0
Wednesday 27 Mar 2019 06:04
پوری دنیا میں ہونیوالی خونریزی کی بنیادی وجہ امریکہ ہے

یمن سمیت عالم اسلام میں تنازعات کے حل کیلئے پاکستان کو کردار ادا کرنا چاہئے، سینیٹر مشتاق خان

حکمران نیوزی لینڈ کی وزیراعظم سے سبق سیکھیں
یمن سمیت عالم اسلام میں تنازعات کے حل کیلئے پاکستان کو کردار ادا کرنا چاہئے، سینیٹر مشتاق خان
سینیٹ آف پاکستان کے رکن مشتاق احمد خان صاحب کا شمار جماعت اسلامی کے دیرینہ کارکنوں میں ہوتا ہے، آپ اس وقت جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے امیر ہونے کیساتھ ساتھ ایوان بالا کے رکن کی حیثیت سے بھی فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ ملکی اور بین الاقوامی حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور سنجیدہ شخصیت کے مالک ہیں۔ اسلام ٹائمز نے اہم ملکی اور بین الاقوامی ایشوز پر سینیٹر مشتاق احمد خان کیساتھ ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: جماعت اسلامی گذشتہ حکومت میں صوبائی سطح پر پی ٹی آئی کی اتحادی تھی، اب جبکہ تحریک انصاف نئے پاکستان کا ویژن لیکر آئی ہے تو آپ کی جماعت انکی مجموعی کارکردگی کو کیسے دیکھتی ہے۔؟
سینیٹر مشتاق خان:
اگر پی ٹی آئی کے دعووں کی روشنی میں وفاقی اور صوبائی سطح پر ان کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو اس حوالے سے کچھ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی، انہوں نے پہلے سو روزہ پروگرام دیا، اس پر کہاں عملدرآمد ہوا۔؟ اب آٹھ ماہ گزر گئے ہیں، لیکن اپنے دعووں اور وعدوں پر یہ لوگ کوئی عملدرآمد نہیں کرسکے۔ بلکہ الٹا ان تمام چیزوں پر انہوں نے یوٹرن لیا۔ آپ مہنگائی کی صورتحال دیکھ لیں، آج بھی خبر ہے کہ رمضان سے قبل مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا، کہا جارہا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے روپے کی قدر مزید گرے گی اور ڈالر مزید بڑھے گا، روزانہ اخبارات میں ایسی خبریں آرہی ہیں اور یہ لوگ خود بھی بتا رہے ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ناکام ترین حکومت ہے اور نااہل ترین لوگ حکومت میں موجود ہیں۔

اسلام ٹائمز: جماعت اسلامی ماضی میں مضبوط اپوزیشن کا بڑا مثبت رول ادا کرتی آئی ہے، کیا وجہ ہے کہ اس بار کوئی جاندار رول نظر نہیں آرہا۔؟
سینیٹر مشتاق خان:
اگر سینٹ میں ١٠٤ میں سے دو سینیٹرز کا رول نہیں دیکھ رہے تو حیرت ہے، آپ گذشتہ سیشن کی کارروائی نکال لیں، میں نے اقتصادی امور پر ١٤ منٹ کی تقریر کی ہے، اس میں میں نے کئی معاشی مسائل کی نشاندہی کی، اپوزیشن اور کسے کہتے ہیں؟ ہم تو اپنی حیثیت سے بڑھ کر قومی اسمبلی اور سینٹ میں رول ادا کر رہے ہیں۔ جماعت اسلامی اپنی سیاسی جدوجہد اپنے نام اور اپنے پلیٹ فارم سے ہی جاری رکھے گی۔

اسلام ٹائمز: متحدہ مجلس عمل کا اتحاد اس وقت کہاں کھڑا ہے، خبریں آئی تھیں کہ آپ کی جماعت اس اتحاد سے الگ ہوگئی ہے۔؟
سینیٹر مشتاق خان:
جماعت اسلامی مختلف سطحوں پر دینی جماعتوں کے سیاسی و غیر سیاسی اتحاد کی قائل ہے، ختم نبوت (ص) کے معاملہ پر، مساجد و مدارس کے معاملہ پر، پاکستان کے دینی تشخص، سود کے خلاف جدوجہد جیسے مسائل پر ہم دینی جماعتوں کیساتھ ہیں۔ جہاں تک سیاسی جدوجہد کا تعلق ہے تو اس حوالے سے جماعت اسلامی اپنے پلیٹ فارم سے حصہ لے گی۔ ہم اس سمیت باقی اتحادوں کا حصہ بھی ہیں، ہم ملی یکجہتی کونسل کا حصہ بھی ہیں، دینی جماعتیں جہاں بھی ایک ساتھ کھڑی ہوں گی، ہم ان کا حصہ ہوں گے۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے نیشنل ایکشن پلان پر درست عمل کیا ہے، کیا یہ اقدامات عالمی دباؤ کا حصہ ہیں۔؟
سینیٹر مشتاق خان:
اگر نیشنل ایکشن پلان کا مقصد مساجد اور مدارس کو تالے لگانا ہے تو یہ غلط ہے، اگر اس کا مقصد دینی شخصیات کو بدنام کرنا ہے تو ہم کسی صورت اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ ان کو نیشنل ایکشن پلان پلوامہ واقعہ کے بعد یاد آجاتا ہے، حکومت کی یہ اپروج ٹھیک نہیں ہے، ایسے نہیں ہونا چاہیئے۔ مجھے تو لگ رہا ہے کہ یہ عالمی دباؤ کا نتیجہ ہے، اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو ہمارے اداروں کا قانون موجود ہے، کسی کو بھی اس حوالے سے چھوٹ نہیں ہونی چاہیئے، ہر کسی کو قانون کی چوکاٹھ کے اندر ہی رہنا چاہیئے، کوئی قانون سے بالاتر نہیں، اگر کوئی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کے ساتھ قانون کے مطابق ٹریٹ کیا جائے، ناکہ مودی کی دھمکی یا عالمی دباؤ کے نتیجے میں اپنی مقامی عدالتوں کو بائے پاس کرکے کوئی ایکشن لیا جائے۔

اسلام ٹائمز: سانحہ نیوزی لینڈ کے بعد انکی وزیراعظم نے جیسا ردعمل ظاہر کیا، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وہ مسلم حکمرانوں کیلئے بھی مشعل راہ ہے۔؟
سینیٹر مشتاق خان:
ہمارے وزیراعظم نے نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کو فون کیا، میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے وزیراعظم کو اس خاتون وزیراعظم سے سبق سیکھنا چاہیئے، جس طرح انہوں نے مسلمانوں کیساتھ اظہار ہمدردی کیا اور مظلوموں کیساتھ کھڑی ہوئیں، اسی طرح راؤ انوار کے مقابلہ میں نقیب اللہ محسود کے گھر والوں اور ساہیوال کے سی ٹی ڈی کے ظالموں کے مقابلہ میں ان مظلوم بچوں کیساتھ ہمارے وزیراعظم کو کھڑا ہونا چاہیئے۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کی صرف تعریفوں سے کام نہیں چلے گا، قاتلوں کو سزاء ہونی چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ امریکہ افغانستان مسئلہ کے حل کیلئے جاری مذاکراتی عمل کو نتیجہ خیز بنانے میں سنجیدہ ہے۔؟
سینیٹر مشتاق خان:
دنیا بھر میں اور بالخصوص افغانستان میں اس وقت جتنی بھی خونریزی ہورہی ہے اس کی بنیادی وجہ امریکہ ہے، حالیہ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت 36 فیصد اسلحہ امریکہ ایکسپورٹ کرتا ہے، وہ اسلحہ کی بہت بڑی تجارت کررہا ہے، اس لئے وہ دنیا بھر میں خانہ جنگی اور خونریزی کو فروغ دے رہا ہے، افغانستان سے جلد از جلد امریکہ کو نکلنا چاہیئے، معافی بھی مانگنی چاہیئے، افغانیوں کو تاوان بھی ادا کرنا چاہیئے۔ امریکہ کے نکلنے کے بعد ہی یہاں پر پائیدار امن قائم ہوسکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر افغانستان میں امریکہ اپنی تھوڑی سی موجودگی بھی قائم رکھتا ہے تو نہ یہ مذاکراتی عمل کامیاب ہوگا اور نہ ہی امن آسکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ سے آخری سوال کہ یمن جنگ کو لیکر امت مسلمہ دو حصوں میں تقسیم نظر آتی ہے، اور دو مسلم ممالک میں بھی کشیدگی بڑھ رہی ہے، اس مسئلہ کو کس طرح حل کیا جاسکتا ہے اور پاکستان اس میں کیا رول ادا کرسکتا ہے۔؟
سینیٹر مشتاق خان:
تمام اسلامی ممالک کیساتھ اچھے تعلقات قائم رکھنا اور اخوت اور بھائی چارے کو فروغ دینا پاکستان کی ریاست کی دستوری ذمہ داری ہے، پاکستان کے آئین میں لکھا ہوا ہے کہ پاکستان اسلامی ممالک کیساتھ اچھے تعلقات رکھے گا اور ان کے درمیان اتحاد و اتفاق کی کوشش کرے گا، یہ تو آئینی ضرورت بھی ہے۔ جہاں تک یمن کے مسئلہ کو لیکر ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کی بات ہے تو صرف یمن کے مسئلہ پر ہی نہیں بلکہ ہر وہ مسئلہ جو امت مسلمہ کا مسئلہ ہے، اس پر بڑھ کر پاکستان کو رول ادا کرنا چاہیئے۔ اور جنگ، تشدد کی بجائے مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کو حل کیا جائے، دشمن چاہتا ہے کہ مسلم ممالک اپنے وسائل ایک دوسرے کے خلاف استعمال کریں، اور اس کا سارا فائدہ دشمنوں کو پہنچے۔ لہٰذا پاکستان کو یمن سمیت دیگر تنازعات کو حل کرنے کیلئے کردار ادا کرنا چاہیئے۔
 
خبر کا کوڈ : 785348
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش