1
Thursday 28 Mar 2019 22:40

پاراچنار کے قومی مشران و عمائدین کی توہین و تضحیک برداشت نہیں کی جائے گی، علامہ عابد الحسینی

پاراچنار کے قومی مشران و عمائدین کی توہین و تضحیک برداشت نہیں کی جائے گی، علامہ عابد الحسینی
علامہ سید عابد حسین الحسینی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور اسکے بعد تحریک جعفریہ میں صوبائی صدر اور سینیئر نائب صدر کے عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ ایک طویل مدت تک تحریک کی سپریم کونسل اور آئی ایس او کی مجلس نظارت کے رکن بھی رہے۔ 1997ء میں پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے رکن منتخب ہوئے، جبکہ آج کل علاقائی سطح پر تین مدارس دینیہ کی نظارت کے علاوہ تحریک حسینی کے سرپرست اعلٰی کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے قبائل خصوصا کرم میں نئے عدالت کے قیام کے حوالے سے انکے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا ہے، جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز:علامہ صاحب! قبائل میں آئے روز نئے عدالتوں کے قیام کے حوالے سے اعتراضات اور تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ بتائیں، آپکے ہاں پاراچنار کی بجائے ٹل میں عدالت کے قیام میں کیا قباحت ہے؟
علامہ سید عابد الحسینی:
ٹل ہمارا ضلع ہے، نہ ہی ہمارے ضلع کا ہیڈ کوارٹر۔ بلکہ پورے ملک میں ایسی مثال موجود ہی نہیں۔ لہذا ہمیں مثال نہ بنایا جائے۔ باقی ٹل ہمارے لئے محفوظ علاقہ نہیں۔ ہمارے لوگ ٹل جاکر اپنے مقدمات لڑ نہیں سکتے۔ جب مقدمات لڑ نہیں سکتے، تو اس عدالت کی حیثیت ہی کیا ہوگی۔
 
اسلام ٹائمز: سننے میں آرہا ہے کہ امن وامان کے مسائل کی بنا پر دیگر قبائلی اضلاع میں بھی ایسا ہی کیا جارہا ہے، یعنی خود انکے اپنے نئے اضلاع کی بجائے قریب ہی واقع اضلاع میں عدالت قائم کئے جارہے ہیں۔
علامہ سید عابد الحسینی:
ہم صرف اپنا مسئلہ بیان نہیں کررہے۔ ہم کہتے ہیں، کہ فاٹا کو نئے نظام کے تحت لاکر انکی تکالیف و مشکلات میں اضافہ نہ کیا جائے۔ ظلم کسی کے ساتھ بھی ہو، ہم اسکے مخالف ہیں۔ قبائلیوں کو قریب واقع سابق مقامی عدالتوں کی بجائے کئی سو کلومیٹر دور لے جاکر مقدمات لڑنے پر مجبور کیا گیا تو وہ مجبور ہوکر اپنے سابقہ نظام کے حق میں احتجاج کریں گے۔ باقی رہی یہ بات کہ امن وامان کے مسئلے کی وجہ سے یہاں عدالت کا قیام مشکل ہے، تو عرض یہ ہے کہ دیگر قبائل میں امن وامان کا مسئلہ ہوگا۔ جیسے خیبر ایجنسی، اورکزئی اور وزیرستان وغیرہ میں اس سے پہلے بھی نقض امن کی وجہ سے پولیٹیکل ایجنٹ اور تحصیلدار کے دفاتر کو قریب واقع اضلاع میں منتقل کیا گیا تھا۔

مگر پاراچنار میں ایسی صورت حال کبھی ایک دن کیلئے بھی نہیں آئی ہے۔ حتی پانچ سالہ محاصرے کے دوران بھی یہاں کے باشندگان نے بذات خود تو کافی مصیبتیں جھیلیں۔ تاہم ایک دن کیلئے پاکستانی جھنڈے کو سرنگوں نہیں ہونے دیا۔ اس دوران بھی سرکاری دفاتر کی کبھی چھٹی نہیں ہوئی۔ اکثر دوستوں سے سنا ہے کہ حکام فاٹا تو کیا، دیگر اضلاع کی نسبت بھی خود کا زیادہ محفوظ تصور  کرتے تھے۔ چنانچہ امن وامان کے مسئلے کو ایشو نہ بنایا جائے۔ کیونکہ اس وقت تو پاراچنار کیا دیگر غیر محفوظ علاقوں میں بھی یہ مسئلہ نہیں رہا ہے۔ 

اسلام ٹائمز: پاراچنار کے بعض مقامی افراد کی جانب سے بھی ایسے ہی مطالبات دہرائے جارہے ہیں۔ اس میں کیا حقیقت ہے؟
علامہ سید عابد الحسینی:
ہمارے ہاں پشتو زبان میں ایک مثال مشہور ہے، کہ ایک گاؤں والوں کو چرواہے کی ضرورت پیش آئی، سارا گاؤں متفق ہوا، مگر ایک شخص نے مجوزہ چرواہے کی مخالفت کی۔ اسی طرح کچھ دن بعد پھر گاؤں والے جمع ہوئے۔ فیصلہ کیا، مگر دوبارہ اسی شخص نے خلل ڈالا۔ جب تین مرتبہ ایسا ہوا، تو تحقیق کے بعد نتیجہ سامنے آگیا کہ اس شخص کے ہاں کوئی بھیڑ بکری نہیں تھی۔ مقصد یہ ہے کہ جو لوگ اسکی مخالفت کرتے ہیں۔ وہ پاراچنار سے باہر پشاور میں رہتے ہیں۔ اور حکومت کے باربار کہنے کے باوجود بھی پاراچنار آنے کا نام ہی نہیں لیتے، تو انکے لئے پاراچنار میں عدالت کے قیام سے خود کوئی فائدہ ونقصان نہیں، اور اس گاؤں والوں کی طرح اسے پاراچنار والوں کا فائدہ ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ چنانچہ غیر متعلقہ شخص کے غیر منطقی مطالبے پر کوئی دھیان دینا بھی غیرمنصفانہ ہوگا۔  

اسلام ٹائمز: پاراچنار کی جگہ کرم کے کسی دوسری تحصیل میں عدالت کے قیام کی بابت کیا رائے ہے؟ 
علامہ سید عابد الحسینی:
دیکھیں پاراچنار ڈیڑھ سو سال سے کرم کا ہیڈ کوارٹر رہا ہے۔ یہاں صرف عدالت نہیں بلکہ دیگر تمام محکمہ جات بھی ہیں۔ ادھر فوجی اور سول دفاتر اور انکے مسئولین کے دفاتر اور رہائش گاہیں موجود ہیں۔ اگر عدالت یہاں مناسب نہیں تو دیگر محکموں پر بھی غور کرنا پڑے گا۔ اور انہی سے پوچھا جائے، مثلا سول اور فوجی اعلی حکام جیسے بریگیڈئر اور ڈی سی صاحبان سے معلوم کیا جائے، کہ کیا وہ پاراچنار کی بجائے صدہ یا ڈوگر میں قیام پر راضی ہیں؟ امید ہے وہ خود ہی نفی میں جواب دیں گے۔ باقی یہ انکی مرضی پر بھی منحصر نہیں۔ ایسا تو پھر ہر تحصیل والے ہیڈ کوارٹر کا مطالبہ کریں گے۔ مثلا ٹل والے ہنگو پر اعتراض کرکے ٹل کو ہیڈ کوارٹر قرار دینگے۔ اسی طرح دیگر لوگ۔ تو ایسا مطالبہ کوئی کرتا ہے۔ وہ قانون و آئین سے سرے سے آگاہ نہیں۔

اسلام ٹائمز: ایک خاص گروہ کی جانب سے طوری اقوام کے سرکردہ افراد کی توہین کرنے پر آپ کا موقف اور رائے کیا ہے؟
علامہ سید عابد الحسینی:
دیکھیں، مولا کا فرمان ہے، کہ ظرف (جام) سے وہی کچھ برآمد ہوتا ہے، جو اس کے اندر موجود ہے۔ اور یہ کہ زبان پر وہی کچھ جاری ہوتا ہے۔ جو انسان کے دل میں ہوتا ہے۔ اگر انسان اندر سے صاف ہو، تو اسکی زبان پر صاف اور پاکیزہ الفاظ جاری ہوتے ہیں۔ اگر دل پاکیزہ نہیں تو زبان پر کوئی ملامت نہیں۔ باقی یہ سرکار کی ذمہ داری ہے، کہ وہ پرامن ماحول کو سبو تاژ کرنے والے شرپسند عناصر کو لگام دے۔ تاہم اس حوالے سے قومی سطح پر ہم خود بھی ایک متفقہ موقف اپنائیں گے۔ یہ بات سب پر واضح ہو، کہ قوم ایک ہی پچ پر ہے۔ قوم میں کوئی اختلاف نہیں، قومی مشران کی توہین کسی صورت میں برداشت نہیں کی جائے گی۔
خبر کا کوڈ : 785655
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش