0
Saturday 29 Dec 2012 14:23

سرائیکی عوام اور سیاسی شعبدہ بازحکمران

سرائیکی عوام اور سیاسی شعبدہ بازحکمران
رپورٹ: سید محمد ثقلین 

سرائیکی صوبے میں تاخیر ہو یا بہاولپور صوبے کی بحالی کا مسئلہ یہ سارے ایسے موضوعات ہیں کہ جو ابھی تک تشنہ لب ہیں، پاکستان بھر میں اور بالخصوص سرائیکی خطے کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ جب بھی کوئی تحریک شروع کی جاتی ہے تو اس کے مخالفین اس تحریک کو سبوتاژ کرنے کے لیے اس کے مدمقابل اُنہیں نعروں پر دوسری تحریک شروع کردی جاتی ہے۔ اس وقت جنوبی پنجاب میں یہ صورتحال موجود ہے، جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے سیاستدان تو اپنی جگہ ہٹ دھرم اور خودغرض ہیں لیکن یہاں سرائیکی لیڈر بھی آپس میں متحد نہیں ہیں۔ اس وقت جنوبی پنجاب میں سرائیکیوں کے حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے دسیوں تحریکیں کام کررہی ہیں جو بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی سیاسی جماعت یا مذہبی جماعت کے ساتھ منسلک ہیں۔ یہی وہ المیہ ہے کہ جس نے ابھی تک سرائیکی صوبہ بننے میں رُکاوٹ ڈال رکھی ہے۔
 
آئے روز مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے رہنما چاہتے ہوئے یا مجبوری کے باعث سرائیکی صوبے اور بہاولپور بحالی کے صوبے کے حوالے سے بیان دیتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ سیاسی شعبدہ باز صرف بیانات کی حد تک محدود ہیں۔ جنوبی پنجاب کے صوبے کی تحریک پر ہیرو بننے والے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کہ جن کا کہنا ہے کہ مجھے وزارت سے صرف اس وجہ سے ہاتھ دھونے پڑے کیونکہ میں نے جنوبی پنجاب صوبے کی آواز اُٹھائی۔ گذشتہ دنوں جب وہ ملتان آئے ہوئے تھے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وہ بڑے جذباتی ہوئے اور کہا کہ جنوبی پنجاب کو صوبہ بننے سے کوئی نہیں روک سکتا، لیکن یہ ساری صورتحال ملتان میں ہی دفن ہوگئی۔ جس کا واضح ثبوت بینظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر ہونے والی تقریر تھی ، جس میں نہ صرف وہ خود بلکہ پیپلزپارٹی کی پوری قیادت جنوبی پنجاب اور بہاولپور بحالی صوبے کی تحریک سے کنارہ کش رہی۔ 

گذشتہ دنوں سرائیکی صوبے کے حوالے سے ایک متحرک جماعت سرائیکستان قومی کونسل کا اجلاس منعقد ہوا، آئیے راقم کی زبانی اُس کونسل کے اراکین کے سیاسی شعبدہ بازوں کے بار ے میں خیالات سنتے ہیں۔ اجلاس کی صدارت پروفیسر شوکت مغل نے کی۔ اجلاس میں حیات اللہ خان نیازی، محمد سلیم دھریجہ، عابد سیال، شفقت نور پوری، حاجی حمید الدین انصاری، حاجی عید احمد دھریجہ، عامر قادری، زبیر دھریجہ، استاد سجاد رسول، ملک خاور نائچ، جام مزمل سرائیکی، عامر سلیم، جام اجمل، جاویدشانی، محمد رمضان دھریجہ اور دوسرے اراکین نے شرکت کی۔ پروفیسر شوکت مغل نے کہا کہ گڑھی خدا بخش میں محترمہ بےنظیر بھٹو کی برسی سے ہٹ کر بلاول زرداری شو تھا۔ انہوں نے کہا کہ سرائیکی تحریک خانپور کے کارکنوں نے اسٹیج کے عین سامنے '' پاکستان کا استحکام، سرائیکی صوبے کا قیام '' کے بڑے بڑے بینرز آویزاں کیے اور پرجوش نعروں کے ذریعے پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کو سرائیکی صوبے کا وعدہ یاد دلایا مگر صدر آصف زرداری، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، مخدوم شہاب الدین، امین فہیم، قائم علی شاہ سمیت کسی نے بھی سرائیکی صوبے کی بات نہ کی، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی سرائیکی صوبے کے مسئلے پر سنجیدہ نہیں۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں مل کر بہاولپور سمیت سرائیکی وسیب کے تمام لوگوں کو دھوکہ دے رہی ہیں۔ اگر وسیب کے لوگ متحد نہ ہوئے اور سرائیکستان کے قیام کیلئے عملی جدوجہد نہ کی تو الگ صوبے کے قیام کی منزل بہت دور چلی جائے گی۔
 
کونسل کے مرکزی رہنما ظہور دھریجہ نے کہا کہ بلاول زرداری اور عمران خان کی طرح ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی اپنی سیاسی نمائش میں سرائیکی صوبے کی بات نہ کر کے ثابت کیا ہے کہ ان کا ایجنڈا اپنا نہیں، وہ کسی اور کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کا نعرہ ''سیاست نہیں، ریاست بچاؤ '' دراصل مارشل لاء کو بالواسطہ دعوت دینے کی ایک کوشش ہے۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ رات پنجاب اسمبلی میں آٹھ بل ایک ہی سانس میں پاس کئے گئے لیکن ان بلوں میں ملتان کی انجینئرنگ یونیورسٹی اور زرعی یونیورسٹی کا بل شامل نہیں تھا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک ایک کمرے میں قائم کی گئی یہ یونیورسٹیاں دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ 

انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان یونیورسٹیوں کے بل فوری پاس کئے جائیں۔
 ظہور دھریجہ نے کہا کہ پنجاب حکومت سرائیکی وسیب کو صرف لولی پاپ اور کھربوں روپے سے لاہور کو مکمل کر رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ سرائیکی وسیب کے دوسرے محکمہ جات کے ساتھ ساتھ ہسپتالوں کے بجٹ کو بھی کٹ لگا دیا گیا ہے اور مریضوں کو ایک گولی دستیاب نہیں اور مریض سسک سسک کر مر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ابھی کل ہی ملتان میں حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی کا عرس ختم ہوا ہے، حکومت پنجاب نے زائرین کو پینے کا پانی تک بھی مہیا نہ کیا، اس کے مقابلے میں حضرت داتا گنج بخش لاہوری کے عرس پر وافر مقدار میں فنڈز بھی مہیا کئے گئے ہیں اور عرس کی تقریبات کے اخبارات میں اشتہارات بھی شائع ہو رہے ہیں، جس سے واضح ہوتا ہے کہ تخت لاہور کے حکمران بزرگانِ دین کے مقابلے سرائیکی وسیب سے سوتیلی ماں کا سلوک کرتے ہیں۔
 
کونسل کے دیگر اراکین نے اپنے خطاب میں کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم پنجاب سرکار سے ایک ایک پائی کا حساب طلب کریں۔ انہوں نے کہا کہ وسیب کے لوگ پوچھتے ہیں کہ پنجاب کے 37اضلاع میں سے سرائیکی وسیب کے کتنے ڈی سی اوز ہیں؟ پنجاب کے 9ڈویژنوں میں سے سرائیکی وسیب کے کتنے کمشنر ہیں؟ پنجاب کے سیکرٹریز کی فوج ظفر موج میں سے سرائیکی وسیب کے کتنے سیکرٹریز ہیں؟ اور اسی طرح فوج، عدلیہ، فارن سروسز اور اسٹیبلشمنٹ کے تمام محکمہ جات میں سے سرائیکی وسیب کا حصہ کتنا ہے؟ این ایف سی ایوارڈ اور بجٹ میں سے سرائیکی وسیب کو کتنا حصہ دیا گیا؟ ریونیو بورڈ لاہور سرائیکی وسیب کی زمینیں کس کس کو الاٹ کیں؟ وفاقی اور پنجاب پبلک سروس کمیشن میں سرائیکی وسیب کے کتنے ممبران ہیں؟ سرائیکی وسیب کے لوگ پنجاب سرکار سے خیرات نہیں بلکہ گذشتہ 65 سالوں کا حساب مانگتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ فوری طور پر ہمارا سرائیکی صوبہ الگ کیا جائے اور وسیب کے لوگوں کو ان کے حقوق دیئے جائیں۔ اگر حقوق نہ دیئے گئے تو سرائیکی وسیب کے لوگ مزاحمت کریں گے اور فیصلے سڑکوں پر ہوں گے۔
 
جس طرح کی صورتحال نظر آرہی ہے ان حالات میں سرائیکی عوام نئے صوبے کے قیام کے حوالے سے مایوس ہو چکے ہیں، سرائیکی عوام اب سمجھ چکی ہے کہ یہ سیاسی شعبدہ باز صرف اور صرف دعوے اور وعدے تو کرتے ہیں لیکن اُنہیں وفا نہیں کرتے۔ آئندہ انتخابات میں سرائیکی عوام کو اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرنا ہوگاکہ کیا وہ دوبارہ انہی جماعتوں کو منتخب کرا کر اپنی غلامی کی زندگی کو طول دیتے ہیں یا گذشتہ غلامی کی زندگی سے سبق حاصل کرتے ہوئے مخلص اور دیانتدار لوگوں کو اپنانمائندہ منتخب کرتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 226090
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش