0
Saturday 26 May 2012 11:25

واشنگٹن اور نيٹو ممالک پاکستان کے سامنے بے بس، امريکی جريدہ

واشنگٹن اور نيٹو ممالک پاکستان کے سامنے بے بس، امريکی جريدہ
اسلام ٹائمز۔ امريکي جريدے "نيشنل جرنل" نے اپني رپورٹ ميں لکھا کہ پاک امريکا کشيدگي افغان جنگ کے خاتمے ميں بڑي رکاوٹ بن گئي، پاکستاني رويے سے بظاہر اتحادي افواج کے خلاف انتہا پسندوں کي حمايت نظرآتي ہے، ليکن امريکي، يورپي اور پاکستاني ناقدين کے مطابق اس صورتحال کے بگاڑ ميں واشنگٹن کا ہاتھ ہے اور يہ امريکا اور نيٹو کي اسٹريٹجک وژن کي کمي کو ظاہر کرتا ہے۔ يہ امريکي سفارت کاري کي اعلٰي سطحي ناکامي ہے، جس نے اپنے لوگوں کو خطرے سے دوچار کر ديا ہے۔
 
اقوام متحدہ اور افغانستان ميں سابق امريکي سفير زلمے خليل نے جريدے کو بتايا کہ پاکستان معمول کے مطابق تعاون جاري رکھنے کو تيار تھا، ہم نے بہت محتاط اور زيادہ قيمت ادا کرنے کو تيار ہو گئے۔ جريدے نے لکھا کہ امريکا ميں پاکستان کے سابق سفير حسين حقاني نے اپنے دور سفارت کے دوران امريکي حکام پر خطے کے متعلق مجموعي نکتہ نظر (holistic اپروچ) اپنانے پر زور ديا تھا، ليکن امريکا نے ايسا نہيں کيا اور آج پاکستان اور خطے کے متعلق امريکي پاليسي نے واشنگٹن اور ديگر دارالحکومتوں کو بے بسي سے دوچار کر ديا ہے اور آج سپرپاور اور نيٹو کي بات کو ايک ترقي پذير ملک پاکستان ماننے سے انکاري ہے۔
 
ايک يورپي سفارت کار نے نام نہ ظاہر کرنے کي شرط پر جريدے کو بتايا کہ امريکي اس صورتحال سے مکمل طور پر مفلوج ہو چکے ہيں۔ نيٹو کے ايک سينئر عہديدار نے اس مسئلے کا ذمہ دار امريکيوں کو ٹھہرايا، ان کا کہنا تھا کہ اس وقت انتہائي مشکل صورتحال ہے اور يہ واضح نہيں کہ امريکا کي پاکستان کے متعلق ايک پاليسي ہو۔ سلالہ پوسٹ واقعے پر معافي کے معاملے پر ايک ماہ سے جاري سخت اور طويل بحث سے اوباما انتظاميہ کا مفلوج ہونا واضح ہو چکا ہے۔ پينٹاگون کي اس واقعے پر تحقيق مکمل ہوئے کئي ماہ گزر گئے اور اس تحقيق ميں جزوي غلطي کا ذمہ دار امريکا کو ٹھہرايا گيا تھا۔

وزارت خارجہ نے رواں سال کے آغاز پر کيمرون منٹر کے دباو پر معافي مانگنے پر اصرار کيا، ليکن اوباما مٹ رومنے کے الزامات کے سامنے ہچکچاہٹ سے کام ليتے رہے۔ ڈاکٹر آفريدي کي سزا نے تصديق کر دي کہ بن لادن کے ٹھکانے نے پاک امريکا سفارتي تعلقات ميں ايشو کو اجاگر کر ديا۔ امريکا اور نيٹو اسلام آباد کے ساتھ سخت رويہ اختيار کرنے سے اجتناب کر رہے ہيں، وہ نہيں چاہتے کہ پاکستان غير مستحکم ہو اور پاکستان کے جوہري اثاثے غلط ہاتھوں ميں چلے جائيں۔ اس لئے شکاگو کانفرنس ميں پاکستان کے متعلق محتاط رويہ اختيار کيا گيا اور پاکستان سے صرف نيٹو سپلائي بحالي تک بات کو محدود رکھا گيا۔

جريدے کے مطابق آنجہاني رچرڈ ہالبروک کي بيوہ کيٹي مارٹن کا کہنا ہے کہ اگر ہالبروک آج زندہ ہوتے تو پاک امريکا تعلقات کي کشيدگي اس سطح پر کبھي نہ آتي۔ اسامہ کي ہلاکت کے دوسرے دن وہ پاکستان روانہ ہوتے اور اس وقت تک کبھي امريکا واپس نہ آتے جب تک دونوں ممالک کے تعلقات معمول پر نہ آتے۔ انہوں نے جريدے کو بتايا کہ ہم اس وقت تک سنٹرل پارک ميں ٹہلنے کے لئے نہيں جاتے تھے جب تک ہميں پاکستان سے خيريت کي کالز نہ ملتي تھي۔ 

مارٹن کا کہنا تھا کہ وہ نہ صرف آئي ايس آئي کے لوگوں سے واقف تھے بلکہ پاکستاني جرنيل، تمام سياست دانوں اور حکومتي مخالفين کو بھي اچھي طرح جانتے تھے۔ وہ پناہ گزين کيمپوں ميں بے دھڑک جاتے تھے۔ وہ پاک امريکا تعلقات کو اس نہج پر کبھي نہيں آنے ديتے۔ مارٹن جريدے کے ساتھ اسامہ کي ہلاکت کے بعد پاک امريکا تعلقات کي کشيدہ صورتحال پر بات کر رہي تھي، دونوں ممالک کے تناو نے امريکا کي طويل ترين جنگ کے خاتمے ميں سب سے بڑي رکاوٹ کھڑي کر دي ہے۔
خبر کا کوڈ : 165584
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش