0
Monday 5 Dec 2011 13:07

افغانستان پر بون کانفرنس آج ہو گی، پاکستان عدم شرکت کے فیصلے پر قائم

افغانستان پر بون کانفرنس آج ہو گی، پاکستان عدم شرکت کے فیصلے پر قائم
اسلام ٹائمز۔ افغانستان کے مستقبل پر عالمی کانفرنس آج جرمنی کے شہر بون میں شروع ہو رہی ہے، اقوام متحدہ اور جرمنی نے کانفرنس میں پاکستان کی عدم شرکت پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ بون کانفرنس میں طالبان کے ساتھ امن مذاکرات، ایساف کے مستقبل کے لائحہ عمل اور افغانستان کے اقتصادی امور پر گفتگو کی جائے گی۔ عالمی بینک کےمطابق افغان حکومت کو تنخواہوں کی ادائیگی اور دیگر مدوں میں طویل عرصے تک 7 ارب ڈالر سالانہ کی امداد درکار ہے۔ افغانستان کے مستقبل پر دس سال میں یہ دوسری بون کانفرنس ہے۔

پہلا اجلاس طالبان کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے بعد ہوا تھا، جب حامد کرزئی کی سربراہی میں عبوری افغان انتظامیہ کی منظوری دی گئی۔ اقوام متحدہ اور جرمنی نے پاکستان کی عدم شرکت پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ بان کی مون، سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ پاکستان خطے کا اہم ترین ملک ہے جو افغانستان میں امن اور استحکام میں مدد دے سکتا ہے۔ اس لئے پاکستان کا کانفرنس میں موجود ہونا بہت بہتر تھا۔ میرے خیال میں پاکستان کا عدم شرکت کا فیصلہ افسوسناک ہے، لیکن یہ ان کا اپنا فیصلہ ہے۔ 
جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹرویلے نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی وزیر خارجہ نے یقین دلایا ہے کہ کانفرنس میں شرکت کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان افغانستان میں سیاسی عمل کی حمایت نہیں کرے گا۔ مجھے پاکستان پر یقین ہے اور ہم اس پر بھروسہ کرتے ہیں۔ سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے بون کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے کو درست قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سفارتی سطح پر یہ پیغام دینا ضروری ہے۔
دو ہزار چودہ میں غیر ملکی افواج کے بعد افغانستان کے مستقبل پر دنیا بھر میں تشویش پائی جاتی ہے۔ افغان عوام کی مشکلات اور منشیات کی بڑھتی ہوئی تجارت کے باعث بون کانفرنس کے شرکاء میں زیادہ گرم جوشی دیکھنے میں نہیں آ رہی۔ نیٹو حملے کے خلاف احتجاجاً پاکستان کا بائیکاٹ بھی بون کانفرنس کے لیے بڑا دھچکا ہے۔

دیگر ذرائع کے مطابق جرمنی نے کہا ہے اتحادیوں کے انخلاء کے بعد سیکیورٹی، طویل المیعاد عالمی حمایت اور داخلی مفاہمت پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ دوہزار چودہ میں افغانستان سے نیٹو افواج کیسے نکالیں اور افغان حکومت کو اقتدار کس طرح منتقل کیا جائے، یہ حکمت عملی تیار کرنے کے لیے دنیا کی طاقتیں آج جرمنی کے شہر بون میں سرجوڑ کر بیٹھیں گی۔ پاکستانی حکومت کانفرنس کے بائیکاٹ کے فیصلے پر قائم رہنے کا بار بار اعلان کر رہی ہے، لیکن امریکا بھی شرکت کیلئے مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے۔

 نیٹو حملوں کے ردعمل میں بون کانفرنس سے پاکستان کے بائیکاٹ کے بعد اس کانفرنس کی افادیت کافی کم ہوئی اور عالمی طاقتوں کو اس پر تشویش ہے۔ اسی لیے جب سے بائیکاٹ کا اعلان ہوا ہے، کوئی دن نہیں جاتا، جب مختلف عالمی رہنماؤں نے پاکستان کو منانے کی کوشش نہ کی گئی ہو۔ ان میں امریکا کی کوششیں سرفہرست ہیں، براک اوباما نے صدر زرداری کو فون کر کے ترپ کا پتا بھی پھینک دیا ہے۔ لیکن پاکستان اپنے مئوقف پر جیسے اڑ گیا ہے
۔ 
ماہرین کے خیال میں پاکستان کے بائیکاٹ کے بعد اس کانفرنس سے مطلوبہ نتائج کی امید رکھنا کافی مشکل ہے۔ پاکستان کی عدم شرکت کا سن کر افغان صدر حامد کرزئی کی پریشانی بھی چھپائے نہیں چھپتی اور انہوں نے حسب عادت پاکستان پر الزام تراشی شروع کر دی ہے۔ فرماتے ہیں پاکستان نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حمایت نہیں کی۔ نیٹو افواج کی واپسی کے بعد کی صورتحال سے خوفزدہ حامد کرزئی کا کہنا تھا کہ اگر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شکست ہوتی ہے تو حالات نائن الیون سے پہلے والی پوزیشن پر آ جائیں گے۔ انہوں نے اپیل کی کہ نیٹو افواج کی واپسی کے بعد بھی ان کی مدد جاری رکھی جائے۔
خبر کا کوڈ : 119851
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش