0
Sunday 23 Jun 2013 11:52
یکم جولائی سے مزدور کی کم از کم اجرت دس ہزار روپے ہوگی

25 لاکھ روپے سالانہ کمانے والوں کے ٹیکس سلیب میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی، اسحاق ڈار

25 لاکھ روپے سالانہ کمانے والوں کے ٹیکس سلیب میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی، اسحاق ڈار
اسلام ٹائمز۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قرضوں کی ادائیگی کیلئے آئی ایم ایف سے مزید قرض لینے کا عندیہ دے دیا۔ سیلز ٹیکس کی شرح سترہ فیصد رہے گی، پچیس لاکھ روپے سالانہ کمانے والوں کے ٹیکس سلیب میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ یکم جولائی سے مزدور کی کم سے کم اجرت دس ہزار روپے ہوگی۔ قومی اسمبلی میں بجٹ بحث سمیٹتے ہوئے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ارکان پارلیمنٹ کی مثبت تجاویز کو بجٹ میں شامل کر لیا گیا ہے۔ یکم جولائی سے وفاق کے تحت کام کرنے والے ملازمین کو کم سے کم اجرت دس ہزار روپے ملے گی۔ ترقیاتی بجٹ تین سو ساٹھ سے بڑھا کر پانچ سو چالیس ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ ترقیاتی بجٹ میں اضافے سے محنت کشوں کو روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ جنزل سیلز ٹیکس کی شرح سترہ فیصد سے کم نہیں کریں گے، مستقبل میں وسائل بڑھے تو اس کے ریٹ کم کرنے پر غور کرسکتے ہیں۔ تنخواہ دار طبقے کے لیے تجویز کردہ انکم ٹیکس سلیب تبدیل کر دیا گیا ہے۔ پچیس لاکھ روپے سالانہ تنخواہ والے ملازمین کے ٹیکس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ رینٹل انکم پر ساڑھے سترہ فیصد کا ٹیکس سلیب بھی واپس لے لیا ہے۔ دس اور پندرہ فیصد کے دو نئے سلیب بنا لئے گئے ہیں۔ ٹیکس ری بیٹ پچہتر فیصد سے کم کرکے چالیس فیصد کر دیا گیا ہے۔ عازمین حج پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ حج آپریٹرز پر ٹیکس پچیس سو سے بڑھا کر پینتیس سو روپے کیا گیا ہے۔ دودھ اور روزمرہ کی اشیاء پر کوئی ٹیکس نہیں ہے۔ موبائل فون پر ود ہولڈنگ ٹیکس دس سے بڑھا کر پندرہ فیصد کر دیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ قابل کاشت زمین، پانی کی فراہمی کو بڑھانے اور سیلاب سے بچاؤ کیلئے انسٹھ ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ کھاد کی فراہمی کیلئے تیس ارب روپے کی سبسڈی دی جائے گی۔ ذرائع آمدورفت اور شاہراہوں کی بہتری کیلئے تہتر ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انکم سپورٹ پروگرام جاری رکھا جائے گا، پروگرام کیلئے مختص رقم چالیس ارب سے بڑھا کر پچہتر ارب روپے کر دی گئی ہے، مستفید ہونے والوں کو ایک ہزار کے بجائے بارہ سو روپے ماہوار دیئے جائیں گے۔ اسی پروگرام کے تحت نوجوانوں کو چھوٹے قرضے بھی دیئے جائیں گے۔ اعلٰی تعلیم کیلئے فیس کی ادائیگی کی سہولت میں بلوچستان، فاٹا اور گلگت بلتستان کے طلباء کے علاوہ اندرون سندھ، جنوبی پنجاب، خیبر پختونخوا، مالاکنڈ، ڈیرہ اسماعیل خان کے طلباء کو بھی شامل کر دیا گیا ہے۔ قومی سلامتی کے اداروں کے علاوہ کوئی ادارہ سیکرٹ فنڈ استعمال نہیں کرسکے گا۔ انہوں نے کہا کہ پانچ سو تین ارب روپے کے گردشی قرضوں کے باعث سترہ سو میگاواٹ بجلی کی قلت کا سامنا ہے۔ پاکستان پر واجب الادا قرض پندرہ سو ارب روپے تک پہنچ گیا ہے، قرضوں کی ادائیگی کیلئے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔
خبر کا کوڈ : 275886
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش