0
Saturday 23 Feb 2019 12:08
کے پی پولیس میں بدعنوانی اور لاقانونیت کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے

خیبر پختونخوا پولیس دہشتگردی کیخلاف فرنٹ لائن فورس کے طور پر کام کررہی ہے، آئی جی پولیس

کے پی کے پولیس پاکستانی تاریخ میں پہلی بار اختیار کی نچلی سطح پر منتقلی کا وعدہ ایفا کررہی ہے
خیبر پختونخوا پولیس دہشتگردی کیخلاف فرنٹ لائن فورس کے طور پر کام کررہی ہے، آئی جی پولیس
خیبر پختونخوا میں حال ہی بطور انسپکٹر جنرل آف پولیس تعینات ہونیوالے ڈاکٹر محمد نعیم خان کا تعلق ترناب چارسدہ سے ہے۔ قبل ازیں وہ انسپکٹر جنرل آف پولیس آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا میں ایلیٹ فورس کے سربراہ رہے ہیں۔ گریڈ 22 کے نعیم خان پولیس سروسز آف پاکستان کے سینیئر آفیسر ہیں۔ انہوں نے خیبر پختونخوا پولیس میں بطور ایڈیشنل آئی جی خدمات سرانجام دی ہیں۔ اسکے ساتھ ہی خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں بھی تعینات رہے۔ محمد نعیم خان اپنے خاندان کے پانچویں فرد ہیں، جو پولیس میں اس اہم  عہدے پر تعینات ہوئے۔ ان کے چچا سید محسود شاہ دو بار انسپیکٹر جنرل آف پولیس رہ چکے ہیں۔ نعیم خان کے چچازاد بھائی ظفر اللہ خان بھی انسپکٹر جنرل آف ہولیس اور موٹر وے پولیس سے ریٹائرڈ ہوئے۔ کمانڈنٹ ایف سی ریٹائرڈ ہونیوالے لیاقت علی خان بھی انکے قریبی رشتہ دار ہیں۔ لیاقت علی اور ظفر اللہ خان کے چچا بھی 1972ء سے 1974ء تک آئی جی پولیس رہ چکے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے ایک خصوصی نشست کے دوران ڈاکٹر محمد نعیم خان کیساتھ خصوصی گفتگو کی، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: آپ خیبر پختونخوا کیساتھ قبائلی اضلاع میں بھی پولیسنگ کے سربراہ ہیں، قبائلی اضلاع میں پولیس کی عملداری کیلئے کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔؟
ڈاکٹر محمد نعیم خان:
خیبر پختونخوا میں ضم ہونیوالے قبائلی اضلاع میں پولیس نظام کا آغاز کر دیا گیا ہے، لیویز اور خاصہ دار فورس کی پولیس میں شمولیت کے بعد تنخواہوں اور دیگر مراعات میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے گا۔ لیویز اور خاصہ دار فورس کی تخواه 18 ہزار سے بڑھ کر 28 ہزار روپے ہوگی۔ سی پیک میں خیبر پختونخوا کی فورس کی بھرتی میں ضم شده قبائلی اضلاع کا کوٹہ شامل کیا گیا ہے، لیویز اور خاصہ دار فورس سے آئے ہوئے پولیس افسران کو صوبے کے دیگر اضلاع میں خدمات دینے کی آزادی دی جائے گی۔ ضم شدہ اضلاع میں ہزاروں کی تعداد میں پولیس کی مختلف رینکس میں بھرتی کی جائے گی۔ لیویز اور خاصہ دار فورس کے غیر یا کم تعلیم یافتہ اور عمر رسیدہ اہلکاروں کے بدلے انہی کے خاندان کے اہل اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بھرتی کیا جائے گا۔ شہید پیکج سابق قبائلی اضلاع میں گریڈ ایک سے 16 تک 70 لاکھ کا اضافہ، گریڈ 17 میں ایک کروڑ روپے، گریڈ 18 اور 19 میں ایک کروڑ 10 لاکھ روپے کا اضافہ ہوگا۔

اسلام ٹائمز: لیویز اور خاصہ دار فورس کے پولیس میں ضم ہونیکے بعد صوبے اور قبائلی اضلاع کی پولیس کی مراعات برابر ہونگی یا کوئی کمی بیشی ہوگی۔؟
ڈاکٹر محمد نعیم خان:
قبائلی اضلاع میں پولیس کے نظام کی منظوری کے بعد ان علاقوں کو ہارڈ ایریا کی حیثیت دیکر ان کی تنخواہیں اور دیگر مراعات میں مزید اضافہ ہوگا۔ اسی طرح شہید پیکج کی مد میں بھی پولیس کا نظام ان ملازمین کیلئے سودمند اور مددگار ثابت ہوگا۔ شہید پیکج کی مد میں قبائلی اضلاع میں بنیادی پے سکیل ایک سے 16 تک کے ملازمین کے ورثاء کو تیس لاکھ روپے دیئے جاتے ہیں، جبکہ پولیس کے اسی رینک کے ملازمین کے ورثاء کو ایک کروڑ روپے دیئے جاتے ہیں اور یوں سابق فاٹا کے گریڈ ایک سے گریڈ 16 کے ملازمین کو شہید کی مد میں 70 لاکھ روپے کا اضافہ ہوگا۔ اسی طرح شہید پیکج کی مد میں قبائلی اضلاع میں گریڈ 17 کے ملازمین کے ورثاء کو 50 لاکھ روپے دیئے جاتے ہیں، جبکہ پولیس کے اسی رینک کے ملازمین کے ورثاء کو شہادت کی صورت میں ڈیڑھ کروڑ روپے مل جاتے ہیں۔ ادھر بھی سابق فاٹا کے گریڈ 17 کے ملازمین کو ایک کروڑ روپے کا خطیر اضافہ ہوگا۔ مزید یہ کہ سابق فاٹا کے گریڈ 18 اور 19 کے ملازمین کے ورثاء کو 90 لاکھ روپے، جبکہ پولیس کے اسی رینک کے ملازمین کے ورثاء کو دو کروڑ روپے دیئے جاتے ہیں۔ یہاں بھی سابق فاٹا کے گریڈ 18 اور 19 کے ملازمین کو ایک کروڑ 10 لاکھ روپے کا مزید اضافہ ہوگا۔ اگرچہ کوئی بھی رقم انسانی جان کا نعم البدل نہیں ہوتی، لیکن شہداء کے ورثاء کی مشکلات کو کسی حد تک کم کرسکے گی۔

اسلام ٹائمز: وزیراعظم کی ہدایت پر تمام محکموں نے اپنے 100 روزہ پلان ترتیب دیئے ہیں، پولیس کا محکمہ دیگر محکموں سے انتہائی حساس ہے، اپنے محکمے کے 100 روز پلان کے چیدہ چیدہ نکات بیان فرمائیں۔؟
ڈاکٹر محمد نعیم خان:
 محکمہ پولیس نے اپنے 100 روزه پلان میں جو شامل کیا ہے کہ وہ ہے جدید ٹیکنالوجی سے لیس "ای پولینسگ"۔ ای پولیسنگ کے تحت اب پشاور سمیت صوبہ بھر کی ہر چیک پوسٹ، ہر موبائل گاڑی، ہر تھانہ اور چوکی کو آڈیو ویڈیو کیمروں سے منسلک کیا جا رہا ہے اور ساتھ ساتھ عوام بھی اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے اپنے موبائل کا استعمال کرسکیں گے۔ ہر ناکہ، تھانہ اور چیک پوسٹوں پر آڈیو ویڈیو کیمروں کے ذریعے ریکارڈنگ کی جائے گی، جبکہ ساتھ ساتھ آر پی او اور ڈی پی او براہ راست دیکھ سکیں گے۔ ای پولیسنگ نظام رائج ہونے کے بعد محکمہ پولیس کے نظام میں مزید شفافیت آئے گی اور عوام کو بھی اپنے حقوق کا تعین ہوسکے گا۔

اسلام ٹائمز: سی پیک میں خیبر پختونخوا پولیس فورس کا بھرتی کوٹہ شامل ہے، اب قبائلی اضلاع بھی صوبے کا حصہ ہیں، کیا اس کوٹے میں قبائل بھی شامل ہیں۔؟
ڈاکٹر محمد نعیم خان:
جی ہاں بالکل، پاک چین راہداری منصوبے (سی پیک) میں صوبہ خیبر پختونخوا فورس کی بھرتی میں ضم شدہ قبائلی اضلاع کا کوٹہ شامل ہے۔ اس سے وہاں پر ہزاروں کی تعداد میں بےروزگار نوجوانوں کو پولیس فورس کے مختلف رینک میں ملازمت کے نادر مواقع میسر آئیں گے۔ پولیس نظام سابقہ اور خاصہ دار فورس کے ناخوانده، کم تعلیم یافتہ اور عمر رسیدہ اہلکاروں کیلئے بھی ہر حوالے سے فائدہ مند اور سہارے کا سبب بنے گا۔ ان کی جگہ انہی کے خاندان کے اہل اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بھرتی کرکے ملک و قوم کی بہتر خدمت کے مواقع فراہم کئے جائیں گے۔ وقت گزرنے کے ساتھ پولیس کا نظام قبائلی اضلاع کے عوام کیلئے ان مراعات اور سہولیات کے علاوہ دیگر اضافی مراعات لاکر وہاں کے مکینوں کی زندگیوں میں خوشیوں کا انقلاب برپا کرسکے گا۔ قبائلی عوام کو درپیش مسائل کا مجھے علم ہے اور قوی امکان ہے کہ جراتمندانہ اور مثبت فیصلوں سے پولیسنگ کے حوالے سے قبائلی علاقہ امن کا گہوارہ بن کر ترقی و خوشحالی کے نئے دور میں داخل ہوگا اور ایک نئی تاریخ رقم ہوگی۔

اسلام ٹائمز: کیا خیبر پختونخوا پولیس میں کوئی نئی اصلاحات لائی جا رہی ہیں۔؟
ڈاکٹر محمد نعیم خان:
جی ہاں، خیبر پختونخوا پولیس میں اصلاحات لائی جا رہی ہیں، کیونکہ پہلے جو اصلاحات لائی گئی تھیں، اس کی سکرونٹی کمیٹی میں ڈی جی احتساب کمیشن بھی شامل تھے، بدقسمتی سے صوبے میں احتساب کمیشن ختم کر دیا گیا ہے، اس لئے اصلاحات میں ترامیم کی جا رہی ہیں۔ اب سکرونٹی کمیٹی میں کوئی سرکاری افسر یا اہلکار شامل نہیں ہوگا، حکومتی و اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے گی، تاکہ عوام کی عدالت میں شکایات و دیگر مسائل کا ازالہ کیا جاسکے۔

اسلام ٹائمز: خیبر پختونخوا پولیس کے تفتیشی نظام کی بہتری کیلئے کن اصلاحات کی ضرورت ہے۔؟
ڈاکٹر محمد نعیم خان:
تفتیشی نظام میں بہتری لانے کیلئے ایک لائحہ عمل طے کیا گیا ہے، آپ کو معلوم ہے کہ باہر کے ممالک میں دہشت گردی کے ایک کیس کی تفتیش کیلئے تقریبا ڈیڑھ کروڑ روپے دیئے جاتے ہیں، جبکہ ہمارے ہاں بدقسمتی سے ایک کیس کی قیمت صرف 600 روپے ہے۔ وسائل دستیاب ہونگے تو تفتیش بھی اچھی ہوگی۔ اس لئے خیبر پختونخوا پولیس کے تبدیل ہونے والے آئی جی صلاح الدین محسود نے شعبہ تفتیش کیلئے اسپیشل پیکج حاصل کرنے کیلئے صوبائی حکومت سے رابطہ کیا تھا، اصلاحات کیلئے ایک کمیٹی بھی بنائی گئی ہے، جس کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی ہیں۔ کمیٹی نے ابتدائی طور پر سفارش کی ہے کہ آئندہ شعبہ تفتیش کیلئے لاء گریجویٹ افسر و اہلکاروں کا چناؤ کیا جائے، تاکہ نظام بہتر ہو۔

اسلام ٹائمز: خیبر پختونخوا کا حصہ بننے والے قبائلی اضلاع میں پولیسنگ کیلئے نفری کی تعداد کا کوئی سروے کیا گیا ہے؟ آبادی کے لحاظ سے کتنے افسران و اہلکار تعینات کئے جائیں گے۔؟
ڈاکٹر محمد نعیم خان:
جی بالکل، سروے کا عمل مکمل کر لیا گیا ہے، مجموعی طور پر 2 ایڈیشنل آئی جی، 3 ڈی آئی جی، 7 ایس ایس پیز، 31 ایس پیز، 75 ڈی ایس پیز اور تقریباََ 6 ہزار پولیس اہلکار ہونگے۔ علاوہ ازیں تھانوں کیلئے بھی مقامات کا چناؤ کر لیا گیا ہے، جبکہ تمام تر انتظامات بھی مکمل کر لئے گئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: دیکھا جائے تو صوبے میں تھانوں کی عمارتیں خستہ حال اور رہائش انتہائی ابتر ہے، اس حوالے سے کیا اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔؟
ڈاکٹر محمد نعیم خان:
بدقسمتی سے پولیس کے شعبہ کو وہ مراعات نہیں دی جاتیں، جو دوسری فورسز کو حاصل ہوتی ہیں، لیکن اس کے باوجود پولیس کے شعبے میں بہترین پلاننگ کی گئی ہے، کم وسائل کے باوجود محکمہ پولیس میں انقلابی تبدیلیاں لائی گئیں۔ اسوقت صوبے کے اضلاع میں جتنے بھی تھانے ہیں، ان میں 70 فیصد کو ماڈل پولیس اسٹیشنز میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور باقی ماندہ پولیس اسٹیشنز بہت جلد ماڈل پولیس اسٹیشنز میں تبدیل ہو جائیں گے۔ حالیہ 32 بم پروف چوکیوں کی تعمیر سے پولیس عمارات بالکل محفوظ ہیں۔

اسلام ٹائمز: سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے میں فاٹا اور پاٹا کے تمام سابق قوانین ختم کر دیئے گئے ہیں، خیبر پختونخوا میں لاگو قوانین قبائلی اضلاع میں لاگو ہونگے یا کوئی ترمیم کی جائیگی۔؟
ڈاکٹر محمد نعیم خان:
سپریم کورٹ کے فیصلے میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا کے تمام قوانین بشمول پولیس ایکٹ 2017ء فاٹا اور پاٹا میں لاگو ہونگے۔ فاٹا اور پاٹا کیلئے ماضی میں بنائے گئے تمام قوانین ختم کر دیئے گئے ہیں۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ تمام قوانین جو پشاور اور مردان میں لاگو ہیں، وہ قبائلی اضلاع میں بھی لاگو ہونگے۔

اسلام ٹائمز: خیبر پختونخوا حکومت نے حال ہی میں پولیس ایکٹ نافذ کیا ہے، جس میں ہر لحاظ سے پولیس کو خود مختار بتایا گیا ہے، آپ اس ایکٹ کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
ڈاکٹر محمد نعیم خان:
پولیس کی خود مختاری اور آزادانہ طور پر کام کرنے کے حوالہ سے خیبر پختونخوا پولیس ایکٹ 2017ء انتہائی اہمیت کا حامل ہے، جس نے پولیس کو سیاسی مداخلت سے پاک کرنے اور اپنے فیصلے اپنے طور پر، بغیر کسی کے ڈکٹیشن کے کرنے کا ایک سنہری موقع فراہم کیا گیا۔

اسلام ٹائمز: پشاور میں سٹریٹ کرائمز، اغواء برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری جیسے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، ان پر قابو کیسے پایا جاسکتا ہے اور کون سے گروہ ملوث ہیں۔؟
ڈاکٹر محمد نعیم خان:
اللہ کے فضل سے خیبر پختونخوا میں بالعموم اور پشاور میں بالخصوص اغواء برائے تاوان کا 100 فیصد قلع قمع کیا گیا ہے، جبکہ ٹارگٹ کلنگ میں 88 فیصد اور بھتہ خوری میں 84 فیصد کمی آچکی ہے، دستاویزات کے مطابق گذشتہ سال 2018ء میں اغواء برائے تاوان کا ایک واقعہ بھی پیش نہیں آیا۔ 2014ء میں 69 اغواء برائے تاوان کے واقعات پیش آئے تھے، جو 2017ء میں کم ہو کر 12 تک گر گئے۔ اس طرح بھتہ خوری کے 2014ء کے دوران پیش آنے والے 218 واقعات کی نسبت سال 2017ء کے پورے سال کے دوران صرف 34 واقعات رونما ہوئے، جو ایک ریکارڈ کمی ہے۔ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات جو 2014ء میں 24 تھے، کم ہوکر 2017ء میں محض 3 ہی رہ گئے۔

اسلام ٹائمز: دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے پولیس کی تربیت کیلئے کیا اقدامات کئے گئے ہیں۔؟
ڈاکٹر محمد نعیم:
دہشت گردی جیسے ناسور سے نمٹنے کیلئے پولیس نے 2014ء میں محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کا قیام عمل میں لایا ہے، جس کی پیشہ وارانہ کارکردگی کی بدولت 2017ء پچھلے 10 سال میں پرامن ترین رہا، جبکہ 2018ء کی پہلی سہ ماہی 2017ء سے بہتر رہی۔ اسی طرح ٹارگٹ ہارڈننگ، موک ایکسر سائز، مکان اور سرائے ایکٹ، شیڈول فور اور SVEP ایکٹ کے نفاذ سے دہشتگردی کے واقعات میں 2014ء کے مقابلے میں نمایاں 85 فیصد کمی نوٹ کی گئی ہے۔ اسپیشلائزڈ سکولز جیسے سکول آف انفارمیشن ٹیکنالوجی پولیس لائنز پشاور، سکول آف انوسٹی گیشن حیات آباد، سکول آف ٹیکٹیکس حیات آباد، سکول آف پبلک ڈس آرڈر اینڈ رائٹ مینجمنٹ مردان، سکول آف ایکسپلوزیو ہینڈلنگ نوشہرہ، سکول آف انٹیلی جنس ایبٹ آباد اور سکول آف ایلیٹ ٹرینینگ نوشہرہ جبکہ ریپڈ رسپانس فورس اور اسپیشل کمبیٹ یونٹ جیسے اقدامات بھی اس حوالے سے قابل ذکر ہیں۔ ان سکولوں میں مجموعی طور پر 18799 پولیس افسران اور جوانوں کو تربیت دیکر فارغ کیا گیا، جو اب پیشہ وارانہ انداز سے اپنی کارکردگی کا لوہا منوا رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز۔ بارہا کوششوں کے باوجو تھانہ کلچر تبدیل نہیں ہوسکا، اسکی کیا وجہ ہے۔؟
ڈاکٹر محمد نعیم:
 نہیں میں اس بات سے اختلاف کرونگا، کافی حد تک تھانہ کلچر میں تبدیلی لاچکے ہیں۔ A thousand miles journey start with a single step کے مصداق تھانہ کلچر کی تبدیلی کی طرف ہم نے کافی سفر طے کیا۔ درحقیقت ماڈل پولیس اسٹیشن کا قیام اور ان کے اندر جملہ سٹاف کی میرٹ پر تعیناتی، جس کے ذریعے تعلیم یافتہ اور اچھی شہرت کے حامل پولیس افسروں کو لگایا جاتا ہے، جو عوام کے ساتھ خنده پیشانی سے پیش آکر ایک صاف ستھرے ماحول میں ان کے مسائل حل کرتے ہیں، جو تھانہ کلچر کی تبدیلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

اسلام ٹائمز: پشاور کی آبادی کی نسبت پولیس کی نفری اور وسائل کتنے ہیں اور کتنے ہونے چاہیئیں؟ اس حوالے سے عالمی معیار کیا ہے۔؟
ڈاکٹر محمد نعیم خان:
پولیس کی نفری کم ہے یا زیادہ جو بات اس حوالے سے اہم ہوسکتی ہے، وہ یہ ہے کہ آپ کے پاس جتنی بھی نفری ہے، وہ کس حد تک الرٹ اور تیار ہے۔ پشاور کی تقریباََ 42 لاکھ کی آبادی کیلئے موجودہ نفری 8400 ہے۔ یعنی 550 بندوں کیلئے ایک سپاہی، جو عالی معیار کے مطابق نہیں، لیکن خیبر پختونخوا پولیس نے کم وسائل اور قلیل نفری کے باوجود بھی تمام درپیش چینجر بشمول دہشت گردی کا صفایا اور جرائم کی بیخ کنی کی اور یہ ہمیشہ سے طره امتیاز رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: اسوقت پشاور میں کتنے اغواء کار، ڈکیت، رہزن اور قبضہ گروپ متحرک ہیں۔؟
ڈاکٹر محمد نعیم خان:
پشاور میں اغواء کاری کا مکمل طور پر خاتمہ کیا جاچکا ہے، 2017ء میں 7 اغواء کار گروپس متحرک تھے، جبکہ 2018ء میں ان کا مکمل طور پر قلع قمع کیا گیا۔ سال رواں میں اغواء کاری کا ایک بھی واقعہ پیش نہیں آیا، جبکہ ڈکیتی کے 14 متحرک گروہوں کے مقابلے میں سال رواں میں صرف ایک ڈکیت گروپ باقی رہ گیا۔ اس طرح 2017ء میں رہزنی کی وارداتوں میں ملوث 62 گروپس کی نسبت سال رواں میں 7 رہزن گروپس باقی رہ گئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: پشاور کے تھانوں کی سکیورٹی اور ریت کی بوریاں عوامی مشکلات کیساتھ تجاوزات کا باعث بھی بن رہی ہیں، آپ کیا کہتے ہیں۔؟
ڈاکٹر محمد نعیم خان:
خیبر پختونخوا پولیس دہشتگردی کے خلاف فرنٹ لائن فورس کے طور پر کام کر رہی ہے۔ دہشتگردی کے خلاف جہاد میں 1800 کے قریب جوانوں نے مادر وطن کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ دراصل تھانوں میں پولیس جوانوں کی حفاظت اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سینڈ بیگز ایک اہم حکمت عملی ہے، تاہم یہ کوشش کی گئی ہے کہ یہ سینڈ بیگز عوام الناس اور ٹریفک کی روانی میں خلل انداز نہ ہوں، جبکہ انہی سینڈ بیگز کی آڑ میں پولیس جوان مورچہ زن ہوتے ہیں، ماسوائے چند انتہائی حساس تھانوں کے۔ باقی تمام تھانوں میں جن میں بڈھ بیر، چوکی اسٹیشن، حیات آباد، ٹاؤن، شرکی، ہشت نگری، گلبہار، یکہ توت، شاہ قبول، بھانہ ماڑی، مچنی گیٹ، داؤد زئی، کوتوال، گلبرگ اور غربی شامل ہیں، کے سامنے ریت کی بوریاں اور دیواریں ہٹا دی گئی ہیں۔

اسلام ٹائمز: خواتین کی شکایت کیلئے علیحدہ کاؤنٹر بنانیکی بات کہاں تک پہنچی، ویمن پولیس اسٹیشن کیسے فعال ہونگے۔؟
ڈاکٹر محمد نعیم خان:
صوبہ بھر میں تقریباََ 61 تھانوں میں خواتین کیلئے علیحدہ ڈیسک قائم کئے گئے ہیں، جن میں بتدریج اضافہ کیا جائے گا اور خواتین ڈیسک کے قیام سے پختون معاشرے کی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں اپنے مسائل خاتون پولیس اہلکار کو اچھے طریقے سے سمجھا سکتی ہیں اور خاتون اہلکار ہی ان کی شکایات کا بروقت اور درست طور پر ادراک کرسکتی ہے۔ پشاور کے تمام ماڈل پولیس سٹیشن یعنی فقیر آباد، گلبہار، ٹاؤن، حیات آباد شرقی غربی، کوتوال اور چمکنی میں خواتین ڈیسک قائم ہیں، جبکہ باقی مانده تھانوں میں بھی خواتین کیلئے بہت جلد ویمن ڈیسک کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔

اسلام ٹائمز: تبدیلی لانیوالی حکومت صوبے میں ایک بار پھر برسراقتدار ہے، اس سے پولیس میں کس حد تک تبدیلی آئی ہے اور کرپشن کس حد تک ختم ہوئی۔؟
ڈاکٹر محمد نعیم خان:
خیبر پختونخوا پولیس میں بدعنوانی اور لاقانونیت کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے، جبکہ پولیس میں مسلسل سزاء و جزاء کا عمل بھی جاری ہے۔ پچھلے چند سال کے دوران سزاء اور جزاء کے نظریئے پر عمل کرتے ہوئے 8422 پولیس اہلکاروں کو ملازمت سے برخاست کیا گیا، جس کی بدولت کافی حد تک پولیس کے اندر سے کرپشن ختم کی گئی ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا محکمہ پولیس میں فنڈز کی کمی نہیں۔؟
ڈاکٹر محمد نعیم خان:
محکمہ پولیس میں فنڈز کی اس قدر کمی نہیں ہے کہ جس سے ہماری ضروریات اور پولیس کی کارکردگی متاثر ہوسکے۔ خیبر پختونخوا پولیس پاکستانی تاریخ میں پہلی بار اختیار کی نچلی سطح پر منتقلی کا وعدہ ایفا کر رہی ہے، کیونکہ آئندہ تھانوں کی سطح پر فنڈز کی تقسیم ایس ایچ او آپریشن اور آفیسر انچارج انویسٹی گیشن کے ذریعے کی جائے گی۔

اسلام ٹائمز: کیا خیبر پختونخوا میں داعش کا وجود موجود ہے۔؟
ڈاکٹر نعیم خان:
 پاکستان اور بالخصوص خیبر پختونخوا میں داعش کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا، مگر ہم اس حوالے سے کافی الرٹ ہیں، ہماری اینٹیلی جنس ایجنسیاں اس حوالے سے معلومات کا تبادلہ کر رہی ہیں۔ محکمہ انسداد دہشتگردی (سی ٹی ڈی) کی پیشہ ورانہ مہارت سے داعش کے خلاف کئے گئے موثر اور انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن نہایت قابل تحسین ہیں، جن کی بدولت محمکہ پولیس اور لیویز کی ٹارگٹ کلنگ میں نمایاں کمی آئی ہے، لیکن کچھ اضلاع ایسے ہیں، جہاں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، ان شاء اللہ ان اضلاع میں بھی دہشتگردی کا صفایہ یقینی بنایا جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 779392
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش