0
Tuesday 21 Apr 2009 10:26

اسرائیل نسل پرست ریاست ہے،ڈاکٹر احمدی نژاد

اسرائیل نسل پرست ریاست ہے،ڈاکٹر احمدی نژاد
 جینوا: نسل پرستی پر اقوام متحدہ کی کانفرنس سے ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کے خطاب کے دوران مغربی ملکوں کے سفارتکار اس وقت واک آؤٹ کر گئے جب انہوں نے اسرائیل کو ایک ’نسل پرست حکومت‘ قرار دیا۔ رنگین وِگیں پہنے ہوئے دو احتجاجیوں نے صدر احمدی نژاد کی تقریر کے شروع میں شور شرابا کرنے کی کوشش کی، جس کے بعد مغربی ممالک کے سفارتکار کانفرنس سے واک آؤٹ کر گئے۔ جب احتجاج کے باوجود ایرانی صدر احمدی نژاد نے اپنی تقریر جاری رکھی تو وہاں پر موجود مندوبین نے پرجوش تالیاں بجائیں۔ فرانس کا کہنا تھا کہ یہ ایک ’نفرت انگیز‘ تقریر تھی۔ امریکہ، آسٹریلیا اور جرمنی سمیت کئی مغربی ممالک پہلے ہی کانفرنس کا بائیکاٹ کر چکے ہیں۔ تاہم جنیوا میں اقوام متحدہ کے لیے پاکستان کے سفیر ضمیر خان نے ایرانی صدر کے خطاب کو اظہارِ رائے کی آزادی کا معاملہ قرار دیا۔ بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’سوال یہ نہیں کہ انہوں نے کیا کہا ہے، بلکہ اظہار رائے کے اصول کی بات ہے۔ اگر آپ آزادئ اظہار پر یقین رکھتے ہیں تو پھر آپ کو ان کی بات سننی پڑے گی۔  ضمیر خان کا کہنا تھا کہ صدر احمدی نژاد کی تقریر اس تشویش کی اظہار تھا جو عالم اسلام اور دوسرے کئی ملکوں میں پائی جاتی ہے۔ جنیوا میں ہونے والی کانفرنس کے بارے میں پہلے ہی خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ یہ صیہونیت کے خلاف فورم میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ کانفرس کو اقوام متحدہ کی دو ہزار ایک میں ڈربن میں ہوئی کانفرنس کی کڑی قرار دیا جارہا تھا جسے بغیر کسی نتیجے پر پہنچے ختم کردیا گیا تھا۔ جنیوا میں بی بی سی کی نامہ نگار ایموجین فوکس کا کہنا ہے کہ مغربی ممالک کا واک آؤٹ اقوامِ متحدہ کے لیے تعلقاتِِ عامہ کی ایک بدترین ناکامی ہے جسے امید تھی کہ کانفرنس اقوام متحدہ کے لیے فرائض کی انجام دہی کی ایک روشن مثال بنے گی۔ کانفرنس ہال سے باہر لائے گئے دو میں سے ایک احتجاجی نے صدر احمدی نژاد کی طرف اس وقت کوئی چیز بھی پھینکی جب وہ تقریر کرنے کے لیے ابھی کھڑے ہی ہوئے تھی۔ احمدی نژاد وہ واحد سربراہِ مملکت ہیں جو اس کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں۔ اپنی تقریر میں احمدی نژاد نے کہا کہ پہلی عالمی جنگ کے بعد یورپ اور امریکہ سے یہودی تارکین وطن کو مشرقِ وسطیٰ بھیجا گیا تھا تاکہ ’مقبوضہ فلسطین میں ایک نسل پرست حکومت قائم کی جا سکے‘۔ بعد میں فرانسیسی سفیر ژاں بیپٹیسٹ ماتئے نے کہا کہ جیسے ہی صدر احمدی نژاد نے یہودیوں اور اسرائیل کے بارے میں بات شروع کی اس کے بعد ہمارے پاس کمرے میں رہنے کی کوئی وجہ نہیں رہی تھی۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ ناوی پیلے نے کہا تھا کہ وہ کانفرنس کے بائیکاٹ پر حیران اور مایوس ہیں۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق ناوی نے کہا تھا ’چند ممالک نے ایک یا دو وجوہات کی بنا پر نسلی امتیاز کے حوالے سے اپنا مؤقف ترتیب دیا ہے اور یہ مؤقف ان تمام لوگوں کو نظر انداز کر رہا ہے جو نسلی امتیاز سے متاثر ہو رہے ہیں۔‘ جنوبی افریقہ کے شہر ڈربن میں دو ہزار ایک میں ہوئی کانفرنس میں بعض غیر سرکاری تنظیموں نے صیہونیت کے خلاف بیانات دیئے تھے جبکہ کانفرنس میں بعض ممالک کی جانب سے صیہونیت کو نسل پرستی سے جوڑنے کی  کوشش کی گئی تھی۔ تقریباً آٹھ سال کے بعد نسلی امتیاز پر پہلی بین الاقوامی پانچ روزہ کانفرس کا افتتاح اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کیا۔ کانفرنس میں ڈربن کانفرنس میں طے کیے گئے نکات کا جائزہ لیا جائے گا۔ اس کانفرس کے حق میں پوپ بینیڈکٹ نے بھی بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ کانفرس کے انعقاد سے نسلی امتیاز اور تعصب کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ کانفرنس کے حمتی مسودے میں سے اعتراضات کے بعد مشترکہ اعلامیے میں سے اسرائیل اور مشرق وسطٰی کے ذکر کو نکالا جا رہا ہے۔ تاہم مشرقِِ وسطیٰ کے ملکوں کی درخواست پر مشترکہ اعلامیے میں مذہبی منافرت پر اکسانے سے متعلق ایک جملہ شامل کیا گیا ہے جسے کئی مغربی ممالک آزادیِِ اظہار پر پابندی قرار دے رہے ہیں۔ امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ مشترکہ اعلامیے میں اسرائیل مخالف زبان، جو بعض مواقع پر ہسٹیریائی اور الٹ نتائج کی حامل ہے‘ ان کی انتظامیہ کے لیے سرخ لکیر ہے۔
یورپی یونین میں شامل ممالک امریکی بائیکاٹ کی تقلید کرنے یا نہ کرنے کے معاملے میں تقسیم کا شکار ہیں۔ جرمنی وہ آخری ملک ہے جس نے کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کینیڈا، اسرائیل، اٹلی، ہالینڈ اور نیوزی لینڈ پہلے ہی کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔
دوسری طرف فرانس نے اعلان کیا کہ وہ کانفرنس میں شرکت کرے گا۔ برطانیہ پہلے ہی کانفرنس میں شرکت کرنے کا اعلان کر چکا ہے۔


خبر کا کوڈ : 3353
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش