0
Tuesday 19 Jul 2016 21:12
سعودی عرب کے نظام حکومت میں ہمیشہ یہود و نصاریٰ کا عمل دخل رہا ہے

تمام مسلمان جزوی مسائل کو فراموش کرکے ایک مشترکہ کاز کیلئے جدوجہد کریں، مولانا غلام محمد

پاکستان سے امیدیں وابستہ تھیں لیکن وہ سوشلزم اور سکیولرزم کا شکار ہوگیا ہے
تمام مسلمان جزوی مسائل کو فراموش کرکے ایک مشترکہ کاز کیلئے جدوجہد کریں، مولانا غلام محمد
مولانا غلام محمد پرے مقبوضہ جموں و کشمیر کے لاوے پورہ سرینگر سے تعلق رکھتے ہیں، وہ برصغیر کی معروف تنظیم ’’جماعۃ التبلیغ‘‘ سے وابستہ ہیں، وہ پچھلے 27 سالوں سے سرینگر کی ایک جامع مسجد ’’مسجد امام اعظم (رہ)‘‘ میں امام جمعہ کے فرائض انجام دے رہے ہیں، وہ عربی، فارسی اور اردو زبانوں پر خاصی مہارت رکھتے ہیں اور مطالعہ قرآن و حدیث و تفاسیر پر عبور حاصل ہے، مولانا غلام محمد پرے مقبوضہ کشمیر میں پچھلے چالیس سالوں سے دین حق کی تبلیغ و ترویج کا کام کر رہے ہیں، ان کے والد بھی ایک جید عالم دین گزرے ہیں، جنکے زیر سایہ انہوں نے پرورش پائی، وہ اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے وادی کشمیر کے اطراف و اکناف میں فعال کردار نبھائے ہوئے ہیں اور ملت کے تمام مسائل کا حل امت کے اتحاد میں دیکھتے ہیں، اسلام ٹائمز کے نمائندے نے مولانا غلام محمد سے ایک نشست کے دوران خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: ابھی اگر عالم اسلام کو دیکھا جائے تو ہر جگہ ایک انتشاری کیفیت دیکھنے کو مل رہی ہے، اس کیفیت کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
مولانا غلام محمد پرے:
کئی سالوں سے بلکہ کئی دہائیوں سے میں سمجھتا ہوں کہ اہل اسلام کی جو سب سے بڑی ٹریجڈی اور المیہ ہے، وہ یہ ہے کہ عالم اسلام مسلکی تفرقہ کا شکار ہوا ہے، ہر مسلک کے پیروکار یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ جو اس کا مسلک ہے، یہی سچا اسلام ہے، حالانکہ اصل اسلام جو آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے رسول (ص) پر اتارا گیا، وہ بالکل مختلف لگتا ہے۔ آج کے اسلام سے کہ اللہ کی زمین پر اللہ کی حکمرانی، اللہ کے قانون، اب وہ سب کچھ دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے، تو اس میں غیر اقوام کی بھی کچھ سازشیں ہیں، کچھ اپنوں کا بھی عمل دخل ہے، آج اگر ہم انتشار اور غیر یقینی صورت حال کے شکار ہیں تو اس کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہم خود ہیں، کیونکہ ہم نے اسلام کو اپنے ڈھنگ سے لیا، جس چیز سے فائدہ ملا وہ لے لیا اور جس چیز سے نقصان ہونے کا اندیشہ ہوا، اس کو چھوڑ دیا۔

اسلام ٹائمز: جو بیرونی یا اندرونی حملے ابھی تک اسلام پر ہوئے ہیں، ان دونوں میں سے سب سے زیادہ کس سے اسلام کو نقصان پہنچا ہے۔؟
مولانا غلام محمد پرے:
میں سمجھتا ہوں کہ اسلام کو اگر کسی چیز سے سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے تو وہ اپنوں کی نادانیاں ہیں، بیرونی دشمن تب ہی کامیاب ہوسکتے ہیں، جب ملت اندورنی خلفشار کا شکار ہو۔ لہذا میں یہ سمجھتا ہوں کہ جب تک دین کا گہرا مطالعہ نہ کیا جائے، دین کو دین کی نظر سے نہ دیکھا جائے، فرقہ پرستی سے ہٹ کر، مسلکی تفرقہ سے الگ ہوکر نہ سوچا جائے، تب تک مسلمانوں میں یہ انتشاری کیفیت باقی رہے گی، جس کا فائدہ اسلام دشمن اقوام ضرور اٹھائیں گے۔ اللہ نے جو دین نازل کیا ہے، وہ اسلام ہے اور اسلام ہمیں آپسی تفرقہ سے پرہیز کرنے کی بار بار تلقین کرتا ہے، اسلام دین حق ہے، مگر مسلمان آج غیر ضروری مسائل میں الجھے ہوئے ہیں، مسلکی تفرقہ اور ایک دوسرے کو کافر ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں، ہمیں چاہئے کہ ہم دین اسلام کا بغور مطالعہ کریں، کیونکہ اللہ جس کے حق میں بہتری کرنا چاہتا ہے، اس کو دین کی سمجھ عطا کرتا ہے۔

اسلام ٹائمز: جو اصل اسلام ہے اور جو اصل دین ہے، وہ مسلمانوں کے پاس ہے، پھر بھی مسلمان ہی کیوں تذلیل کا شکار ہیں۔؟ عالمی سطح پر مسلمانوں کو ہی کیوں شکوک و شبہات کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔؟
مولانا غلام محمد پرے:
ماضی قریب کے ایک بہت بڑے مفکر علامہ اقبال (رہ) جنھیں شاعر مشرق بھی کہا جاتا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ’’ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز، چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی‘‘ اس سے یہ بات واضح ہے کہ معرکہ حق و باطل اختتام دنیا تک جاری رہے گا، لیکن اس شرار بولہبی کا مقابلہ چراغ مصطفوی (ص) سے کیسے کیا جائے، یہ مسلمانوں کو سوچنا ہے، مسلمانوں کو سر جوڑ کر مشورہ کرنا ہوگا، مل بیٹھ کے اس بارے میں غور و فکر کرنا ہوگا کہ کس طرح ہم اپنی حالت بدل سکتے ہیں اور کیسے اس ظلم و جبر سے نجات حاصل کرسکتے ہیں، اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلموں کی دشمنی کوئی نئی بات نہیں ہے، بلکہ یہ بغض و عداوت کا سلسلہ کافی پرانا ہے، آج اگر اسلام کو بدنام کرنے اور مسلمانوں صفہ ہستی سے مٹانے کی کوششیں ہو رہی ہیں تو یہ اسی سازش کا حصہ ہے، جو منافقین اور اسلام دشمن عناصر نے پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے میں شروع کی۔

اسلام ٹائمز: آپکا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو مل بیٹھ کر ان پُرآشوب حالات سے باہر نکلنے کے بارے میں سوچنا چاہئے، کیا اس جانب کوئی پیشرفت ہو رہی ہے اور کیا اس قسم کا تفکر پیدا ہو رہا ہے۔؟
مولانا غلام محمد پرے:
الحمدللہ جو دانشور حضرات ہیں، وہ آگے آرہے ہیں اور اس بارے میں سوچ رہے ہیں اور شدت کے ساتھ اتحاد بین المسلمین کی ضرورت کو محسوس کر رہے ہیں، یہ جو تمام غیر اسلامی ممالک اجتماعی طور پر اسلام کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں یا اسلام کی بقا کو ٹھیس پہنچانے کی کوششیں ہو رہی ہیں، اس کے توڑ کے لئے اہل اسلام کی طرف سے بھی بہت سے اہل دانش آگے آرہے ہیں اور وہ سوچ رہے ہیں کہ کس طرح سے ان حالات کا مقابلہ کیا جائے اور مسلمانوں کی حالت گذشتہ کو بحال کیا جائے۔

اسلام ٹائمز: کیا ہمارے دانشور طبقے کو محدود نہیں کیا گیا ہے شام اور عراق کے حالات میں اور اس آگ کو بجھانے میں لگایا گیا ہے اور ہمیں اہل اسلام اور اسلام کی بقاء کی جانب سوچنے نہیں دیا جا رہا ہے۔؟
مولانا غلام محمد پرے:
یہ بات بھی اپنی جگہ صحیح ہے کہ دشمن نے ہماری سوچ کو محدود کیا ہوا ہے اور ہماری توجہ بنیادی مسائل کی طرف سے ہٹا کر ثانوی مسائل کی جانب کو موڑ لیا ہے، اس ہماری بھی کچھ کمزوریاں ہیں، ہم مسلکی و فرقہ بندی کے جال میں اس قدر پھنس گئے ہیں کہ ہمیں اپنے آس پاس کی کوئی خبر نہیں کہ دشمن ہمارے سروں پر آکر ظلم و ستم کا ننگا ناچ کرنے لگا، آج ضرورت اس بات کی ہے کہ عالم اسلام ایک نقطہ اتحاد پر جمع ہوکر اور آپسی خلفشار سے کنارہ کرکے اسلام اور امت مسلمہ کی بقا کے بارے میں فکر کرے، تبھی جا کر ہم اپنی آنے والی نسل کو محفوط رکھ سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: مسلمانوں کی حالت دیکھ کر کیا آپ کو لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں کچھ ہوسکتا ہے، جس سے مسلمان اپنے حالات میں سدھار لاسکتے ہیں۔؟
مولانا غلام محمد پرے:
اللہ تعالٰی سورہ زمر میں ارشاد فرماتا ہے کہ ’’اے میرے بندو جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی، اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو، بے شک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے، بے شک وہی بخشنے والا اور مہربان ہے‘‘ تو اس آیت میں اللہ کی جانب سے ایک امید باندھی گئی ہے، ایک ڈھارس باندھی گئی ہے، تو اسلام کے پیروکاروں میں یہ قوت ہے کہ وہ ان سختیوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور اپنی حالات میں تبدیلی لا سکتے ہیں، لیکن اس کے لئے مل جل کر کام کرنے اور آپسی اتحاد کو قائم کرنی کی اشد ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: عالم اسلام میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، چاہے شام ہو، افغانستان ہو، عراق ہو یا دوسرے اسلامی ممالک، جہاں پر حالات پُرآشوب بنے ہوئے ہیں، اس پر آپکی تشویش کیا ہے۔؟
مولانا غلام محمد پرے:
دیکھئے طاغوت خاص طور پر برطانیہ کی ہمیشہ سے پھوٹ ڈالو اور حکومت کی پالیسی رہی ہے اور وہ یہ پالیسی نو آبادیاتی دور میں خوب آزما چکا ہے، تو آج تک جتنے بھی حکمران وہاں آئے، چاہے ملکہ وکٹوریہ رہی ہو یا آج کے حکمران، انھوں نے مسلمانوں میں پھوٹ ڈالو اور تقسیم کرو کی پالیسی اپنائی، جسکی وجہ سے مسلمانوں کو کافی نقصان پہنچا، مغربی ممالک کو یہ پتہ ہے کہ جب بھی مسلمان متحد ہوجائیں گے تو ہماری خیر نہیں، اس لئے وہ مختلف بہانوں سے مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ الجھائے ہوئے رکھے ہیں اور اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات حاصل کر رہے ہیں، اگر مسلمان قرآن کے واضح حکم پر عمل کرتے کہ ’’اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو‘‘، ماضی قریب کے ایک مفسر علامہ عثمانی نے اس حوالے سے بڑی شاندار نقطہ آفرینی کی ہے، انھوں نے کہا ہے کہ ’’اسلام کی رسی بہت مضبوط ہے، یہ ٹوٹ نہیں سکتی لیکن ہاتھوں سے ضرور چھوٹ سکتی ہے، اگر مضبوطی سے نہ پکڑی جائے‘‘ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اتحاد و اتفاق کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ کے رکھے، اپنے جزوی مسائل کو فراموش کرکے ایک مشترکہ کاز کے لئے جدوجہد کریں، تبھی جاکر ہم اس قتل غارت گری کو روک سکتے ہیں۔ آج جو حالات عراق، شام یمن، افغانستان یا دوسرے اسلامی ممالک میں بنے ہوئے ہیں، وہ یقیناً قابل افسوس بھی ہیں اور ناقابل برداشت بھی، ہم ان حالات سے آنے والی نسل کو بچا سکتے ہیں، اگر ہم اپنے صفوں میں بھائی چارگی اور یگانیت پیدا کریں۔

اسلام ٹائمز: آپ نے جو وعتصمو بحبل اللہ جمیعاً ولا تفرقو کی بات کی، کیا آپکو لگ رہا ہے کہ اس دور میں ہم نے بھی اس کے معنیٰ بدل دیئے ہیں، اسکو ہم نے محدود کیا ہے، اس بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟
مولانا غلام محمد پرے:
آپ نے بالکل صحیح فرمایا، ہم نے اس کے معنٰی بدل دیئے ہیں اور اس کو تنظیمی دائروں تک محدود کر لیا ہے اور اس الٰہی پیغام کو یکسر بھلا دیا ہے۔ آج کوئی اسلام کی طرف کوئی دعوت نہیں دیتا بلکہ اپنی تنظیموں کی طرف دعوت دے رہا ہے، رسول اکرم (ص) کے صحابہ حضرات یا حضرت علی (ع) کے دور کے صحابہ اپنے اعمال یعنی کریکٹر کے ذریعے لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے تھے اور لوگ ان کا کریکٹر دیکھ کر اسلام کی طرف راغب ہوتے تھے، آج کے دور میں بھی ایسے مسلمان ہونے چاہئے، جن کو دیکھ کر غیر مسلم اسلام کی جانب راغب ہوجائے، صرف نماز پڑھنا، روزہ رکھنا آج کے دور میں کافی نہیں ہے، ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے عمل صالح یعنی کریکٹر سے اسلام کی ترویج و تبلیغ کریں۔

اسلام ٹائمز: ہر ذی حس اور ذی شعور ایک پریشانی میں مبتلا ہے، جو کچھ بھی عالم اسلام میں ہو رہا ہے، جو بھی مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے، اس کیفیت میں کوئی مسلم ملک کوئی مسلم مملکت جس پر تمام مسلمانوں کی نظر ٹکی ہوئی ہو، کیا کوئی ایسا ملک ہے اسلامی دنیا میں جو ان پرآشوب حالات میں ایک امید کی کرن ثابت ہوسکتا ہے۔؟
مولانا غلام محمد پرے:
میں اس بارے میں عرض کرنا چاہوں گا کہ ماضی میں ہمیں انقلاب اسلامی ایران کی شکل میں جو انقلاب امام خمینی (رہ) کی قیادت میں برپا ہوا تھا، ایک امید کی کرن دکھائی دے گئی تھی اور آج بھی انقلاب اسلامی ایران امید ہی کی کرن ہے، الحمد اللہ ایران کے قائدین کی تمام عالم اسلام پر نظر ہے، اس کے علاوہ پاکستان سے بھی امت مسلمہ کی امیدیں وابستہ تھیں، لیکن وہ سوشلزم اور سکیولرزم کا شکار ہوگیا ہے، 1947ء دو قومی نظریہ کی جدوجہد جاری تھی، جس کی رہنمائی قائد اعظم محمد علی جناح اور بہت سارے علماء اس جدوجہد میں شامل تھے، صرف اس لئے کہ ایک ایسا ملک ہو جہاں اللہ کا نظام قائم کیا جائے، لیکن المیہ یہ ہے کہ مملکت خداداد بھی اندرونی و بیرونی سازشوں کا شکار ہوتا گیا، غرض کہ یہ دو ممالک ایسے ہیں جن کی طرف آج مسلمان دیکھ رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیوں ہم ایران اور پاکستان کیجانب دیکھ رہے ہیں، اگرچہ ہماری مرکزیت خود سعودی عرب ہے اور وہ ہماری امید کا مرکز ہونا چاہئے تھا، کیوں وہاں پر ہماری امیدیں اور نگاہیں نہیں ہیں۔؟
مولانا غلام محمد پرے:
دیکھئے خدا کا صحیفہ یعنی قرآن مجید جو رسول (ص) پر نازل ہوا، اس میں اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے کہ ’’اے ایمان والو پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوجاؤ‘‘ آج سے کوئی اسی سال پہلے جو شہنشاہیت کا قیام سعودی عرب میں عمل میں آیا اور بظاہر اسلامی حکومت کے لبادے میں لوگوں کے سامنے پیش کیا گیا اور مجرموں کو اسلامی قوانین کے مطابق سزا دی جانی لگی، جیسے چوروں کے ہاتھ کاٹے جانے لگے وغیرہ، لیکن یہ پورا اسلام نہیں ہے، یہ پارشل اسلام ہے، جزوی اسلام ہے، اس کو ہم کلی اسلام سے تعبیر نہیں کریں گے، کلی اسلام سے تعبیر اس لئے نہیں کریں گے، کیونکہ وہاں شہنشاہیت ہے ملوکیت ہے اور سب سے بڑی بات کہ سعودی عرب کے نظام حکومت میں ہمیشہ یہود و نصاریٰ کا عمل دخل رہا ہے، ان کی پالیسیاں امریکہ و اسرائیل مرتب کرتے ہیں، اسی وجہ سے شاید مسلمان سعودی عرب کی طرف نہیں دیکھ رہے ہیں، خلافت عثمانیہ میں اگرچہ کچھ نقائص تھے، لیکن سعودی نظام حکومت سے کافی بہتر تھا، اس دور میں مسلمانوں میں یکجہتی تھی اور ایک ہی پرچم کے تلے تھے جو آج دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ خلافت عثمانیہ کہ جسکا شیرازہ بکھر گیا تھا، آج جو نظام سعودی عرب میں قائم ہے جمہوریت سے کئی گنا افضل ہے، اس بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟
مولانا غلام محمد پرے:
علامہ اقبالؒ کہتے ہیں کہ ’’جلال بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشہ، جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘، کئی نادان لوگوں کا کہنا ہے کہ سیاست کے معنی ناجائز طریقوں سے اپنے دشمنوں کو پست کرنا اور اپنے سیاسی، اقتصادی مفادات کی تکمیل کے لئے کسی بھی حد سے گزر جانا ہے، لیکن اگر سیاست کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو یہ ایک وسیع میدان ہے، جس میں نظام حکومت کے آداب سے لے کر لوگوں کی خدمت تک کے سارے رموز چھپے ہوئے ہیں، سیاست ہمیں سکھاتی ہے کہ کس طرح لوگوں کی خدمت کی جائے، کیسے حکومت چلائی جائے، یہ جو مخلوق ہے، خدا کا عیال ہے، کیسے خلق خدا کو فائدہ پہنچایا جائے، اگر کسی بھی نظام حکومت میں یہ بنیادی چیزیں نہ ہوں تو پھر وہ کوئی بھی نظام ہو، عوام الناس کے لئے بڑی تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے۔

اسلام ٹائمز: سعودی عرب میں بھی ایک تحریک چلی تھی، کچھ لوگ ہیں ذی شعور جو وہاں پر آواز اٹھاتے ہیں، لیکن ان کو زبردستی اور طاقت کے زور پر کچلا جا رہا ہے، اس حوالے سے آپکی تشویش کیا ہے۔؟
مولانا غلام محمد پرے:
دیکھئے جب بھی کسی ملک میں عوام کے بنیادی حقوق سلب کر لئے جائیں اور انھیں اپنے جائز حقوق سے محروم رکھا جائے تو لوگوں کا غصہ ہونا جائز ہے، سعودی عرب میں بھی ایسی تحریک چلی ہے اور قریباً ساڑھے چودہ ہزار علماء وہاں کی جیلوں کے اندر ہیں اور وہ صرف اس لئے کہ وہ سچ بولتے ہیں، جس کی وجہ سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑ رہی ہیں۔

اسلام ٹائمز: کچھ سال پہلے بغدادی نامی ایک شخص جس نے خلافت کا دعویٰ کیا تھا، جو شام و عراق میں اپنی خلافت پھیلانے کیلئے نکلا تھا اور مسلم علماء میں کچھ علماء نے انکی بیت بھی کی تھی اور ہندوستان سے بھی کچھ علماء نے بیعت بھیجی تھی، ایسی خلافت کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟
مولانا غلام محمد پرے:
دیکھئے قرآن کی واضح آیت ہے سورہ الحجرات میں کہ ’’اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے لئے کوئی خبر لائے تو تحقیق کر لو کہ کہیں کسی قوم کو بے جا ایذا نہ دے بیٹھو اور پھر اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤ‘‘ جو بھی سامنے آئے اس کی تحقیق کرلو اور دیکھو یہ ہے کیا، آج ہم میڈیا سے مرعوب ہیں اور جلدی جذباتی ہو جاتے ہیں، اسلام جذباتی دین نہیں ہے، اسلام سنجیدہ دین ہے اور ہمیں اپنے آپ میں سنجیدگی لانی ہوگی، رہی بات ابوبکر بغدادی کی تو وہ ایک مشتبہ شخصیت ہے، جس کی حقیقت دنیا پر واضح ہوچکی ہے۔

اسلام ٹائمز: کیوں بغدادی کے متعلق ایک متفقہ فیصلہ نہیں ہو پایا، جبکہ چار سال ہوگئے خلافت کا اعلان کئے ہوئے۔؟
مولانا غلام محمد پرے:
عالم اسلام میں ابھی تو ذہنی انتشار بھی ہے اور عملی انتشار بھی ہے، ان حالات میں ایک آدمی پریشان ہو جاتا ہے کہ کیا کرے، کس کا ساتھ دے، یہی وجہ ہے کہ ابھی تک کوئی متفقہ فیصلہ نہیں ہو پایا، جس کا خمیازہ معصوم عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا علماء کا ایک متحدہ پلیٹ فارم ہونا چاہئے، جہاں سے ایسی چیزوں کی جلدی نشاندہی کی جائے اور عوام کو بتایا جائے، ابھی بھی بہت سارے ہمارے کشمیر میں ایسے عناصر ہیں، جو داعش کو صحیح سمجھ رہے ہیں اور اسکی خلافت کو صحیح سمجھ رہے ہیں، اس حوالے سے آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟
مولانا غلام محمد پرے:
دیکھئے میں نے ہمیشہ سے اس بات پر زور دیا ہے کہ مسلمانوں کا ایک مشترکہ پلیٹ فارم ہونا چاہئے، جہاں پر ہر ایک مسلک سے وابستہ علماء مل بیٹھ کر ایسے حساس معاملات کی گہرائی میں جا کر اور ان معاملات کا بغور جائزہ لے کر عوام الناس کو حقیقت سے باخبر کریں، تاکہ لوگ کسی کے بہکاوے میں نہ آئیں، رہا سوال داعش کا تو یہاں کئی تنظیموں نے واشگاف اعلان کیا ہے کہ داعش کے نے جو ظلم و بربریت کا بازار برپا کرکے رکھا ہے، اس کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں ہے، کیونکہ قتل و غارت گری، بربریت اور معصوم لوگوں پر مظالم اسلام کا مزاج نہیں ہوسکتا، اسلام کی شان تو درگزر اور معاف کرنا ہے، تو اسلامی اصولوں کی پاسداری کرنا اسلامی رہنما کے لئے شرط اول ہے۔

اسلام ٹائمز: اگر کشمیر کی بات کی جائے تو داعش کے بے نقاب ہونیکے باوجود بھی انکے جھنڈے لہرائے جاتے ہیں اور شہر کے در و دیواروں پر داعش ویلکم کے نعرے لکھئے ہوئے ہیں، اس حوالے سے آپکی کیا تشویش ہے۔؟
مولانا غلام محمد پرے:
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم بنا سوچے سمجھے ہر ایک کے پیچھے چلنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں، داعش ویلکم یا ایسی دوسری عبارات لکھنا، میں سمجھتا ہوں یہ ہماری اس تنظیم کے متعلق علمیت اور واقفیت نہ ہونا ظاہر کرتا ہے، میری تمام علماء سے مودبانہ اور ملتجیانہ گزارش ہے کہ وہ اس سلسلے میں لوگوں کو باخبر کریں اور واضح کریں کہ داعش کا اصل معاملہ کیا ہے، لوگوں کو چاہئے کہ جذباتی اور ایموشنل ہوئے بغیر سنجیدہ طور ان باتوں پر غور کریں کہ ہمارے اس اقدام سے کہیں ہماری تحریک پر تو منفی اثر نہیں پڑ رہا ہے، اس حوالے سے جیسا میں نے عرض کیا کہ علماء کا ایک اہم رول بنتا ہے کہ وہ سنجیدہ ہوکر ان باتوں کی طرف توجہ دیں تو ان شاء اللہ بہتر نتائج برآمد ہونگے۔

اسلام ٹائمز: جو عالم اسلام کا اہم ترین اور حساس ترین مسئلہ ہے، وہ قبلہ اول کی بازیابی ہے اور فلسطین کے مسلمان جو ابھی ظلم و بربریت کے شکار ہیں، اس حوالے سے آپکا تجزیہ کیا ہے۔؟
مولانا غلام محمد پرے:
میں نے بارہا یہ بات عرض کی ہے کہ اتحاد میں قوت ہے، طاقت ہے، اگر عالم اسلام متحد ہوجائے تو صہیونی طاقت ہو یا اور کوئی اسلام دشمن طاقت ہم ان کا مقابلہ کرسکتے ہیں، جیسے صلاح الدین ایوبی نے کسی زمانے میں مسجد الاقصٰی پر اسلام کا جھنڈا گاڑ دیا تھا، اسی طرح وہ دن دور نہیں جب ہم بھی اپنے دشمنوں کو منہ توڑ جواب دیں گے، بس ہمیں اتحاد و اتفاق کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا ہے، شیخ الہند جب جیل سے 1920ء میں رہا ہو کر آئے تھے تو انھوں نے اپنے اکابر و شاگردوں کے سامنے کہا تھا کہ ’’میں جیل سے دو چیزیں سیکھ کر آیا ہوں کہ اس امت کا علاج دو باتوں میں مضمر ہے، ایک قرآن میں اور ایک اتحاد میں‘‘ اگر ہم قرآن پر ہی جمع ہوجائیں تو ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں کہ عالم اسلام کے چھوٹے بڑے تمام مسائل حل ہونگے۔

اسلام ٹائمز: چاہے مسئلہ کشمیر ہو یا مسئلہ فلسطین، مسئلہ فلسطین لگ رہا ہے کہ عالمی سطح پر اجاگر ہو رہا ہے، ہر ذی شعور اس بارے میں آواز اٹھا رہا ہے، لیکن کشمیر ابھی تک نظر انداز ہو رہا ہے اور صرف پاکستان کھل کر اسکی حمایت کر رہا ہے، اس بارے میں آپکی رائے جاننا چاہیں گے۔؟
مولانا غلام محمد پرے:
مسئلہ فلسطین عالم اسلام کا ایشو ہے، لیکن عرب ممالک کی بے توجہی سے سے ابھی تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوا ہے، اگر یہ عرب ممالک جس میں شام، عراق، سعودی عرب، مصر، یمن، ترکی اور دیگر عرب ممالک تھوڑی سی بھی توجہ اس جانب دیں گے تو ان شاء اللہ یہ مسئلہ بہت جلد حل ہو جائے گا، رہا کشمیر کا مسئلہ تو کشمیر کا معاملہ پچھلے چند دہایؤں سے سرد پڑ گیا ہے، اگر عسکری محاذ یا سیاسی محاذ کی بات تو ان دونوں میں عدم اتحاد کا عنصر غالب رہا ہے، پاکستان سیاسی سطح پر کشمیر کی بات تو کرتا ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں اس میں اب دم خم نہیں رہا ہے، اب ان کی سپورٹ جارحانہ نہیں رہی، جارحانہ کا مطلب یہ نہیں کہ وہ وہاں سے جنگ کا بغل بجائیں، جارحانہ کا مطلب ہے کہ وہ اپنی بات میں قوت پیدا کریں اور اقوام عالم کو مسئلہ کشمیر کی اہمیت اور اس کے حل کی ضرورت کے بارے میں بتائیں، تاکہ کئی دہائیوں سے یہ ان سلجھا مسئلہ حل ہو جائے۔

اسلام ٹائمز: کشمیر مسئلہ کے حوالے سے دیگر عالم اسلام اور اسلامی ممالک کا کیا رول بنتا ہے۔؟
مولانا غلام محمد پرے:
ہمارے یہاں او آئی سی ہے، جو مسلمانوں کی ایک عالمی تنظیم ہے، لیکن وہ بھی اب عضو معطل کی حیثیت اختیار کرچکی ہے، رہا سوال یو این او کا، وہ بھی طاغوت کی لونڈی بن کر رہ گیا ہے اور یہ ادارہ اب تماشہ بن گیا ہے، جہاں امریکہ اور دیگر ویٹو پاور رکھنے والے ممالک ادارے کو اپنے سیاسی مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ او آئی سی کے ممبر ممالک اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں تو ان شاء اللہ یہ جو عالم اسلام میں اہمیت کے حامل مسائل ہیں، چاہے پھر وہ کشمیر کا مسئلہ ہو یا فلسطین کا یا کوئی دوسرا مسئلہ حل ہوتے دیر نہیں لگے گی۔

اسلام ٹائمز: فلسطین کا مسئلہ اسلام کا مسئلہ ہے اور مسلمانوں سے وابسطہ ہے، کشمیر کو اس کے مقابلے میں نہیں رکھ سکتے، اب عالم اسلام متحد ہوسکتی ہے اور اتحاد کی ایک کرن جو محسوس ہو رہی ہے کہ فلسطین عنقریب آزاد ہو جائے گا، لیکن کشمیر کے ساتھ ایسے مسائل ایسی امیدیں وابسطہ نہیں کرسکتے تو کشمیر کے مسئلہ کیساتھ کیا ہوگا۔؟
مولانا غلام محمد پرے:
دیکھئے، پچھلی چھ دہایوں سے کشمیر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک سیاسی مسئلہ رہا ہے، لیکن نوے کی دہائی سے اس میں ایک تو عسکری محاذ جھڑ گیا اور دوسرا سیاسی اعتبار سے حریت کانفرنس کا وجود عمل میں آیا، جو سیاسی طور اس مسئلہ کو عالمی فورموں میں اٹھاتے آئے ہیں، ہمارے حریت کے نمائندے مسئلہ کشمیر کو لے کر عوام کے سامنے بھی جاتے ہیں اور سیاسی طور ہندوستان کو بھی باور کراتے ہیں کہ کشمیر ایک ان سلجھا مسئلہ ہے، ہمارے سیاسی لیڈران کو چاہئے کہ وہ متحد ہو کر اس مسئلہ کو عالمی فورموں میں زور و شور سے اٹھائیں، یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ حریت کے مختلف اکائیاں اب متحد ہو رہی ہیں اور مل کر ایک مشترکہ پروگرام دے رہے ہیں، امید یہی ہے کہ آگے بھی یہ اتحاد کا مظاہرہ کریں گے۔

اسلام ٹائمز: کچھ لوگوں کا ایسا ماننا ہے کہ ہماری اقتصاد، ہماری مادیت ہندوستان سے وابسطہ ہوگئی ہے، اس لئے اب دھیرے دھیرے ہم اپنے مقصد کو شاید ذہن سے ہٹا رہے ہیں۔؟
مولانا غلام محمد پرے:
دیکھئے، یہ بھی ایک بڑا المیہ اور ٹریجڈی ہے کہ ہماری تحریک آزادی میں اب چاول اور بجلی جیسے روز مرہ مسائل کی طرف زیادہ توجہ دے رہے ہیں، جس سے عالمی سطح پر کشمیر تحریک آزادی کو غلط رنگ سے پیش کیا جاتا ہے، ضروری نہیں کہ بجلی کے قمقموں کے نیچے ہم زندگی گزاریں، ضروری نہیں کہ ہم پرتکلف اور آرام دہ زندگی گزاریں، ہمارے اسلاف موم بتیوں کے نیچے زندگی گزارتے تھے، وہ اسلام کا بھی تحفظ کرتے تھے، اپنی حیا کا بھی اور اپنے اخلاقی اقدار کی کی بھی حفاظت کرتے تھے، آج ہمیں چاہئے کہ ہم اپنا سارے فوکس اپنی جدوجہد آزادی ی طرف رکھیں اور جزوی مسائل کو یکسر بھول کر تحریک کی آبیاری کریں، تبھی ہمارے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: یہ دیکھنے کو ملا ہے کہ اگر ایک طرف سے اسرائیل کے مظالم دیکھیں جائیں فلسطینیوں پر اور دوسری جانب بھارت کے مظالم دیکھیں جائیں کشمیریوں پر، اسکا مقابلہ آپ کس طرح کریں گے۔؟
مولانا غلام محمد پرے:
دیکھئے، ظلم ظلم ہوتا ہے، یہ چاہے غیر مسلم مسلمان پر کرے یا مسلمان غیر مسلمان پر، اگر ہم کشمیر میں بھارتی مظالم کی بات کریں تو ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارا مقابلہ کس قوم سے ہے، ہمیں یہاں سمجھداری سے کام لینا چاہئے، چونکہ یہاں پر تقریباً آٹھ لاکھ کے قریب بھارتی فوج ہے، ہمیں ان حالات میں احتیاط سے کام لینا چاہئے، کیونکہ ہمارا مقابلہ ایک غیر شعور ملت سے ہے، جو کسی بھی چیز سے تجاوز کرسکتی ہے، ان سے کسی قسم کی توقع نہیں رکھ سکتے، کیونکہ وہ اخلاقی تعلیم سے بہرہ مند نہیں ہوتے ہیں، اگر ہم احتجاج بھی کریں تو وہ طریقہ اپنانا چاہئے، جس سے خود بھی سلامت رہیں اور مدمقابل کو بھی کوئی ایسا قدم اٹھانے پر مجبور نہ کریں، جس سے لوگوں کی سلامتی پر اثر پڑے۔
خبر کا کوڈ : 552640
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش