم نہیں۔ انتخابات میں فتح ہو یا شکست، ایم ڈبلیو ایم نے جو معیارات قائم کئے ہیں، مجلس وحدت کبھی شکست نہیں کھا سکتی۔

اسلام ٹائمز: یوں تو ہر امیداوار کا کہنا ہے کہ اسکی پوزیشن مضبوط ہے اور فتح یقینی ہے، آپ اپنے حلقے کے حوالے سے کیا کہتے ہیں۔؟
مولانا اسحاق ثاقب:
فتح کس کو نصیب ہوتی ہے، وہ تو جب 9 جون کا سورج طلوع ہوگا تو دنیا دیکھے گی۔ میں آپ سے واضح طور پر کہنا چاہوں گا کہ میرے نزدیک فتح و شکست کی کوئی اہمیت نہیں ہے، کیونکہ میں فتح یاب ہوں یا شکست کھاوں، مجھے عوام کے درمیان رہنا ہے اور عوامی حقوق کی جنگ لڑنی ہے۔ اگر عوام نے اعتماد کیا تو ذمہ داری بڑھ جائے گی، اگر عوام نے اعتماد نہ کیا تو بھی میدان میں حاضر رہنا ہے اور ان نمائندوں کو سکون سے نہیں رہنے دینا جو عوامی حقوق کیخلاف جنگ لڑنے ایوان میں جائیں گے، انشاءاللہ جس طرح ابھی ہم نے ان نمائندوں کا سکون چھینا ہے، اس وقت بھی کسی صورت آسانی سے انہیں عوام کا حق کھانے نہیں دیں گے۔ اس وقت میرے پاس نہ جھوٹے دعوے اور وعدے ہیں اور نہ ہی لوگوں میں بانٹنے کے پیسے، اس کے باوجود خدا کا شکر ہے کہ عوام نے بڑی پذیرائی دی ہے۔ میں عوام کا احسان مند ہوں، جس انداز میں حلقے کے عوام نے مجھ پر اعتماد کا اظہار کیا ہے، اس سے واضح ہو رہا کہ عوام حکمرانوں کی سابقہ کارکردگی سے مطمئن نہیں اور میرے اوپر ذمہ داری عائد ہوسکتی ہے۔ میں خدا کی تائید اور عوام کی بھرپور حمایت سے فتح یاب ہونے کے لئے پرامید ہوں۔ میں نے اپنے عوام کے سامنے واضح کر دیا ہے کہ جب عوامی مسئلہ پیش آیا تھا تو میرے علاوہ اگر کسی نے عوام کا ساتھ دیا تھا تو آج بھی عوام کو حق حاصل ہے کہ وہ انکا ساتھ دیں۔

اسلام ٹائمز: آپکے انتخابات میں حصہ لینے کا ہدف کیا ہے۔؟
مولانا اسحاق ثاقب:
میرا انتخابات میں حصہ لینے کا ہدف و مقصد غریب اور حقوق سے محروم عوام کے حقوق کی جنگ لڑنا، ہر مظلوم کی آواز پر لبیک کہنا اور ہر ظالم کے ظلم پر قیام کرنا ہے۔ اس سلسلے میں مجلس وحدت مسلمین اور اسکا نمائندہ نہ کبھی کسی کے سامنے جھک سکتا ہے اور نہ بک سکتا ہے۔ انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے عوام کی امنگوں کی بھرپور ترجمانی کروں گا اور عوام کے حقوق کے لئے ہمیشہ آواز بلند کروں گا۔ میں نے عوامی حقوق کے حصول اور بازیابی کے لئے الیکشن میں حصہ لیا ہے نہ کہ عہدوں کے لالچ میں۔ امید ہے کہ ان انتخابات میں عوام مظلوموں اور محروموں کے نمائندوں کو ہی منتخب کریں گے۔

اسلام ٹائمز: کہا جا رہا ہے کہ نوربخشیہ مکتب فکر آپکے ساتھ نہیں ہے اور حلقے کے صرف شیعہ ووٹوں سے آپ جیت نہیں سکتے۔؟
مولانا اسحاق ثاقب:
خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میری حمایت میں شیعہ مکتب فکر کے علماء، بزرگان اور جوانوں کی بڑی تعداد ہے، بالکل اسی طرح نوربخشیہ مکتب فکر بھی میرے ساتھ ہے۔ ابھی تو میں زبانی جواب دے رہا ہوں، عملی جواب انشاءاللہ 8 جون کو ملے گا اور ایسی افواہیں پھیلانے والے منہ کے بل گریں گے۔ جس طرح مجلس وحدت مسلمین نے میری حمایت کی اور مجھے اپنا ٹکٹ دے کر اپنی وفاداری کا ثبوت دیا، میرے مکتب فکر کے عوام بھی وفاداری کا ثبوت دیں گے اور مجلس وحدت کو ہرگز مایوس نہیں کریں گے۔ میرے حلقے کے عوام باشعور اور باوفا لوگ ہیں، میرے حلقے کے عوام شجاع اور غیرت مند ہیں۔ اگرچہ ظالم حکمرانوں کی وجہ سے غربت ضرور ہے، لیکن عوام کے حوصلے بلند ہیں اور عوام ہر طرح کی قربانیوں کے آمادہ ہے۔ اللہ نے چاہا تو ایک ہفتے کے اندر حلقے کا منظر نامہ بدل جائے گا اور میری کامیابی یقینی ہوجائے گی۔

اسلام ٹائمز: انتخابات کیلئے آپکا منشور کیا ہے۔؟
مولانا اسحاق ثاقب:
مجلس وحدت مسلمین کا منشور ہی میرا منشور ہے، میرا اپنا الگ سے کوئی منشور نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: اس بات میں کس حد تک حقیقت ہے کہ آپکو دھمکیاں مل رہی ہیں۔؟
مولانا اسحاق ثاقب:
جب آپ انتخابات میں حصہ لیتے ہیں تو الزمات، دھمکیاں اور رشوتوں کا سلسلہ تو چلتا ہے، لیکن نہ ہم کسی دھمکی میں آنے والے ہیں، نہ دولت کی ریل پیل ہمیں مرعوب کرسکتی ہے اور نہ ہی الزمات سے ہم خوف کھا سکتے ہیں۔ میں نے ابتدا میں یہ بات کہی تھی کہ میں غریب عوام کے حقوق کے لئے آخری حد تک جانے کے لئے تیار ہوں اور شعوری طور پر جانا چاہتا ہوں۔ انسان کے لئے سب سے قیمتی چیز اسکی جان ہوتی ہے، اس کے باوجود میں عرض کرتا ہوں کہ اس راہ میں، میں اپنی جان دینے کے لئے بھی تیار ہوں، لیکن عوامی حقوق کی بازیابی سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔ جب جان ہتھیلی پر ہو تو کوئی دھمکی دھمکی نہیں رہتی اور کوئی الزام الزام نہیں رہتا۔ اس سلسلے میں آپ سے کہوں کہ براہ راست تو کسی میں جرائت نہیں کہ دھمکی دے سکے، البتہ دیگر جو طریقے ہوتے ہیں تو وہ کمزور افراد کا وطیرہ ہے، لیکن کوئی ظالم ہمیں نہیں دبا سکتا۔
خبر کا کوڈ : 463552
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش