3
0
Thursday 27 Oct 2016 11:15
تحریک انصاف جب سڑکوں پر نکلتی ہے ملک میں دہشتگردی شروع ہو جاتی ہے

وزیر داخلہ سے کالعدم تنظیم کے سربراہ کی ملاقات میں لگتا ہے لین دین ہوا ہے، اسد عمر

دہشتگردوں کے سہولت کار حکومتی صفوں میں ہوں گے تو امن کیسے قائم ہوسکتا ہے
وزیر داخلہ سے کالعدم تنظیم کے سربراہ کی ملاقات میں لگتا ہے لین دین ہوا ہے، اسد عمر
اسد عمر پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما ہیں، وہ 8 ستمبر 1961ء کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے، 2012ء سے پاکستان تحریک انصاف سے وابستہ ہیں، اپنی تعلیم انہوں نے کراچی سے حاصل کی۔ مختلف کمپنیوں میں ملازمت کرتے رہے، 19 اپریل 2012ء میں انہوں نے اپنی آخری کمپنی اینگرو کیمیکل کی ملازمت سے استعفٰی دیدیا اور تحریک انصاف میں شامل ہوگئے۔ اسد عمر پاکستان میں معاشی اصلاحات کے حامی ہیں۔ ملکی معشیت پر کڑی نگاہ رکھتے ہیں، اگر کہا جائے کہ یہ سیاستدان سے بڑھ کر معیشت دان ہیں تو بے جا نہیں ہوگا۔ اسی بنیاد پر پی ٹی آئی کی پالیسی کونسل کے چیئرمین بنا دیئے گئے۔ "اسلام ٹائمز" نے موجودہ ملکی صورتحال کے حوالے سے ان کیساتھ ایک نشست کی، جس کا احوال قارئین کیلئے پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: تحریک انصاف نے دھرنے کا اعلان کیا، ملک میں دہشتگردی کے واقعات شروع ہوگئے، کیا کہیں گے۔؟؟
اسد عمر:
تحریک انصاف جب بھی حکومت کیخلاف سڑکوں پر نکلنے کا اعلان کرتی ہے، ملک میں دہشتگردی شروع ہو جاتی ہے۔ عمران خان صاحب نے تو واضح کہا ہے کہ دہشتگردی اور کرپشن کا گٹھ جوڑ ہے۔ جس وجہ سے جب بھی ہم نے کرپشن کیخلاف آواز اٹھائی ہے، دہشتگردی نے سر اُٹھا لیا۔ ایسا ہی کچھ اب ہوا، جب ہم 2 نومبر کو اسلام آباد میں دھرنا دینے جا رہے ہیں، کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ کالج پر حملہ ہوگیا ہے، جس میں 64 کے قریب جوان شہید ہوگئے ہیں اور 100 سے زائد زخمی ہیں۔ اس حوالے سے اب حقائق چھپائے نہیں جا سکتے۔ میڈیا ہر وقت آپ پر نظر رکھتا ہے اور حکمرانوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہ ابھی تک 80 کی دہائی میں پھر رہے ہیں، انہیں اب تک احساس نہیں کہ جھوٹ کی سیاست نہیں چلنے والی، اب اگر کوئی بھی سیاست دان جھوٹ بولے گا، یا جھوٹا وعدہ کرے گا، اسی وقت پکڑا جائے گا، میڈیا اس کی پرانی فوٹیج چلا دے گا کہ جناب آپ نے الیکشن سے قبل یہ وعدے کئے تھے، حساب دیں ان وعدوں کو کہاں تک پورا کیا۔ اس کے علاوہ نواز شریف کے مودی سے تعلقات ہیں، ایل او سی پر چھڑپیں کیوں ہو رہی ہیں، صرف اس لئے ہو رہی ہیں کہ عمران خان حکومت کے خلاف نکل رہا ہے، اگر آج ہم اعلان کر دیں کہ ہم حکومت کیخلاف دھرنا نہیں دے رہے تو میں دعوے سے کہتا ہوں ،ایل او سی پر چھڑپیں رک جائیں گی اور ملک میں بھی دہشتگردی کے واقعات تھم جائیں گے۔

اسلام ٹائمز: وزیر داخلہ سے کالعدم تنظیم کے سربراہ نے ملاقات کی۔ اس پر بھی تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔؟؟
اسد عمر:
ارے بھائی تحفظات کا اظہار نہ کریں تو کیا کریں، جب دہشتگردوں کے سہولت کار حکومتی صفوں میں موجود ہوں گے تو ملک میں امن کس طرح قائم ہوسکتا ہے۔ دہشتگردوں کے سربراہ وزیر داخلہ سے ملاقات کرتے ہیں، وزیر داخلہ نے ان کو یقین دہانی کروائی کہ آپ لوگوں کا نام فورتھ شیڈول سے نکال دیا جائے گا، یہ نام نکالنے کی یقین دہانی ایسے ہی نہیں کروا دی گئی، اس کے پیچھے کوئی سودے بازی ہوئی ہوگی اور ہوسکتا ہے کہ وزیر داخلہ نے ان سے یہی کام لیا ہو جو کچھ کوئٹہ میں ہوا ہے۔ ہم تو تحقیقاتی اداروں سے کہیں گے کہ واقعہ کی تحقیقات میں اس پہلو کو بھی مدنظر رکھ کر تفتیش کریں اور اس ملاقات میں ہونیوالی گفتگو کے ریکارڈنگ کو بھی لیں، کیونکہ یہ ملاقات کسی سرکاری دفتر کی بجائے پنجاب ہاؤس میں ہوئی ہے، یہ بذات خود ایک سوال ہے۔

اسلام ٹائمز: آپکے قائد نے 2 نومبر کو اسلام آباد بند کرنے کا اعلان کیا ہے، دوسری جانب حکومت دھرنے کو ناکام بنانے کیلئے ہر ہتھکنڈا استعمال کرنیکا پلان بنا چکی ہے، اگر حکومت نے رکاوٹ ڈالی تو پی ٹی آئی کا ردعمل کیا ہوگا۔؟
اسد عمر:
حکومت جو مرضی کر لے عوام عمران خان کی آواز پر اسلام آباد ضرور پہنیچں گے، پی ٹی آئی کا دھرنا پلس حکومت ہٹاؤ مہم میں بھی تبدیل ہوسکتا ہے، اس لئے ہماری یہی گزارش ہوگی کہ حکمران عوام کا راستہ روکنے کی کوشش نہ کریں۔ اگر انہوں نے دھرنے کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کی تو یہ تحریک پورے ملک میں پھیل جائے گی۔ 2 نومبر کو عوام کا سمندر اسلام آباد کی سڑکوں پر ہوگا، جس سے ثابت ہو جائے گا کہ عوام کرپٹ حکمرانوں کا محاسبہ چاہتے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف اگر سچے اور دیانتدار ہیں، انہوں نے کسی قسم کی کرپشن نہیں کی تو انہیں ڈرنے کی کیا ضرورت ہے، اگر کسی نے چوری نہیں کی تو پھر تلاشی دینے سے کیوں گھبرا رہے ہیں۔ ہم کرپشن کے خاتمے کیلئے آخری حد تک جائیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عدلیہ، نیب، الیکشن کمشین اور بیوروکریسی میں بعض کرپٹ عناصر بیٹھے ہیں، جو حکمرانوں کی کرپشن پر پردہ پڑا رہنے دینا چاہتے ہیں۔ ہم پاناما لیکس میں حکمرانوں کی کرپشن کا پردہ چاک کرکے دم لیں گے۔ ہماری نواز شریف سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں، ہم تو ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کیلئے میدان میں اترے ہیں، یوں تو اس حوالے سے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے، مگر کرپشن کے خاتمے کیلئے سب نے اپنا الگ الگ طریقہ کار اپنا رکھا ہے۔ ہم نے پہلے بھی تمام جماعتوں کو دھرنے میں شمولیت کی دعوت دیدی تھی، ہمارے دروازے اب بھی کھلے ہیں، اس سلسلے میں پتہ چلا ہے کہ حکومت ہمارے احتجاج اور دھرنے کو سبوتاژ کرنے کیلئے کریک ڈاؤن کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، اس کیلئے یہی عرض ہے کہ احتجاج ہمارا آئینی اور قانونی حق ہے۔ ہمیں اس حق سے کوئی محروم نہیں کرسکتا۔ اگر ہماری پرامن تحریک کا راستہ روکا گیا تو اس صورت میں ہونیوالے نقصان کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی۔ ہم پرامن شہری ہیں، ہمیں پرامن ہی رہنے دیا جائے۔ بصورت دیگر عوام تمام تر رکاوٹیں عبور کرکے اسلام آباد پہنچ جائیں گے۔

اسلام ٹائمز: عوام کو سڑکوں پر لانے سے ملک میں افراتفری نہیں پھیلے گی، حکومت کہتی ہے کہ ملکی ترقی کیخلاف دھرنا ہے۔؟؟
اسد عمر:
ہم کرپشن کی کمائی سے بیرون ملک اثاثوں کی خریداری کے معاملے پر خاموش نہیں رہیں گے، اس کیخلاف ہر فورم پر آواز اٹھاتے رہیں گے۔ حکمران چاہے کوئی بھی قانون بنا لیں، مگر عوام کا حق نہین چھین سکتے۔ دوسری جانب عوام کو بھی اپنے حق کیلئے کھڑا ہونا پڑے گا۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا آئی ایم ایف، موڈیز، سٹینڈرڈ اینڈ پورز اور دوسری ریٹنگ ایجنسیوں کی پاکستان بارے رپورٹس کی بنیاد پر معاشی ترقی کا دعویٰ عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کا مقصد بحران زدہ ممالک کی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل بنانا نہیں بلکہ انہیں قرضوں کی واپسی کے قابل بنانا ہوتا ہے۔ جب کوئی حکومت اپنے عوام کا گلا کاٹ کر عالمی مالیاتی اداروں کے قرضے واپس کرے گی تو وہ اس کو درست اقدام نہیں کہیں گے تو اور کیا کہیں گے۔ تحریک انصاف کی حکومت جب بھی آئے گی تو سب سے پہلے ایف بی آر سمیت ریاستی اداروں میں بنیادی اصلاحات کی جائیں گی اور انہیں ٹھیک کیا جائے گا۔ تاکہ لوٹ مار کی کمائی، بیرون ملک سے واپس لانے کے ساتھ ساتھ سرمائے کے اخراج کو روکا جا سکے۔ ریونیو میں اضافہ ہو اور عوام پر بوجھ کم کیا جائے۔ بالخصوص حکومت نے بالواستہ ٹیکس کم کرنے کی پالیسی لا کر غیر ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی کریں گے۔

یہاں پر لوگ اربوں روپے کے اثاثوں کے مالک ہیں مگر وہ ٹیکس نہیں دیتے۔ تحریک انصاف کی حکومت انہیں ٹیکس نیٹ میں لائے گی۔ موجودہ حکومت نے 3 سال کے دوران نہ تو سرکاری ادارے ٹھیک کئے اور نہ ہی ان کی مناسب نجکاری کی۔ پاکستان سٹیل ملز گذشتہ 14 ماہ سے بند پڑی ہے جبکہ ورکرز کی 6 ماہ سے تنخواہیں نہیں دی جا رہیں اور 5 سال سے پنشن بھی بند کر رکھی ہے۔ یہی حال پاکستان مشین ٹول فیکٹری کا ہے، چین پاکستان اقتصادی راہداری کے ذریعے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری آ رہی ہے، حکومت کو چاہیے تھا کہ اس منصوبے میں پاکستان مشین ٹول فیکٹری کو بھی کردار دیا جاتا۔ اگر اس منصوبے میں اس ادارے کو 5 فیصد بھی حصہ ملتا تو یہ اپنے پاؤں پرکھڑا ہو جاتا۔ معیشت کے حوالے سے میرا رول ماڈل لی کوان اور فرینکلن ڈیلا نو روز ویلٹ ہے جبکہ نواز شریف کا رول ماڈل او ایل ایکس ہے۔ حکومت کی کارکردگی عوام اور اپوزیشن جماعتوں کو احتجاج کی جانب دھکیل رہی ہے۔ پی پی پی کے گذشتہ دور حکومت اور نون لیگ کے موجودہ دور میں تقابل کریں تو سابق حکومت کی کارکردگی ناقص تھی، تاہم موجودہ حکومت مزید ڈیڑھ سال چلی اور قرضے لینے کی رفتار یہی رکھی تو مجموعی قرضوں کا حجم ناقابل برداشت ہو جائے گا۔ حکومت کی جانب سے عوام کو یہ پیغام جا رہا ہے کہ وہ سڑکوں پر آ کر اپنا حق مانگیں، احتجاج کی صورت میں کہا جاتا ہے کہ جمہوریت خطرے میں ہے، ایسی جمہوریت جو عوام کی زندگی میں بہتری نہ لاسکے، اسے جمہوریت نہیں کہا جا سکتا۔

اسلام ٹائمز: اسحاق ڈار دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے ملکی معیشت کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر دیا ہے، آپ حکومتی کارکردگی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟؟
اسد عمر:
نون لیگ کی حکومت نے گذشتہ 3 سال کے دوران ملکی و غیر ملکی قرضے لینے کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں، قرضوں کی واپسی کیلئے 2019-20 میں دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کیلئے نئی آنیوالی حکومت کو نیا کشکول بنوانا پڑے گا۔ خطرہ ہے کہ 2018ء تک غیر ملکی قرضوں کا حجم بڑھ کر 100 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ ملک سے 8 ارب ڈالر بھیجنے والے وہی ہیں جنہوں نے 1992ء میں پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ منظور کرکے فارن کرنسی اکاؤنٹ سے لامحدود سرمایہ بیرون ملک بھجوانے کی اجازت دی۔ یہ کوئی حسن اتفاق نہیں کہ 1992ء میں جس سال قانون منظور ہوتا ہے، اسی سال نیلسن اور ڈیسکون نامی آف شور کمپنیاں رجسڑڈ ہوتی ہیں اور پھر 1992ء میں ہی لندن میں پہلا فلیٹ خریدا جاتا ہے۔ پاکستان میں اربوں ڈالر کی بیرون ملک منتقلی کی تحقیقات کروا کر رہیں گے۔ مالی سال 16-2015 کے حوالے سے تمام اقتصادی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جی ڈی پی میں 4 اعشاریہ 2 فیصد اضافہ ہوا جبکہ حکومت 4 اعشاریہ 7 فیصد اضافے کی دعویدار ہے۔ اگر وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا دعویٰ درست بھی مان لیں تو وہ بھی پلاننگ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بے روزگاری اور غربت کے خاتمے کیلئے 7 فیصد شرح نمو ضروری ہے۔ پاکستان میں ہر سال 20 سے 25 لاکھ نئے بے روزگار مارکیٹ میں آ رہے ہیں، جبکہ 4 فیصد شرح نمو کی بدولت صرف 5 لاکھ افراد کیلئے روزگار کے نئے مواقعے دستیاب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بے روزگاروں کی فوج میں ہر سال 15 لاکھ کا اضافہ ہو رہا ہے۔

معیشت میں سرمایہ کاری سب سے اہم اور بنیادی عمل ہے، جبکہ پاکستان میں مشرف دور میں جی ڈی پی کے مقابلے میں سرمایہ کاری کی شرح 21 اعشاریہ 5 فیصد تھی جو کہ پیپلزپارٹی کے دور میں گر کر 16 فیصد رہ گئی اور موجودہ حکومت کے 3 سال کے دوران مزید گر کر 14 تا 15 فیصد تک آگئی ہے۔ اس کے علاوہ گذشتہ 3 سال کے دوران لارج سکیل مینوفیکچرنگ گر کر 3 اعشاریہ 2 فیصد، زرعی شعبہ کی شرح نمو منفی صفر اعشاریہ 91 فیصد تک آگئی ہے اور بالخصوص گذشتہ 18 سال کے دوران کپاس کی پیداوار میں سب سے زیادہ کمی موجودہ حکومت کے دور میں ہوئی۔ برآمدات میں نمایاں کمی تجارتی خسارے میں اضافے کی بنیادی وجہ ہے، جو انتہائی تشویشناک ہے، جبکہ تجارتی خسارے میں اضافے کے نتیجہ میں پاکستان پر قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔ بیرونی قرضوں میں 9 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے، لیکن بیرونی قرضے میں اضافے کے یہ اعداد و شمار ادھورے ہیں، کیونکہ ان میں نہ تو 3 اعشاریہ 5 ارب ڈالر شامل ہیں، جسے حکومت نے 7 اعشاریہ 25 فیصد سے 8 اعشاریہ 25 فیصد کی بلند شرح سود پر عالمی مالیاتی منڈیوں سے یورو بانڈز اور سکوک بانڈ کے اجراء سے حاصل کئے گئے بیرونی قرضے شامل ہیں جو کہ اگرچہ غیر سرکاری ہیں، لیکن حتمی تجزیئے میں اس ملک کے غریب عوام کی ہڈیوں سے گودا چوس کر واپس کئے جائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 578743
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
اس صاحب سے یه سوال هی کر لینا تها که عمران صاحب کی حکومت نے تیس کروڑ روپیه کس کهاتے میں بابائے طالبان کو دیا؟!! اور اب لال مسجد والے تمهاری حمایت کیوں کر رهے ہیں؟!!!!
Iran, Islamic Republic of
اب لال حویلی کے علاوه لال مسجد کی حمایت بهی کپتان کو مل گئی، اس کا بهی تو سوال کرتے که لال مسجد کیوں تمهاری حمایت کر رهی هے؟!!
Iran, Islamic Republic of
اس عمر صاحب سے سوال کرتے بابا طالبان کو تیس کروڑ روپیه کس خدمت کے نتیجه میں دیا تمهاری حکومت نے؟!!!
ہماری پیشکش