0
Saturday 4 Aug 2018 17:37
ہم بلوچستان میں گورننس سسٹم کو بہتر بنائینگے

محمود خان اچکزئی کو ووٹ دینے کوئی نہیں نکلا تو دھاندلی کیخلاف احتجاج میں انکی حمایت کون کریگا، منظور احمد کاکڑ

اگر بی این پی اور ایم ایم اے اپوزیشن میں بیٹھے تو پھر بھی ہمارے لئے قابل احترام ہونگے
محمود خان اچکزئی کو ووٹ دینے کوئی نہیں نکلا تو دھاندلی کیخلاف احتجاج میں انکی حمایت کون کریگا، منظور احمد کاکڑ
منظور احمد کاکڑ بلوچستان عوامی پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل ہیں۔ اس سے قبل وہ پشتونخوامیپ کے سابق رکن بلوچستان اسمبلی و صوبائی وزیر ریونیو بھی رہے ہیں۔ منظور احمد کاکڑ کا تعلق کوئٹہ سے ہے۔ وہ گذشتہ دو عشروں سے سیاسی میدان میں فعالیت کیساتھ اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ 2007ء میں وہ کوئٹہ سٹی کے نائب ناظم منتخب ہوئے اور ضلعی حکومت کے اختتام تک عہدے پر فائز رہے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں پشتونخوامیپ کے ٹکٹ پر پی بی 6 سے کامیاب ہوئے۔ بلوچستان اسمبلی سیکرٹریٹ میں وزیراعلٰی نواب ثناء اللہ زہری کیخلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہوئی اور 13 جنوری کو قائد ایوان کے انتخابی عمل میں منظور احمد کاکڑ نے اپنا ووٹ میر عبدالقدوس بزنجو کے حق میں دیا۔ پشتونخوامیپ کے چیئرمین محمود خان اچکزئی نے منظور احمد کاکڑ پر فلور کراسنگ کا الزام لگاتے ہوئے الیکشن کمیشن سے انہیں نااہل کرنے کی درخواست کی۔ بعدازاں الیکشن کمیشن نے انہیں آئین کے آرٹیکل 63A کے تحت نااہل قرار دیدیا تھا۔ اسکے بعد منظور احمد کاکڑ نے بلوچستان عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی اور اس جماعت کے مرکزی سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ بلوچستان میں ہونیوالے حالیہ انتخابات، بلوچستان عوامی پارٹی کی آئندہ حکومت سازی اور دیگر معاملات سے متعلق ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے انکا ایک مختصر انٹرویو کیا، جو قارئین کیلئے پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: بلوچستان میں حکومت سازی سے متعلق اب تک کیا پیشرفت ہوپائی ہے۔؟
منظور احمد کاکڑ:
چونکہ ہم نے وفاق میں پاکستان تحریک انصاف کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے، اسی لئے بلوچستان میں بھی پی ٹی آئی کے امیدوار ہماری حمایت کرینگے۔ اس کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) نے بھی پریس کانفرنسز کے ذریعے بی اے پی کی حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے سردار اختر مینگل اور مولانا عبدالغفور حیدری سے بھی اس سے متعلق بات چیت کی ہے۔ حکومتی تشکیل تو نمبر گیم کے ذریعے ہوگی، لیکن ہمیں یہ بات ذہن میں رکھ لینی چاہیئے کہ کسی بھی حکومت کو چلانے کیلئے ایک مثبت اپوزیشن بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ہمارا معاشرہ بدقسمتی سے اپوزیشن کو ایک بہت بڑے دشمن کے طور پر دیکھتا ہے، لیکن ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیئے۔ ہم نے بی این پی (مینگل) اور ایم ایم اے کو بھی حکومتی تشکیل کیلئے دعوت دی ہیں، اگر وہ ہمارے ساتھ آنا چاہیں تو صحیح، وگرنہ اپوزیشن میں بھی یہ جماعتیں ہمارے لئے اتنی ہی محترم رہیں گی۔

اسلام ٹائمز: پاکستان مسلم لیگ (ن) سمیت دیگر جماعتوں نے اپوزیشن الائنس بنایا ہے۔ اس میں بلوچستان سے پشتونخوامیپ اور جمعیت بھی شامل ہے۔ مستقبل قریب میں اس الائنس کا اثر وفاق اور بلوچستان پر کس حد تک پڑیگا۔؟
منظور احمد کاکڑ:
مسلم لیگ (ن) اپنی مرکزی قیادت کیخلاف ہونے والی کارروائیوں کے بعد اس چیز کی متحمل نہیں ہوسکتی تھی کہ مزاحمت کا راستے اپنائے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی نے بھی پارلیمنٹ کا حصہ بن کر ایک ذمہ دار سیاست کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ گرینڈ الائنس حکومت کی تشکیل کے بعد زیادہ سے زیادہ ایک مہینے تک میڈیا میں رہے گا، اس کے بعد اس کا کردار آہستہ آہستہ زائل ہوتا جائے گا۔ جہاں تک بات جمعیت کی ہے، تو ان کے حوالے سے مجھے ڈر ہے کہ آخر میں مولانا فضل الرحمان صاحب خود اپنی اس تحریک میں تنہا نہ رہ جائیں، کیونکہ اب تک صوبہ بلوچستان سے ایم ایم اے کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے امیدواروں نے ایسا کوئی عندیہ نہیں دیا کہ وہ مولانا فضل الرحمان کے کہنے پر بلوچستان سے مستعفی ہو جائیں گے اور حکومت کے خلاف تحریک چلائین گے۔ اسی طرح محمود خان اچکزئی صاحب کی ماضی میں اتنی خراب کارکردگی تھی کہ ان کے اپنے ووٹرز انہیں ووٹ ڈالنے کے لئے گھروں سے بھی نہیں نکلے۔ لہذا موجودہ دھاندلی کے الزام میں محمود خان اچکزئی کے ورکرز کیسے اپنے گھروں سے نکلیں گے۔؟

اسلام ٹائمز: بلوچستان عوامی پارٹی نے مرکز میں پی ٹی آئی کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا ہے۔ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ بلوچستان کے دیرینہ مسائل کے حل کیلئے آپکو عمران خان صاحب کے سامنے اپنے مطالبات رکھنے چاہیں تھے۔؟
منظور احمد کاکڑ:
عمران خان صاحب نے انتخابات جیتنے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں بلوچستان کا ذکر کیا، جو کہ اس صوبے کیلئے انتہائی خوش آئند بات ہے۔ بلوچستان کے حوالے سے ذکر کرنا، انکی نیک نیتی کا ثبوت ہے۔ ہماری جماعت نے پی ٹی آئی کی غیر مشروط حمایت کا اعلان اس لئے کیا ہے، کیونکہ عمران خان کو پہلے سے ہی بلوچستان کا درد ہے اور وہ اس صوبے کے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری کوشش ہوگی کہ ہم مل بیٹھ کر ایک دوسرے کے مسائل کو سنیں اور انہیں حل کرنے کیلئے باہمی اقدامات کریں۔ اب حمایت سے قبل شرائط رکھنا، اس بات کو ظاہر کریگا کہ ہمیں پی ٹی آئی پر اعتماد نہیں۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان میں دہشتگردی اور بیروزگاری کے بعد سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے۔ اس حوالے سے بلوچستان عوامی پارٹی کی کیا حکمت عملی ہوگی۔؟
منظور احمد کاکڑ:
سب سے بنیادی سوال تو یہ ہے کہ پانی کیوں نہیں ہے۔؟ اگر پانی ہے تو موجود کیوں نہیں اور اگر موجود ہے تو وہ پانی صاف کیوں نہیں۔؟ کوئی بھی پارٹی اپنے منشور کو دنیا کے بہترین تعلیمی اداروں سے بنوا لیں، لیکن جب تک اس منشور پر عملدرآمد کیلئے آپ کی ایڈمنسٹریشن فعال نہیں ہوتی، تب تک اس منشور پر عملی اقدامات اٹھانا ممکن نہیں ہوتا۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے منشور کے پہلے صفحے پر یہ لکھا ہے کہ گورننس کا بہترین نظام ہمارے پاس ہونا چاہیئے۔ اب اس گڈ گورننس کو حقیقت بنانے کیلئے حکومت کو مخلص ہونے کی ضرورت ہے۔ خلوص کے بعد حکومت کے پاس اتنی قابلیت ہونی چاہیئے کہ وہ اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنا سکے۔

اسلام ٹائمز: ماضی کی حکومتیں بھی یہی کہتی آئی ہیں کہ بلوچستان کے پاس زیادہ وسائل موجود نہیں، اسی صلاحیت کی کمی کیوجہ سے ہم پیچھے رہے ہیں۔ یعنی جب حکومت میں ہوتے ہیں تو یہ گلے نہیں کرتے، لیکن جب حکومت سے باہر آجاتے ہیں تو گلے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔؟
منظور احمد کاکڑ:
بلوچستان کی جتنی بھی سیاسی جماعتیں ہیں، انہیں چلانا ایک الگ چیز ہے اور حکومت کو چلانا الگ بات ہے۔ بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کے پاس گورننس سیٹ اپ نہ ہونے کے برابر ہے۔ آپ سیاسی طور پر اپنے نظریات کی ترویج بہترین انداز میں کرتے ہیں، لیکن جب اس سیٹ پر خود بیٹھ جاتے ہیں تو اسے چلانے کیلئے ہمارے پاس پروگرام نہیں ہوتا۔ اس کے دو طریقے ہوتے ہیں کہ اگر آپ کے پاس قابلیت ہو، تو آپ اس پر عملدرآمد کروا سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ کے پاس قابلیت نہیں تو باہر سے لوگوں کو لانا پڑتا ہے۔ اس حکومت کے اندر بھی ایسے لوگ موجود ہیں، جن میں یہ قابلیت موجود ہے، لیکن بدقسمتی سے انہیں ایک طرف لے جایا جاتا ہے۔ ہماری سیاسی جماعتیں صرف ان افراد کو قریب لاتی ہیں، جو انکے ذاتی یا پارٹی مفادات کو آگے لے جا سکیں۔ بلوچستان کی بیوروکریسی میں ایسے افراد موجود ہیں، جن میں کچھ کرنے کی صلاحیت ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی ایسے افراد کو آگے لائے گی اور ان پر نگرانی بھی کرے گی، تاکہ کوئی غلط کام نہ کریں۔

اسلام ٹائمز: جو افراد اسوقت بلوچستان عوامی پارٹی میں شامل ہیں، وہ سالوں سے منتخب ہوکر اقتدار کا حصہ رہے ہیں۔ ماضی میں اگر نمائندے صحیح طور پر ڈیلور نہیں کرسکے تو مستقبل میں کیسے کر پائینگے۔؟
منظور احمد کاکڑ:
سیاسی طور پر آپ کو ایک چیز سمجھنی ہوگی کہ بلوچستان میں جو بھی سیاسی جماعتیں رہی ہیں، ان میں ون مین شو کا رجحان رہا ہے۔ یعنی وفاق میں چاہے مسلم لیگ (ن) کی حکومت رہی ہو، پیپلز پارٹی کی یا خود بلوچستان میں قوم پرست جماعتیں حکومت میں رہی ہوں، یہاں پر ہمیشہ ایک شخص کی اجارہ داری رہی ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کی خوبصورتی یہی ہے کہ ہم اپنا ہر کام مشاورت سے کرتے ہیں اور یہاں کسی ایک شخص کی بات حرف آخر نہیں ہوتی۔ اسی لئے اب جو امیدوار اس جماعت میں شامل ہوئے ہیں، وہ اپنی بات اس پارٹی کے توسط سے منوا سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنماء سراج رائیسانی پر خودکش حملہ ہوا۔ اس واقعے کا ذمہ دار آپ انتظامیہ کی نااہلی کو سمجھتے ہیں یا خود سیاسی جماعتوں کی بھی کوتاہیاں اس حوالے سے ہیں۔؟
منظور احمد کاکڑ:
سیاسی جلسوں کی تمام تر معلومات انتظامیہ کو نہیں دی جاسکتی، کیونکہ ایک دن میں آپ کو پانچ سے چھ جگہوں پر جلسہ کرنا پڑتا ہے۔ یہ تو انتظامیہ کی  ذمہ داری ہے کہ وہ امیدوار کے ساتھ سکیورٹی اہلکار تعینات کریں اور اس کے ہر جلسے کو محفوظ بنائے۔ دہشتگردی کے واقعات کو روکنا کسی سیاسی جماعت کا کام نہیں، بلکہ انتظامیہ کا کام ہوتا ہے۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں سکیورٹی سے لیکر دیگر انتظامی معاملات کی صورتحال کافی ابتر ہے۔ آپکی جماعت ان چیزوں کو صحیح کرنے کیلئے کیا پروگرام رکھتی ہے۔؟
منظور احمد کاکڑ:
اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں صفائی سے لیکر بڑے بڑے مسائل حل طلب ہے، لیکن جب تک آپ کے اپنے حکومتیں عہدیداران وہاں پر اپنی حاضری کو ممکن نہیں بناتے، تب تک مسائل ویسے ہی رہینگے۔ اگر بلوچستان کا وزیراعلٰی چھ مہینے میں ایک مرتبہ، چیف سیکرٹری تین مہینے میں ایک مرتبہ اور اس علاقے کا ڈی سی ہر ہفتے اپنے علاقوں میں ایک چکر لگائے تو وہاں پر اسٹیٹ کی رٹ موجود ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ ہمیں ہر جگہ اپنی موجودگی کو ممکن بنانا ہوگا، تاکہ نہ صرف کوئٹہ بلکہ پورے بلوچستان میں گورننس کو بہتر بنایا جاسکے۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان میں اگر بلوچ وزیر ہو تو وہ پشتون آبادی کو نظر انداز کرتا ہے اور اگر پشتون وزیر ہو تو بلوچ علاقوں کو نظرانداز کرتا ہے۔ اس چیز کو آپ کیسے ٹھیک کرینگے۔؟
منظور احمد کاکڑ:
بلوچستان میں بننی والی سیاسی جماعتیں قومیت، لسانیت یا مذہب کے نام پر تقسیم ہوکر بنی ہیں۔ اب جن جماعتوں کو بھی موقع ملا، انہوں نے تنگ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے سیاسی نعرے کے مطابق کام کیا۔ مجموعی طور پر پورے بلوچستان کے مفاد کو نہیں دیکھا گیا۔ بلوچستان عوامی پارٹی واحد جماعت ہے، جو اس تنگ نظری کی سیاست کے بغیر بنی ہے۔ ہماری جماعت میں ایک بھی ایسا نعرہ نہیں، جس کی وجہ سے لوگ زبان، قومیت، رنگ و نسل کی وجہ سے تقسیم ہوں۔ اسی طرح جب ہماری حکومت آئے گی تو ہماری پالیسی بھی یہی ہوگی۔ ہمارے منشور میں یہی بات شامل ہے کہ ہم پسماندہ اضلاع کو ترقی یافتہ اضلاع کے برابر لائینگے۔ وفاق نے گذشتہ پانچ سالوں میں پاکستان پر 5 ہزار ارب روپے خرچ کئے، اس رقم میں سے بلوچستان کو 320 ارب روپے ملے ہیں۔ اتنی کم رقم سے بلوچستان میں کیسے تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔؟

اسلام ٹائمز: بلوچستان میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، ثناء اللہ زہری، اختر مینگل اور دیگر سابق وزرائے اعلٰی کا یہی رونا ہے کہ کام کرنے کیلئے حکومتی مدت پوری ہونے نہیں دی گئی۔ جب بلوچستان میں سالوں سے یہی مسئلہ ہے، تو آگے ہم کیسے ترقی کرپائینگے۔؟
منظور احمد کاکڑ:
جب کوئی بھی سیاسی جماعت الیکشن کیلئے حصہ لیتی ہے، تو اسے حکومت میں آنے سے پہلے ہی اپنی تیاری مکمل کر لینی چاہیئے۔ ہمارا مسئلہ یہی ہے کہ ہم حکومت میں آنے کے بعد اپنی ترجیحات کی فہرست بناتے ہیں، جس میں سالوں کا عرصہ گزر جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں ترقیاتی کاموں یعنی پی ایس ڈی پی فنڈز میں شامل پرانے پروجیکٹس کو نکال باہر کرنا چاہیئے۔ پی ایس ڈی پی میں گذشتہ پندرہ یا بیس سالوں کے پروجیکٹس بھی شامل ہیں، جو کہ کبھی بھی مکمل نہیں‌ ہوپائینگے۔ لہذا ہمیں اپنی ترجیحات پہلے سے بنا لینی چاہیئے، تاکہ حکومت میں آتے ہی اپنا کام شروع کرسکیں۔
خبر کا کوڈ : 742402
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش