0
Sunday 20 May 2012 00:57

فرقہ واریت کے خاتمہ کیلئے قاضی حسین احمد نے 21 مئی کو علماء کانفرنس طلب کر لی

فرقہ واریت کے خاتمہ کیلئے قاضی حسین احمد نے 21 مئی کو علماء کانفرنس طلب کر لی

اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد نے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کی روک تھام کے لیے آسلام آباد میں بین الفقہی اجلاس طلب کیا ہے۔ اس اجلاس میں انہیں جماعت اسلامی کی تائید بھی حاصل ہے۔ قاضی حسین احمد نے برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اجلاس کے چار نکات ہیں، جن میں باہمی اختلافات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا، خطبات جمعہ میں ہم آہنگی اور ان میں علمی گہرائی پیدا کرنا، اسلامی نظریاتی کونسل کی متفقہ طور پر منظور شدہ سفارشات کو نافذ کرنا اور آخر میں مختلف فقہ کے لوگوں کو قریب لانا اور ایسا ماحول پیدا کرنا کہ وہ اختلافات کو نظرانداز کریں اور مشترکات پر زور دیں۔ انہوں نے ایسی کمیٹی کا قیام بھی تجویز کیا ہے جو جمعہ کے خطبوں کے لیے مشترکہ نکات طے کرنے کے ساتھ ساتھ خطیبوں کی رہنمائی کر سکے۔

اس سوال کے جواب میں کہ اس طرح کا کام تو چودہ سو سال میں نہیں ہو سکا وہ کیسے کر لیں گے، قاضی حسین احمد نے جواب دیا کہ ایسی کوششیں جب مسلسل جاری رہیں گی تو تفرقہ ڈالنے والی قوتیں کمزور ہوتی ہیں اور کشیدگیاں بھی کم ہوتی۔ اس سوال پر کہ پاکستان میں اصل تشدد تو فرقہ وارنہ بنیادوں پر ہو رہا ہے، اس سے کیسے نمٹا جا سکتا ہے۔؟ قاضی حسین احمد نے جواب دیا کہ تشدد تو فرقہ وارانہ بنیادوں کے علاوہ نسلی اور لسانی بنیادوں پھر بھی ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی کوشش ہے کہ تمام اسلامی قوتوں اور مسلمانوں کو ان بنیادوں پر اکٹھا کریں جو ان میں مشترک ہیں۔

جناب قاضی حسین احمد نے کہا کہ ان کی اس کوشش کا انتخابی سیاست سے تعلق نہیں، لیکن یہ اس حد تک سیاسی ضرور ہے کہ معاشرے کی اصلاح کی کوشش کو ہی سیاست کہا جاتا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ پاکستان میں تشدد میں ان تنظیموں کا بالواسطہ یا بلا واسطہ ہاتھ نظر آتا ہے جو مبینہ طور پر طالبان یا القاعدہ سے منسلک ہیں، انہوں نے کہا کہ ان کی مجلس میں تمام معروف فقہی مکاتب کے لوگ شامل ہیں، جن میں اہلسنت والجماعت کے مختلف طبقے، سلفی اور اہل تشیع کے مختلف گروپ شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ لوگ ان تمام لوگوں پر اثرانداز ہو سکتے ہیں جو متشدد کارروائیوں میں ملوث ہیں۔

اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان میں ایک طبقے کی رائے میں مذہبی انتہاپسندی کی سب سے بڑی وجہ اسلام پسندی ہے، جبکہ بانی پاکستان محمد علی جناح کی خواہش تو سیکولر پاکستان کا قیام تھا، قاضی حسین احمد نے جواب دیا کہ سیکولر ہندوستان تو موجود تھا اور موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کا الگ ملک بنانے مقصد تو سیکولر ملک بنانا نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی کوشش اسلام کو ٹھیک طریقے سے سمجھنے کی اور اس کا فہم پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام تو اعتدال پیدا کرنے والا مذہب ہے اور لوگوں کو قتل اور خونریزی پر آمادہ کرنے والا مذہب نہیں ہے۔

خبر کا کوڈ : 163495
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش