0
Saturday 21 Nov 2015 19:42
داعش صہیونیت اور یہودیت کا کھڑا کیا ہوا فتنہ ہے

مغرب کا پالا ہوا سانپ انہیں ڈسنے لگا تو ایک دم سے واویلا کرنے لگے ہیں، مولانا مقصود الحسن قاسمی

مسلمانوں کو تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کیخلاف متحد ہونا چاہیئے
مغرب کا پالا ہوا سانپ انہیں ڈسنے لگا تو ایک دم سے واویلا کرنے لگے ہیں، مولانا مقصود الحسن قاسمی
پروفیسر مولانا مقصود الحسن قاسمی کا تعلق بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے ہے، وہ 9 سال سے امام کونسل آف انڈیا کے صدر ہیں، امام کونسل آف انڈیا کے ساتھ کشمیر، اترانچل، دہلی، اترپردیش، ممبئی سمیت بھارت کی مختلف ریاستوں کے جید علماء کرام و مفتی عظام جڑے ہوئے ہیں امام کونسل آف انڈیا کا قیام بھارت میں فعال علماء کرام کے درمیان ہم آہنگی اور ہم آواز بنانے کے لئے عمل میں لایا گیا ہے۔ مسلم نوجوانوں میں دینی تعلیم و ماڈرن ایجوکیشن کے لئے امام کونسل آف انڈیا کا اہم رول ہے، مولانا مقصود الحسن قاسمی اوکھلا نئی دہلی میں امام جمعہ و الجماعت کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں، مولانا مقصود الحسن قاسمی ساتھ ہی ساتھ جامعہ ملیہ اسلامیہ (یونیورسٹی) میں بحیثیت پروفیسر اپنی ذمہ داری انجام دے رہے ہیں، موصوف نئی دہلی اور اس کے اطراف میں اہم دینی امور اور اتحاد و اتفاق بین المسلمین کے حوالے سے بہت ہی فعال ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں، اسلام ٹائمز کے نمائندے نے مولانا مقصود الحسن قاسمی سے نئی دہلی میں ملاقات کے دوران ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: پیرس میں داعش کی جانب سے ہونے والے حملے کی آپ کن الفاظ میں مذمت کریں گے۔؟
مولانا مقصود الحسن قاسمی
:
پیرس پر ہوا حملہ وحشیانہ، درندانہ اور قابل مذمت حملہ ہے، بے گناہوں کی جانیں لی گئیں، ان حملوں کی کوئی بھی مذہب، کوئی بھی قانون اجازت نہیں دیتا، یہ سراسر انسانی اصولوں کے خلاف ہے۔

اسلام ٹائمز: پیرس میں کیا نیا ہوا ہے، جو ان حملوں کی تمام دنیا مذمت کرنے لگی۔؟
مولانا مقصود الحسن قاسمی:
یہ داعش روز اول سے ہی درندہ اور جانوروں جیسی کارروائیاں انجام دیتے آئے ہیں، یہ سراسر انسان اور اسلام دشمن تنظیم پہلے سے ہی تھی اور رہے گی، لیکن بڑی طاقتیں دہشت گرد تنظیم کو وجود میں لاتی ہیں، انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتی ہیں، جب انکا مقاصد پورے ہوتے ہیں تو دنیا بھر میں اسی دہشت گردی کو ختم کرنے کا واویلا بھی کرتے ہیں، یہی القاعدہ کے ساتھ ہوا، یہی طالبان کے ساتھ کیا، یہی احمد شاہ مسعود اور اسامہ بن لادن کے ساتھ کیا گیا، صہیونی اور مغربی طاقتوں نے ان سب کو ابھارا، ہتھیار فراہم کئے، سویت یونین کو توڑنے کے لئے ایسے عناصر کو پہلے استعمال کیا اور پھر انہیں دہشت گرد قرار دے کر ان کے خلاف کارروائیاں کی گئی۔ اگرچہ ایسے عناصر پہلے سے ہی دہشت گرد تھے، انسان دشمن تھے اور درندہ صفات تھے، طالبان کو انہوں نے روس کے خلاف استعمال کیا، انہیں پالتے رہے، انہیں پیسے دیتے رہے، ہتھیار دیتے رہے، ایسا ہی داعش (آئی ایس آئی ایس) کے ساتھ کیا گیا۔ بشار الاسد کی حکومت کو گرانے کے لئے انہوں نے داعش کو اکٹھا کیا، پیسے دیئے، ہتھیار دیئے، سعودی عرب، اسرائیل، امریکہ اور فرانس نے ترکی کے راستے سے انہیں شام و عراق کی سرزمیںوں پر اتارا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے، آج تک امریکہ انہیں معاونت فراہم کر رہا ہے، اب چونکہ انہی کا پالا ہوا، دودھ پلایا ہوا سانپ انہیں ڈسنے لگا تو ایک دم سے واویلا کرنے لگے ہیں، ہمارا ماننا ہے کہ دہشتگرد دہشتگرد ہوتا ہے، وہ جہاں بھی ہو، جس کے خلاف بھی ہو، قابل مذمت ہے۔ ہم ایسے عناصر کے ہمیشہ مخالف رہے ہیں، ایسے عناصر کو کچلنا ضروری ہے، اس دہشتگردی کو ختم کرنا ضروری ہے۔

اسلام ٹائمز: داعش فتنے سے چھٹکارا کیسے ممکن ہے۔؟
مولانا مقصود الحسن قاسمی:
داعش ایک بہت بڑا فتنہ ہے، یہ صہیونیت اور یہودیت کا کھڑا کیا ہوا فتنہ ہے، انہوں نے عالم اسلام خاص طور پر شام و عراق و لیبیا و لبنان اور پاکستان میں بدامنی شروع کی اور یہ بات ذہن میں رکھنی ہوگی کہ جتنی ان ممالک میں بدامنی پھیلے گی، اسرائیل مضبوط ہوتا رہے گا، جتنی بھی بدامنی اور قتل و غارتگری عالم اسلام میں ہو، فائدہ اسرائیل کو ہے، اسلئے اسرائیل عرب خطے میں بدامنی پھیلانے کے لئے تمام طاقت لگائے ہوئے ہے، اسرائیل و امریکہ بھی نہیں چاہے گا کہ داعش کا خاتمہ ہوجائے اور داعش نے بھی کبھی اسرائیل کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا ہے، داعش نے فلسطینیوں کی مخالفت کی ہے، مگر اسرائیل کی ہرگز نہیں، اس پس منظر میں مسلمانوں کو تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے خلاف متحد ہونا چاہیئے، انہیں اپنے ملی و اجتماعی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے داعش کے خلاف صف آرا ہونا ہوگا، یہ تیری دہشت گردی، میری دہشت گردی کا تعصب چھوڑ کر تمام دہشت گردوں کے خاتمے کے لئے مسلمانوں کو یک جہت ہونا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: پیرس کے حملے کے بعد خاص طور پر تمام ممالک اپنی سرحدوں کے تحفظ کیلئے پریشان نظر آرہے ہیں، کیا شام و عراق میں ہی داعش کا خاتمہ نہیں کیا جا رہا ہے۔؟
مولانا مقصود الحسن قاسمی:
ایسا ہی ہونا چاہیئے تھا، یہی راہ حل ہے، روس کے صدر ولادیمیر پیوٹین نے بھی کہا کہ چالیس ممالک ایسے ہیں جو داعش کو پیسہ، ہتھیار اور دیگر سہولیات فراہم کر رہے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے داعش کو پروان چڑھایا اور اب اسکے مخالف بھی ہیں، یہ صرف اور صرف یہ چاہتے ہیں کہ یہ ممالک محفوظ رہیں، باقی تمام دنیا میں داعش کے ہاتھوں قتل و غارت گری جاری رہے، یورپی ممالک میں جتنے بھی ہتھیار بن رہے ہیں، وہ دہشت گردوں کو روانہ کئے جا رہے ہیں، یورپ میں یہ بحث کبھی نہیں چھڑی کہ ہتھیار بنانے والی کمپنیاں پرائیویٹ کیسے ہوسکتی ہیں، وہ حکومت کے ہاتھوں میں ہونی چاہیں تھیں، وہ بڑے بڑے سرمایہ دار اور بڑی بڑی کمپنیاں ہی حکومت کی ایماء پر داعش کو ہتھیار فراہم کر رہی ہیں، یہ تمام ممالک آئی ایس آئی ایس کو ختم کرنے پر بھی راضی نہیں ہیں، کیونکہ انکے مفادات اس تنظیم سے جڑے ہوئے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ انکی سرحدیں محفوظ ہوں، انکے گھر محفوظ ہوں، باقی دنیا میں خوب مار کاٹ ہو، اس کی انہیں ہرگز پرواہ نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا ایسا ممکن نہیں کہ داعش واپس پلٹیں گے، جہاں سے انہیں اکٹھا کیا گیا تھا۔؟
مولانا مقصود الحسن قاسمی:
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ شام و عراق میں داعش کا قافیہ تنگ ہوچکا ہے، لیکن مجھے اتنی جلدی نہیں لگ رہا ہے کہ امریکہ، اسرائیل، یورپین ممالک داعش کو ختم کرنا چاہیں گے، وہ ابھی سنجیدہ نظر نہیں آرہے ہیں، وہ چاہیں گے تو داعش کو ایک دن میں ختم کرسکتے ہیں، لیکن یہ داعش پر حملوں کے بہانے الٹا انہیں ہتھیار پہنچا رہے ہیں اور پھر شرم بھی انہیں نہیں آتی، جو یہ کہتے ہیں کہ دھوکہ سے داعش کو ہتھیار پہنچ گئے، یہ کیا ہو رہا ہے، مغربی ممالک نے ڈبل پالیسی اپنائی ہوئی ہے، جب تک یہ دہرا معیار نہیں چھوڑیں گے، داعش ختم نہیں ہوگی یا پھر کسی تیسری طاقت کو داعش کے خاتمے کے لئے آگے آنا ہوگا، جیسے کہ روس میدان میں ہے۔

اسلام ٹائمز: سعودی عرب کے مایہ ناز عالم دین شیخ باقر النمر کی سزاء موت کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟
مولانا مقصود الحسن قاسمی:
سعودی عرب بھی بدقسمتی سے صہیونی طاقتوں کا آلہ کار بنا ہوا ہے، بار بار ایسے کام کر رہا ہے، جس سے اتحاد اسلامی کے بجائے آپسی تضاد بڑھے، یہ باقر النمر کی پھانسی بھی اسی پالیسی کا ایک حصہ ہے۔ اگر سعودی عرب کی حکومت اتحاد اسلامی کی حامی ہوتی تو شیخ باقر النمر کو سزاء موت ہرگز نہیں سنائی جاتی، اس سے انتشار اور تضاد بڑھ سکتا ہے نہ کہ آپسی اتحاد۔ سعودی عرب دنیا بھر میں اسی منافرت کی پالیسی کو جاری رکھے ہوئے ہے، کچھ لوگ ہندوستان میں بھی ہیں، جن کے مالی مفادات اور ذاتی فوائد سعودی عرب سے رابستہ ہیں، جو مسلمانوں میں مذہب کے نام پر تضاد پیدا کرتے رہتے ہیں، کبھی شیعہ سنی جھگڑے تو کبھی محرم الحرام اور میلاد النبی (ص) کے جلوسوں میں تضاد پیدا کرتے ہیں، ایسے عناصر ہر جگہ موجود ہیں، میری مسلمانوں سے گزارش ہے کہ ہم اپنے اپنے ممالک کو ان عناصر سے پاک رکھیں، اپنے ممالک کو اتحاد اسلامی کا مرکز بنائیں، تضاد و منافرت سے ہرحال میں بچنا چاہیئے، ایسے عناصر کی باتوں میں مسلمانوں کو ہرگز نہیں آںا چاہیئے۔ یہ دشمن کے ایجنٹ ہیں اور اسلام حقیقی کے دشمن۔
خبر کا کوڈ : 499269
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش