0
Friday 24 Mar 2017 23:03
چین اور پاکستان یک جان ہیں

دہشتگردوں کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنیکا فارمولا مغربی طاقتوں کی ایجاد ہے، ڈاکٹر محمد غوث نیازی

متبادل بیانیے کی تیاری نیشنل ایکشن پلان کا بنیادی نکتہ ہے
دہشتگردوں کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنیکا فارمولا مغربی طاقتوں کی ایجاد ہے، ڈاکٹر محمد غوث نیازی
سینیٹر غوث محمد نیازی پاکستان مسلم لیگ نون خوشاب کے سربراہ ہیں، 2015ء میں سینیٹ کی جنرل سیٹ سے سینیٹ کے ممبر منتخب ہوئے۔ 1986ء میں پنجاب سے ایم بی بی ایس مکمل کرنے بعد سے میڈیکل کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کیساتھ ساتھ سیاست میں بھی فعال ہیں۔ خارجہ امور، علاقائی سیاست اور بین الاقوامی تعلقات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ سینیٹ آف پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی، انفارمیشن اینڈ براڈ کاسٹنگ، قومی ورثہ، واٹر اینڈ پاور اور نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشنز اینڈ کوارڈینشین کمیٹیز کے ممبر کا اسلام ٹائمز کیساتھ انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: بھارت اور چین کے درمیان پیچیدہ تعلقات اور چین کیخلاف نئی امریکی انتظامیہ کا جارحانہ عمل خطے کے حالات کو متاثر کر رہا ہے، پاکستان کی پالیسی کیا ہونی چاہیے۔؟
ڈاکٹر محمد غوث نیازی:
صدر ٹرمپ کے دور میں پاکستان کیلئے موسم ناموافق نظر آتا ہے۔ ہم بھی سفارتی تعلقات کے موسموں کی اونچ نیچ اور شدت سے بے نیاز، آخری لمحات میں احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہیں۔ ٹرمپ بھی اسوقت تقسیم شدہ امریکہ کے مسائل و مشکلات سے دوچار ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ ٹلرس ٹوکیو، سیول اور بیجنگ کے ایشیائی دارالحکومتوں کے دورے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ بحر چین میں چین، امریکہ کشیدگی کا ماحول موجود ہے۔ اسی طرح کرنسی، تجارت، توازن ادائیگی کے علاوہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت امریکہ کیلئے تشویش اور توجہ کا باعث ہے۔ یہ سمجھنا اس لئے ضروری ہے کہ چین کے بارے میں صدر ٹرمپ جو حکمت عملی طے کریں گے، اس کا براہ راست اثر پاکستان پر بھی پڑیگا۔ امریکہ کی نظر پاکستان، چین اور روس کے تعلقات کی نئی تثلیث پر ہے۔ اسی تناظر میں امریکی محکمہ خارجہ کے ماہرین ٹرمپ انتظامیہ کی ترجیحات، سی آئی اے اور پینٹاگان کے بڑھتے ہوئے رول کو بھی پیش نظر رکھ کر پاکستان سمیت مختلف ممالک بارے امریکی پالیسی کو حتمی شکل دیں گے۔ اس سال 23 مارچ کو یوم پاکستان کے موقع پر چین کے فوجی دستوں اور ترکی بینڈ کی شرکت رسمی خیر سگالی کا مظہر ہیں اور یہ خطے میں بدلتے رجحانات و تعلقات کی ترجمانی بھی ہے۔ ایک دور تھا جب ماسکو اور کمیونزم کے خلاف پاکستان امریکہ کا مضبوط ترین اتحادی، بڈھ بیر کے خفیہ بیس، سیٹو اور سینٹو جیسے معاہدے، خفیہ آپریشنز، صدر ریگن کے دور میں افغان جہاد سمیت پاکستان کی خارجہ اور دفاعی پالیسی میں ماسکو کو ایک دشمن کی حیثیت حاصل تھی۔ اب ماسکو ہمارا دوست دارالحکومت شمار ہونے لگا ہے۔ اب دیکھیں جنوبی ایشیاء میں تعلقات کی ترجیحات میں اس پاکستانی تبدیلی کے ردعمل میں امریکی پالیسی کیا سمت اختیار کرتی ہے۔

اسلام ٹائمز: صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر افغانستان میں ڈرونز کے استعمال کی اجازت دی ہے، اب یہ اختیار سی آئی اے کو دینے کے کیا مقاصد ہوسکتے ہیں۔؟
ڈاکٹر محمد غوث نیازی:
جہاں تک ڈرون حملوں کا تعلق ہے، صدر اوباما کے دور میں بھی امریکہ کی ڈرونز حکمت عملی پاک، امریکہ تعلقات کیلئے پیچیدہ معاملہ رہا ہے۔ لیکن یہ سب جانتے ہیں کہ مشرف حکومت اور زرداری حکومت کے ادوار میں خود پاکستانی قیادت ڈرونز حملوں کے معاملے میں اپنے عوام سے غلط بیانی سے کام لیتی رہی ہے۔ ڈرون حملے مشرف حکومت کے علم اور منظوری سے پاکستانی سرزمین پر ہوتے تھے، لیکن اسلام آباد کی جانب سے ان حملوں کی مذمت اور اس پر احتجاج ایک عوامی رسم پوری کرنے تک محدود تھا۔ امریکی موقف یہ رہا کہ جب پاکستانی سرزمین پر دہشت گردوں کے خلاف ڈرونز حملے معلومات کے تبادلے کے بعد کئے جاتے ہیں تو پھر احتجاج کیسا؟ اب ایک بار پھر صدر ٹرمپ نے پینٹاگان کے علاوہ سی آئی اے کو بھی اتھارٹی دی ہے کہ وہ مشتبہ دہشت گردوں کو ڈرونز حملوں سے نشانہ بناسکتی ہے۔ افغانستان میں امریکی فوجی دستوں اور مشیران کی موجودگی، امریکی مفادات اور دہشت گردی کی موجودگی کے باعث سی آئی اے کو مشتبہ دہشت گردوں کے خلاف ڈرونز کے استعمال کا اختیار پاکستان کیلئے بھی ایک اضافی چیلنج ہوسکتا ہے۔ بھارت بھی مقبوضہ کشمیر کی کنٹرول لائن کے پار امریکی ساخت کے ڈرونز استعمال کرنے کی حکمت عملی اپنا رہا ہے۔ جنوبی ایشیا میں تین ممالک کی سرحدوں کے آرپار امریکی ڈرونز کا یہ کنفیوژن علاقے میں امن کیلئے خطرہ ثابت ہوسکتا ہے، کیونکہ پنٹاگان کی فوجی حکمت عملی کی ضرورت کے مقابلے میں سی آئی اے کے ڈرونز استعمال کرنے کی ضروریات اور وجوہات مختلف ہوسکتی ہیں۔ دو ایٹمی ممالک اور تین ہمسایہ ممالک کی سرحدوں کے آرپار کشیدگی کے اس ماحول میں ڈرونز کے استعمال کے اس نئے اضافی اختیار سے صورتحال کشیدہ اور پیچیدہ ہوسکتی ہے۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ ٹرمپ دور میں امریکہ کیلئے بھارت ایک طے شدہ ترجیح ہے اور پاک امریکہ تعلقات میں چین، امریکہ تعلقات کی نوعیت کو بھی ایک اہم فیکٹر کی حیثیت اس لئے حاصل رہے گی کہ اب پاکستان چین کا اتحادی ہے۔

اسلام ٹائمز: مسلم لیگ نون ہمیشہ جہادی رجحانات رکھنے والی جماعتوں کے قریب رہی ہے، وزیراعظم کیطرف سے نئے بیانیے کی ضرورت سے متعلق بیانات کے کیا محرکات ہیں۔؟
ڈاکٹر محمد غوث نیازی:
وزیراعظم نے ذاتی طور پر اپنی تقریر میں جن عوامل کی نشاندہی کی ہے، تمام علماء اور اسکالرز اس کی تائید کرتے ہیں۔ خون کی ہولی کھیلنے والوں کا اسلام سے کیسے تعلق ہوسکتا ہے، بعض لوگوں نے اپنے مذموم مقاصد کے لئے دین کو یرغمال بنا رکھا ہے، دشمن کے ہاتھ ٹوٹ گئے، جیسے ابولہب کے ہاتھ ٹوٹے تھے اور وہ معاشرہ مسلم کہلانے کا مستحق نہیں، جس میں مسلکی اختلافات کی وجہ سے انسان قتل ہوں، جہاں اقلیتیں خود کو غیر محفوظ سمجھیں اور جہاں مذہب اختلاف اور تفرقے کا سبب بنے۔ اب اچھے اور برے طالبان کا دور ختم ہوچکا، کھیتوں میں بارود بویا جائے تو پھول نہیں کھلتے، دہشت گردی کی بنیادیں انتہا پسندی میں ہیں۔ وہ انتہا پسندی جو دین کے نام پر پھیلائی جاتی ہے، جس کا ایک مظہر فرقہ واریت ہے اور دوسرے مظہر میں جہاد کے تصور کو مسخ کیا گیا اور خدا کے نام پر بے گناہوں کے قتل کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ یہی وہ بیانیے ہیں جنہوں نے انتہا پسند پیدا کئے، پہلے مسلمانوں کی تکفیر کی گئی اور پھر ان کے قتل کو جائز قرار دیا گیا، اس کے لئے ضروری ہے کہ ان بیانیوں کی غلطی کو واضح کیا جائے اور ایک نیا بیانیہ جاری کیا جائے۔ لوگوں نے آج ہم پر بندوقیں تانی ہوئی ہیں اور جن کے نشانے پر ہمارا ملک، سوسائٹی اور ہمارا نظام ہے، ان کے ہاتھوں میں 30 سال پہلے اس وقت کی ریاست نے بندوقیں تھمائی تھیں، اس وقت مقاصد مختلف تھے، لیکن کسی نے نہیں سوچا تھا کہ یہ بندوقیں ہم پر ہی تانی جائیں گی، کسی کو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ ان لوگوں کو سزائیں دینے کے لئے ہم قانون سازی اور آئین میں ترمیم کریں گے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ پی ایم ایل این مذہبی جماعتوں کے قریب رہی ہے، وہ اب بھی ہے اور تمام مذہبی جماعتوں نے وزیراعظم کی نئی پالیسی اور خیالات کی تائید کی ہے، کسی کو اس سے اختلاف نہیں رہا کہ دہشت گردی کیلئے مذہب کا نام استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ اسلام کے نام پر دہشت گردی اور فرقہ وارانہ قتل و غارت کا سلسلہ پاکستان سمیت کئی مسلم ملکوں میں برسوں سے جاری ہے، دہشت گرد اور مسلک پرست تنظیموں کو خودکش حملوں اور دوسرے طریقوں سے خوں ریزی اور ہلاکت خیزی پر آمادہ ہو جانے والی افرادی قوت اس یقین کی بنیاد پر حاصل ہوتی ہے کہ اس انسانیت سوز کارروائی کے مرتکب اللہ کی رضا پائیں گے اور سیدھے جنت میں جائیں گے۔ مسلک پرست دہشت گرد تنظیموں کی فکری قیادتیں اپنے گمراہ کن نظریات کو درست ثابت کرنے کیلئے قرآن و سنت سے اسی طرح غلط طور پر استدلال کرتی ہیں، جو ڈیڑھ ہزار سالہ اسلامی تاریخ کے مختلف ادوار میں ابھرنے والے متعدد بھٹکے ہوئے گروہوں کا وتیرہ رہا ہے۔ تاہم علمائے حق نے ایسے تمام گروہوں کے گمراہ کن نظریات کو قرآن و سنت کی تعلیمات کی حقیقی روح اور اصل منشاء کی روشنی میں واضح کرکے ان کا ایسا مؤثر سدباب کیا، جس کے بعد مسلم معاشروں میں ان کے پنپنے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہی اور وہ کچھ مدت میں اپنی موت آپ مرگئے۔

آج بھی مسلم دنیا میں دہشت گرد کارروائیوں کو اللہ کی خوشنودی کے حصول کا ذریعہ ثابت کرنے کیلئے باقاعدہ ایک فکر اور فلسفہ رائج کیا گیا ہے، لیکن قرآن و سنت کے احکام کی درست تشریح کی روشنی میں اس فکر اور فلسفے کی غلطی کو واضح کرنے کیلئے اب تک نہ علماء اور دینی اسکالروں کی جانب سے کوئی نمایاں کوشش منظر عام پر آئی ہے، نہ حکومتی سطح پر اس سمت میں کوئی قابل ذکر پیش رفت دیکھی گئی ہے، حالانکہ اس متبادل بیانیے کی تیاری نیشنل ایکشن پلان کا ایک بنیادی نکتہ بھی ہے۔ تاہم یہ امر اطمینان بخش ہے کہ آپریشن ردالفساد کے ساتھ ساتھ وزیراعظم نے دہشت گردی اور مسلک پرستی کے خاتمے کیلئے امن و آشتی کے علمبردار دین کی حقیقی تعلیمات کے مطابق متبادل بیانیے کی تیاری کا مطالبہ علمائے کرام کے سامنے رکھ دیا گیا ہے، امید ہے کہ تمام مکاتب فکر کے علمائے حق اس ضرورت کی تکمیل کیلئے آگے بڑھیں گے اور حکومت ان کے تعاون سے اس ہدف کے حصول کو جلد از جلد ممکن بنانا آسان ہوجائیگا۔

اسلام ٹائمز: دہشتگردی کی آگ تو مغرب تک پھیل چکی ہے، لندن میں ہونیوالے دہشتگردی کے حالیہ واقعہ کے کیا اثرات ہوسکتے ہیں۔؟
ڈاکٹر محمد غوث نیازی:
یہ حملے ان دنوں میں ہوئے جب برطانوی وزیر داخلہ پاکستان کے دورے پر تھیں، حملہ آور کے بارے میں تمام معلومات موجود ہیں، برطانوی خفیہ ادارے نے اس شخص کو پہلے بھی گرفتار کیا تھا، داعش اس قسم کے ہر واقعہ کی ذمہ داری قبول کر لیتی ہے، لیکن اب تک کی معلومات کے مطابق حملہ آور کا کسی بین الاقوامی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں، داعش اس حملے کو اپنے کھاتے میں اس لئے ڈال رہی ہے کہ وہ اس بات کا کریڈٹ لینا چاہتی ہے کہ وہ جمہوریت کے قلب، یعنی لندن میں، پارلیمنٹ پر بھی حملہ کروا سکتی ہے، حالانکہ یہ شخص اکیلا تھا، اس کے پاس ایک چاقو تھا، اس نے گاڑی کو بطور ہتھیار استعمال کرکے لوگوں کو مارا ہے، داعش کا اس سے کوئی تعلق نہیں، یہاں پہلے بھی سخت سکیورٹی تھی، اس واقعہ کے اثرات تو ہوں گے، قانون سازی بھی ہوگی اور پابندیاں بھی لگیں گی، مسلمانوں پر اور بوجھ پڑے گا اور ان کی آمدورفت، مسجد میں جانا اور حجاب وغیرہ تمام سرگرمیوں کو مانیٹر کیا جائے گا۔ ایک حقیقت اب مغرب کو سمجھنا چاہیے کہ دہشت گردی کا تعلق کسی مذہب سے نہیں جوڑا جا سکتا، اس کا تعلق فقط خاص ذہنیت سے ہے، دوسرا مخصوص سیاسی مقاصد کیلئے دہشت گردوں کا استعمال کرنیکا رجحان مغرب سے ہی شروع ہوا اور اب بھی عالمی طاقتیں دہشت گردوں کی سرپرستی کر رہی ہیں۔

اسلام ٹائمز: بھارت افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کیخلاف سازشوں کو عملی جامہ پہنا رہا ہے، سی پیک جیسے منصوبے تاخیر کا شکار ہیں، انڈیا کو منہ توڑ جواب دینے کی حکمت عملی سے گریز کیوں برتا جا رہا ہے۔؟
ڈاکٹر محمد غوث نیازی:
خطے میں امن کیلئے افغانستان اور پاکستان دونوں ممالک میں امن ضروری ہے۔ حکومت کی پوری توجہ ترقی اور خوشحالی کیلئے جاری منصوبوں کی تکمیل پر ہے۔ پاکستان کے اندر اور باہر بیٹھے ہوئے دشمن اس میں روڑے اٹکا رہے ہیں۔ جس طرح ملک کے اندر دہشت گردی اور بدعنوانی کو ختم کیا جا رہا ہے، اسی بیرونی چیلنجز کا بھی مقابلہ کیا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ میں پاک چائینہ اقتصادی راہداری اور خطہ میں ترقی کے حوالہ سے قرارداد کی منظوری بہت اہم اقدام ہے۔ امریکہ افغانستان چھوڑ دے اور بھارت کشمیریوں کا حق خود ارادیت تسلیم کرلے تو پورا خطہ پرامن ہوگا اور ترقی کرے گا۔ اسی طرح حکومت نے قبائلی علاقوں میں اصلاحات کا عمل تیز کر دیا ہے، فاٹا کے عوام محب وطن، بہادر، غیور اور پاکستان کے بااعتماد بازوئے شمشیر زن ہیں۔ پوری قوم کو فاٹا کے عوام پر فخر ہے، لیکن یہ بڑا المیہ ہے کہ 2700 کلو میٹر پر محیط اور ایک کروڑ بیس لاکھ آبادی پر مشتمل فاٹا انگریز کے دور کے فرسودہ نظام کے تحت غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، جدید دور میں بھی فاٹا سرزمین بے آئین ہے۔ وفاقی حکومت فاٹا اصلاحات بلاتاخیر نافذ کرنا چاہتی ہے، فاٹا کو اب اندرونی اور بیرونی دوہرے ظلم سے نجات ملنی چاہیے۔ جب ہم افغانستان کی بات کرتے ہیں تو یہ ضروری ہے کہ فاٹا کے لوگوں کو ان کے حقوق دیئے جائیں، وہاں تعلیم، صحت کے تمام مواقع موجود ہوں، انہیں قومی دھارے میں شامل کیا جائے، تاکہ اس بات کا کوئی امکان نہ رہے کہ پسماندگی، غربت اور محرومی کی وجہ سے دشمن ہمارے بھائیوں کو ہمارے خلاف اکسا سکے۔ بھارت سمیت تمام دشمنوں کیلئے بہترین جواب یہی ہے کہ سی پیک کا کام رکا نہیں، پاکستان کو تنہا کرنے کی تمام سازشیں اور دعوے جھوٹ ثابت ہوئے ہیں، پاکستان کے قومی دن کے موقع پر چین، ترکی اور سعودی عرب کے دستوں کی موجودگی یہ ثابت کرنیکے لئے کافی ہے کہ اسلامی دنیا اور چین جیسے ہمسایہ ملک پاکستان کیساتھ یک جان ہیں۔
خبر کا کوڈ : 621160
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش