0
Thursday 12 May 2016 11:26
مودی کو ریاض بلاکر پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گونپا گیا ہے

سعودی عرب نے بھارت کیساتھ قریب ہوکر پاکستان سے یمن جنگ کا حصہ نہ بننے کا بدلہ لیا ہے، صاحبزادہ حامد رضا

فضل الرحمان اقدار یا نظریات کی سیاست نہیں کرتے بلکہ پیسے اور ڈالر کی سیاست کرتے ہیں
سعودی عرب نے بھارت کیساتھ قریب ہوکر پاکستان سے یمن جنگ کا حصہ نہ بننے کا بدلہ لیا ہے، صاحبزادہ حامد رضا
صاحبزادہ حامد رضا سنی اتحاد کونسل پاکستان کے چیئرمین ہیں، وہ سنی اتحاد کونسل کے بانی چیئرمین صاحبزادہ فضل کریم کے فرزند ہیں، صاحبزادہ فضل کریم کی وفات کے بعد انہیں قائم مقام چیئرمین منتخب کیا گیا، تاہم بعد ازاں مجلس شوریٰ کے فیصلے کے بعد انہیں باقاعدہ چیئرمین سنی اتحاد کونسل بنا دیا گیا۔ تاحال سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین کے منصب پر فائز ہیں۔ اپنے والد کی نسشت پر قومی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑ چکے ہیں لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ اتحاد بین المسلمین کے داعی ہیں، امریکی سازشوں کے خلاف عوامی بیداری کے لئے آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔ عالم اسلام کے مسائل پر ہمیشہ غم زدہ رہتے ہیں، پوری امت کو ایک لڑی میں پرویا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں، شیعہ سنی کی تفریق سے ہٹ کر امت کو مسلمان بن کر رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ دہشت گردی سے متاثر ہونے کی وجہ سے شدت پسندوں سے نالاں ہیں۔ پنجاب حکومت کی دہشت گرد نواز پالیسیوں پر ہمیشہ کھل کر تنقید کرتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے پانامہ ایشو سمیت ملکی اور عالمی صورتحال پر ایک خصوصی انٹرویو کیا ہے جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: پانامہ لیکس معاملہ کی دوسری قسط بھی سامنے آگئی، آپ اس پورے معاملے کو کیسے دیکھ رہے ہیں۔؟
صاحبزدہ حامد رضا:
دیکھیں پانامہ لیکس کوئی الزامات نہیں ہیں، بلکہ وزیراعظم نواز شریف کی کرپشن سے متعلق مستند ڈاکومنٹس سامنے آئے ہیں، میاں صاحب کی طرف سے ابھی تک یہ نہیں کہا گیا کہ ان کی آف شور کمپنیاں نہیں ہیں، اب تک یہ نہیں کہا جا رہا کہ ان کی آف شور کمپنیاں نہیں ہیں تو سمجھ آگیا کہ ان کی آف شور کمپنیاں موجود ہیں، ملین ڈالرز کی جو پراپرٹیز خریدی گئیں، کالے دھن کو سفید کیا گیا، یہ ایک حقیقت ہے کہ جب آپ حلال اور جائز ذرائع سے کماتے ہیں، تب آپ ٹیکس بھی دیتے ہیں اور اپنے اثاثے ظاہر بھی کرتے ہیں، ایک سائیڈ پر چار پانچ لاکھ روپے ٹیکس دیں اور دوسری جانب آپ اربوں روپے کے فلیٹس خریدیں تو  یہ کھلا تضاد ہے، دوسری بات جو بہت سارے لوگ فراموش کر جاتے ہیں، وہ یہ ہے کہ میاں صاحب کے گوشواروں میں پانچ ہزار یا چھ ہزار روپے ٹیکس ادائیگی ظاہر ہے، یاد رکھیں کہ میاں صاحب بطور وزیراعظم جو تنخواہ لیتے ہیں، اس میں سے بھی ٹیکس کٹتا ہے، اسی طرح ہر رکن قومی اسمبلی کی تنخواہ سے ٹیکس کٹتا ہے، تو جو میاں صاحب کے گوشواروں میں ٹیکس لکھا ہوتا ہے، دراصل وہ تنخواہ سے کاٹے جانے والا ٹیکس ہی ہوتا ہے، اس میں کاروباری لین دین میں سے کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا گیا، جہاں تک اپوزیشن جماعتوں کا معاملے ہے تو وہ اس معاملے کو صحیح اٹھانے میں ناکام ہوگئے ہیں، دراصل ہر جماعت اپنے مفاد کا دفاع کر رہی ہے، اس لئے ٹی او آرز کے معاملے میں ہمیں یہ چیز واضح نظر آئی۔ اس وقت پاکستان کی کسی بھی جماعت کا ایجنڈا پاکستان نظر نہیں آرہا۔ بہرحال یہ اپوزیشن کی سطح پر ایک بڑی ناکامی ہے۔

اسلام ٹائمز: وزیراعظم کے ایک ماہ میں تین خطاب، یہ کس چیز کی نشاندہی کر رہے ہیں۔؟
صاحبزادہ حامد رضا:
میں سمجھتا ہوں کہ یہ روایت ہی غلط ہے، وزیراعظم کا جب خطاب آتا ہے تو وہ قومی پالیسی پر آتا ہے، یا ایسے معاملے پر جب قوم کو کسی اہم ایشو پر اعتماد میں لینا ہو، ہم سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم کے خطابات ذاتی وضاحتیں تھیں، جو انہوں نے پیش کرنے کی کوشش کی، دوم یہ کہ میاں صاحب کے تینوں خطابات میں بوکھلاہٹ کا عنصر نمایاں تھا، وہ اپنے بچوں کی اور اپنی صفائیاں پیش کرتے رہے جو نہیں کرسکے، ہر شخص نے محسوس کیا کہ میاں صاحب جھوٹ پر مبنی خطاب کر رہے ہیں تو اس معاملے میں نواز شریف صاحب مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ کلی طور پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ میاں صاحب جو ان خطابات کے ذریعے حاصل کرنا چاہتے تھے، وہ نہیں کر پائے۔

اسلام ٹائمز: بنوں میں مولانا فضل الرحمان نے وزیراعظم کیلئے جلسہ کا اہتمام کیا اور ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر پیغام دیا کہ ہم ایک ہیں۔ اس پر کیا کہتے ہیں۔؟
صاحبزادہ حامد:
دیکھیں جہاں تک مولانا فضل الرحمان کا تعلق ہے، ان کی ڈیل ہمیشہ ڈالر پارٹی سے ہوتی ہے، جو پارٹی ان کی صحیح قیمیت لگاتی ہے، وہ ان کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں، میں یقین سے باور کراتا ہوں کہ اگر تحریک انصاف آج مولانا فضل الرحمان کو ایک وزیر اور پیسوں کی آفر کرائے تو یہ نواز شریف کا تختہ الٹنے میں ان کا ساتھ دیں گے۔ فضل الرحمان اقدار یا نظریات کی سیاست نہیں کرتے بلکہ پیسے اور ڈالر کی سیاست کرتے ہیں، جہاں سے ان کا ریٹ اچھا لگ جائے، وہاں چلے جاتے ہیں۔ نواز شریف کو اس وقت تنکے کا سہارا چاہیئے، اگر وہ سہارا مولانا کی شکل میں مل جائے تو اور بھی اچھا ہے اور یہ وقت ظاہر کرے گا کہ مولانا نے اس ساتھ دینے کے بدلے میں کونسا چیک لیا ہے۔ فضل الرحمان ایک بکاو مال ہے، جو قیمت لگائے گا لے جائیگا، اب کیوں کہ اپوزیشن کے پاس ان کی قیمت نہیں ہے اور حکومت نے وہ قیمت ادا کر دی ہے تو وہ ان کے ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں۔

اسلام ٹائمز:ایم ڈبلیو ایم، عوامی تحریک اور آپکی جماعت نے مشترکہ نیوز کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ کرپشن کے حامی اور مخالفین میں صف بندی ہو رہی ہے، تو کیا کوئی تحریک شروع ہونی والی ہے۔؟
صاحبزادہ حامد رضا:
دیکھیں، بدقسمتی سے اپوزیشن کی بعض جماعتوں میں سنجیدگی کا عنصر نہیں ہے، ان جماعتوں کے رویے میں کوئی سنجیدگی نہیں نطر آتی اور نہ ہی ان میں حقیقت شناسی ہے، ہماری کوشش تھی کہ پارلیمانی اور غیر پارلیمانی جماعتیں ملکر ایک اصولی ایشو پر تحریک چلائیں، اور حکومت کو ٹف ٹائم دیں، لیکن بدقسمتی سے اس معاملے میں فرینڈلی اپوزیشن کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ ان ایشوز پر ہم خیال جماعتوں کو ساتھ لیکر چلیں اور اپوزیشن کی جماعتوں کو اس پر لیکر آئیں، امید ہے کہ آئندہ چند دنوں میں اس معاملے پر کوئی مثبت پیش رفت سامنے آئے۔

اسلام ٹائمز: میاں صاحب کی خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نظر آئی ہے، کلبھوشن یادیو کے معاملہ پر تو دو سطری پریس ریلیز تک جاری نہیں کی گئی۔؟
صاحبزادہ حامد رضا:
میاں صاحب کی خارجہ پالیسی ہے ہی نہیں، ان کیلئے ایک پنجابی کا محاورہ ہے کہ ’’راجا سب کا سانجھا‘‘، یعنی یہ ایک وقت میں امریکہ کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتے اور چین کو بھی خوش رکھنا چاہتے ہیں، یہ بھارت کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتے اور فوج کو بھی راضی رکھنا چاہتے ہیں، وہ سعودی عرب کی ناراضی بھی مول نہیں لینا چاہتے ہیں اور ایران کے ساتھ بھی اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں۔ میاں صاحب فلسطین کو بھی سپورٹ کرنا چاہتے ہیں لیکن اسرائیل کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتے، تمام چیزوں کا حل یہ تھا کہ آپ ملک کا مستقل وزیر خارجہ لائیں، کیونکہ وزیر خارجہ مختلف ایشوز پر پالیسی بیان دیں گے اور وہ واضح کریں گے کہ پاکستان کے دوسرے ملکوں سے تعلقات کی نوعیت کیا ہے۔ جب آپ کا وزیر خارجہ ہی نہیں ہوتا تو پھر آپ اپنے درباریوں سے معاملات چلاتے ہیں، پھر اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ خارجہ امور پر آپ کی گرفت بھی نہیں رہتی اور آپ خارجہ امور کو سنجیدہ نہیں لیتے، یا لائن آف ایکشن طے نہیں کرنا چاہتے۔ اس ڈنگ ٹپاو پالیسی سے یہی واضح ہوتا ہے کہ میاں صاحب کی خارجہ پالیسی مکمل طور پر ناکام ہے۔

اسلام ٹائمز: منصورہ اجلاس میں دینی جماعتوں نے نظام مصطفٰی کا نعرہ لگایا، اسکے ساتھ ہی حکومت نے قومی علماء و مشائخ کونسل کے احیاء کا اعلان کر دیا اور پچاس علماء کو اس کونسل میں شامل کر دیا گیا۔ اسے کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
صاحبزادہ حامد رضا:
بکنے والے لوگ ہر دور میں رہے ہیں، میاں صاحب مذہبی جماعتوں کو اپنے مفاد کیلئے استعمال کرتے ہیں اور ہمیشہ کیا ہے، کیونکہ ممتاز قادری کی شہادت کے بعد علماء اور عوام میں نواز شریف کے خلاف غم و غصہ تھا، اسی طرح انہوں نے حقوق نسواں بل پاس کرکے دینی جماعتوں اور عوام کی ناراضگی مول لی، جس سے حکومت کے خلاف نفرت میں مزید اضافہ ہوا، میاں صاحب نے اس چیز کو ختم کرنے کیلئے وزارت مذہبی امور کے ذریعے قومی علماء و مشائخ کونسل بنا دی۔ یہ کونسل اگر حقیقی سپرٹ کے تحت بنائی جاتی تو اس کے فوائد ہوتے، لیکن اس میں تو سارے ہی درباری ملاوں کو ڈال دیا گیا ہے۔ اب ایسے افراد کو اس میں شامل کیا گیا ہے، جو اپنے مسالگ میں مضبوط نہیں یا ان کی نمائندگی نہیں کرتے، حتیٰ ان کی مسالک سے بھی تائید نہیں ہوگی، لیکن یہی میاں صاحب اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے ان کی تائید لے لیں گے اور پھر کہیں گے کہ انہیں تمام دینی قوتوں کی طرف سے تائید حاصل ہے۔

اسلام ٹائمز: مودی کے دورہ ریاض پر کیا کہتے ہیں، سعودیوں نے بڑی آو بھگت کی ہے اور اعلٰی ترین ایوارڈ سے نوازا ہے۔؟
صاحبزادہ حامد رضا:
جب سے پاکستان نے یمن کے حوالے سے فوجیں نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے، اس وقت سے سعودی عرب نے پاکستان مخالف پالیسی اپنا لی ہے، سعودی عرب نے مودی کو بلاکر دراصل پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گونپا ہے، ہمارے دشمن کو اپنے ملک میں بلاکر جس طرح کی پذیرائی بخشی ہے وہ بہت اہم ہے۔ معاملہ مودی یا ہندوستان کا سعودی عرب جانا نہیں ہے، کیونکہ مختلف ملکوں کا ایک دوسرے کے پاس آنا جانا رہتا ہے، ہم یہ نہیں کہتے کہ سعودی عرب ہندوستان کو نہ بلاتا، ظاہر بھارت ایک بڑا ملک ہے، سب ملکوں کا ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا رہتا ہے۔ لیکن جس انداز میں مودی کو پروٹوکول دیا گیا ہے، سہولیات دی گئی ہیں، یہ چیزیں پاکستان کیلئے الارمنگ تھیں پاکستان کیلئے اور پاکستانی عوام کیلئے، اس پر لوگوں نے سخت اظہار بھی کیا ہے اور غم و غصہ رکھتے ہیں۔ لیکن نواز شریف صاحب دوسرے ملکوں کے ساتھ ریاستی تعلقات نہیں رکھتے بلکہ یہ تعلقات خاندانوں کی سطح پر بنائے جاتے ہیں، میاں صاحب تیرہ سال جدہ میں رہے، خاندانی تعلقات کی بنیاد پر۔ ریاست کی سطح پر تعلقات بنانے کے بجائے میاں صاحب نے آل سعود سے ذاتی تعلقات بنائے ہیں۔ میاں صاحب کے مودی کے ساتھ بھی تعلقات ہیں اور آل سعود کے ساتھ بھی، تو مودی کو سب سے بڑا سول ایوارڈ دینے پر میاں صاحب کے دل میں ضرور لڈو پھوٹ رہے ہوں گے کہ میرے دوست کو اچھا پروٹوکول دیا ہے، پاکستانی ہونے کے ناطے ہمیں اس بات پر تشویش ہے اور ہمارے جذبات مجروح ہوئے ہیں، سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کے مقابلے میں دوسرے ممالک کو مقدم رکھا ہے، جس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 537729
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش