0
Thursday 27 Jun 2013 15:58

طالبان سے جسٹس مقبول باقر کو جون 2011ء سے دہشتگردی کے خطرات کا سامنا ہے

طالبان سے جسٹس مقبول باقر کو جون 2011ء سے دہشتگردی کے خطرات کا سامنا ہے
اسلام ٹائمز۔ سندھ ہائیکورٹ کے سینئر جج جسٹس مقبول باقر کو دہشت گردی کا سامنا اس وقت سے ہے جب وہ انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالتوں کے جج کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے تھے، اس دوران انھوں نے ولی بابر قتل کیس، نیٹو فورسز کی سپلائی کے ٹھیکیدار شوکت آفریدی کے اغواء اور قتل کے ساتھ ساتھ کالعدم سپاہ صحابہ کے رہنماؤں کے قتل کے ملزمان کے ریمانڈ اور ان کے مقدمات میں تفتیشی افسران کو خصوصی توجہ دینے کی ہدایات کیں۔ تاہم سندھ ہائیکورٹ کی راہداریوں میں یہ بات کہی جارہی ہے کہ جسٹس مقبول باقر کو دہشتگردی کا سامنا جون 2011ء سے اس وقت شروع ہوا جب انھوں نے کالعدم سپاہ صحابہ کے رہنما عبدالغفور ندیم اور ان کے بیٹے کی ہلاکت اور کراچی میں واقع سعودی قونصل خانے پر حملے کے مقدمات میں ملوث ملزم منتظر امام کے طبی امداد اور معائنے کا حکم دیا جس پر پر پولیس نے بے پناہ تشدد کیا تھا، اس کے علاوہ جسٹس مقبول باقر نے منتظر امام کی گرفتاری کی تحقیقات کیلئے ڈی آئی جی عبدالمجید دستی اور ڈی آئی جی سلطان خواجہ پر مشتمل 2 رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی، اس کے بعد جسٹس مقبول باقر کی سیکیورٹی میں اضافہ کردیا گیا۔

اس کے ساتھ ساتھ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کے منتظم جج کی حیثیت سے ملزمان کے ریمانڈ کے فیصلے کا اختیار خصوصی عدالتوں کے تمام ججوں کو تفویض کردیا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق اس وقت سندھ ہائیکورٹ نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ ہائیکورٹ میں ججوں کی کمی ہے اس لیے ہائیکورٹ کے جج کو مجسٹریسی کے اختیارات استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ اصل حقیقت یہ تھی کہ جسٹس مقبول باقر کے لیے خطرات پیدا ہوچکے تھے، کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے متعدد گرفتار ملزمان نے بھی تفتیش کے دوران انکشاف کیا تھا کہ جسٹس مقبول باقر کی رہائش گاہ پر راکٹ حملے کا منصوبہ بھی بنایا گیا تھا تاہم ملزمان گرفتار ہوگئے تھے۔
خبر کا کوڈ : 277281
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش