0
Saturday 4 May 2019 14:37

پی ٹی ایم کیخلاف تحریک طالبان کی طرح کوئی فوجی آپریشن زیرغور نہیں ہے، فواد چوہدری

پی ٹی ایم کیخلاف تحریک طالبان کی طرح کوئی فوجی آپریشن زیرغور نہیں ہے، فواد چوہدری
سابق وفاقی وزیر اطلاعات، موجودہ وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی اور پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما چوہدری فواد حسین، سیاسی تجزیہ کار اور قانون دان ہیں۔ انہوں نے جہلم کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مضبوط سیاسی پس منظر رکھنے والے خاندان میں آنکھ کھولی۔ انکا خاندان قیام پاکستان سے پہلے ہی سیاسی عمل کا حصہ رہا، انکے اجداد نے تحریک پاکستان میں حصہ لیا، 1947ء میں آزادی کے بعد سے مسلسل انکا خاندان پارلیمانی سیاست میں کامیابی سے وارد ہے۔ سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ چوہدری افتخار حسین کے بیٹے اور سابق گورنر پنجاب چوہدری الطاف حسین کے بھتیجے چوہدری فواد حسین نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی اور بیرون ملک سے بیرسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ سیاسی کیریر میں مختصر مدت کیلئے پاکتسان پیپلز پارٹی سے وابستہ رہے، جنرل پرویز مشرف کا ساتھ دیا، آل پاکستان مسلم لیگ پنجاب کے سیکرٹری جنرل رہے، 2012ء میں وزیراعظم گیلانی کے مشیر رہے، 2013ء کا الیکشن مسلم لیگ قاف کے ٹکٹ سے لڑا، منتخب نہیں ہوسکے۔ اختلافات کی بنیاد پہ پہلے آل پاکستان مسلم لیگ اور مسلم لیگ قاف کو اور پھر پی پی پی کو بھی خیر باد کہہ کر ایلکٹرونک میڈیا سے وابستہ ہوگئے۔ ایکسپریس نیوز، اے آر وائی، دنیا، 92 نیوز اور جیو ٹی وی میں بطور اینکر اور معاون اینکر رہے۔ جولائی 2016ء میں جہلم سے قومی اسمبلی کی نشست این اے 63 سے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرکے ضمنی الیکشن میں حصہ لیا، مسلم لیگ نون کے امیدوار کے مقابلے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ 2018 میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ موجودہ حکومتی پالیسیوں اور ملکی صورتحال کے متعلق اسلام ٹائمز کیساتھ انکا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: ایک طرف کہا جا رہا ہے کہ سب بول سکتے ہیں، ساتھ ہی مخصوص گروپوں کیلئے مین اسٹریم میڈیا کے دروازے بھی بند ہیں، پاکستان میں آزادی اظہار رائے سے مراد لی جائے۔؟
فواد چوہدری:
یہ بات نہیں ہے کہ پاکستان میں اظہار رائے پہ پابندی ہے، یہ شوشہ وہ سیاستدان چھوڑ رہے ہیں، جو کبھی جمہوریت اور کبھی صوبائی خود مختاری اور اب آزادی اظہار کی بات سامنے لا کر اپنی کرپشن اور کیسز سے توجہ ہٹانا چاہ رہے ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر اور وزیراعظم نے اس حوالے سے ایک ہی بات کی ہے، وہ پی ٹی ایم کے متعلق کہہ رہے ہیں کہ ان کے متعلق ایسے شواہد موجود ہیں، جن کی وجہ سے یہ سوالات پیدا ہوئے ہیں کہ وہ بتائیں کہ بھارت اور افغانستان کی ایجنسیوں سے وہ پیسے کیوں لے رہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو وہ جو بھی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں، وہ کیسے ملکی مفاد میں ہوسکتی ہیں۔ جو لوگ قومی سطح پر اٹھنے والے سوالات کی زد میں ہیں، ان کے متعلق قوم کو بتانے کی ضرورت ہے کہ انکی اصلیت کیا ہے، نہ قومی پلیٹ فارمز ان کے حوالے کیے جانے چاہیں کہ وہ مین اسٹریم میڈیا کے ذریعے دشمن ممالک کا بیانیہ بیان کریں، وہ تو پہلے سے ہی ہر پاکستانی جانتا ہے، اس کی ضرورت نہیں۔ میڈیا نے شروع میں پی ٹی ایم کو مکمل کوریج دی، میڈیا کے لوگوں نے ان کے دھرنوں میں تقریریں بھی کی ہیں۔

اسوقت کے وزیراعلیٰ کے پی کے ترجمان اجمل وزیر نے ان کے اسٹیج سیکرٹری کے فرائض انجام دیئے، عمران خان نے بھی ان کے پاس جا کر خطاب کیا، اسوقت پی ٹی ایم والوں کے پاس پی پی پی کے لوگ نہیں گئے، یہ دھرنہ دینے والے آصف زرداری سے نالاں تھے، بلاول نے بھی کوئی بات نہیں کی، کیونکہ عمران خان وہاں چلا گیا تھا، اب انہیں بلاول صاحب کو پاکستان میں سنسرشپ اور آزادی اظہار رائے پر پابندی نظر آرہی ہے، سچی بات یہ ہے کہ ان دنوں زرداری اینڈ کمپنی کو یہ محسوس ہو رہا تھا کہ ان کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی، بلکہ ان کی ڈیل ہو جائیگی، جب ایسا نہیں ہوا تو یہ اپنے ہوش کھو بیٹھے ہیں اور ملک دشمن ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے۔ ان کی باتوں میں کوئی نہیں آئیگا۔

اسلام ٹائمز: عالمی میڈیا اور دیگر ممالک کیطرف سے اگر اسی کو بنیاد پر اعتراض کیا جائے تو پاکستان کیلئے جو مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں، انکا کیا حل ہوگا۔؟
فواد چوہدری:
اللہ کا شکر ہے کہ ہماری قوم اس حقیقت کو سمجھتی ہے، دنیا کی طرف سے اگر اعتراض ہوتا ہے تو اس کیلئے یہی کافی ہے کہ جو گروپ یا لوگ پاکستان کے دشمن ممالک سے پیسہ لے رہے ہیں، اس کے ثبوت ان ممالک سامنے رکھے جائیں اور ان سے کہا جائے کہ وہ ہمیں اجازت دیں کہ ہم ان کے قومی مفاد کی تعریف کریں اور ان ممالک میں انسانی حقوق کے نام ریاستی اداروں کیخلاف پروپیگنڈہ کریں، کیا وہ اس کی اجازت دے سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ میرے خیال میں میڈیا کو ازخود اس کا خیال رکھنا چاہیئے کہ جو زبان یہ لوگ اپنے جلسوں میں استعمال کر رہے ہیں، کیا وہ کسی محب وطن پاکستانی کو زیب دیتی ہے۔

میرا خیال یہ ہے کہ اگر ہماری قوم ایک پیج پر رہے تو دوسرے ممالک کو یہ موقع نہیں ملے گا کہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرسکیں۔ شروع میں ہم نے یہ کرکے دیکھ لیا، لیکن اس کا غلط فائدہ اٹھایا گیا، جب لوگ ڈرون حملوں کیخلاف احتجاج کرتے تھے، تب تو وائس آف امریکہ انہیں کوریج نہیں دیتا تھا۔ وائٹ ہاوس کے سامنے دھرنے نہیں دیئے جاتے تھے، مقامی سیاستدانوں کی طرح جب عالمی طاقتوں کو اپنے مفادات کیلئے دباؤ بڑھانے کی ضرورت پڑتی ہے تو پاکستان دشمن عناصر کی سرپرستی بڑھا دیتے ہیں، ہمارا موقف کمزور نہیں، دنیا میں کسی بھی پلیٹ فارم پر اپنے قومی مفاد کا دفاع کرسکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اگر پی ٹی ایم کے جلسے دیکھیں تو وہاں تو بڑا ہجوم نظر آتا ہے، جو یہ لوگ سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتے ہیں، ایسا کیوں ہے۔؟
فواد چوہدری:
یہ تو خود ایک دلیل ہے کہ پاکستان میں آزادی اظہار رائے پر کوئی قدغن نہیں، دوسرا یہ کہ لوگوں کے اکٹھا ہونے پر اعتراض ہونا بھی نہیں چاہیئے، خطرناک پہلو یہ ہے کہ لوگوں کو اکٹھا کرکے ریاستی اداروں بالخصوص فوج کیخلاف نعرے بازی کی جائے، اان پر الزامات لگائے جائیں، ان کے خلاف نفرت پھیلائی جائے، یہ غلط ہے، اسکی اجازت نہیں ہونی چاہیئے۔ اگر کوئی کمی بیشی ہے بھی سہی تو ساری آرمی اور سب وردی والوں کو برا بھلا کیسے کہہ سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: لیکن جیسا کہ آپ نے خود کہا کہ عمران خان بھی انکے مطالبات کو جائز قرار دیتے ہیں، پھر آپکا اختلاف کس بات پر ہے۔؟
فواد چوہدری:
ایک تو فوج کیخلاف غلط زبان استعمال کرنے پر اختلاف ہے، یہ ریڈ لائن ہے، دوسرا پاکستان کے شہری ہونے کے ناطے وہ آئین کی حدود میں اپنے مطالبات پیش کریں، ہم سنیں گے، لیکن وہ تو اپنے آپ کو افغان شمار کرنے پر تلے ہوئے ہیں، جس کو ایک عام پاکستانی شہری بھی معیوب سمجھتا ہے، یہ لوگ کوئی مہاجرین میں سے تو نہیں ہیں، انہیں پاکستانی شہری ہونے کے ناطے تمام تر حقوق حاصل ہیں، لیکن جب وہ کسی دوسرے ملک کی بات کریں تو اسکا مطلب یہی ہوگا کہ وہ پاکستان کے علاوہ دوسرے ممالک کے نمائندہ بن کر انکے مفادات کی بات کر رہے ہیں، یہ تو ملک کے آئین ہی کے خلاف ہے، اس کی کیسے تائید کی جاسکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: جب اپوزیشن آزادی اظہار کیخلاف پابندی کے تاثر کی بات کرتی ہے تو ایک رائے یہ دی جاتی ہے کہ یہ معاملہ میڈیا میں لانیکی بجائے عدالت میں لے جائیں اور جو ثبوت بتائے جا رہے ہیں، وہ وہاں کیوں نہیں پیش کیے جاتے۔؟
فواد چوہدری:
یہ تو کہا گیا ہے کہ جو بھی کارروائی ہوگی وہ قانون کے مطابق ہوگی، پھر یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہم کوئی آپریشن لانچ نہیں کر رہے، کسی کو اس بات سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ خلاف قانون کوئی کارروائی ہوگی۔ پی ٹی ایم کیخلاف ٹی ٹی پی کی طرز پر کوئی کارروائی نہیں ہونیوالی، تحریک طالبان تو دہشت گرد تھے، انہوں نے فوج اور عوام کیخلاف دہشت گردی کی تھی، ان کے خلاف تو فوجی کارروائی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا، یہ جو میڈیا میں آکر ڈی جی آئی ایس پی آر نے بات کی ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ اسکا مطلب میڈیا کو کنٹرول کرنا نہیں ہے، بلکہ چونکہ فوج کیخلاف سوشل میڈیا اور ریلیوں میں زبان استعمال کی جا رہی ہے تو اس لیے ہم نے عوام سے میڈیا کے ذریعے مخاطب ہونا اور ہمارے پاس جو ثبوت ہیں، انکی بنیاد پہ جو سوالات پیدا ہوتے ہیں، وہ سامنے رکھے ہیں۔ عمران خان نے تو پہلے بھی فاٹا میں کارروائی کی مخالفت کی تھی، اب انتظار کرنا پڑیگا کہ اب ان عناصر کیخلاف کیا قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 792143
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش