0
Tuesday 12 Feb 2019 23:01
تشدد کیخلاف ہیں، اس ضمن میں منظم قانون کی ضرورت ہے

نواز شریف کو ملک سے باہر تو کیا جیل سے بھی نہیں نکلنے دینگے، میاں اسلم اقبال

نواز شریف کو ملک سے باہر تو کیا جیل سے بھی نہیں نکلنے دینگے، میاں اسلم اقبال
پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی رہنماء اور پنجاب کے صوبائی وزیر صنعت و تجارت میاں اسلم اقبال 1969ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ 1996ء میں قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹر کیا۔ 2002ء میں متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر لاہور سے رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے، 2007ء تک سیاحت کے وزیر رہے۔ 2008ء میں مسلم لیگ قائداعظم کے ٹکٹ پر صوبائی الیکشن میں حصہ لیا، لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ 2013ء میں پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر دوبارہ اور 2018ء میں تیسری بار رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے۔ پی ٹی آئی حکومت کی موجودہ حکومتی پالیسیوں، موجودہ سیاسی و پارلیمانی صورتحال اور انکی وزارت کی موجودہ کارکردگی اور مستقبل کی منصوبہ بندی سے متعلق اسلام ٹائمز کا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: وزیراعظم نے کہا تھا کہ وہ خودکشی کر لینگے، لیکن آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائینگے، کیا یہ بھی مثبت یوٹرن ہے۔؟
میاں اسلم اقبال:
عمران خان ملک میں موجود وسائل کی لوٹ مار کے بعد آئی ایم ایف کے پاس نہیں گئے، ملک کی خاطر گئے ہیں، آئی ایم ایف کا پیکج صرف پیسوں کے لئے نہیں بلکہ عالمی رینکنگ اداروں میں مستحکم پوزیشن کے لئے بھی ضروری ہے، دوست ممالک سے امداد ایک سال کے لئے ملی، جو جون میں ختم ہو جائے گا، اپنے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے تک ادائیگیوں میں توازن برقرار رکھنے کے لئے آئی ایم ایف کے پاس جانا ناگزیر تھا، لیکن یہ ضرور ہوا ہے کہ دوست ممالک کی سپورٹ کی وجہ سے دسمبر کے مقابلے میں پاکستان کی پوزیشن بہتر ہوئی ہے، اب آئی ایم ایف براہ راست کسی چیز کو مہنگا کرنے کی شرط عائد نہیں کرتا، آئی ایف کی شرط آمدنی اور اخراجات کے درمیان توازن ہے، آمدنی کم ہے تو آمدنی بڑھائی جائے، اخراجات کم کرنے کے لئے مختلف سیکٹرز میں کٹوتی کی جانے کی شرط ہے۔

یہ تو ہمیں معیشت کی بحالی کیلئے دوست ملکوں اور عالمی ذرائع سے مالی معاونت اور طویل المیعاد قرضوں کے حصول کی کوششوں کے سلسلے میں ایک اور کامیابی ملی ہے۔ موجودہ حکومت کی وجہ سے پاکستان کے حوالے سے آئی ایم ایف کی پوزیشن میں مثبت تبدیلی آئی ہے، ہم آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے قریب آگئے ہیں، جو ایک اچھا معاہدہ ہوگا، کوشش ہے کہ آئی ایم ایف کا یہ آخری پروگرام ہو، پاکستان کو کسی نے باہر سے آکر ٹھیک نہیں کرنا، ہم ہی اسے ٹھیک کریں گے، ہم بہتر فیصلے کریں گے تو معیشت اٹھے گی اور یہ صرف سرمایہ کاری سے ہوگا، معیشت ڈینجرزون سے باہر آرہی ہے۔

اسلام ٹائمز: سابقہ حکومتوں کیطرح آپ بھی آئی ایم ایف سے معاہدوں کو کامیابی قرار دے رہے ہیں، ملکی خود انحصاری کیلئے متبادل اقدامات کیا ہو رہے ہیں۔؟
میاں اسلم اقبال:
ماضی کی حکومتوں نے ملک کو 30 ہزار ارب سے زائد کا مقروض کر دیا ہے اور ملکی مسائل میں کمی کی بجائے اضافہ بھی ایسی حکومتوں کی بیڈ گورننس کا نتیجہ ہے، تحریک انصاف نے مشکل وقت میں اقتدار سنبھالا، مگر اسکے باوجود ہماری حکومت نے معاشی اصلاحات جیسے اقدامات سے ملک کو معاشی طور پر مضبوط کرنے کا آغاز کر دیا ہے۔ حکومت کے مثبت اور مؤثر فیصلوں سے معیشت بہتر سمت میں گامزن ہے، برآمدات میں اضافہ ہوا ہے اور درآمدات میں نمایاں کمی ہوئی ہے، 7 ماہ میں تجارتی خسارہ 2 ارب ڈالر کی کمی سے 19 ارب 20 کروڑ ڈالر تک آگیا ہے، روپے کی قدر میں کمی کا فائدہ آئندہ 5 ماہ میں نظر آئے گا، فرنس آئل کی درآمد پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے، ریگولیٹری ڈیوٹی لگانے کا فائدہ ہوا ہے، ہماری پالیسی بہتر ہے اور گاڑی بالکل ٹھیک چل رہی ہے، ہم کسی نئے آزادانہ تجارتی معاہدے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔

گذشتہ 7 ماہ میں فرنس آئل کی درآمد میں کمی ہوئی ہے، بجلی بنانے کے دوسرے طریقے اختیار کرنے پر کام کر رہے ہیں، جس سے توانائی کی پیداوار میں اضافہ ہوگا۔ ملکی سطح پر سیمنٹ کی کھپت میں کمی ہوئی ہے، جبکہ سیمنٹ کی برآمدات میں 50 فیصد اضافہ ہوا، سیمنٹ سری لنکا اور بنگلا دیش برآمد کیا جا رہا ہے۔ باتیں بہت ہوگئیں، اب کام شروع کرنا ہے، ٹیکس کا دائرہ وسیع کرنا ضروری ہے، اس کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھے گا، ہمیں معلوم ہے کہ ایف بی آر کے چھاپوں اور آڈٹ سے ٹیکس نہیں بڑھے گا، آئندہ بجٹ میں ٹیکس کا نظام آسان بنائیں گے، گردشی قرضوں نے ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں، موجودہ حکومت پاور سیکٹر کے نقصانات 30 فی صد سے کم کرکے 15 فیصد پر لائی ہے، بجلی کی پیداواری لاگت اور وصولیوں کے عدم توازن کی وجہ سے سرکلر ڈیٹ میں اضافہ ہوا۔

حکومت کے اقدامات سے جنوری 2019ء میں تجارتی خسارے میں 31 فیصد کمی ہوئی ہے۔ اسی طرح وزیراعظم عمران خان اور ان کی ٹیم ملک میں سرمایہ کار دوست ماحول پیدا کرنے کیلئے کام کر رہی ہے۔ اسی طرح اوورسیز پاکستانی معیشت کا اہم ستون ہیں، موجودہ حکومت نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو راغب کرنے پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے اور اس مقصد کیلئے ای ویزوں کا نیا نظام متعارف کر رہی ہے۔ ماضی کے حکمرانوں کے غلط فیصلوں کی وجہ سے ملک میں کر پشن، مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل پیدا ہوئے، مگر ہم قوم کو ان سے مسائل سے نجات دلانے کا وعدہ پورا کریں گے۔ حکومت اُن ملکوں میں جہاں ہنرمند محنت کشوں کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے، ہنرمند افرادی قوت بھجوانے کے حوالے سے پالیسی کو حتمی شکل دے رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا نواز شریف بیمار ہیں، این آر او کا بھی سنا جا رہا ہے، آپ انسانی ہمدردی کے تحت طبی بنیادوں پہ ریلیف دیئے جانے کے حق میں ہیں۔؟  
میاں اسلم اقبال:
این آر او کیلئے یہ لوگ تڑپ رہے ہیں، شریف برادران سپریم کورٹ کے مطابق سیرٹیفائڈ، سیسی لین مافیا اور گاڈ فادر ہیں۔ نواز شریف کی بیماری کو سیاسی طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، صحت پر چار بورڈز بنائے گئے، جسکو تسلیم نہیں کیا، ڈاکٹرز کا کہنا ہے نواز شریف کی بیماری کا پاکستان میں علاج ہوسکتا ہے۔ سموسوں پکوڑوں سے دل کے مریض کی خاطر تواضح کی گئی، اسپتال سے جیل اور جیل سے اسپتال کا چکر صرف این آر او کیلئے کیا جا رہا ہے، قومی مجرم ہونے کے باوجود ہمارا فرض ہے کہ آپ کو کوئی ذاتی شکایت نہ ہو۔ وزیراعظم عمران خان کے وژن کو آگے بڑھانا ہے، پالیسیاں صرف کتابوں، فائلوں کا حصہ بن کر رہ گئی ہیں، پالیسیوں کو لاگو کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

نون لیگ کے کئی لوگوں کی نوکری عمران خان پر جملے کسنے اور تنقید کرنے سے ہی پکی ہوئی ہے، قوم اپنی لوٹی ہوئی دولت کا حساب چاہتی ہے۔ اپوزیشن رہنماء اپنی صلاحیتیں بدعنوان لیڈروں کی ترجمانی میں ضائع نہ کریں، قوم اچھی طرح جانتی ہے کہ آپ کے قائدین کرپٹ ہیں، چاہے جتنا مرضی ان کا دفاع کر لیں، لیکن کرپشن کا کبھی دفاع نہیں ہوتا، اس کا صرف اعتراف کیا جاتا ہے، ابھی بھی وقت ہے کہ ملکی خزانے کو لوٹنے والے قوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس کردیں۔ ہم نے جو وعدے کیے ہیں انھیں پورا کریں گے، ہم نواز شریف کو ملک سے باہر جانے نہیں دے رہے، جیل سے بھی نہیں نکلنے دیں گے۔

اسلام ٹائمز: علیم خان کی گرفتاری کے فوری بعد شہباز شریف کو ہٹانے کا مطالبہ کیوں زور پکڑنے لگا ہے۔؟
میاں اسلم اقبال:
شہباز شریف کی وفاداری میں قانون کو مذاق نہیں بننے دیں گے، ماضی میں سیاسی روایات مک مکا کی بنیاد پر بنائی گئی تھیں، وزیراعظم نے فیصلہ کر لیا ہے، جو ہوگا قانون کے مطابق ہوگا۔ شکست خوردہ عناصر نظام کو منجمد کرنے کی دھمکیاں کسی اور کو دیں، نون لیگ کے پاس اخلاقی اور سیاسی طاقت ختم ہوچکی ہے۔ جہاں تک علیم خان کی گرفتاری کا تعلق ہے، اب دو نہیں ایک پاکستان کی بات ثابت ہوگئی ہے، ملک میں شفاف احتساب قومی امنگوں کی ترجمانی ہے، جس نے بھی قومی خزانہ کو نقصان پہنچایا ہے، اس کو اب قوم کے سامنے حساب دینا ہی پڑیگا۔ ملک میں انصاف کی فراہمی موجودہ حکومت کی اولین ترجیح ہے، جس کے لیے عدالتی نظام میں اصلاحات سمیت جو بھی ضروری اقدامات ہیں۔

حکومت اس کیلئے تمام وسائل استعمال کریں گی، موجودہ حکومت ملک میں شفافیت اور میرٹ کے حوالے سے دو ٹوک پالیسی بنا چکی ہے، اس لیے اب کسی سفارش کے بغیر ہی تمام فیصلے کیے جائیں گے اور ملک میں حقیقی معنوں میں عوامی حکمرانی قائم ہوگی۔ اگر ہم پنجاب میں حمزہ شہباز کو چیئرمین پی اے سی بنانے کے لئے تیار بھی ہوں تو پیپلزپارٹی سندھ میں بنانے کو تیار نہیں۔ پی اے سی کی چیئرمین شب سے استعفیٰ کا مطالبہ بالکل درست ہے، شہباز شریف نیب کی کارروائی پر اثر ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے تحریک انصاف یہ قدم لے رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: اپوزیشن اور حکومت کے درمیان مکمل اتفاق تو کبھی ممکن نہیں رہا، لیکن قانون سازی کا عمل رکا ہوا، کیا یہ جمہوریت کیلئے نقصان کا باعث نہیں ہے۔؟
میاں اسلم اقبال: قانون اور قواعد کے مطابق قومی اسمبلی کی کارروائی چلتی رہنی چاہیئے، جس کے لئے تحریک انصاف کی گفت و شنید بھی جاری رہتی ہے، مگر دوسری جانب سے نیت اچھی نظر نہیں آرہی، اسپیکر بدلے جانے کی باتیں مفروضوں کے علاوہ کچھ نہیں، اسد قیصر منجھے ہوئے سمجھدار انسان ہیں، کوشش کریں گے کہ مخالفین کی نیت صاف ہو جائے، تاکہ معاملات آگے بڑھائے جا سکیں۔

نیب قوانین میں تبدیلی کیلئے حکومت نے مثبت اشارے دیئے ہیں، کیا یہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی مزید گرفتاریاں روکنے کیلئے احتساب بیورو کے پر کاٹنے کی کوشش ہے۔؟
میاں اسلم اقبال:
ایک جمہوری ملک میں کوئی بھی ادارہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ کسی کو جوابدہ نہ ہو۔ معاشی ارتقاء و استحکام کے لئے احتساب کا عمل جس قدر ضروری ہے، اس سے بھی زیادہ اہم اس عمل کی غیر جانبداری و شفافیت ہے، ورنہ مطلوبہ مقاصد کا حصول تو کجا الٹا معاملات خرابی بسیار کی جانب جانے کا اندیشہ رہتا ہے۔ حکومت نے اب یہ بیڑہ اٹھا ہی لیا ہے تو اسے نیب کی وہ تمام خامیاں دور کرنا ہوں گی، جن کی نشاندہی کی جاتی رہی ہے، کمزوریاں دور کرکے اگر اسے اختیارات دینے کی ضرورت ہو تو وہ بھی دیئے جائیں، لیکن اسے ایسا موثر ادارہ بنایا جائے کہ اس کی شفافیت اور غیر جانبداری اس کے اقدامات سے عیاں ہو۔ اس ضمن میں تمام پارلیمانی جماعتوں کی مشاورت کو لازم کیا جائے، تاکہ ایک ایسا جامع و موثر نظام وضع ہوسکے کہ جس کو کسی بھی صورت مطعون کیا جا سکے، نہ اس سے سیاسی انتقام کا کام لیا جا سکے۔

ماضی میں اداروں کے مابین تنائو رہا، اب عدلیہ آزاد، فوج اور حکومت میں بہترین کوآرڈی نیشن ہے اور رہے گی۔ یہ حقیقت ناقابلِ تردید ہے کہ ریاستی اداروں میں مربوط تعاون کے بجائے کھینچا تانی کی کیفیت ہو تو کوئی بھی حکومت اپنا اولین فریضہ یعنی آئین کی بالادستی کو یقینی بنانے میں کامرانی سے ہمکنار نہیں ہو پاتی۔ وطن عزیز کا جائزہ لیا جائے تو جو بے یقینی دکھائی دے رہی ہے، ہمارے لئے کسی بھی طور قابلِ قبول نہیں چنانچہ تمام تر اداروں کو آئین کی بالادستی یقینی بنانے پر توجہ مبذول کرنا ہوگی، تاکہ ابہام کا خاتمہ ہوسکے۔ پاکستان سردست کسی بھی نوع کے سیاسی، سماجی، علاقائی یا اقتصادی انتشار کا متحمل نہیں ہوسکتا، لہٰذا انفرادیت سے اوپر اٹھ کر اجتماعیت اورحب الوطنی کا سب کو ثبوت دینا ہوگا۔ احتساب غیر جانبدار اور شفاف ہوتا نظر آنا چاہیئے، ایکٹ بیلنسنگ لگے تو اداروں پر اعتماد باقی نہیں رہتا۔

کاروباری شخصیات نیب سے متعلق شکایات کرتی ہے، نیب میں کئی سال سے کیسز چلنے کا مطلب انصاف کی فراہمی نہیں ہو رہی، احتساب بیورو کی کارکردگی میں بہتری کے لیے مخالف جماعتوں سے تعاون کو تیار ہیں۔ نیب چھوٹی چھوٹی شکایات پر بزنس کمیونٹی کو طلب کرتی ہے، تاجر برادری کو اس حوالے سے شکایات ہیں۔ نیب کے ہر مقدمے کا فیصلہ 30 کے اندر ہونا چاہیئے، کیسز کے کئی سال چلنے کا مطلب ہے انصاف فراہم نہیں کیا جا رہا، نیب میں بہتری لانے کیلئے مخالف جماعتوں سے بھی تعاون کو تیار ہیں۔ نیب کا کام ہے کہ وہ قوم کی لوٹی رقم واپس لائے، پاکستان کے تمام قوانین پر دوبارہ غور کر رہے ہیں، حکومت تشدد کے خلاف ہے، چاہے وہ کہیں بھی ہو، اس ضمن میں منظم قانون کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: پنجاب کے کپتان کو تبدیل کرنیکی باتیں بھی ہو رہی ہیں، اس صورت میں نئے وزیراعلیٰ قاف لیگ سے ہونگے یا پی ٹی آئی سے۔؟
میاں اسلم اقبال:
یہ بات ہر ایک کے ذہن نشین رہنی چاہیئے کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے خلاف اگر کوئی سازش ہوئی تو مسلم لیگ قاف سمیت ہماری اتحادی جماعتیں اُس کا حصہ نہیں بنیں گی، بلکہ تحریک انصاف کے نامزد کردہ وزیراعلیٰ کی حمایت جاری رکھیں گی۔ افواہیں پھیلانے والوں کا کام ہی صرف افواہیں پھیلانا ہے، کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ ہمارے درمیان رخنہ ڈالیں، مگر ہمارا اتحاد برقرار رہے گا، کیونکہ دونوں جماعتوں نے متحد ہوکر ساتھ چلنے کا عہد کیا ہوا ہے، ہم اس پہ قائم ہیں۔ کچھ لوگ نہیں چاہتے کہ ہمارا مسلم لیگ (ق) سے اتحاد مضبوط ہو، اس لیے سازش کے تحت افواہیں پھیلائی جاتی ہیں، حقیقت یہ ہے کہ ہمارے درمیان کوئی اختلاف نہیں، چوہدری شجاعت کے بطور سابق وزیراعظم اور چوہدری پرویز الہیٰ کے بطور سابق وزیراعلیٰ تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: پی ٹی آئی نے خود دھرنے دیئے اور آزادی اظہار کی حمایت کی، سنسرشپ اور میڈیا پر پابندیوں کا کیا جواز ہے۔؟
میاں اسلم اقبال:
موجودہ حکومت کو اقتدار میں آئے چھبیس ہفتے کا وقت گزر چکا ہے اور کوئی ہفتہ ایسا نہیں گزارا، جس میں حکومت کی جانب سے غیر ذمہ دارانہ بیان نہ دیا گیا ہو۔ میڈیا مالکان کو جو رقم ادا کرنی ہے، وہ سابقہ دور حکومت کی ہے۔ میڈیا کارکنوں کی برطرفیاں تشویشناک ہیں، میڈیا کو صرف تنقید نہیں، بلکہ حکومت اور اپوزیشن کی رہنمائی بھی کرنی چاہیئے۔ پنجاب اسمبلی کی تاریخ میں پہلی بار سانحہ ساہیوال جیسے واقعہ پر اِن کیمرہ بریفنگ کا اہتمام کیا گیا۔ ہم چاہتے ہیں کہ اخبارات، ٹی وی کا نظام بڑے طریقے سے چلتا رہے، صحافیوں کیلئے کالونیوں کا قیام فراموش نہیں کیا گیا، وہ مکمل ہوگا۔

اسلام ٹائمز: پنجاب میں صنعتوں کی ترقی اور پیشرفت کیلئے آپکی وزارت کی کیا کارکردگی ہے۔؟
میاں اسلم اقبال:
سابق حکمران پنجاب کو چودہ سو ارب روپے کا مقروض چھوڑ کر گئے ہیں۔ صوبے میں سرمایہ کاری کا فروغ ہماری اولین ترجیح ہے اور اس مقصد کے لئے ہر ضروری اقدام کریں گے، سرمایہ کاروں کی سہولت کے لئے ون ونڈو آپریشن کا آغاز کیا جا رہا ہے اور سرمایہ کاری میں حائل سرخ فیتے کی رکاوٹوں کو دور کیا جائے گا۔ سرمایہ کاری کے فروغ کے لئے غیر ضروری اور فرسودہ قوانین کو تبدیل کرکے انہیں موجودہ دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ بنانا وقت کی ضرورت ہے، تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ایسا نظام بنائیں گے، جس سے سرمایہ کاری کے راستے میں حائل رکاوٹیں دور ہوں گی۔ مسائل سے گھبرانے والے نہیں ہیں۔ عوام کے مسائل کم کریں گے، کاروباری طبقہ کا ملکی معیشت میں اہم کردار ہے، تاجروں کو ہر ممکن سہولت دیں گے، ملکی ترقی ہماری اولین ترجیح ہے۔ صنعتی شعبے کو بھی بہتر بنا رہے ہیں، کسی بھی محکمے کا افسر اب فیکٹریوں پر چھاپے نہیں مار سکے گا، کاروباری طبقہ میں پھیلائی جانے والی خوف و ہراس کی فضا کم کریں گے۔

ہماری کوشش ہے کہ تاجر بھی دیانتداری سے ٹیکس ادا کریں، کوئی بھی بزنس مین کسی بھی وقت اپنے مسائل کے حل کے لیے مجھ سے مل سکتا ہے۔ صوبے میں صنعتوں کے فروغ کے لئے نئی صنعتی پالیسی کا اعلان کر دیا گیا ہے، جس کے تحت سالانہ 10 فیصد انڈسٹریل گروتھ حاصل کی جائے گی۔ ہر سال 12 لاکھ روزگار کے مواقع پیدا کئے جائیں گے، جبکہ 5 لاکھ سالانہ ہنرمند افرادی قوت تیار کی جائے گی۔ چھوٹی صنعتوں کے فروغ کے لئے بنک کے ذریعے کریڈٹ گارنٹی سکیم لا رہے ہیں، جس کے تحت پنجاب سمال انڈسٹریز کارپوریشن 80 فیصد قرضے کے لئے گارنٹی دے گی، جبکہ 20 فیصد قرضے کا ذمہ دار بنک ہوگا۔ اسی طرح لون مارک اپ سپورٹ پروگرام بھی شروع کیا جا رہا ہے، جس کے تحت صنعتیں لگانے کے لئے ایک کروڑ روپے تک کے قرضے کے حصول کے لئے 3.5 فیصد مارک اپ پنجاب سمال انڈسٹریز کارپوریشن ادا کرے گی۔

نوجوانوں کو بااختیار بنانے کے لئے آسان شرائط پر قرضوں کی فراہمی کا پروگرام بھی شروع کیا جا رہا ہے، اس پروگرام کے تحت بزنس پلان دینے والے امیدوار کو 30 لاکھ روپے تک کا قرضہ دیا جائے گا۔ سپیشل اکنامک زون بنائے جا رہے ہیں، جہاں 10 سال تک انکم ٹیکس کی چھوٹ ہوگی اور درآمد کی جانے والی مشینری پر ڈیوٹی زیرو ہوگی۔ پنجاب سپیشل اکنامک زون اتھارٹی بنا دی گئی ہے، جس کے پہلے اجلاس میں سات انڈسٹریل اسٹیٹس کو سپیشل اکنامک زون ڈکلیئر کر دیا گیا ہے، جس سے 4 لاکھ روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ انڈسٹری لگانے کے لئے این او سی کے حصول کے عمل کو آسان بنایا گیا ہے۔ پنجاب کے 26 اور وفاق کے 19 محکمے اس مقصد کے لئے ایک پیج پر ہوں گے اور مربوط انداز میں کام کریں گے، تاکہ صنعتکاروں کو کوئی مشکل پیش نہ آئے۔

سافٹ لون پروگرام کے تحت تربیتی اداروں کے فارغ التحصیل طلباء و طالبات کو اپنا کاروبار شروع کرنے کے لئے قرضوں کی فراہمی کے سلسلے میں 6 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ قرضے سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر میرٹ کی بنیاد پر دیئے جائیں گے۔ اس پروگرام میں خواتین کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ 10 فیصد سرمائے کا اہتمام خاتون امیدوار، جبکہ 90 فیصد سرمایہ پنجاب حکومت دے گی۔ اسی طرح 20 فیصد سرمائے کا اہتمام مرد امیدوار اور 80 فیصد پنجاب حکومت دے گی۔ قرضے کا گریس پیریڈ 6 ماہ ہے، جبکہ جنوبی پنجاب میں گریس پیریڈ 9 ماہ ہے۔ لاہور سیالکوٹ موٹروے پر نئی انڈسٹریل سٹیٹ بنا رہے ہیں اور اس حوالے سے آئندہ 2 ماہ میں خوشخبری ملے گی۔ 1500 ایکڑ پر مشتمل قائداعظم اپیرل پارک کے منصوبے پر کام شروع کیا جا رہا ہے۔ 3 ہزار ایکڑ رقبے پر فیصل آباد میں سپیشل اکنامک زون 2019ء میں مکمل کر لیا جائے گا۔ پنجاب میں نئی ٹیکنیکل یونیورسٹیاں بھی بنا رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 777445
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش