0
Tuesday 12 Feb 2019 22:10

میڈیا میں بحران ملٹری اسٹیبلشمنٹ کیوجہ سے پیدا ہوا ہے، مطیع اللہ جان

میڈیا میں بحران ملٹری اسٹیبلشمنٹ کیوجہ سے پیدا ہوا ہے، مطیع اللہ جان
سینیئر صحافی و اینکر پرسن مطیع اللہ جان کسی تعارف کے محتاج نہیں، چوبیس سال سے دشت صحافت کی خاک چھان رہے ہیں۔ ڈان ٹی وی پر پروگرام اپنا گریباں کے میزبان رہ چکے ہیں، اس پروگرام میں مطیع اللہ نے اپنی برادری یعنی صحافیوں کے اسکینڈلز کو بےنقاب کیا۔ یہی وجہ بنی کہ انہیں یہ پروگرام بند کرنا پڑا۔ بعد میں انہوں نے وقت ٹی وی میں اپنا اپنا گریباں کے نام سے پروگرام شروع کیا، تاہم چینل بند ہو جانے کے باعث کئی سالوں تک چلنے والا یہ پروگرام بھی بند ہوگیا۔ نئی حکومت کے قیام کے بعد سے میڈیا انڈسٹری مالی بحران کی زد پر ہے، جسکے باعث سینکڑوں میڈیا ورکرز کو جاب سے ہاتھ دھونا پڑا ہے اور آئے روز صحافیوں کو جابز سے محروم کیا جا رہا ہے، صحافتی تنظیموں نے حکومت اور مالکان کے خلاف ایک تحریک بھی شروع کر رکھی ہے، جس میں مطیع اللہ جان بھی شریک ہیں۔ اسلام ٹائمز نے نامور اینکر پرسنز سے جاننے کی کوشش کی ہے کہ آیا یہ بحران حکومت کی طرف سے ایجاد کردہ ہے یا مالکان نے خود ساختہ بحران کھڑا کر دیا ہے،  تفصیلی گفتگو پیش خدمت ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: میڈیا میں جاری بحران کا ذمہ دار کون ہے؟، حکومت یا مالکان۔ سنا ہے کہ پی بی اے نے ورکرز کو نکالنے پر ایکا کر رکھا ہے، اسی لیے ہر ادارے سے ملازمین نہیں نکالے جا رہے ہیں۔؟
مطیع اللہ جان:
میڈیا میں بحران کی ذمہ دار حکومت بھی ہے اور مالکان بھی، حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے اندر جو متوازی حکومت ہے، وہ بھی اس بحران کی برابر کی ذمہ دار ہے، بنیادی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے جو گیم الیکشن سے پہلے شروع کی تھی، اس میں میڈیا کو نشانہ بنانا بنیادی حکمت عملی کا حصہ تھا، محض یہ کہہ دینا کہ اس وقت جو کچھ ملک میں ہو رہا ہے، اس کی ذمہ دار سویلین حکومت ہے تو یہ بھی مکمل سچ نہیں ہوگا، اس وقت میڈیا بحران کے ذمہ دار مالکان، حکومت اور متوازی حکومت ہے، متوازی حکومت سے مراد اسٹیبلشمنٹ ہے۔ آپ نے دیکھا کہ ڈی جی آَئی ایس پی آر کے دفتر میں وزیر اطلاعات و نشریات میڈیا مالکان سے ملتے رہے ہیں، ایسی صورت میں حکومت کو یہ کہہ دینا کہ وہ اس چیز کی ذمہ دار ہے تو وہ بھی درست نہیں ہوگا، ویسے بھی جو ہماری متوازی حکومت ہے یا ملٹری اسٹیبلشمنٹ ہے، اس کا اپنا کاروبار اتنا پھیل گیا ہے کہ وہ اپنے فنانشل مسلز کے ساتھ میڈیا کو سزا دے سکتی ہے، ہمارے سامنے ڈی ایچ اے اور دوسری انڈسٹریز کی مثالیں موجود ہیں، جہاں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا بہت بڑا اثر و رسوخ ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا اسوقت میڈیا بحران پر خود میڈیا کے دوست کھل کر سچ بول رہے ہیں۔؟
مطیع اللہ جان:
میرے خیال میں ہمیں اپنے ساتھ سچ بولنا چاہیئے اور اتنا زیادہ سفارتی انداز نہیں اپنانا چاہیئے، اگر میڈیا بحران کے ذمہ داران کا ہم میڈیا والوں کو بھی علم نہیں یا پم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیں گے یا معصومانہ سوالات اور تجزیئے کرتے رہیں گے تو پھر ہم بھی ذمہ دار ہوں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کافی حد تک ہم خود اس بحران کے ذمہ دار ہیں، کیونکہ ہم نے بروقت منصوبہ بندی نہیں کی، ہماری میڈیا کی تنظیمیں دھڑے بندی کا شکار ہیں اور ہمارے ہی کچھ ساتھی حکومتی آلہ کار بنے ہوئے ہیں، اسی طرح کچھ متوازی حکومت کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں، صحافیوں میں اس وقت بھی تقسیم کی کوشش ہو رہی ہے اور جو بھی تحریک، ردعمل ہوتا ہے، اس کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا واقعی فنانشنل صورتحال ایسی بن گئی ہے کہ نئی حکومت آتے ہی یہ بحران کھڑا ہوگیا۔؟
مطیع اللہ جان:
دیکھیں مالی حالات پاکستان کے پچھلے ستر سال سے ایسے ہی رہے ہیں، کچھ اداروں کو بند ہونا چاہیئے تھا، لیکن آپ جانتے ہیں کہ اس وقت میڈیا کے اندر جو بحران ہے، وہ دوسری انڈسٹریز میں اس قدر نظر نہیں آرہا، خاص طور پر حکومت کے اپنے ادارے جو کاروبار کر رہے ہیں اور جو اسٹیبلشمنٹ کے کاروباری حلقے ہیں، وہاں پر تو کوئی بحران نظر نہیں آرہا، حتیٰ میڈیا کے اندر جو انویسٹمنٹ ہے وہ دیکھ لیں، آئی ایس پی آر اور فوج کے ترجمان کے پچاس سے زیادہ ریڈیو چینل چل رہے ہیں اور جو میڈیا کو بزنس دیا جا رہا ہے، اس سے تو نہیں لگتا کے کوئی مالی بحران ہے۔ اگر بحران ہے تو پورے ملک کیلئے ہونا چاہیئے، مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک طرف تو میڈیا کے ادارے بند ہو رہے ہیں، لوگ بےروزگار ہو رہے ہیں جبکہ دوسری جانب حکومت کہہ رہی ہے کہ ہم دفاعی بجٹ بڑھا رہے ہیں اور اس کے لیے ٹیکس بڑھائیں گے تو یہ عجیب بات ہے کہ ایسا بحران ہے، جو صرف اور صرف میڈیا میں ہی آیا ہوا ہے، باقی کاروباری ادارے ہیں، وہاں پر کوئی بحران نہیں لگ رہا۔

اسلام ٹائمز: تو آپکے خیال میں یہ بحران جان بوجھ کر لایا گیا ہے۔؟
مطیع اللہ جان:
ہم سب سمجھتے ہیں کہ میڈیا میں یہ بحران خود لایا گیا ہے، کیونکہ جس قسم کا نظام لانے کی کوششیں ہو رہی ہے، اس میں میڈیا بہت بڑی رکاوٹ تھا اور اس نئے نظام حکومت میں سیاسی جماعتیں، سیاسی عمل اور جمہوریت کے لیے بھی جگہ تنگ ہوتی جا رہی ہے، میڈیا پر جمہوری معاملات پر بحث و مباحثے کا گلا گھونٹنے کیلئے یہ مالی بحران پیدا کیا گیا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ صرف مالی بحران نہیں ہے بلکہ سیاسی بحران بھی ہے۔

اسلام ٹائمز: ٹی وی چینل کا یہ بزنس ماڈل کتنا آگے چل پائیگا، حکومت کہتی ہے کہ آپ ہمیں بطور کلائنٹ لیں۔؟
مطیع اللہ جان:
ٹی وی چینل کا جو ماڈل بزنس ہے، یقینی طور پر اس میں بہتری کی ضرورت ہے، پوری دنیا میں جو ٹیکنالوجی بدل رہی ہے، اسکے مطابق ٹی وی بزنس اور میڈیا بھی اپنے کاروبار کو ری ڈیزائن کرتا ہے، مگر جس ملک میں حکومتی ادارے خود بزنس میں ہوں اور بزنس کو کنٹرول کرتے ہوں تو پھر اس ملک کے اندر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ حکومت اپنے آپ کو میڈیا کا کلائنٹ قرار دیتی ہے یا نہیں دیتی، اگر حکومت کا کاروبار یا اشتہارات پر کنٹرول ہے یا کم کر دے، اشتہارات کے ریٹس کم کر دے، اس سے فرق نہیں پڑے گا، کیونکہ اصل مسئلہ متوازی حکومت ہے، جو بزنس میں دخیل ہے، جس کا بزنس پر اثر ہے، اس سے کیسے جان چھڑائی جائے، یہ زیادہ مہم ہے۔ یہ پورا سچ نہیں ہوگا کہ محض ہمارا بزنس ماڈل خراب تھا تو اس کے بدلنے سے شائد کچھ حالات بہتر ہوں گے۔ اس ملک میں جتنے ماڈل بدل لیں، حکومت جتنا اچھا ماڈل لے آئے، جب تک متوازی حکومت کا موڈ اچھا نہیں ہوگا، اس ملک میں جمہوری ماڈل کامیاب نہیں ہوسکتا۔ نہ کوئی بزنس ماڈل کامیاب ہوسکتا ہے۔ آپ جتنی آئین اور قانون میں ترامیم کر لیں، کچھ نہیں ہوگا، کیونکہ اصل کنٹرول متوازی حکومت ہی کرے گی۔ منتخب حکومت کچھ نہیں کرسکے گی۔

اسلام ٹائمز: پی ٹی آئی حکومت کی 6 ماہ کی کارکردگی کو کیسے دیکھتے ہیں۔؟
مطیع اللہ جان:
پی ٹی آئی کے چھے ماہ کی کارکردگی جو ہے، وہ پچھلی حکومتی کارکردگی سے زیادہ مختلف نہیں ہے اور نہ ہی ہوسکتی ہے، کیونکہ ابھی بھی جو معاملات ہیں، وہ عمران خان کے ہاتھ میں نہیں ہیں، آپ دیکھ رہے ہیں کہ عمران خان پوری دنیا میں کشکول لے کر پھر رہا ہے، مدد مانگ رہا ہے، قرضے مانگ رہا ہے، ابھی تک حکومت کی جانب سے کوئی انقلانی اصلاحات نہیں لائی گئیں، آپ اندازہ لگائیں کہ ملک شدید مالی بحران کا شکار ہے، آپ کشکول لیکر دنیا بھر میں پھر رہے ہیں اور دوسری جانب دفاعی بجٹ میں اضافہ کر رہے ہیں۔ اس کا کیا مطلب ہے۔؟ پھر اس کا دفاع کیسے کرسکتے ہیں کہ ہم کیوں دفاعی بجٹ میں اضافہ کر رہے ہیں۔؟ میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کی کارکردگی جانچنے کے لیے چھے ماہ کافی نہیں ہیں، کم از کم ایک سال بعد صحیح انداز میں پتہ چل سکے گا۔
خبر کا کوڈ : 777570
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش