6
0
Thursday 23 Mar 2017 20:57
مسلم ریاست کے اندر کسی کو بھی یہ حق نہیں کہ وہ ریاست کے اندر یا باہر جہاد کا اعلان کرے

آج کا پاکستان ضیاءالحق کا پاکستان ہے، ہم قائداعظم کے پاکستان کے حصول کی جدوجہد کر رہے ہیں، علامہ ناصر عباس جعفری

پاکستان کے شیعہ سیاسی عمل دخل سے پاکستان میں کنارہ کش نہیں رہیں گے
آج کا پاکستان ضیاءالحق کا پاکستان ہے، ہم قائداعظم کے پاکستان کے حصول کی جدوجہد کر رہے ہیں، علامہ ناصر عباس جعفری
ممتاز عالم دین اور مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا تعلق راولپنڈی سے ہے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم مقامی اسکول اور کراچی میں حاصل کی اور دینی تعلیم جامعہ اہلبیت ؑ راولپنڈی سے حاصل کی۔ بعد ازاں اعلٰی دینی تعلیم کے حصول کیلئے حوزہ علمیہ قم تشریف لے گئے، جہاں عالم اسلام کے قابل فخر فقہا اور مجتہدین سے کسب فیض کیا۔ انیس برس قم میں حصول علم کے بعد 2002ء میں واپس پاکستان تشریف لے آئے اور اسلام آباد میں جامعہ ولایہ کے نام سے جدید ترین تعلیمی سہولیات سے آراستہ دینی درسگاہ کا قیام عمل میں لائے، جہاں طلباء دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم بھی حاصل کرتے ہیں اور طلباء کا تعلیمی معیار ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ لیول تک ہے۔ ملت جعفریہ پاکستان میں موجود مایوسی، سیاسی و معاشرتی محرومیوں کے خاتمے اور مکتب اہل بیت ؑ کی قومی داخلہ و خارجہ پالیسی میں نمایاں نقش اور رول ادا کرنے کیلئے نو برس قبل مجلس وحدت مسلمین (ایم ڈبلیو ایم) کے نام سے ملک گیر دینی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی، جس نے انتہائی قلیل عرصے میں زبردست مقبولیت حاصل کی۔ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری اتحاد و وحدت کے داعی ہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے اہلسنت کیساتھ بھی بہترین تعلقات استوار کرکے اتحاد بین المسلمین کا عملی مظاہرہ کیا۔ اسکے علاوہ ملت جعفریہ کو بھی ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ اسلام ٹائمز نے علامہ ناصر عباس جعفری سے  تکفیری بیانیہ، عالمی اور پاکستانی تشیع کے عنوان سے ایک انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: انتہاء پسندی و تکفیر پر مبنی بیانیہ نے کس طرح عالم اسلام کو نقصان پہنچایا ہے، نیز اسکا تدارک کیسے ممکن ہے اور کس طرح اس طبقے سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے، جو اس بیانیہ پر عمل کرتا ہے۔؟

علامہ راجہ ناصر عباس جعفری:
ہمیشہ سے انتہاء پسند طبقے نے اسلام کا نام لے کر خود اسلام اور مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچایا ہے، تاریخ میں اس کی مثال خوارج ہیں، جنہوں نے کلمۃ اللہ کے اجراء کے نام پر مسلمانوں اور اسلام کو انتہائی شدید نقصان پہنچایا۔ آج بھی جو انتہاء پسند طبقہ ہے، اس نے زبردستی اپنی مرضی اور رائے کو دوسروں پر مسلط کرنے کیلئے ایک تو تکفیر کا حربہ اپنایا، یعنی جو ان کی بات کو نہیں مانتا، ان کے انتہاء پسند نظریئے کو نہیں مانتا، اس سوچ کو قبول نہیں کرتا، اس کی تکفیر کرتے ہیں، اسے کافر قرار دیتے ہیں اور جہاد کا مسخ شدہ نظریہ اپنا کر اپنے انہی مسلمان بھائیوں کو قتل کرتے ہیں۔ لہذا ان کا یہ بیانیہ انتہاء پسندی کی بنیاد پر ہے، گمراہی کی بنیاد پر ہے، یہ اسلام کا بیانیہ نہیں ہے کہ ایک خدا کی پیروی کرنے والوں کو، ایک قرآن پڑھنے والوں کو، ایک قبلہ کی جانب رخ کرکے نماز پڑھنے والوں کو، ختم نبوت کے ماننے والوں کو کافر قرار دیں، پھر ان کے خلاف جہاد شروع کر دیں، یہ بیانیہ قرآن اور سنت کیخلاف ہے اور نواز شریف نے درست کہا ہے کہ اس بیانیہ کی بنیاد کے اوپر پوری دنیا میں مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے، مسلمان ممالک کو کمزور کیا جا رہا ہے، مسلم سوسائٹی کو کمزور کیا جا رہا ہے، اسے ٹکڑوں میں بانٹ کر اس کی طاقت کو توڑا جا رہا ہے اور اس کا فائدہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کو ہے، ایک تو یہ کہ اسلام کا تشخص برباد ہو رہا ہے، دوسرا یہ کہ مسلم معاشرے جو کمزور ہو رہے ہیں، تو اسلام دشمن قوتوں کو فائدہ ہو رہا ہے۔

ہمیں اسلام کا وہ بیانیہ لوگوں کے سامنے لانا ہوگا، جو غدیر کا بیانیہ ہے، جو ہمارے نبی اکرم (ص) کا بیانیہ ہے، جو قرآن و سنت کا بیانیہ ہے، جس بیانیہ کی بنیاد کے اوپر مسلمان دنیا کے مختلف ممالک میں زندگی گزارتے ہیں، اسی بیانیہ کی بنیاد پر ہی پاک و ہند کے مسلمان اکٹھے ہوئے اور ایک آزاد ملک حاصل کیا، اگر اس انتہاء پسند بیانیہ کو قبول کیا جاتا تو برصغیر کے مسلمان ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہوتے، ایک دوسرے کو کافر کہہ رہے ہوتے اور کبھی بھی ایک مسلم ملک حاصل نہ کر پاتے، اس گمراہ کن انتہاء پسند بیانیہ کی بنیاد پر وہ پاکستان کو ایک مسلکی ملک بنانا چاہتے ہیں، پاکستان سے مسلم ملک ہونے کا تشخص چھیننا چاہتے ہیں، لہذا ان کے مقابل جو دین محمدی کا بیانیہ ہے، وہ یہ ہے کہ تمام شہادتین پڑھنے والے، قبلہ رخ ہوکر نماز پڑھنے والے، اسلام کے بنیادی احکام پر ایمان رکھنے والے، قرآن کی تعلیمات رکھنے والے، یہ سارے مسلمان ہیں اور کسی انتہاء پسند طبقے کو حق حاصل نہیں کہ ان کے خلاف جہاد کا اعلان کرے اور ان کی تکفیر کرے، ہم ایک مسلم ریاست ہیں، ایک مسلم ریاست کے اندر کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ریاست کے اندر یا باہر جہاد کا اعلان کرے، لہذا یہ سارے کے سارے انتہاء پسند بیانیہ دین کے مقابلے میں ہیں، آج ہمیں اسی بیانیہ کی ضرورت ہے جو علامہ اقبال کا بیانیہ تھا، جو قائداعظم کا بیانیہ تھا کہ جس کی بنیاد پر ہم نے ایک آزاد مسلم ملک حاصل کیا تھا اور اسی بیانیہ کی بنیاد پر ہی پاکستان آگے بڑھے گا اور سبز ہلالی پرچم لہراتا رہے گا۔

اسلام ٹائمز: انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی، لبنان میں حزب اللہ کی نہضت کی صورت میں تشیع کی سربلندی، عراق، یمن و دیگر جگہوں پر تشیع کی نہضت و مقاومت ہم سب کے سامنے ہے، آپ موجودہ دور میں عالمی سطح پر تشیع کی تحریک و نہضت کو کس مقام پر دیکھ رہے ہیں۔؟

علامہ راجہ ناصر عباس جعفری:
غیبت کبریٰ کی ہماری جو جدوجہد ہے، یا یہ کہ 260 ہجری کے بعد سے جو ہماری جدوجہد ہے، یہ مختلف نشیب و فراز سے گزرتی رہی ہیں، انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد تشیع ایک نہضت اور تحریک کے عنوان سے بہت طاقتور ہوکر سامنے آئی ہے، یہ دنیا جس وقت تقسیم ہوکر شرق و غرب میں بٹ چکی تھی، کچھ مسلمان ممالک شیطان بزرگ امریکہ کے زیر اثر، جبکہ کچھ سووویت یونین (موجودہ روس) کے زیر اثر جا چکے تھے، بظاہر وہ سمجھتے تھے کہ جہان اسلام اپنی موت مر چکا ہے، اس دوران انقلاب اسلامی ایران کی صورت میں ایک عظیم انقلاب آیا، جس کی رہبری ایک مرجع دین نے کی، یہ انقلاب ان باطل قوتوں کے خلاف تھا کہ جنہوں نے مسلم اقوام کو ٹکڑوں میں بانٹا ہوا تھا، اس انقلاب اسلامی سے عالمی استعماری و استکباری قوتوں کے ظلم و ستم کے شکار مظلوموں، محروموں اور مستضعفین لوگوں کو ایک امید و حوصلہ ملا کہ سوویت یونین اور امریکہ کے مقابلے میں قیام کیا جاسکتا ہے، ان کو بھی شکست دی جاسکتی ہے، اپنے حقوق کو حاصل کیا جاسکتا ہے، انقلاب لایا جاسکتا ہے، خود ایران عراق جنگ نے یہ پیغام دیا کہ اگر کوئی قوم چاہے تو اپنے حقوق کیلئے ظالموں کے ساتھ لڑ سکتی ہے، لہٰذا پھر فلسطین میں، لبنان میں تحریک پیدا ہوئی، فلسطین میں جو مقاومت عرب قوم پرستی کی بنیاد پر چل رہی تھی، اس کو اسلامی، دینی اور خدائی رنگ مل گیا، اسی طرح سے جو صدام کے خلاف جدوجہد کرنے والے لوگ تھے، ان کو حوصلہ ملا، پوری دنیا میں لگ بھگ یہی صورتحال دیکھنے کو ملی۔ پاکستان میں بھی ایسا ہی ہوا، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تشیع عالمی استکباری و استعماری قوتوں کے مقابلے میں فرنٹ لائن پر آگئی اور ظلم و ظالم کے خلاف مبارزے کا پرچم مکتب تشیع کے ہاتھ میں آگیا، آج 37 سال گزرنے کے بعد دیکھیں کہ پوری دنیا میں یہ نہضت و تحریک جس کی رہبری امام خمینیؒ کر رہے تھے، آج بھی طاقتور حالت میں ہے۔

آج ایک جبہہ مقاومت وجود میں آچکا ہے، اس کے اندر دنیا کے مختلف ممالک ہیں، وہ بہت طاقتور ہے، انہوں نے لبنان میں صہیونی اسرائیل کو شکست دی ہے، اسرائیل جو نیل اور فرات کی باتیں کرتا تھا، آج اپنی سرحد کے گرد دیواریں کھڑی کرنے پر مجبور ہے، اسلامی مقاومت نے غزہ میں اسرائیل کو شکست دی ہے، شام میں اس بلاک نے دہشتگرد تکفیری عناصر کو شکست دی ہے، جن کی سرپرستی امریکہ، اسرائیل اور دیگر کئی عرب ممالک کر رہے تھے، یمن میں آج یمنی عوام اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرنے کیلئے امریکی، اسرائیلی اور سعودی نفوذ کے خلاف دو سال سے زائد عرصہ ہوگیا مقابلہ کر رہے ہیں، ظلم کے ساتھ ٹکراؤ کی حالت میں ہیں، جو اس اسلامی مقاومت کی مخالف باطل قوتیں ہیں، آل سعود اور انکے ہمراہی، اس وقت زمیں بوس ہو رہے اور شکست کھا رہے ہیں، لہٰذا پوری دنیا کے اندر بیداری ہے۔ اس اسلامی تحریک اور اس انقلاب کے نتیجے میں الحمدللہ پاکستان میں بھی اس وقت شیعہ ایک آواز رکھتے ہیں، ایک طاقت رکھتے ہیں، دشمن نے پوری کوشش کی کہ ان کو تنہا کرے، ان کی تکفیر کرکے انہیں شہید کرے، انہیں قادیانیوں کی طرح معاشرے میں منفور بنا دے، ان پر حملے کرکے انہیں ڈرا کر گھروں میں بٹھا دے، لیکن اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان میں بھی اس ظلم کے خلاف مقاومت موجود ہے، ظالموں کے سرپرستوں کے خلاف شیعہ بیدار ہیں، تشیع جتنی آج طاقتور ہے، گذشتہ چودہ سو سالوں میں کبھی نہیں تھی، مولا امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی حکومت کے بعد آج تشیع جتنی طاقتور ہے، اتنی کبھی نہیں تھی، یہ وہ تشیع ہے جو ولائی ہے، جو انقلابی ہے، جو ظہور امام زمانہ عج کیلئے جدوجہد کر رہی ہے، جو اس کی زمینہ سازی کر رہی ہے، آج اس کے پاس سیاسی طاقت ہے، معاشی طاقت ہے، سماجی طاقت ہے، عسکری طاقت ہے، میڈیا کی طاقت ہے، تعلیم و تربیت کے عظیم مراکز اس کے پاس ہیں، لہٰذا انقلاب اسلامی کی بدولت تشیع جتنی آج طاقتور ہے، پہلے کبھی بھی نہیں رہی۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کی تشیع کی اگر بات کریں تو آپ اس کو کہاں دیکھتے ہیں، خصوصاً انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد سے پاکستان میں اسکا کیا کردار ہے۔؟

علامہ راجہ ناصر عباس جعفری:
شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی کی قیادت سے پہلے پاکستانی تشیع کا عالمی تحریک سے اتنا خاص تعلق نہیں تھا، لیکن شہید قائد کے آنے کے بعد وہ بہت زیادہ عالمی تشیع کے قریب آگئی اور مکتب تشیع کے پیروکار بہت زیادہ تعداد میں انقلاب اسلامی کی جدوجہد کے ساتھ منسلک ہوگئے، یہاں کے جوانوں اور یہاں کے عام لوگوں میں انقلاب کی وجہ سے امام خمینی سے محبت تھی، اس محبت کو ایک سمت مل گئی، جس کی وجہ سے پاکستان کے لوگ بھی تشیع کی عالمی اسلامی تحریک و نہضت کا حصہ بن گئے، شہید قائد نے پاکستان میں عظیم اسلامی تحریک چلائی، جس سے خوفزدہ ہوکر دشمن نے یہ باور کر لیا کہ جمہوری اسلامی ایران کے بعد پاکستان میں شیعوں کی دوسری بڑی اکثریت پائی جاتی ہے، وہ خوفزدہ تھے کہ ایسی قیادت جو شہید قائد کی شکل میں ہے، انتہائی بہادر، شجاع، بابصیرت، مخلص، الٰہی قیادت اگر پاکستان میں موجود رہی تو پاکستان بھی لبنان اور ایران کی طرح عالمی استکبار کے ہاتھوں سے نکل جائے گا، لہذا عالمی استکباری قوتوں نے انہیں شہید کرا دیا، یہ سوچ کر کہ ان کو مار دینے سے یہ تحریک و نہضت مر جائے گی، لیکن شہید قائد نے جس اخلاص کے ساتھ پاکستان کی سرزمین پر مظلوموں کے پاک دلوں میں اس تحریک کے جو بیج کاشت کئے تھے، وہ نہیں ختم ہوئے، وہ زمین بنجر نہیں ہوئی۔

شہید کا راستہ آج بھی ہمارے سامنے زندہ ہے، شہید قائد کے معنوی فرزندوں نے پھر وہ پرچم اٹھایا اور ظالموں کو للکارا اور اپنی جدوجہد کا آغاز کر دیا، دشمن جو چاہتا تھا اسے نہیں کرنے دیا گیا، دشمن سمجھتا تھا کہ شہید کی شہادت سے یہ قوم مر جائے گی، آج اس قوم کے بہادر سپوت اس کے مقابلے میں میدان عمل میں حاضر ہیں، انہوں نے گذشتہ چند سالوں میں عظیم جدوجہد کی ہے، پاراچنار کا محاصرہ ٹوٹا ان کی جدوجہد کے نتیجے میں، اسی طرح سے بلوچستان سے ایک ظالم حکومت کا خاتمہ کیا، ظلم و ستم کے خلاف بولنا، خط ولایت اور خط شہید کو زندہ رکھنا اور نوجوان نسل میں منتقل کرنا، اب یہ سلسلہ پھر جاری ہوگیا ہے اور آگے بڑھ رہا ہے، پاکستان میں آج جو شیعی تحریک ہے، وہ دن بدن بہتری کی طرف بڑھ رہی ہے، آج ان کی آواز کو کوئی نہیں دبا سکتا۔ عاشورا محرم اور اربعین جو ہماری شناخت کے دن ہیں، دشمن چاہتا تھا کہ یہ ہم سے چھین لے، قوم نے نہیں چھیننے دیا، آج پاکستان میں شیعہ قوم پہلے کی نسبت دوبارہ سے اسی راستے پر چل نکلی ہے، جس راستے پر شہید قائد اس قوم کو آگے لیکر جا رہے تھے، یہ قافلہ رواں دواں رہے گا اور پاکستان کی سرزمین پر اس زمانے کے امام (عج) کے ظہور کی زمینہ سازی کرتا ہوا آگے بڑھتا رہے گا۔

اسلام ٹائمز: شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی نے کن کن امور کو ترجیحی بنیاد پر رکھا اور آج شہید کی روش کو زندہ رکھتے ہوئے کن امور کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔؟

علامہ راجہ ناصر عباس جعفری:
جیسے میں نے پہلے اشارہ کیا کہ شہید قائد نے امام خمینی کے انقلابی تفکر کو لوگوں تک پہنچایا اور لوگوں کو اس انقلابی تفکر کے ساتھ جوڑا، ظلم ستیزی کو رواج دیا، لیکن منظم شکل میں، مظلوموں کی حمایت کیلئے آواز اٹھائی منظم شکل میں، اخلاص، پاکیزگی، طہارت، قرآن کی تلاوت کو، نماز تہجد کو، دعاؤں اور مناجات کو، معنویت اور روحانیت کو رواج دیا، شہید قائد کی تحریک تزکیہ نفس کی تحریک تھی، شہید قائد کی بدولت ہمارے نوجوان قرآن کے قریب ہونا شروع ہوگئے، راتوں کو اٹھ کر تہجد پڑھنے والے بن گئے، دعائے کمیل نے رواج پایا، مناجات نے رواج پایا، خدائی رنگ لوگوں کے اندر گہرا ہونا شروع ہوگیا۔ شہید قائد کے لئے دشمن نے اندرونی رکاوٹیں کھڑی کی تھیں اور ان کے مقابلے میں ایک متبادل قیادت دی گئی تھی، شہید قائد نے چند سالوں کے اندر اندرونی رکاوٹوں کو عبور کیا اور مینار پاکستان میں قرآن و سنت کانفرنس منعقد کی، وہاں پھر اگلا مرحلہ قوم کو دیا کہ اس کے بعد ہم پاکستان کی سیاست میں دخالت کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری چند ذمہ داریاں ہیں، ایک انسان ہونے کے ناطے ہماری ذمہ داری ہے، پاکستانی ہونے کے ناطے سے ہماری ذمہ داری ہے اور ایک شیعہ مسلمان ہونے کے ناطے سے ہماری ذمہ داری ہے، ہم ہر حوالے سے پاکستان میں اپنے فرائض کو انجام دیں گے اور پاکستان کے شیعہ سیاسی عمل دخالت سے پاکستان میں کنارہ کش نہیں رہیں گے، باقاعدہ اس ملک کے اندر ایک سیاسی رول پلے کریں گے، ہمارے پاس وہ سیاسی افکار و اصول ہیں، جو اس معاشرے کو بحرانوں سے نکال سکتے ہیں۔ انہوں نے شیعہ سنی اتحاد کیلئے کام کیا، معاشرے کے اندر وحدت کے فروغ کیلئے کام کیا، شیعوں کے اتحاد کیلئے کام کیا، سب سے اہم اعلان جو شہید نے کیا کہ اس ملک کے سیاسی معاملات سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتے۔ دشمن نے ان کو جلد ہی راستے سے ہٹا دیا، کیونکہ شاید وہ یہ سمجھتا تھا کہ جو شخصیت اتنی جاذب ہے، شیعہ و سنی کو لے کر چل سکتی ہے، تمام مظلوموں کی مدد کرسکتی، جوانوں کو جذب کر رہی ہے، جس کا خدا کے ساتھ گہرا تعلق ہے، یہ اگر زندہ رہا اور آگر بڑھتا رہا تو پاکستان جو تیسری دنیا کا ایک اہم اسلامی ملک ہے، ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا، دشمن سمجھتا تھا کہ افراد کو مارنے سے نظریہ بھی مر جاتا ہے، ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ آج پاکستان کی سرزمین پر شہید قائد کے معنوی فرزندوں کا میدان میں مختلف شکلوں میں حاضر رہنا، اس بات کی دلیل ہے کہ شہید کا شجرہ طیبہ سرسبز و شاداب ہے، اس کے نتائج ان شاء اللہ اس قوم کو ضرور ملیں گے۔

اسلام ٹائمز: مجلس وحدت کس حکمت عملی کے تحت فعالیت انجام دے رہی ہے۔؟

علامہ راجہ ناصر عباس جعفری:
مجلس وحدت مسلمین کا جو سب سے پہلا کام ہے، وہ ایمرجنسی ہینڈلنگ ہے، یعنی فوری نوعیت کے ہنگامی اقدامات، جب پاکستان میں مسلسل واقعات ہو رہے تھے، قتل و غارت گری تھی، اس کیخلاف آواز بلند کرنا، تکفیر کے مقابلے میں قیام کرنا، شیعہ قوم کی سوشلائزیشن (socialization) کو بڑھانا، ان کی آواز میں طاقت پیدا کرنا، یہ پہلا مرحلہ ہے، لہذا اسی ایمرجنسی ہینڈلنگ کے ذریعے ہم نے کوئٹہ کی نااہل ظالم حکومت کو گرایا، ہم نے لانگ مارچ کئے، ہم نے اپنی مظلومیت کی آواز کو آگے بڑھایا، ہم نے اپنے شہیدوں کو فراموش نہیں ہونے دیا، پاکستان میں ستر ہزار شہید ہیں، لیکن اہل تشیع شہداء کے علاوہ اس ملک میں کسی کی بات نہیں ہوتی ہے، ہم نے اپنے شہیدوں کی مظلومیت کو دبنے نہیں دیا اور عوامی جدوجہد کے ذریعے اس کو طاقت میں بدلا، لہٰذا مجلس وحدت مسلمین نے یہ بنیادی کام کئے ہیں، آج پاکستان میں ہماری آواز کو پہچانا جاتا ہے، لوگ ہماری نسل کشی پر ہمارے حق میں آواز بلند کرتے ہیں، اگر ان شہیدوں کو زندہ نہ رکھا جاتا تو لوگ انہیں بھول جاتے، ہماری مظلومیت کو لوگ فراموش کر دیتے اور ہمیں بھی دہشتگردوں کے ساتھ کھڑا کر دیتے، جیسے کہ ہمارے دشمن کی پوری کوشش بھی یہی تھی، الحمداللہ ان کے منصوبوں کو بڑی حد تک ہم نے ناکام بنا دیا ہے، تو ایمرجنسی ہینڈلنگ ہمارا پہلا قدم ہے، یہ ہماری شارٹ ٹرم (short term) جدوجہد ہے۔

ہماری دوسری ترجیح یہ ہے کہ پاکستان کا جو حقیقی بیانیہ (Narrative) تھا کہ جس کی بنیاد پر پاکستان بنا ہے، اس کو زندہ کرنا، پاکستان کو ایک مسلکی ملک نہ بننے دینا، ایسے پاکستان کا احیاء کرنا کہ جس کے اندر تعصب اور تفرقہ نہ ہو، قائداعظم اور علامہ اقبال کے پاکستان کا احیاء کرنا۔ کیونکہ آج کا پاکستان قائداعظم کا پاکستان نہیں بلکہ ضیاء الحق کا پاکستان ہے، ہمیں قائداعظم کا پاکستان چاہیئے، جس میں میرٹ کی بنیاد پر لوگوں کو ان کے حقوق ملیں، ہر کوئی آزادی سے زندگی گزارے۔ یہ ہماری مڈٹرم (mid-term) جدوجہد ہے۔ ہماری لانگ ٹرم (Long Term) جدوجہد ظہور امام زمانہ (عج) کی زمینہ سازی کیلئے کام کرنا، لوگوں کو متصل کرنا امام عصر (عج) کے ساتھ، اس حوالے سے بھی کام کرنا۔ ہماری شارٹ اور مڈٹرم جدوجہد بھی ہماری اسی لانگ ٹرم جدوجہد کا حصہ ہے، جو اس ہی کیلئے زمینہ مہیا کرتی ہے۔

اسلام ٹائمز: اس حوالے سے شیعہ قوم سے کیا توقع رکھتے ہیں۔؟

علامہ راجہ ناصر عباس جعفری:
امام زمانہ کے ظہور (عج) کیلئے جدوجہد کرنے والوں سے کوئی بھی شیعہ لاتعلق نہیں رہ سکتا، اگر یہ آواز لوگوں تک پہنچے اور پیغام ان تک پہنچایا جائے تو لوگ اس کیلئے بھی ضرور اٹھیں گے، اس کے لئے تنظیمی افراد کی ذمہ داری زیادہ بنتی ہے کہ وہ عوام تک اپنا پیغام پہنچائیں۔

اسلام ٹائمز: موجودہ حساس ملکی اور عالمی حالات کے تناظر میں علمائے کرام کی ذمہ داری کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟

علامہ راجہ ناصر عباس جعفری:
ان شاء اللہ علماء کرام جو مساجد و مدارس میں مختلف حوالوں سے اپنی ذمہ داری انجام دے رہے ہیں، موجودہ زمانے کے حالات کو درست سمجھیں گے، انتہائی بصیرت کے ساتھ اور دشمن شناسی، حالات سے باخبری، اپنی ذمہ داری کا تعین اور اسے انجام دینے کیلئے ان شاء اللہ پہلے سے زیادہ تگ و دو کریں گے، تاکہ اس وطن کے اندر مظلوم قوم ظالموں کے مقابلے میں کامیاب ہو، حق کا پرچم بلند ہو اور ظلم اور باطل کا پرچم سرنگوں ہو۔

اسلام ٹائمز: انیس سال بعد پاکستان میں مردم شماری ہو رہی ہے، عوام کو کیا پیغام دیں گے۔؟

علامہ راجہ ناصر عباس جعفری:
مردم شماری بڑی اہمیت کی حامل ہے، اس میں ملک بھر کے عوام کو دلچسپی لینی چاہیئے، یہ ملک کیلئے بنیادی اہمیت کی حامل ہے، اس کے بغیر منصوبہ بندی نہیں ہوسکتی، نہ ہی سیاسی حقوق مل سکتے ہیں، نہ ہی معاشی حقوق مل سکتے ہیں، لوگوں کے بنیادی حقوق بھی نہیں مل سکتے، ملک ترقی کے راستے پر گامزن نہیں ہوسکتا، لہٰذا عوام کو پوری سنجیدگی کے ساتھ مردم شماری کو کامیاب و شفاف بنانے کے حوالے سے اپنا بھرپور کردار کرنا چاہیئے اور حکومت کو بھی چاہیئے کہ درست اعداد و شمار پر کام کرے، ورنہ یہ مردم شماری متنازعہ ہو جائے گی، عوام کا اربوں روپیہ ضائع ہو جائے گا اور یہ اس قوم کے ساتھ خیانت ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 620748
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
ماشاء اللہ۔ اچھی گفتگو ہے۔ تکفیری بیانیہ نے واقعی اسلام کو جو نقصان پہنچایا ہے، اس کی تلافی کیلئے سالوں کی محنت درکار ہے۔
Pakistan
علامہ صاحب ضیاء الحق کے پاکستان سے نجات اور علامہ اقبال کے پاکستان کی بحالی کا واحد کا راستہ نظام ولایت میں پوشیدہ ہے۔ جس کے روح رواں اس دور میں فرزند انقلاب استاد جواد نقوی ہیں۔
Pakistan
میرے بھائی صرف تقریروں کی حد تک تو آپ کی بات کسی حد تک ٹھیک ہے، لیکن عملی میدان میں آپ نے یہ بات کرکے خود اپنا ہی مذاق اڑایا ہے۔
Pakistan
دنیا بھر میں شیعہ طاقتور ہو رہے ہیں، لیکن افسوس پاکستان میں شیعوں کے آپس کے اختلافات نے انہیں پستی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے، سیاسی حوالوں سے جب تک شیعوں میں آپسی اتحاد نہ ہو، شاید مجلس وحدت کی کوششیں بھی ایک کوشش ہی رہ جائیں گی۔
Pakistan
ایک سوال ہے کہ آیا مجلس وحدت کے پاس اگلے سالوں کا کوئی منصوبہ ہے، یا پھر وہی پچھلے آٹھ سالوں کی طرح صرف تقریروں سے ہی کام چلانا ہے۔
Pakistan
علامہ صاحب قائداعظم کا پاکستان تو 71ء میں بنگلہ دیش کی قیام کے بعد ختم ہوچکا ہے اور اب شاید دوبارہ بن بھی نہیں سکتا۔ آج کا پاکستان رقبہ کے لحاظ سے ذوالفقار علی بھٹو کا پاکستان ہے اور نظریاتی اعتبار سے یہاں آج بھی ضیاءالحق کی اجارہ داری ہے۔
ہماری پیشکش