0
Wednesday 11 Dec 2013 18:28

بلوچستان کے تمام لاپتہ افراد کو ڈی آئی جی سی آئی ڈی کے سامنے پیش کیا جائے، سپریم کورٹ

بلوچستان کے تمام لاپتہ افراد کو ڈی آئی جی سی آئی ڈی کے سامنے پیش کیا جائے، سپریم کورٹ

اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکم دیا ہے کہ بلوچستان کے تمام لاپتہ افراد کو ڈی آئی جی سی آئی ڈی کے سامنے پیش کیا جائے۔ آئی جی ایف سی لاپتہ افراد کو پیش کرنے کی ذمہ دار ہے۔ عدالت نے سیکرٹری داخلہ کو حکم دیا ہے کہ وہ قانون کے مطابق قائم مقام آئی جی ایف سی یا نئے آئی جی ایف سی کے تقرر کا نوٹی فیکیشن جاری کریں۔ سیکرٹری داخلہ معاملہ کو متعلقہ حکام کے سامنے اٹھائیں۔ حکومت عدالت کے حکم نامے پر عمل کرائے ہمیں بتانے کی ضرورت نہیں کہ آئی جی ایف سی کے خلاف کتنے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ وزارت داخلہ کی جانب سے آئی جی ایف سی کو باضابطہ چھٹی نہیں دی گئی۔ سیکرٹری داخلہ نے بتایا آئی جی ایف سی ہسپتال میں داخل ہیں۔ آئی جی ایف سی کے خلاف مناسب کارروائی کی جائے وزیراعظم بلوچستان کے حالات سے بخوبی آگاہ ہیں۔ عدالتی احکامات کے باوجود لاپتہ افراد کو پیش نہیں کیا گیا۔ عدالتی احکامات کے باوجود ذمہ داران کا تعین نہیں کیا گیا۔ لاپتہ افراد کے کیس میں ضروری ہو تو متعلقہ افراد کے خلاف کارروائی کی جائے۔ آئندہ سماعت پر بلوچستان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے لاپتہ افراد کو پیش کریں۔ عدالت نے آئی جی ایف سی میجر جنرل اعجاز شاہد کے خلاف توہین عدالت کا معاملہ بلوچستان لاپتہ افراد کیس سے الگ کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ آئی جی ایف سی کے خلاف مناسب وقت پر توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے گی۔ عدالت نے آئی جی بلوچستان پولیس، چیف سیکرٹری اور آئی جی ایف سی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 19 دسمبر تک ملتوی کر دی۔

چیف جسٹس نے کہا بتایا جائے لاپتہ افراد کب پیش کئے جائیں گے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ دجلہ و فرات کے کنارے کتا بھی مر جائے تو حاکم وقت ذمہ دار ہو گا، چیف جسٹس نے کہا پہلے دن سے لاپتہ افراد کے معاملہ میں کوئی پیشرفت نہیں کی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا بلوچستان میں جمہوریت ہے لیکن حکام کی کوئی نہیں سنتا۔ ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان سے مکالمہ میں چیف جسٹس کا کہنا تھا آپ کی حکومت ہے آپ کہتے ہیں کہ کوئی بات نہیں سنتا۔ نام دیں جس کی بات سنی جائے جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا پاکستان کا آئین انگلش میں لکھا ہے مگر یہ اتنا بھی مشکل نہیں ہر ادارہ آرٹیکل 190 پر عملدرآمد کا پابند ہے۔ ہمیں معلوم کر کے بتا دیں کوئی انا کا مسئلہ ہے جبکہ چیف جسٹس نے سیکرٹری داخلہ کو سرزنش کرتے ہوئے کہا عدالت میں کیوں گھوم رہے ہیں کیا دفتر میں کام ختم ہو گیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کا کیس منیر احمد وانی کی درخواست پر شروع ہوا۔ آئی جی ایف سی بلوچستان میجر جنرل اعجاز شاہد کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت شروع ہوئی تو بینچ اور آئی جی ایف سی کے وکیل عرفان قادر کے درمیان سخت حملوں کا تبادلہ ہوا۔ عرفان قادر کا کہنا تھا کہ وہ اپنے موکل کو سیاسی سپر سٹار کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔ اس پر چیف جسٹس نے عرفان قادر کو تنبہ کیا کہ وہ عدالت کا احترام ملحوظ رکھیں۔ ورنہ ان کا لائسنس معطل کر دیا جائے۔ عدالت کو سخت ایکشن پر مجبور نہ کیا جائے، عرفان قادر نے چیف جسٹس کے خلاف سخت احتجاج کیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ قائمقام آئی جی ایف سی کی تعیناتی کا قانون کے مطابق نوٹیفیکشن جاری نہیں ہوا۔ بتایا جائے آئی جی ایف میجر جنرل اعجاز شاہد کیوں کمرہ عدالت میں پیش نہیں ہو سکے۔ کیونکہ اصل توہین عدالت کی کارروائی ان کے خلاف ہوئی ہے۔ اس پر عرفان قادر کا کہنا تھا کہ وہ اے ایف آئی سی میں داخل ہیں اور 29 نومبر سے چھٹی پر ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ان کو چھٹی کس نے دی، اس موقع پر عرفان قادر روسٹرم پر آ گئے اور سخت لہجے میں چیف جسٹس سے کہا کہ ان کو سماعت کا حق دیا جائے۔ اخبارات میں آج آیا ہے کہ ایک عدالتی ستارہ غروب ہو گیا اور چیف جسٹس کی صورت میں ایک سیاسی ستارہ طلوع ہو گیا ہے وہ اپنے موکل کو کسی صورت سیاسی سپر سٹار کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔ جن اخبارات نے یہ خبریں چلائی ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے چیف جسٹس اور جسٹس جواد خواجہ نے عرفان قادر کو متنبہ کیا کہ وہ عدالت کا احترام ملحوظ خاطر رکھیں لیکن عرفان قادر نے ان کی کی ایک نہ سنی اور وہ یکطرفہ طور پر بولتے رہے اور اپنی پوری بھڑاس نکالی۔ وہ بار بار کہتے تھے کہ میں کسی سیاسی سپرسٹار کے سامنے پیش نہیں ہو سکتا۔ اپنے موکل کو اس کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتا۔ چیف جسٹس نے انہیں وارننگ دی کہ وہ اگر بولنے سے باز نہ آئے تو ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ اس پر عرفان قادر کا کہنا تھا کہ بےشک ان کا لائسنس معطل کر دیا جائے۔ ان کے خلاف کارروائی کی جائے وہ کسی کارروائی سے نہیں ڈرتے۔ سارے معاملہ پر اٹارنی جنرل منیر ملک نے عدالت سے کہا کہ وہ تحمل کا مظاہر ہ کر رہے ہیں۔

جبکہ اٹارنی جنرل نے عرفان قادر کو اپنی نشست پر پکڑ کر بٹھا دیا۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آج چیف جسٹس کا آخری دن ہے عدالت کچھ نرم رویہ رکھے اس پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ ہم آپ کی بھی عزت کرتے ہیں اور عرفان قادر بھی ہمارے لیے عزیز ہیں۔ لیکن ہم حکم جاری کرنے لگے ہیں جو بھی ہو گا وہ ریکارڈ پر ہو گا۔ اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ جو بھی ہو ریکارڈ پر آئے تاکہ فیئر ٹرائل ہو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم برداشت کرنا چاہتے ہیں مگر معاملہ ہماری برداشت سے آگے نکل رہا ہے۔ جسٹس جواد کا کہنا تھا کہ آج کا دن تاریخی تھا مگر عرفان قادر نے اسے اور بھی تاریخی بنا دیا ہے، چیف جسٹس نے عرفان قادر سے پوچھا کہ وہ بتا دیں عدالت سے معطلی چاہتے ہیں یا بیدخلی اس پر عرفان قادر کا کہنا تھا کہ جو عدالت چاہے جبکہ دوران سماعت قائمقام آئی جی ایف بریگیڈیئر خالد سلیم پیش ہوئے تاہم وہ بغیر وردی عدالت میں پیش ہوئے اس پر عدالت نے ان کو سرزنش کی، چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کا احترام ہوتا ہے آپ نے جو لباس پہنا ہوا ہے وہ قطعی طور پر عدالتی وقار کے مطابق نہیں اس پر بریگیڈیئر خالد سلیم کا کہنا تھا کہ اس لباس میں کیا برائی ہے، میں ٹائی نہیں باندھتا لاپتہ افراد کیس پر ان کا کہنا تھا کہ وہ پوری کو شش کر رہے ہیں۔ اس پر جسٹس جوا د خواجہ نے کہا کہ آپ کی باڈی لینگویج سے ایسا نہیں لگتا کہ آپ اس کیس میں کوئی سنجیدہ کوشش کر رہے ہیں عدالت نے آئی جی ایف توہین عدالت کیس کو بلوچستان لاپتہ افراد کیس سے الگ کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 19 دسمبر تک ملتوی کر دی۔

خبر کا کوڈ : 329663
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش