0
Friday 10 Feb 2017 02:49
انقلاب اسلامی ایک تفکر ہے، لوگوں کو دبایا جاسکتا ہے، آئیڈیالوجی کو نہیں

سب سے پہلے مظلومین جہاں نے انقلاب اسلامی سے استفادہ کرنا شروع کیا، سید ناصر عباس شیرازی

صوبہ سندھ میں ایم ڈبلیو ایم بڑا مضبوط سیاسی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے
سب سے پہلے مظلومین جہاں نے انقلاب اسلامی سے استفادہ کرنا شروع کیا، سید ناصر عباس شیرازی
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر عباس شیرازی ماہر قانون اور مقبول سیاسی رہنما ہیں، ایم ڈبلیو ایم کے شعبہ اطلاعات اور شعبہ سیاسیات کے سربراہ رہ چکے ہیں، آئی ایس او پاکستان کے سابق مرکزی صدر اور چیف اسکاوٹ کی ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے سید ناصر عباس شیرازی کیساتھ ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا، جس میں انقلاب اسلامی ایران، ایران امریکہ تنازعہ، پاکستان کی داخلی صورتحال، حال ہی میں ایم ڈبلیو ایم کے رہنماء وفد کی وزیر داخلہ سے ملاقات اور آئندہ انتخابات میں ایم ڈبلیو ایم کے کردار کے موضوع پر انکے ساتھ گفتگو کی گئی، جسکا احوال انٹرویو کی صورت میں قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: انقلاب اسلامی ایران کو محدود کرنے کیلئے استعمار نے جو حربے استعمال کئے، وہ کس حد تک کامیاب رہے۔؟
سید ناصر عباس شیرازی:
انقلاب اسلامی ایران نے چوٹ ہی عالمی استعمار کو پہنچائی، کیونکہ جس وقت عالمی استعمار سپر پاور ہونے کے دعوے کر رہا تھا اور نیو ورلڈ آرڈر، نیو اکنامک آرڈر یعنی پوری دنیا کو ایک ہی سسٹم میں لانے کے دعوے کئے جا رہے تھے اور اس گلوبل ویلج کے چوہدری کے طور پر امریکہ منظر عام پر آچکا تھا، دنیا میں روس کی تنزلی کے بعد کسی کی جرات نہیں تھی کہ وہ امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے، تو ایسے وقت میں انقلاب اسلامی کی بدولت ایران نہ صرف امریکہ کے کنٹرول سے نکلا، بلکہ اس وقت خطے کے سب سے بڑے امریکی پٹھو (رضا شاہ پہلوی) کو انہی کے عوام (ایرانی قوم) نے شکست دی۔ انقلاب اسلامی ایک تفکر اور ایک آئیڈیالوجی ہے، لوگوں کو دبایا جاسکتا ہے، مگر فکر اور نظریئے کو نہیں دبایا جاسکتا، لہذا عالمی استعمار نے مختلف طریقے سے پروگرام ترتیب دیا کہ انقلاب اسلامی کو اس کی سرحدوں میں ہی محدود کر دیا جائے، تاکہ یہ پھیل نہ سکے اور پھر ان سرحدوں کے اندر بھی اس کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان مذموم کوششوں میں سب سے پہلے اسے شیعہ انقلاب کا نام دیکر اور مسلمان ممالک کو اس کے خلاف کھڑا کرکے عراق کی طرف سے جنگ مسلط کی گئی، جس میں عرب اور امریکہ و دیگر ممالک عراق کی پشت پر تھے، مگر امریکہ اپنے اس حربے میں بری طرح ناکام رہا۔ آج الحمدللہ اڑتیس سال گزرنے کے بعد یہ عیاں ہوچکا کہ انقلاب اسلامی محدود نہیں بلکہ روز بہ روز اپنے تفکر، آئیڈیالوجی اور اثرات کے اعتبار سے فروغ و ترقی پا رہا ہے۔ امریکہ کو اس خطے میں محدود ہونا پڑا، عراق کے صدام حسین کو جانا پڑا۔ وہ عرب حکومتیں جو ایران کے نفوذ اور انقلابی فکر کو تسلیم نہیں کرتی تھیں، انہیں اسی انقلابی فکر سے کئی جگہوں پر شکست سے دوچار ہونا پڑا، جبکہ آج بھی پوری آب و تاب کیساتھ انقلاب اسلامی اس خطے اور پوری دنیا میں کھڑا ہے۔ انقلاب اسلامی ایران کو محدود کرنے کی جو کوششیں استعمار نے کیں، وہ سب ناکامی سے دوچار ہوئی ہیں۔

اسلام ٹائمز: انقلاب اسلامی ایران کو آج شیعہ انقلاب
کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، انقلاب کے برپا ہونے اور اسکے دوام میں اہلسنت کا کیا کردار ہے۔؟
سید ناصر علی شیرازی:
دشمن کی سازشوں میں سے ایک بڑی سازش یہ تھی کہ چونکہ انقلاب اسلامی اسلام محمدی کا حقیقی چہرہ تھا اور پیروان مکتب اہل بیت علیہم السلام کا بھی ایک نمایاں کردار ہے۔ استعمار نے انقلاب کو محدود کرنے کیلئے جو پلاننگ کی، وہ یہ تھی کہ اسے ایک فرقے کا انقلاب قرار دیا جائے، یعنی اسے شیعی انقلاب قرار دیا جائے۔ انقلاب کے خلاف یہ ایک بڑی سازش تھی، جس میں پہلے وہ ممالک جو خود کو سنی ڈکلیئر کرتے تھے، حالانکہ وہ اہلسنت کے نمائندہ نہیں بلکہ رضا شاہ پہلوی کی طرح خطے میں امریکی خدمتگار تھے، امریکہ نے ان ممالک کو استعمال کیا، چونکہ امریکہ کا ان ممالک کے حکمرانوں پر اثرو نفوذ اس قدر زیادہ تھا کہ انہیں جو باور کرایا جاتا، وہ تسلیم کرنے پر مجبور تھے، تو انہی ممالک کے ذریعے اسلامی انقلاب کو شیعی انقلاب کا نام دیکر عراق کے ذریعے ایک طویل اور صبرآزما جنگ مسلط کی گئی اور انقلاب کے خلاف فرقہ وارانہ سرگرمیاں شروع کی گئیں، مگر دنیا نے دیکھا کہ یکے بعد دیگرے امریکی پیادے شکست سے دوچار ہوئے اور ابھی بھی ہو رہے ہیں، جبکہ کامران انقلاب کی کامیابیوں کا احاطہ ممکن نہیں۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ دنیا بھر کے مظلومین نے سب سے پہلے انقلاب اسلامی سے استفادہ کرنا شروع کیا۔ جہاں جہاں جتنے بھی مظلومین تھے، وہ سب سے پہلے انقلاب سے منسلک ہوئے اور انہوں نے اس انقلاب سے استفادہ کیا۔ جہاں شیعہ زیادہ مظلوم تھے، انہوں نے استفادہ کیا اور جہاں سنی مظلوم تھے، وہاں اہلسنت نے استفادہ کیا۔ یہ قطعاً کسی ایک فرقہ کا انقلاب نہیں تھا، اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ انقلاب نے سب سے زیادہ قربانیاں فلسطین کے مسئلہ پر دی ہیں، جبکہ فلسطین، غزہ شیعہ آبادی نہیں ہیں۔

ایک گفتگو میں رہبر معظم سید علی خامنہ ای نے فرمایا ہے کہ ’’اگر آج بھی فلسطین کے مسئلہ پر ہم ان کی بات مان لیں تو دنیا میں سب سے زیادہ اچھا ایران کو ہی سمجھا جائے گا‘‘، گرچہ یہ آپشن ایران کیلئے بہترین ہے، مگر چونکہ ایران اسلامی مفادات پر سمجھوتہ نہیں کر رہا، شیعی مفادات نہیں بلکہ اسلامی مفادات پر سمجھوتہ نہیں کر رہا، اس لئے استعمار آج بھی سب سے بڑا دشمن ایران کو ہی سمجھتا ہے۔ اس کے علاوہ آپ شام میں دیکھیں، جس طرح مقدس مقامات کو زک پہنچانے کی کوشش کی گئی، عراق میں جس طرح مقامات مقدسہ پر حملے ہوئے، ان تمام سازشوں کے مدمقابل انقلاب اسلامی ایران کا دیا ہوا تفکر ہی کھڑا ہے۔ چنانچہ انقلاب دشمنوں نے تفرقہ ایجاد کرکے انقلاب اسلامی کو محدود کرنے کی جو کوشش کی، وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ پاکستان میں انقلاب اسلامی کا استقبال کرنے والوں میں مولانا مودودی سرفہرست تھے۔ آج بھی اہلسنت عوام انقلاب اسلامی کے گرویدہ ہیں۔ ماسوائے ان چند تکفیری گروہوں کے، جو عالمی استعمار کے کہنے پر انقلاب
کے خلاف کھڑے ہیں، ان کے پشت پناہ بھی وہی نام نہاد اسلامی ممالک ہیں، جو نام تو اسلام کا لیتے ہیں، مگر وہ فلسطین کے ساتھ نہیں بلکہ اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔ عرب عوام کے ساتھ نہیں بلکہ داعش کے ساتھ کھڑے ہیں۔ دیکھنا یہ چاہیئے کہ اس وقت دنیا میں اتحاد بین المسلمین، وحدت اسلامی کا سب سے بڑا علمبردار ملک کون ہے۔ کون سے ملک میں شیعہ سنی تقسیم بالکل نہیں پنپ سکی تو یقیناً وہ اسلامی ملک اسلامی جمہوریہ ایران ہے۔ یہ انقلاب کے ثمرات سے بڑا ثمر ہے کہ اس نے فرقہ واریت کی نفی کی۔ انقلاب اسلامی نے بڑا کام ایک یہ کیا ہے کہ وہ ہتھیار کہ جس سے دشمن استفادہ کرتا تھا، رہبر معظم نے یہ فرما کر دشمن سے چھین لیا ہے کہ اہلسنت کے مقدسات کی توہین حرام ہے۔ ان کے جان و مال و خون کا تحفظ و دفاع پیروان مکتب اہلبیت پر واجب ہے۔

اسلام ٹائمز: ایران اور امریکہ کے مابین جاری تند و تیز بیانات کا کیا انجام متوقع ہے۔؟
سید ناصر علی شیرازی:
امریکہ اور ایران کے مابین حالیہ تناؤ یا تند و تیز بیانات سے زیادہ فرق نہیں پڑنے والا، کیونکہ اسلامی جمہوریہ ایران پہلے سے ہی سخت پابندیوں کا سامنا کرچکا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ دیگر امریکی صدور کے مقابلے میں نسبتاً کمزور صدر ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کھلم کھلا دشمنی کا اظہار اور جارحانہ انداز اپنائے ہوئے ہے، جس کی گنجائش عالمی ڈپلومیسی میں کم ہے۔ لہذا دنیا میں ٹرمپ کی حمایت تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ انقلاب اسلامی کے خلاف جتنی شدت سے ٹرمپ اور امریکی انتظامیہ کھڑی ہوگی، انقلاب ایران داخلی طور پر اتنا ہی مضبوط ہوگا۔ اس کے موقف کو تقویت ملے گی، ویسے بھی اگر آپ داخلی طور پر مضبوط ہیں تو آپ پوری دنیا میں مضبوط ہیں، اگر آپ داخلی طور پر کمزور ہیں تو آپ دنیا میں کمزور ہیں۔ ممکن ہے کہ ٹرمپ انقلاب اسلامی کے دشمنوں کو زیادہ آراستہ پیراستہ کرے، مگر ایران امریکہ تناظر میں ایران زیادہ مضبوط ہوگا، جبکہ دنیا میں امریکی حمایت میں کمی واقع ہوگی۔ امریکی پالیسی دنیا میں ناکامی سے دوچار ہوگی۔ اس کی واضح دلیل ابھی چند دنوں میں مغربی سربراہوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کی پاسداری کریں گے، حالانکہ ٹرمپ اس معاہدے کی تنسیخ کی باتیں کر رہا ہے۔ ایران کے حالیہ میزائل تجربات کے بعد امریکی انتظامیہ تو بولی ہے، مگر دنیا نہیں بولی ہے۔ ٹرمپ کے جارحانہ بیانات کے جواب میں ایران نے میزائل تجربے بھی کئے، جنگی مشقیں بھی کیں اور ثابت کر دیا کہ وہ کسی طور ٹرمپ اور امریکہ سے خوفزدہ نہیں۔

اسلام ٹائمز: حال ہی وفاقی وزیر داخلہ سے ایم ڈبلیو ایم کے وفد کی ملاقات ہوئی، اس ملاقات میں ایم ڈبلیو ایم نے اپنے کن تحفظات سے حکومت کو آگاہ کیا اور کن امور پر تبادلہ خیال ہوا۔؟
سید ناصر علی شیرازی:
مجلس وحدت مسلمین کے رہنما وفد نے علامہ راجہ ناصر عباس کی قیادت میں وزیر داخلہ سے ملاقات کی۔ میں اس وفد میں ایک ڈیلی گیٹ تھا، ملاقات میں دلچسپی کے تمام ملکی
امور پر بات ہوئی۔ ان میں سب سے اہم مسئلہ زائرین کے روٹ اور تفتان بارڈر والا مسئلہ تھا۔ علامہ راجہ ناصر عباس اس پورے روٹ کا وزٹ بھی کرچکے ہیں، تمام انتظامیہ سے بھی مل چکے ہیں۔ اس حوالے سے ہماری جو سفارشات تھیں، وہ ہم نے پیش کیں اور ہم نے مطالبہ کیا کہ ان پر فوراً عمل کیا جائے، تاکہ زائرین کی مشکلات کا ازالہ ہو۔ ٹارگٹ کلنگ کی ایک نئی لہر چلی ہے، جس میں بالخصوص ساہیوال اور دیگر علاقوں میں شیعہ ڈاکٹرز کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ایم ڈبلیو ایم کے سابقہ جنرل سیکرٹری کو ساہیوال میں ہی شہید کیا گیا۔ اس میں یہ ہوا کہ اس مسئلہ پر انکوائری کمیشن بٹھایا جائے، ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کی روک تھام، اس میں ملوث عناصر اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ تیسرا اہم نکتہ مسنگ پرسنز کا تھا۔ شیعہ مسنگ پرسنز کے ورثاء کی جانب سے حالیہ جو پریس کانفرنسز ہوئی ہیں اور یہ ورثاء ایم ڈبلیو ایم، تحریک جعفریہ سمیت دیگر شیعہ تنظیموں کے رہنماوں سے بھی ملے ہیں، علامہ حامد علی موسوی، علامہ جواد علی نقوی صاحب و دیگر سے ملے ہیں۔ ان ورثاء نے باقاعدہ نام لیکر کہا ہے کہ ہماری شنوائی کہیں نہیں ہوئی ہے۔ ہمارے معاملات کو کوئی نہیں دیکھ رہا، ہمارے بچوں کو لا انفورسمنٹ کے لوگوں نے بے گناہ اسیر کیا ہے، ان کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے اور یہ سلسلہ پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے۔ سندھ کے اندر بھی یہ مسئلہ بھی موجود ہے، چونکہ یہ بھی وزیر داخلہ کے انڈر میں آتا ہے اور ایک دن پہلے جسٹس جاوید اقبال کمیشن نے سوموٹو ایکشن لیتے ہوئے انتظامیہ کو نوٹس جاری کر دیئے تھے۔ اس تناظر میں ہم نے اس مسئلہ کو اٹھایا کہ جو بھی مسئلہ ہے اسے قانونی طریقے سے حل کیا جائے۔ قانون کا نام لیکر لاقانونیت نہ کی جائے۔

پاکستان میں سلامتی و استحکام کے حوالے سے کچھ ہماری تجاویز تھیں، جن پر بات ہوئی۔ اس کے علاوہ ایک اور مسئلہ غیر قانونی ہتھیاروں کے خاتمے کا ہے۔ جس کی ہم حمایت کر رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ پورے ملک کو غیر قانونی اسلحہ سے پاک کیا جائے اور اس کا آغاز قبائلی علاقے سے کیا جائے، مگر اس کے آغاز میں بداعتمادی کی فضا موجود ہے، کیونکہ اس کا آغاز جس قبائلی علاقے سے کیا گیا ہے، یہ وہ علاقے ہیں کہ جہاں پر اہل تشیع پر طالبان کی جانب سے حملے ہوئے ہیں اور انہوں نے غیر شیعہ علاقوں کو اپنے حملوں کیلئے استعمال کیا ہے۔ حکومت کی جانب سے اس کا آغاز جیسے کہ پاراچنار سے کیا گیا، یہ وہ علاقے ہیں کہ جس کی سرحد افغانستان سے ملی ہے، دوسری جانب داعش ہے۔ اگر وہاں سے حملے ہوتے ہیں تو مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔ اس کیلئے یہ تھا کہ پہلے وہ علاقے کہ جو خالصتاً دہشت گردی کا گڑھ اور دہشتگردوں کا ٹھکانہ رہ چکے ہیں، جیسے وزیرستان ہے، خیبر ایجنسی ہے، وہاں سے اس مہم کا آغاز کیا جائے۔ جو مراکز ہیں اسلحہ بنانے کے وہاں پہلے یہ آپریشن کیا جائے۔ آخری فیز میں ان علاقوں میں کارروائی کی جائے، جو دہشت گردوں کے مرکز
نہیں بلکہ دہشتگردوں کے نشانے پر ہیں اور اس طرح پورے ملک کو اسلحہ سے پاک کیا جائے۔ اس ملاقات کا یہ خلاصہ ہے، علاوہ ازیں پاکستان کی خارجہ پالیسی اور پاکستان میں وحدت اسلامی کے موضوع پر بات ہوئی ہے۔

اسلام ٹائمز: فاٹا سے ایف سی آر کے خاتمے اور خیبر پختونخوا میں ضم کرنیکے حوالے سے تیزی سے کام ہو رہا ہے، ایم ڈبلیو ایم کا اس مسئلہ پر کیا موقف ہے اور اسکی وجہ کیا ہے۔؟
سید ناصر علی شیرازی:
فاٹا کا سٹیٹس تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ایف سی آر کا جو کالا قانون ہے، اس کے خاتمے کی شدید ضرورت ہے۔ دو آپشنز ہیں کہ اس کو الگ صوبہ بنایا جائے یا خیبر پختونخوا میں ضم کیا جائے، تو مجلس وحدت مسلمین کا اس بارے میں موقف یہ ہے کہ اسے خیبر پختونخوا میں ضم کیا جائے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پشاور ایک ایسا دارالحکومت ہے کہ جو سب کے لئے قابل قبول ہوسکتا ہے، جبکہ دوسری صورت میں اگر فاٹا کو الگ صوبہ بنایا جائے تو اس میں دیگر مسائل کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس کا صدر مقام کون سا ہوگا۔ فرقہ وارانہ مسائل کی وجہ سے اس کا صدر مقام یقیناً متنازعہ ہوگا اور فاٹا کے اندر ہی ایک جگہ سے دوسری جگہ موومنٹ ہی نہیں ہوسکے گی۔ یہ ایک نیا مسئلہ اور تنازعہ ہوگا۔ ویسے بھی چھوٹے صوبوں کا احساس محرومی ختم کرنے کیلئے بھی ضروری ہے کہ خیبر پختونخوا کا وجود بھی بڑا ہوگا، اس کی آواز بھی سنی جائے گی اور محروم علاقے جیسے پارا چنار، کرم ایجنسی، صوبائی و وفاق میں انہیں آنے کا موقع ملے گا۔ چنانچہ بہتر یہی ہے کہ آبادی، رقبے اور مناسب نمائندگی کے ساتھ اسے خیبر پختونخوا میں ضم کیا جائے۔

اسلام ٹائمز: فافن کے سیشن میں آپ نے کہا تھا کہ انتخابات کو مزید شفاف اور نتیجہ خیز بنانے کیلئے آپکے پاس چند تجاویز ہیں، بیان فرمائیں۔؟
سید ناصر علی شیرازی:
فافن کے اجلاس میں پندرہ سیاسی جماعتیں شریک تھیں، جن میں مجلس وحدت مسلمین بھی شامل ہے۔ اس اجلاس میں ایم ڈبلیو ایم کا موقف پیش کرنے کا مجھے موقع ملا۔ بنیادی طور پر پارلیمانی کمیٹی کہ جو الیکشن ریفارمز کمیٹی ہے، جس میں 33 اراکین پارلیمنٹ، جن میں چھ، سات منسٹرز شامل ہیں، اس پر مشتمل ہے۔ اس کمیٹی کے مسودے کا جائزہ لینے کا موقع ملا اور اس میں جو سقم ہے، اس پر بات کرنے کا موقع ملا۔ انتخابی عمل کو بہتر بنانے کے حوالے سے اہم چیز ہم سمجھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کو مکمل طور پر خود مختار اور آزاد ہونا چاہیئے، خود الیکشن کمیشن کا اپنا انتخاب بھی اس طریقے سے ہونا چاہیے کہ جو الیکشن کمیشن کی آزادی اور غیر جانبداری کو برقرار رکھ سکے۔ سیاسی بنیادوں پر منتخب الیکشن کمیشن یہ کردار ادا کر ہی نہیں سکتا۔ لہذا الیکشن کمیشن کا قیام غیر سیاسی طریقے سے ہو۔ اس کے علاوہ جو مخصوص نشستیں ہیں، جن میں خواتین یا اقلیتی ہیں تو ان مخصوص نشستوں پر چنیدہ خاندانوں اور جماعتوں کو ہی نمائندگی ملتی ہے۔ عام خاتون ان مخصوص نشستوں سے استفادہ کر ہی نہیں سکتی۔ تو ان نشستوں کا
ان ڈائریکٹ الیکشن کرائیں۔ سیاسی جماعتوں کو کوٹہ سسٹم پر عملدرآمد کا پابند کیا جائے۔ جیسا کہ ابھی وفاقی کابینہ نے تجویز دی ہے کہ ہر پارٹی پانچ فیصد ٹکٹ خواتین کو جاری کرے۔ اس سے یہ ہوگا کہ خواتین کی ڈائریکٹ نمائندگی بڑھ جائے گی اور ان ڈائریکٹ تو کرپشن کا ایک راستہ ہے، جو اختیار کیا جاتا ہے۔ ہماری تیسری تجویز یہی تھی کہ ہم متناسب رائے کا حق استعمال کرنا چاہتے ہیں کہ جس میں پورا ملک ایک حلقہ انتخاب میں ہوتا ہے، اس میں جتنے ووٹ آپ لیتے ہیں، اس کے مطابق آپ کو سیٹس الاٹ ہوتی ہیں۔ ہم متناسب رائے نمائندگی کا اصول چاہتے ہیں کہ اسے اپنایا جائے، مگر ظاہر ہے کہ یہ ہماری تجویز تھی، اس کو اگر اپنایا جائے تو پورا سٹرکچر ہی بدل جائے گا۔

اسلام ٹائمز: آئندہ عام انتخابات میں ایم ڈبلیو ایم کیا کردار ادا کریگی۔؟ بلدیاتی انتخابات میں کیوں حصہ نہیں لیا۔؟
سید ناصر علی شیرازی:
مجلس وحدت مسلمین اپنا سیاسی سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہمیں توقع ہے کہ بلوچستان میں ہمارے استحکام میں اضافہ ہوگا۔ سندھ میں ایم ڈبلیو ایم بڑا مضبوط رول پلے کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ وہاں کی پولیٹیکل کونسل کے اجلاس ہوچکے ہیں۔ پنجاب میں کچھ مسائل ہیں، اس کے باجود علامہ راجہ ناصر عباس صاحب کے ابھی جو جنوبی پنجاب اور ملتان کے دورے بڑے کامیاب ہوئے ہیں۔ ابھی ہماری سیاسی ٹیم ملکی دورہ جات پر روانہ ہو رہی ہے۔ سیاسی عمل میں فیصلہ آپ کی وہ طاقت کرتی ہے کہ جسے آپ اپنی پولیٹیکل طاقت کہتے ہیں اور پولیٹیکل پاور آپ کے ووٹ کی طاقت ہوتی ہے۔ بہرحال پچھلے انتخابات میں ہم نے پورے ملک میں اپنی ایک ووٹ پاور شو کی ہے۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں ایم ڈبلیو ایم کی پولیٹیکل قوت کو تسلیم کرتی ہیں۔ ایم ڈبلیو ایم کا سیاسی سیل اپنے کام کو آگے جاری رکھے گا۔ ماحول سازی میں کامیاب ہوگا۔ چنانچہ اس سے یہ امکان ہے کہ مستقبل میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ یا اچھا پولیٹیکل الائنس قائم ہو جائے گا۔ بہرحال ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔ ہم جو حلقے منتخب کر رہے ہیں، وہاں پولیٹیکل ٹیموں کی تربیت، وہاں انتخابی منصوبہ بندی، ابھی اس فیز میں سیاسی شعبہ پوری تندہی سے کام کر رہا ہے۔ اسی تناظر میں دوست سندھ کے وزٹ پر بھی نکلے ہوئے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات میں ایک غلطی یہ ہوئی کہ اس حوالے سے تمام تر معاملات صوبوں کے پاس تھے، بلدیاتی انتخابات چونکہ صوبائی سیٹ اپ کے زیرانتظام تھے تو صوبے صحیح انداز میں کردار ادا نہیں کرسکے۔ بعض جگہوں پر کردار ادا کیا بھی ہے۔ جیسا کہ کوئٹہ پولیٹن میں کونسلرز کا تیسرا بڑا اتحاد ہمارے کونسلرز کا ہے۔ وہاں ہمارا ووٹ فیصلہ کن ہوتا ہے کہ جس کا بھی ساتھ دیں، وہی جیتتا ہے۔ پنجاب سے بھی ہمارے نمائندے منتخب ہوئے ہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جیسے کردار ادا ہونا چاہیے تھا نہیں ہوا، مگر امید ہے کہ اب برادران زیادہ بہتر انداز میں رول پلے کریں گے۔ ان شاء اللہ تعالٰی مثبت پیش رفت دیکھنے میں آئے گی۔
خبر کا کوڈ : 608019
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش