0
Sunday 23 Apr 2017 17:59
شیعہ پرامن اور محب وطن قوم ہے

دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، علامہ حمید حسین امامی

ہمیں تحفظ فراہم کرنا حکومت اور فوج کی ذمہ داری ہے
دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، علامہ حمید حسین امامی
علامہ حمید حسین امامی کا تعلق پارا چنار سے ہے۔ وہ شیعہ علماء کونسل اور اسلامی تحریک خیبر پختونخوا کے صوبائی صدر ہیں، وہ میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد علامہ شہید عارف حسین الحسینی کے مدرسہ جعفریہ میں دینی تعلیم کے حصول کیلئے گئے اور 6 سال تک علامہ عارف حسین الحسینی اور سید عابد حسینی کی شاگردی اختیار کرنے کے بعد انہوں نے مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئے ایران کے شہر قم المقدسہ کا رخ کیا اور 14 سال تک وہاں تعلیم حاصل کی، اس دوران انہیں آیت اللہ فاضل  لنکرانی، آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی، آیت اللہ مشکینی اور آیت اللہ جوادی آملی کی شاگردی کا اعزاز حاصل ہوا، انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری قم سے حاصل کی، 1996ء کے اواخر میں وطن واپس آئے اور اسلامی تحریک کیساتھ وابستہ ہوگئے، 2 سال سے ایس یو سی خیبر پختونوا کے صوبائی صدر ہیں۔ اسلام ٹائمز کے نمائندے نے ان سے خیبر پختونخوا میں امن و امان اور انکی جماعت کی پالیسی کے متعلق گفتگو کی، جو قارئین کے پیشِ خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: پچھلے دنوں ہنگو میں امن کمیٹی کے رکن پر قاتلانہ حملہ ہوا اور حملہ آور بھی پکڑا گیا، اس کیس میں کیا پیشرفت ہوئی ہے اور حملہ آور کون لوگ تھے۔؟

علامہ حمید حسین امامی: 14 اپریل کو جمعہ کے روز ہنگو کے مین بازار میں سپاہ صحابہ کے رفیع اللہ نام کے ٹارگٹ کلر نے صبح 9 بجے کے قریب امن کمیٹی کے ممبر اور شیعہ رہنماء ظہیر حسین پر فائرنگ کی، جس سے وہ زخمی ہوگئے، نتیجے میں ظہیر حسین کے پولیس گارڈز کی جوابی فائرنگ سے حملہ آور زخمی ہوگیا اور پولیس نے نہ صرف اسے بلکہ اس کے ساتھی کو بھی گرفتار کر لیا، ایک ہفتے کے بعد 20 اپریل کو زخمی ٹارگٹ کلر ہلاک ہوگیا، یا پھر اسے مروا دیا گیا، افسوسناک بات یہ ہے کہ ہنگو شیعہ سپریم کونسل کے ممبر کے قاتل  ٹارگٹ کلر کا جنازہ علی الاعلان بازار میں لوگوں نے پڑھا اور ہنگو بازار کو زبردستی بند کرا دیا گیا۔ اب ہنگو کی سنی سپریم کونسل یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ ایک امن کے قاتل اور امن کے دشمن رفیع اللہ کے مرنے کی ایف آئی آر شیعہ رہنماؤں کے خلاف درج کی جائے، مقامی انتظامیہ پسِ پردہ قاتلوں کی طرفداری کر رہی ہے، اس وقت ہنگو کے پرامن حالات انتہائی کشیدہ ہوچکے ہیں، ایک بات یہاں واضح کرتا چلوں کہ جب یہ واقعہ رونما ہوا تو اس وقت مقامی انتظامیہ کا رویہ ہمارے ساتھ اچھا تھا، لیکن جب مبینہ ٹارگٹ کلر رفیع اللہ ہلاک ہوگیا تو اس کے بعد سے انتظامیہ کا رویہ ہمارے ساتھ ٹھیک نہیں ہے، بظاہر ایسا لگ رہا ہے جیسے یہ کسی کے دباؤ میں آگئے ہیں۔ 22 اپریل کو ہم ہنگو اور کوہاٹ کے مشران ایک جگہ جمع ہوئے اور مل کر یہ فیصلہ طے پایا کہ اگر ہمارے خلاف کسی قسم کی کارروائی کی گئی تو ہم اعلٰی سطح پر اس مسئلے کو اٹھائیں گے۔

اسلام ٹائمز: امن و امان کی بحالی کیلئے خیبر پختونخوا میں شیعہ علماء کونسل کا کیا کردار رہا ہے۔؟
علامہ حمید حسین امامی:
الحمدللہ ہماری شیعہ قوم ایک پرامن اور محب وطن قوم ہے، شروع سے لیکر اب تک جہاں بھی، جس اسٹیج پر ہم گئے، چاہے وہ مجلس کا ہو یا نماز جمعہ کا، ہم نے اپنے خطبات میں دہشتگردی کی مذمت کی ہے، ہم پاک فوج کی ہر طرح سے حمایت کرتے ہیں اور ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں، چھوٹی سی مثال دیتا چلوں کہ تازہ ترین ابھی مردان میں عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشال خان کے قتل کا واقعہ پیش آیا، ہم مشال خان کے گھر گئے، وہاں ان سے تعزیت کی اور ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی۔ امن و امان کے حوالے سے ہمارا موقف بالکل واضح ہے کہ ہم دہشتگردوں پر اور جو ملک کے دشمن ہیں، فوج کے دشمن ہیں، ان پر علی الاعلان لعنت بھیجتے ہیں، کوئی بھی شخص ہو چاہے وہ کسی بھی فقہ یا کسی بھی تنظیم سے تعلق رکھتا ہو، اگر وہ پاکستان کی سرزمین سے دشمنی کرتا ہے تو ہم اس کے خلاف ہیں، ہم نے ہمیشہ امن کی بات کی ہے۔

اسلام ٹائمز: پچھلے دنوں پاراچنار میں انتہائی افسوسناک واقعہ پیش آیا، حکومت سے جو مذاکرات طے پائے تھے، کیا اس میں آپکا کوئی نمائندہ شریک تھا؟ اور جو مطالبات حکومت کے سامنے رکھے گئے تھے، کیا ان پر عمل درآمد ہوا؟ پاراچنار کے لوگ پاک فوج کیجانب سے کھودی گئی خندق کی مخالفت کر رہے ہیں، اس پر بھی روشنی ڈالیں۔؟
حمید حسین امامی:
جی بالکل میں اسی وقت پاراچنار پہنچ گیا تھا، حکومت سے مذاکرات کیلئے جو کمیٹی تشکیل دی گئی، اسمیں میں خود بھی شریک تھا، پولیٹیکل ایجنٹس اور ایف سی کے کمانڈر سے ہم نے مطالبات کی منظوری تحریری شکل میں لی۔ شیعہ علماء کونسل کی مقامی اور صوبائی کابینہ نے ہر طرح سے انتظامیہ کے ساتھ تعاون کیا، لیکن افسوس کہ حکومت کے کارندوں نے صرف امن کی یقین دہانی کرائی، ابھی تک کسی قسم کا کوئی عملی کام دیکھنے میں نہیں آیا ہے، خندق کے موضوع کے بارے میں صحیح رائے دینا مشکل ہے، اس کے بارے میں ماہرین ہی کچھ بتا سکتے ہیں، کیونکہ ہم نہیں سمجھتے کہ خندق کھودنے سے دہشتگردوں کا راستہ بند کیا جا سکتا ہے، اس سے صرف یہ ہوگا کہ شہر اور آس پاس کے علاقوں میں فاصلہ پیدا ہوگا اور آبادی تقسیم ہو جائے گی اور ضرورت کے وقت بھی شہر کے لوگوں کا ایکدوسرے سے رابطہ اور رسائی مشکل ہو جائے گی، اب سوال یہ ہے کہ فوج اور وہاں کی پولیٹیکل انتظامیہ کیا یہ مخلصانہ قدم اٹھا رہی ہے؟ اس سلسلے میں مزید کچھ بھی کہنا ابھی قبل از وقت ہے، کیونکہ ہمیں حقیقت معلوم نہیں۔ پاک آرمی یہ بتانے سے انکار کر رہی ہے کہ اس خندق کو کھودنے کا مقصد کیا ہے۔

اسلام ٹائمز: آپکی نظر میں خیبر پختونخوا اور بالخصوص پاراچنار کو کس طرح سے پرُامن بنایا جا سکتا ہے۔؟
علامہ حمید حسین امامی:
یہ تو حکومت اور فوج کا کام ہے کہ ان علاقوں میں کس طرح سے عوام کو تحفظ فراہم کیا جائے، ابھی پاراچنار، اورکزئی ایجنسی، ھنگو، کوہاٹ کے علاوہ ہر جگہ داعش کا خطرہ موجود ہے، اس لئے ہم بار بار حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ آپ ہمیں تحفظ دیں، لیکن حکومت ہمیں تحفظ دینے کی بجائے اُلٹا ہمیں ہی دھکمیاں دے رہی ہے کہ اسلحہ جمع کراؤ، جبکہ ہمارے پاس کسی قسم کا کوئی اسلحہ موجود نہیں، جو پاکستان کی سلامتی کے خلاف یا پاکستان کے پرامن لوگوں کے خلاف استعمال ہو یا پھر ہوا ہو، اگر کسی کے گھر میں کوئی اسلحہ موجود بھی ہے تو وہ صرف اپنے گھر کے تحفظ اور اپنی جان کی حفاظت کیلئے رکھا ہوا ہے۔ اگر پاک فوج اس بات کی یقین دہانی کرا دے کہ ہم ہر طرح سے آپ کی حفاظت کا ذمہ لیتے ہیں تو ہم اسلحہ تو کیا گھر میں موجود چاقو چھری بھی ان کے حوالے کرنے کیلئے تیار ہیں۔

اسلام ٹائمز: اہلِ تشیع کی دو ہی بڑی جماعتیں ہیں، شیعہ علماء کونسل اور مجلس وحدت مسلمین، لیکن یہ دونوں بھی اکٹھی نظر نہیں آتیں، ایسا کیوں ہے۔؟
علامہ حمید حسین امامی:
ایک بات یہ واضح کر دوں کہ پاکستان میں جتنی بھی شیعہ تنظیمیں ہوں، اہلِ تشیع کی پہلی اور اصل تنظیم ہماری ہی ہے، جو مفتی جعفر حسین، علامہ عارف حسین الحسینی سے ہوتی ہوئی علامہ سید ساجد علی نقوی تک آ پہنچی۔ باقی جتنی بھی تنظیمیں ہوں، کسی کو کوئی پریشانی نہیں ہے، ہم سب ایک ہیں، ایک ہی مولا علیؑ کے ماننے والے ہیں، اہلیبیتؑ کے چاہنے والے ہیں، جتنی بھی تنظیمیں ہوں، ہمارے مشترکات ہیں اور جہاں تک یہ بات ہے کہ ہم الگ ہیں اور ایم ڈبلیو ایم الگ ہے تو یہ غلط ہے، ہم ایک ہیں، ہم سب کا مقصد ایک ہی ہے، وہ لوگ جو بھی کام کرتے ہیں، قوم کی خاطر کرتے ہیں، اور جو ہم کرتے ہیں، وہ بھی قوم اور مذہب کی خاطر کرتے ہیں۔ ان مشترکات میں کسی قسم کے کوئی اختلافات نہیں ہیں اور نہ ہی ہم ایک دوسرے سے دور ہیں۔

اسلام ٹائمز: پچھلے دنوں علماء شیعہ کانفرنس کے موقع پر علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ ہم علامہ ساجد علی نقوی کیساتھ چلنے کیلئے تیار ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ آپکی جماعت انکو تسلیم نہیں کرتی۔؟
علامہ حمید حسین امامی:
یہ بات صحیح نہیں ہے کہ علامہ ساجد علی نقوی ان کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں، ساجد علی نقوی آج بھی تیار ہیں، کل بھی تیار تھے اور آئندہ بھی تیار رہیں گے۔ راجہ ناصر صاحب کی کچھ شرائط ہیں، ان شرائط کی وجہ سے کوئی بھی شخص ان کے ساتھ نہیں چل سکے گا، راجہ ناصر ساجد علی نقوی کو قائد تسلیم کریں اور کہیں کہ آپ ہمارے قائد بھی ہیں، آپ ہمارے رہبر بھی ہیں، آپ دیکھیں گے کہ قائد محبوب ایک مدبر، خبیر اور مفکر انسان ہیں، لیکن علامہ راجہ ناصر کا موقف یہ ہے کہ ہم آپ کے ساتھ چلتے ہیں مگر شرائط پر، تو وہ شرائط پھر شائد ہمارے لئے قابل قبول نہ ہوں۔

اسلام ٹائمز: علامہ راجہ ناصر عباس کی ایسی کون سی شرائط ہیں، جو آپ کیلئے قابل قبول نہیں۔؟
علامہ حمید حسین امامی:
اس سوال کا جواب تو ہمارا مرکزی سیکرٹری جنرل ہی دے سکتا ہے، میرے خیال سے ابھی یہ سب بتانا مناسب نہیں ہوگا، البتہ ایک شرط کا علم مجھے ہے، وہ یہ کہ ان کا کہنا ہے کہ ہم قائد کو قائد تو مانتے ہیں، لیکن کام ہم کریں گے تو میرے خیال سے یہ مناسب نہیں ہے، آپ علامہ راجہ ناصر سے انٹرویو لے لیں اور کہیں کہ خدا کیلئے قائد کو قائد تسلیم کریں تو تبھی یہ سارے مسائل حل ہونگے۔
خبر کا کوڈ : 630147
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش