0
Tuesday 25 Feb 2014 19:12

اسلام آباد کیجانب فرزانہ مجید کے بڑھتے قدم!

اسلام آباد کیجانب فرزانہ مجید کے بڑھتے قدم!

رپورٹ: این ایچ حیدری

بلوچ معاشرہ میں جہاں خواتین سماجی و معاشرتی کاموں میں انتہائی کم ہی کردار ادا کرتی ہیں۔ وہاں فرزانہ مجید اس روایت کو بدلنے میں اہم کردار ادا کرنے کیساتھ ساتھ بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے جدوجہد کرنے والوں کیلئے ایک مثالی کردار بھی بن رہی ہیں۔ فرزانہ مجید بلوچ قوم پرست رہنماء مجید بزنجو کی 29 سالہ بیٹی ہے۔ مجید بزنجو بلوچستان کے حقوق کیلئے جدوجہد کرنے والے ایک سرگرم بلوچ کارکن تھے۔ اپنی کم عمری میں ہی اس تحریک کا حصہ بننے والے طالبعلم نے ہوش سنبھالتے ہی بلوچ نیشنل موومنٹ کا سنگ بنیاد رکھا۔ مجید بزنجو کو نادیدہ قوتوں نے قتل کرکے اسے قبائلی تنازعے کا رنگ دیا، لیکن انکے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ یہ انہیں اس تحریک سے خارج کرنے کی ایک سازش تھی۔ شاید انکی مخصوص سیاسی سوچ ان نادیدہ قوتوں کے مفادات کے برعکس تھی۔

فرزانہ مجید نے بائیو کیمسٹری اور بلوچی لٹریچر میں ماسٹرز کی ڈگری بلوچستان یونیورسٹی سے حاصل کی اور اب بائیو کیمسٹری میں ہی ایم فل کرنا چاہتی تھی۔ فرزانہ کے بھائی ذاکر مجید کے لاپتہ ہونے کے بعد انہوں نے جبری گمشدگیوں کیخلاف پرامن تحریک چلانے کا ارادہ کیا۔ ذاکر مجید بی ایس او (بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن) اور بی ایس او (آزاد) کے سرگرم کارکن تھے۔ جن کو جون 2009ء میں مستونگ سے ساتھیوں سمیت نامعلوم افراد اُٹھا کر لے گئے تھے۔ جن میں عبدلواحد اور عبدالباسط شامل تھے، انکے ساتھیوں کو تو بعد میں چھوڑ دیا گیا تھا۔ لیکن خود ذاکر آج تک لاپتہ ہے۔ اس دن سے لیکر آج تک فرزانہ مجید اپنی بھائی کی بخیریت واپسی کی اُمید لئے، احتجاج کر رہی ہے جبکہ اس ضمن میں انکا پورا خاندان، کراچی اور کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی دھرنا بھی دے چکا ہے۔

فرزانہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی سیکرٹری جنرل بھی ہے۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی تنظیم جبری گمشدگیوں کیخلاف کئی سالوں سے احتجاج کر رہی ہے۔ جس میں سب سے موثر احتجاج 1300 دنوں تک بھوک ہڑتال کیمپ کا انعقاد تھا۔ گذشتہ سال 26 اکتوبر کو شروع ہونے والے لانگ مارچ میں تنظیم کے عہدیداران نے بھوک ہڑتال کا آغاز کیا۔ لانگ مارچ کے پہلے حصے میں فرزانہ مجید نے ساتھیوں سمیت کوئٹہ سے کراچی تک کا پیدل سفر طے کیا۔ کراچی پہنچنے پر فرزانہ نے وہاں پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "اتنے عرصے میں میری صحت پر تو منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، لیکن میرے حوصلے اب بھی بلند ہیں اور اس ظلم کیخلاف ہماری تحریک اب بھی جاری ہے۔"

اس وقت فرزانہ مجید اپنی ساتھیوں سمیت انصاف کی امید لئے، اسلام آباد کی جانب پیدل روانہ ہے۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا قافلہ ساہیوال پہنچ چکا ہے۔ اس لانگ مارچ کے دوران انہیں قتل کی دھمکیاں بھی دی گئی۔ دریں اثناء بلوچستان میں بلوچ قبائل اب بھی اپنے پیاروں کے مسخ شدہ لاشوں پر نوحہ کناں ہیں۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق 2000ء سے لیکر اب تک اٹھارہ ہزار بلوچوں کو ریاستی قوتیں اغواء کرچکی ہیں، جبکہ 1500 کے قریب افراد کو ماورائے عدالت قتل کیا جا چکا ہے۔ فرزانہ مجید کہتی ہیں کہ "میرا بھائی بی ایس او کا ایک پرامن کارکن تھا۔ اسکی جبری گمشدگی اور دیگر بلوچوں پر ہونے والے مظالم، اسلامی قوانین کے برخلاف ہیں۔ اگر وہ کسی بھی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث تھا تو اسے عدالتوں کے ذریعے سزاء دینی چاہیئے تھی۔ فرزانہ مجید پاکستانی میڈیا سے بھی ناراض ہے، انکا کہنا ہے کہ میڈیا کو ریاستی دباؤ میں آئے بغیر بلوچستان میں جاری مظالم کیخلاف آواز بلند کرنی چاہیئے۔" میڈیا بھلے انہیں نظر انداز کرے لیکن انکے پرامن اور مصمم ارادے اپنی جگہ تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ ملکی میڈیا کی خاموشی اس پرامن تحریک کو چھُپا نہیں سکتی۔ اسلام آباد کی جانب فرزانہ کا بڑھتا ہر قدم، خاموشی کے ان زنجیروں کو توڑ رہا ہے۔

خبر کا کوڈ : 355461
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش