0
Friday 21 Dec 2018 12:12
ہماری باہمی رسہ کشی سے صرف اور صرف دشمن کو فائدہ ہوتا ہے

مسلمانوں کی سربلندی و کامرانی کیلئے دشمن شناسی لازمی امر ہے, مولانا سید تقی آغا عابدی

دشمن اسلام ہمارے درمیان تفرقہ و نزاع ایجاد کرنیکی سازشوں میں سرگرم ہے
مسلمانوں کی سربلندی و کامرانی کیلئے دشمن شناسی لازمی امر ہے, مولانا سید تقی آغا عابدی
مولانا سید تقی آغا عابدی کا تعلق بھارتی ریاست حیدرآباد دکن سے ہے، وہ 2002ء سے ہندوستان میں اپنی دینی و سماجی ذمہ داریاں انجام دے رہے اور مختلف دینی، سماجی و سیاسی سرکردہ تنظیموں سے جڑے ہوئے ہیں، اسوقت بھی یونائیٹڈ مسلم فورم کے جنرل سیکرٹری ہیں، جو ہندوستان بھر میں مختلف مذہبی و مسلکی مکاتب فکر کے علماء کرام کا مشترکہ پلیٹ فارم ہے، یہ فورم غیر سیاسی ہوتے ہوئے سیاسی پارٹیوں کی رہنمائی کرتا ہے، اسکے علاوہ وہ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین سے بھی وابستہ ہیں، مولانا سید تقی رضا عابدی (تقی آغا) حیدر آباد میں مسلم پرسنل بورڈ کے نمائندے بھی ہیں، مجلس علماء ہند کی حیدر آباد کی نمائندگی بھی انکے پاس ہے، وہ 2015ء کے اوائل سے انٹرنیشنل مسلم یونٹی کونسل کے چیئرمین بھی ہیں، اسکے علاوہ وہ شیعہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن حیدرآباد کے روح رواں بھی ہیں، اسلام ٹائمز کے نمائندے نے مولانا سید تقی آغا عابدی سے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: معاشرہ سازی میں علماء کرام کی ذمہ داریاں کیا بنتی ہے۔؟
مولانا سید تقی رضا عابدی:
علماء حق کی ذمہ داری ہے کہ وہ وقت کے تقاضوں کو سمجھیں، ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھیں، ایک دوسرے کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ علماء کرام کا آپس میں ہم خیال ہونا ضروری ہے۔ ہم مسلک بننے سے زیادہ مہم ہم خیال بننا ہے۔ علماء کرام کو چاہیئے کہ دشمن کی سازشوں سے مکمل آگہی رکھیں۔ اخلاقی کمزوریوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ قرآن کا خصوصی خطاب اہل ایمان کے لئے ہے۔ اہل ایمان پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اصلاح معاشرہ میں اپنا کلیدی رول ادا کریں۔

اسلام ٹائمز: مسلمان میں پائے جانیوالے اختلاف کیوجہ جاننا چاہیں گے۔؟
مولانا سید تقی رضا عابدی:
دیکھیئے ابھی بھی مسلمان دشمن شناس نہیں ہے، مسلمانوں کی سربلندی و کامرانی کے لئے دشمن شناسی لازمی امر ہے۔ دوسری اہم چیز وہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں انتشار کی بنیادی وجہ مسلمانوں میں پائے جانے والی اخلاقی گراوٹ ہے۔ اتحاد بین المسلمین اتحاد بین المومنین کے مقابلے میں اس لئے بھی آسان ہے کیونکہ اتحاد بین المسلمین اخلاقی گراوٹوں کو دور کرنے سے آسانی سے ممکن ہوسکتا ہے۔ ان اخلاقی کمزوریوں کو دور کرنا بھی علماء کرام کی ہی ذمہ داری ہوتی ہے۔ مسلمانوں کو چاہیئے کہ ایک دوسرے کی خامیوں کو معاف کریں اور ایک دوسرے کی غلطیوں کو اچھالا نہ جائے۔ ہماری باہمی رسہ کشی سے صرف اور صرف دشمن کو فائدہ ہوتا ہے۔ اس وقت ہم عمامے والے ٹوپی والوں کے خلاف اور ٹوپی والے عمامہ والوں کے خلاف محاذ کھولے ہوئے ہیں، کیا اس سے کبھی ہمیں کوئی فائدہ ہاتھ آسکتا ہے، ہاں دشمن ضرور فائدہ میں ہے۔ ہمیں اپنی طاقت کو اپنے خلاف نہیں بلکہ دشمن کو کمزور کرنے کے لئے اکٹھی کرنی چاہئیے۔ اپنے اپنے دوسرے بھائیوں کو لیکر آگے چلنا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: مسلمانوں کے درمیان ایک مشترکہ پلیٹ فارم کے قیام کی کتنی ضرورت ہے۔؟
مولانا سید تقی رضا عابدی:
مسلمانوں کے درمیان ایک مشترکہ پلیٹ ہونا بہت ضروری ہے، جہاں سے ان کے مشترکہ معاملات و مسائل کی نشاندہی ہوسکے اور ان مسائل کے حل کے حوالے سے ایک روڈمیپ تیار کیا جائے۔ جتنی ہماری صفیں مضبوط ہو جائیں گی، اتنی اسلام دشمن طاقتیں ناکام ہوتی جائیں گی۔ ہم متحد ہونگے تو دشمن اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل میں کامیاب نہیں ہوسکتا ہے۔ ہم ایک دوسرے کے لئے استعمال نہ ہوں، یہ اہم ترین بات ہے۔ ابھی آپ اپنے کشمیر کو ہی دیکھ لیجیئے کہ وہاں میں مسلمان ہی مسلمانوں کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں، جو تشویشناک بات ہے۔

اسلام ٹائمز: مسلمانوں کے درمیان پائے جانیوالے مشترکات کے مقابلے میں کیا کوئی انتشار کیوجہ موجود ہے۔؟
مولانا سید تقی رضا عابدی:
میرے خیال میں مسلمانوں کے درمیان کوئی انتشار کی وجہ بالکل بھی نہیں ہے۔ اب مسلمانوں نے مشترکات کو بالائے طاق رکھ کر انتشار کی وجہ ڈھونڈ نکالنے کی پوری کوشش کی ہے۔ ہمارے نام نہاد مسلم حکمرانوں نے اس کے لئے بڑا سرمایہ خرچ کیا ہوا ہے کہ مسلمانوں میں انتشار کی وجہ ڈھونڈ نکالی جائے اور ہمیں آپس میں لڑوایا جائے۔ آج فقہی و تاریخی اختلافات کو بھی باعث تفرقہ و انتشار بنایا جا رہا ہے کہ کسی زمانے میں اس بارے میں اختلاف ہوا تھا۔ تین سو سال، چار سو سال پہلے اس معاملے پر اختلاف ہوا تھا، آج اسی اختلاف کو دوبارہ ہوا دے کر ہمارے نام نہاد مسلم حکمران پھر سے تضاد و منافرت پھیلاتے ہیں۔ ہمیں اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا چاہیئے اور اتحاد پر گامزن رہنا چاہیئے۔ ہمارے درمیان کوئی ایسا اختلاف نہیں ہے، جو تفرقہ کی وجہ بنے لیکن دشمن اسلام ہمارے درمیان تفرقہ و نزاع ایجاد کرنے کی سازشوں میں سرگرم ہے۔

اسلام ٹائمز: بھارت کی بات کریں تو یہاں بھی مسلمانوں کے درمیان انتشار ایجاد کرنیکی کوششیں کی جا رہی ہیں، اس بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟
مولانا سید تقی رضا عابدی:
بھارت میں ابھی مسلمانوں کو آپس میں لڑوانے کی بہت کوششیں کی جا رہی ہیں۔ بھارت میں جس وقت مسلمانوں کی حکومت تھی،  اس وقت ہمارے درمیان بالکل بھی اختلاف و انتشار نہیں تھا۔ جس وقت دکن میں قطب شاہیوں کی حکومت تھی، کیا مسلمانوں میں کوئی اختلاف تھا، تاریخ اٹھا کر دیکھیں بالکل بھی نہیں تھا۔ اودھ میں شیعوں کی حکومت تھی اور ہم مسلمانوں کے درمیان کوئی اختلاف اس وقت بھی نہیں تھا۔ اس زمانے میں بھی ہمیں شیعہ سنی اتحاد کی عظیم مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ مسلمانوں کے تمام فرقے آپس میں شادیاں کرتے تھے، پھر کیا ہوا کہ تفرقہ پیدا ہوا۔ ہوا یہ کہ انگریزوں نے اس وقت بھی لکھنو اور گوپال وغیرہ میں مناظرے کروا کر قتل و غارتگری کو جنم دیا۔ جب انگریزوں کو پتہ چلا کہ یہ مسلمانوں کے دو بڑے فرقے ہیں، جن کے درمیان تاریخ میں اختلاف ہوا ہے تو اس اختلاف کو دوبارہ زندہ کیا گیا اور مسلمانوں کی قتل و غارتگری کا بازار گرم کیا گیا۔

جھگڑا اس طرح سے ترتیب دیا گیا کہ جو فرقہ اہل سنت بنی ہاشم کے حامی تھے اور بنی امیہ سے بیزار تھے، انہیں ایک سازش کے تحت بنی ہاشم سے نکال کر بنی امیہ کے ساتھ جوڑا گیا۔ درحقیقت اہل تسنن بنی امیہ کے دشمن ہیں، لیکن اس سازش کے تحت اہل سنت کو عظیم سرمایے سے صدیوں تک محروم کیا گیا اور اہل تشیع کا دائرہ تنگ کیا گیا۔ انگریزوں نے بنی امیہ اور بنی ہاشم کے اختلاف کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا اور آج بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ آج بھی وہابیوں کو سنیوں کے ساتھ جوڑ کر شیعوں کو تنہا کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں، جو حقیقت ہرگز نہیں ہے۔ ہونا یہ چاہیئے تھا کہ شیعہ سنی متحد ہوتے اور وہابیوں کو تنہا کیا جاتا، حقیقت بھی یہی ہے کہ وہابیوں کا ہم دونوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ کون سنی ایسا ہے، جو امام حسین (ع) سے محبت نہیں کرتا اور یزید پر لعنت نہیں کرتا۔ تبرا و تولا شیعہ و سنی دونوں کرتے ہیں اور کرنا بھی چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: ہماری محافل و مجالس کا عنوان کیا ہونا چاہیئے۔؟
مولانا سید تقی رضا عابدی:
دیکھیئے ہم ہر ایک واعظ سے یہ امید تو نہیں کرسکتے ہیں کہ وہ مہم ترین و حالات حاضرہ کے پیش نظر اپنے خطابات کا عنوان رکھیں، لیکن کم سے کم وہ ان مقتدر علماء کرام کا کام تو خراب نہ کریں، جو درد دین رکھتے ہوئے منفرد و اہم ترین موضوعات کا انتخاب کرکے معاشرہ سازی میں سرگرم ہیں۔ ہمارے جید علماء کرام کا کام عزاداری کا تحفظ فراہم کرنا ہے، نہ کہ تعزیہ داری کا تحفظ، عزاداری کے برپا کرنے کا مقصد دین کی بقاء ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ابھی تک ہمارے ذاکرین عزاداری کے مقصد سے آگاہ نہیں ہیں، وہ معاشرے کو اس حوالے سے کیا تربیت کریں گے۔ علماء کرام کو امریکی اسلام اور دین ناب محمدی (ص) میں تشخیص کرنا ہوگی۔ دین ہمارے اذہان میں نہیں ہے اور ہم رسومات میں لگے ہوئے ہیں۔ ہماری عزاداری کا مقصد بھی دین الہیٰ کی بقاء اور لقاء الہی ہے۔

ہمارے مراجع کرام جب ہمیں کبھی کسی فعل سے روکتے ہیں کہ یہ دین کے لئے نقصان دہ ہے تو ہم شک میں پڑ جاتے ہیں کہ اس کا دین سے کیا تعلق ہے۔ دراصل ہم یہ افعال دین سمجھ کر انجام نہیں دیتے جو ایک بڑا المیہ ہے۔ ہمارے تمام افعال دین کی تقویت کے لئے ہونے چاہیئے۔ ہمارا کام لوگوں کو حق کی دعوت دینا ہے۔ مقصد کربلا سے لوگوں کو آگاہ کرنا ہے۔ امام حسین (ع) نے صرف اس وقت کے یزید کے خلاف قیام کرنے کی تعلیم نہیں دی ہے بلکہ ہر وقت کے یزید اور یزیدیت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا نام کربلا ہے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ نریندر مودی اور ڈونالڈ ٹرمپ آج کے دور کے یزید ہیں، جن کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ضروری ہے۔ ہم امریکہ اور بھارت میں جلوس عزاء نکال کر چودہ سو سال پہلے والے یزید کے خلاف غصہ ٹھنڈا تو کرتے ہیں اور جو یزید سامنے بیٹھا ہوا ہے، اس کو بولتے ہیں ہم آپ کے خلاف نہیں ہیں اور ہم آپ سے مطمئن ہیں۔ امام حسین (ع) ہر دور کے یزید کے خلاف ہیں۔ ہم خود ہی مقصد امام حسین (ع) کو محدود کر رہے ہیں۔ شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی نے کیا خوب فرمایا تھا کہ
فکرِ حق سوز یہاں کاشت نہیں کرسکتی
کربلا تاج کو برداشت نہیں کرسکتی
خبر کا کوڈ : 767784
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش