0
Tuesday 22 Jan 2019 18:49
اس بار قانون سازی عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کیلئے کی جائیگی

اپوزیشن کو بھی مینڈیٹ ملا ہے جسکا احترام ضروری ہے، اسد قیصر

پی ٹی آئی نے الیکشن میں پختونوں کے کردار کو یاد رکھا اور مرکز میں انکو ریکارڈ نمائندگی دی
اپوزیشن کو بھی مینڈیٹ ملا ہے جسکا احترام ضروری ہے، اسد قیصر
قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کا شمار خیبر پختونخوا کے دیرینہ اور اپنی جماعت کے مخلص و محنتی کارکنوں میں ہوتا ہے۔ اسد قیصر نے پہلے دن ہی پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور یوں وہ 21 برس سے اسی جماعت کیساتھ وابستہ چلے آرہے ہیں۔ انہوں نے پارٹی کیساتھ انتہائی مشکلات کا زمانہ پورے عزم کیساتھ گزارا کیونکہ 2011ء کی سونامی سے پہلے پی ٹی آئی کا شمار صوبے کی چھوٹی جماعتوں میں ہوتا تھا۔ اس دور میں اسد قیصر پہلے ضلع صوابی کے صدر بنے۔ بعد ازاں صوبائی صدر بھی نامزد ہوئے۔ وہ طویل عرصہ تک صوبائی صدر کے عہدے پر فائز رہے اور اس دوران پارٹی کو پوری طرح سے فعال رکھا۔ پہلی بار پارٹی کے صوبائی انتخابات ہوئے تو انہوں نے بھرپور طریقے سے کامیابی حاصل کی، جو کارکنوں کی طرف سے ان پر اعتماد کا اظہار تھا۔ 2013ء کے انتخابات میں وہ قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر امیدوار تھے اور انہوں نے دونوں سیٹوں پر کامیابی حاصل کرکے دکھائی۔ بعد ازاں انہوں نے قومی اسمبلی  کی نشست چھوڑ دی اور اس پر اپنے بھائی کو کامیاب کرایا۔ اسد قیصر 30 مئی 2013ء کو خیبر پختونخوا اسمبلی کے اسپیکر منتخب ہوئے، جس کے بعد انہوں نے انتہائی متحرک کردار ادا کیا۔ جولائی 2018ء میں ہونے والے انتخابات میں انہوں نے پھر دو حلقوں سے الیکشن میں حصہ لیا اور پھر دونوں حلقوں پر فاتح ٹھہرے۔ اس بار پارٹی قیادت کے حکم پر انہوں نے صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑ کر قومی اسمبلی کی نشست برقرار رکھی اور پھر پارٹی قیادت نے انکی صلاحیتوں پر اعتماد کرتے ہوئے انکو قومی اسمبلی کے اسپیکر کے طور پر نامزد کر دیا اور یوں وہ قومی اسمبلی کے پہلے پختون اسپیکر بن گئے۔ اسلام ٹائمز کے نمائندے نے ان سے خصوصی گفتگو کی، جو قارئین کی نذر ہے۔(ادارہ)
 
اسلام ٹائمز: قومی اسمبلی کا اسپیکر منتخب ہونا اور ملک کے سب سے بڑے منتخب ایوان کو چلانے کا تجربہ کیسا رہا ہے۔؟
اسد قیصر:
یہ میرے لئے بہت بڑے اعزاز کی بات ہے کہ میں خود کو پہلا پختون اسپیکر کہہ سکتا ہوں۔ اگر دیکھا جائے تو پہلی بار پختونوں کو عمران خان کی شکل میں حقیقی سیاسی قیادت ملی ہے۔ اس وقت پی ٹی آئی کے بلوچستان اور کراچی سے تین ممبران کی اکثریت بھی پختونوں پر مشتمل ہے، جو ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ میں یہ واضح کرتا چلوں کہ ہماری سیاست کبھی بھی قوم پرستی کی بنیاد پر نہیں رہی۔ ہم سب آپس میں بھائی ہیں، ہم اس قسم کی سیاست کے قائل ہی نہیں، جو قوم کو تقسیم در تقسیم کا باعث ہے۔ ہم قوم میں اس قسم کی تقسیم ہرگز نہیں چاہتے، لیکن ماضی میں جب سابق حکمرانوں کے دور میں پختون عدم تحفظ کا شکار تھے، کراچی و لاہور میں پختونوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جا رہا تھا تو پی ٹی آئی اور عمران خان نے ہی آگے بڑھ کر اس ناانصافی کے خلاف بھرپور احتجاج کیا اور پختونوں کے خلاف اقدامات پر سب کا ضمیر جھنجھوڑنے کی کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ جب الیکشن کا مرحلہ آیا تو پختونوں نے اجتماعی طور پر پی ٹی آئی کو سپورٹ کیا، یوں ہمیں تاریخی کامیابی ملی۔

پی ٹی آئی نے بھی پختونوں کے اس کردار کو یاد رکھا اور مرکز میں ان کو ریکارڈ نمائندگی دی گئی، جس کے بعد اگلے پانچ سال کے دوران پختونوں کی ترقی کیلئے فیصلہ کن اقدامات کئے جائیں گے۔ ان کیلئے اس بار بہت سے میگا پراجیکٹ لائے جا رہے ہیں۔ اس تمام تر صورتحال کے تناظر میں مجھے جو ذمہ داری حوالے کی گئی ہے، اس سے بطریق احسن عہدہ برآء ہونے کیلئے پوری طرح سے مصروف عمل ہوں۔ میں نے روز اول سے ہی کوشش کی ہے کہ سب کو ساتھ لے کر چلوں، میں نے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بھی فرق نہیں رکھا، ہر معاملے میں پارلیمانی لیڈروں کے ساتھ مشاورت کی پالیسی اختیار کئے رکھی اور مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ اپوزیشن کے دوست بھی میرے ساتھ مکمل تعاون کرتے ہیں۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ حکومت کے ساتھ ساتھ مجھے اپوزیشن کی سپورٹ بھی حاصل ہے۔

اسلام ٹائمز: اس بار حکومت کو خاصی مشکل اپوزیشن کیساتھ واسطہ پڑا ہے، ان حالات میں توازن کیسے برقرار رکھ رہے ہیں۔؟
اسد قیصر:
(ہسنتے ہوئے) آپ نے بالکل بجا کہا، اگر دیکھا جائے تو اسوقت حکومتی اراکین کی تعداد 184 بنتی ہے جبکہ اپوزیشن کی کل تعداد 158 ہے، جو تاریخ کی سب سے بڑی اپوزیشن ہے اور یوں مشکل ترین اسمبلی قرار دی جاسکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہمیں بھی مشکل ترین حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، سب کو ساتھ لے کر چلنا چیلنج تو ہے مگر نامکمن ہرگز نہیں۔ میری کوشش ہے کہ سب کو ساتھ لے کر چلوں، کیونکہ میں کسی ایک جماعت کا نہیں بلکہ پورے ایوان کا اسپیکر ہوں اور ایوان کی کارروائی کامیابی کے ساتھ چلانا میری اولین ذمہ داری ہے۔ قومی اسمبلی میں حکومتی عمائدین کے ساتھ ساتھ اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ بھی ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں۔ حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرنا اپوزیشن کا آئینی و پارلیمانی حق ہے، تاہم قومی امور پر تعاون ناگزیر ہے۔ قانون سازی ایوان کا اصل کام ہے اور اس کیلئے اپوزیشن کو تنقید برائے تنقید کی سیاست سے نکلنا ہوگا۔ قانون سازی پورے ملک کیلئے ہوتی ہے، کسی ایک جماعت کیلئے نہیں، جب 1973ء کا آئین بن رہا تھا تو پیپلز پارٹی کی حکومت تھی، مگر اس مرحلے پر تمام جماعتوں نے مل کر اپنا پارلیمانی کردار ادا کیا۔ اسی طرح اٹھارہویں ترمیم کے موقع پھی باہمی اختلافات بالائے طاق رکھ دیئے گئے تھے، اب بھی ایسا ہونا چاہیئے، تاکہ قوم کو ریلیف دینے کیلئے قانون سازی کا عمل شروع کیا جاسکے۔

اسلام ٹائمز: اپوزیشن جماعتوں کیطرف سے تنقید کی جا رہی ہے کہ پانچ ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی قانون سازی کا عمل شروع نہیں ہوسکا ہے۔؟
اسد قیصر:
یہ آپ نے بہت اچھے موقع پر توجہ دلائی ہے اور میں چاہتا تھا کہ اس امر کی وضاحت سامنے آئے۔ تمام منتخب اسمبلیوں کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں، کسی اسمبلی نے بھی ابتدائی پانچ چھ ماہ میں کسی قسم کی قانون سازی نہیں کی اور ایسا ہو بھی نہیں سکتا، کیونکہ حکومت سازی کے بعد حکومتوں کے سامنے فوری نوعیت کے انتظامی چیلنجز درپیش ہوتے ہیں۔ اس دوران ایوان کی کمیٹیاں بنتی ہیں، حکومتیں قوانین کا جائزہ لیتی ہیں، نئی حکمت عملی کے مطابق ترامیم یا نئی قانون سازی کا فیصلہ ہوتا ہے، اس تمام عمل میں آٹھ سے دس ماہ لگ جاتے ہیں۔ عام طور پر قانون سازی دوسرے اور تیسرے سال میں شروع ہوتی ہے۔ اس لئے جو عناصر اس حوالے سے تنقید کر رہے ہیں، ان کا مقصد کچھ اور دکھائی دیتا ہے۔ موجودہ اسمبلی میں قانون سازی کے عمل کا آغاز ماضی کی نسبت جلد ہونے جا رہا ہے۔ موجودہ سیشن میں قانون سازی ہوگی، حکومت کی طرف سے کئی بل موصول ہوچکے ہیں، اس بار قانون سازی عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کیلئے کی جائے گی اور اس کے ثمرات سے پورا ملک مستفید ہوگا۔

اسلام ٹائمز: اسوقت اپوزیشن جماعتیں نیب کے کردار پر سوالات اٹھا رہی ہیں، اس حوالے سے قانون سازی کا عمل کب شروع ہوگا۔؟
اسد قیصر:
پہلی بات تو یہ ہے کہ نیب سمیت تمام ادارے اپنے اپنے کام میں مکمل طور پر آزاد و خود مختار ہیں، حکومت کسی کے کام میں مداخلت نہیں کر رہی، نہ کسی کو ڈکٹیشن دینے پر یقین رکھتی ہے، جن لوگوں پر کرپشن کے الزامات ہیں، ان کو قانون کے تحت سزائیں ضرور ملیں گی۔ عدالتیں اس معاملے میں اپنا کردار بخوبی نبھا رہی ہیں، جہاں تک نیب کے حوالے سے قانون سازی کا تعلق ہے تو یہ قانون سازی سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ہوگی، اس کیلئے حکومت اور اپوزیشن دونوں کے ساتھ رابطے میں ہوں۔

اسلام ٹائمز۔ بہت سے حکومتی اراکین اور اتحادی شہباز شریف کو پی اے سی کا چیئرمین بنانے پر اعتراضات کر رہے ہیں، آپ اس سلسلے میں کہنا چاہیں گے۔؟
اسد قیصر:
دیکھیں ہم کسی بھی صورت اپوزیشن کی نمائندگی کو نظرانداز نہیں کرسکتے، ان کو بھی مینڈیٹ ملا ہوا ہے، جس کا احترام ضروری ہے۔ میں بار بار کہہ چکا ہوں کہ بحیثیت اسپیکر مکمل طور پر غیر جانبدار ہوں۔ ایوان کو کامیابی کے ساتھ چلانا میری اولین ذمہ داری ہے اور اس سلسلے میں ہم رولز سے ہٹ کر نہیں چل سکتے۔ ہم رول آف لاء کے قائل رہے ہیں اور اب اس پر عمل کرکے دکھائیں گے۔ اپوزیشن لیڈر کو پی اے سی کا چیئرمین بنانا ایوان کی روایت رہی ہے، ہم نے ہی روایت برقرار رکھی ہے، تاہم پہلی بار ہم نے ایک نئی روایت کی بنیاد بھی ڈال دی ہے کہ (ن) لیگ کے دور کا آڈٹ ایک خصوصی کمیٹی کرے گی، جس کی سربراہی پی ٹی آئی کو دی گئی ہے۔ اس سلسلے میں فخر امام اور شبلی فراز کو ذمہ داریاں حوالے کر دی گئی ہیں۔ ہمیں اس مرحلے پر ذاتی پسند و ناپسند سے نکلنا ہوگا۔ ہمارا کام قانون سازی کرنا اور سب کو احترام دینا ہے اور اسی طریقے سے پارلیمانی ادارے چلیں گے۔ ریاست مدینہ کی بنیاد انصاف پر رکھی گئی تھی، اب ہم بھی انصاف کی سربلندی کیلئے کوشاں ہیں، آج احتساب صرف میرٹ پر ہوگا۔

اسلام ٹائمز: پی ٹی آئی نے فیصلہ کیا ہے کہ صوبائی کابینہ میں توسیع سیاسی رشتہ داریوں کی بنیاد پر نہیں کی جائیگی، کیا سب اس فیصلے سے متفق ہیں۔؟
اسد قیصر:
جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ پی ٹی آئی اس ملک کی واحد غیر روایتی سیاسی جماعت ہے اور ہر فیصلہ میرٹ کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ کابینہ میں توسیع بھی میرٹ کی بنیاد پر ہونی چاہیئے، کسی اہل شخص کو محض اس وجہ سے نظر انداز کرنا کہ وہ کسی کا رشتہ دار ہے یا پھر کسی نااہل کو اس بنیاد پر آگے لانا کہ وہ کسی شخصیت کا عزیز ہے، دونوں ہی غلط ہیں اور پی ٹی آئی انہی غلطیوں کے خاتمے کیلئے سامنے آئی ہے۔ اس معاملے میں ہم سب متفق ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپکا تعلق صوابی سے ہے، پچھلے 5 سال کے دوران آپ نے علاقے کے مسائل حل کرنے کیلئے کون سے اقدامات کئے اور مستقبل میں کیا ارادے رکھتے ہیں۔؟
اسد قیصر:
صوابی نے ماضی میں جن لوگوں کو مینڈیٹ دیا، وہ اس علاقے کو نظرانداز کرتے رہے، جس کی وجہ سے یہاں کی محرومیوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ گذشتہ پانچ سال کے دوران پہلی بار پاکستان تحریک انصاف نے اس علاقے پر سنجیدہ توجہ مرکوز کی۔ اس سلسلے میں پانچ سال مسلسل کوششیں کرتا رہا، سابق وفاقی حکومت نے علاقے میں گیس فراہمی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالیں، جس کے خلاف ہم عدالت گئے اور کامیابی حاصل کی۔ اسوقت گیس کے مختلف منصوبوں پر کام جاری ہے اور جلد ہی پورے ضلع کو گیس کی سہولت مل جائے گی۔ علاقے میں بجلی کے مسائل بھی ترجیحی بنیادوں پر حل کئے جا رہے ہیں۔ بہت بڑا گرڈ اسٹیشن بنایا جا رہا ہے، جس سے اگلے چالیس پچاس سال تک مشکلات سے بچا جاسکے گا۔ بہت سے اسکول و کالج بنائے، علاقے میں شاہراہوں کا جال بچھا دیا ہے۔ ٹوپی میں جلد ہی پاک فضائیہ کے تعاون سے انجینئرنگ یونیورسٹی بن رہی ہے۔ ایک ہزار کنال اراضی پر خصوصی کمپلیکس بنایا جا رہا ہے ،جہاں کیڈٹ کالج، ہسپتال، خواتین کا فنی مرکز اور سپورٹس کمپلیکس بھی ہوگا۔

صوابی میں ہی خصوصی افراد، یتیموں اور بیواؤں کیلئے بھی پورا ویلج بنانے کا ارادہ ہے، جس میں ہسپتال، اسکول، کالج، فنی تربیتی مراکز، یونیورسٹی، مارکیٹ اور مسجد کی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ اس منصوبے کیلئے زمین حکومت فراہم کرے گی، باقی سارا کام نجی شعبہ اور مخیر حضرات کریں گے۔ اگلے پانچ سال میں صوابی کو ملک کا ماڈل ضلع بنا کر دکھائیں گے، کیونکہ یہاں کے لوگوں نے پی ٹی آئی پر تاریخی اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اسے کلین سویپ کروایا ہے۔ ویسے بھی ماضی میں جو زیادتیاں یہاں کے لوگوں کے ساتھ روا رکھی گئیں، ان کا ازالہ ہمارا فرض بنتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 773563
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش