0
Sunday 16 Feb 2014 23:31

آمدند، نشستند، گفتند و برخاستند!

آمدند، نشستند، گفتند و برخاستند!

رپورٹ: این ایچ حیدری

وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے طالبان سے مذاکراتی عمل شروع کرنے کے لئے سینئر کالم نویس عرفان صدیقی کی قیادت میں ایک چار رکنی کمیٹی قائم کی ہے جس کا کہنا ہے کہ طالبان جہاں کہیں گے وہاں کمیٹی ان سے بات کرے گی۔ دوسری طرف تحریک طالبان پاکستان نے بھی اپنے پانچ رکنی مذاکراتی کمیٹی کا اعلان کیا ہے جس میں تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان اور فادر آف طالبان مولانا سمیع الحق بھی شامل ہیں۔ دونوں اطرف سے مذاکراتی کمیٹیوں کے اراکین کے نام دیکھ کر ملک بھر میں طنز و مزاح کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اب طالبان، طالبان ہی کے ساتھ مذاکرات کریں گے جب کہ باقی ماندہ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ بھی اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد مذاکرات ہونگے کیونکہ ٹیبل کے دونوں اطراف میں طالبان کے حامی ہی بیٹھے ہوئے ہوں گے۔

وزیراعظم میاں نواز شریف اقتدار میں آنے کے بعد ہی سے طالبان سے غیر مشروط مذاکرات کے لئے بے تاب رہے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ایک کل جماعتی کانفرنس کا بھی انعقاد کیا تھا جس میں تمام جماعتوں نے طالبان کے ساتھ بات چیت کی حمایت کی تھی لیکن جب کچھ حلقوں نے یہ مشورہ دیا کہ بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لئے بھی اسی طرح کی ایک کانفرنس منعقد کی جائے تو میاں صاحب نے اس طرف زیادہ توجہ نہیں دی کیونکہ اسلام آباد میں بلوچستان کے حوالے سے دلچسپی پائی جاتی ہے اور نہ ہی فوج اور منتخب حکومت کو وہاں کی صورتحال پر واقعی تشویش ہے۔

پہلے تو حکومت یہ کہتی تھی کہ طالبان نے پینتیس ہزار پاکستانی شہریوں اور فوجیوں کو بےرحمی سے قتل کیا ہے لیکن اب بظاہر لگتا ہے کہ حکومت طالبان کو ان تمام جرائم پر درگزر کرنے کے لئے راضی ہوگئی ہے اور انہی قاتلوں اور جابروں سے غیر مشروط مذاکرت کئے جائیں گے۔ ریاست طالبان پر اس قدر مہربان اس لئے ہے کہ پاکستان کی فوج، میڈیا اور پارلیمان سمیت ہر اہم ’’قومی ادارے‘‘ میں طالبان کے حامی موجود ہیں۔ اگر حکومت اور طالبان کی مذاکرتی ٹیموں کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ طالبان کی ٹیم کافی مضبوط ہے اور اس میں جن افراد کے نام دیئے گئے ہیں ان کے لاکھوں بلکہ کروڑوں حامی بھی ہیں۔ طالبان نے بڑی سمجھ داری سے ایک ایسی ٹیم کا انتخاب کیا ہے جس میں عمران خان جیسے سیاست دان موجود ہیں ہیں جو کہ ملک کے نوجوانوں میں اپنی امریکہ و ڈرون مخالف سیاست کی وجہ سے کافی مشہور ہیں جبکہ اسی ٹیم میں مولانا سمیع الحق جیسی شخصیت کو بھی شامل کیا گیا ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ طالبان کے امیر ملا محمد عمر کے استاد رہ چکے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان فوج، مذہبی حلقوں اور قومی اسمبلی میں ایسے افراد نہیں ہیں جو کہ بلوچوں کے ساتھ مذاکرات پر زور دیں۔ بلوچستان کے حوالے سے فوج اور مذہبی جماعتوں کی سوچ ایک جیسی ہے اور بدقسمتی سے وہ اس بات پر متفق ہیں کہ بلوچستان میں غیر ملکی قوتیں (نا کہ پاکستانی فوج، خفیہ ادارے اور ڈیتھ اسکواڈ) ملوث ہیں اور وہ اس بات پر بھی متفق ہیں کہ بلوچستان میں ’’پاکستان دشمن عناصر‘‘ کو بے دردی سے کچل دینا چاہیئے۔

چند ہفتے پہلے وزیراعظم اور فوج کے سربراہ کے دورہ بلوچستان نے اسی سوچ کی عکاسی کی۔ دونوں اعلٰی حکومتی اہلکار بلوچستان ایسے تشریف لائے۔ جیسے برطانوی دور میں وائسرائے برصغیر میں تشریف لاتے تھے۔ ایک ایسے وقت میں جب بلوچستان میں اجتماعی قبریں دریافت ہونے پر عوام میں بےپناہ غم و غصہ پھیلا ہوا تھا وزیراعظم اور فوج کے سربراہ نے ان اجتماعی قبروں کی مذمت کی اور نا ہی ان افراد کے اہل خانہ سے تعزیت جن کے عزیز و اقارب لاپتہ ہونے کے بعد قتل کرد ئیے گئے تھے اور انہی اجتماعی قبروں میں دفن کئے گئے تھے۔ یہ حکومتی بےحسی کی انتہا تھی۔ میاں نواز شریف اور جنرل راحیل شریف کو سب سے زیادہ تو اس بات کی فکر تھی کہ بلوچستان میں (جو کہ پہلے ہی سے ایک سکیورٹی زون بن چکا ہے) مزید سکیورٹی کیسے بڑھائی جائے۔ لاپتہ افراد، مسخ شدہ لاشوں، ماما قدیر کے لانگ مارچ اور اجتماعی قبروں سے بےخبر وزیراعظم اور آرمی چیف نے صوبائی حکومت کو حالات ’’ بہتر‘‘ بنانے کے لئے سراہا اور یقین دلایا کہ فوج بلوچستان میں ’’سکیورٹی‘‘ کی صورتحال مزید بہتر بنانے کی خاطر بلوچستان پولیس کی تربیت کرے گی۔

بلوچستان کا مسئلہ فوری طور پر اس لئے بھی حل نہیں ہوگا کیونکہ وزیراعظم سے لے کر فوج تک سب صوبے میں طاقت کے استعمال پر یقین رکھتے ہیں۔ میاں صاحب کی حکومت نے حال ہی میں تحفظ پاکستان آرڈیننس کے کالے قانون کے تحت جبری گمشدگیوں کو قانونی طور پر جائز قرار دیا ہے جب کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سرگرمیاں بین الاقوامی قوانین کے مطابق غیر قانونی ہیں۔ نئے قانون کے منظور ہونے کے بعد یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ حکومت ان فوجیوں اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں کو انصاف کے کہٹرے میں لانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی جو بلوچوں کو لاپتہ کرنے اور ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکے میں ملوث رہے ہیں۔

دراصل بلوچستان کا مسئلہ طالبان سے بالکل مختلف ہے کیونکہ طالبان تو خود پاکستانی ریاست کی پیداوار ہیں اور جن لوگوں (مثلاً مولانا سمیع الحق وغیرہ ) نے فوج کے کہنے پر ان کی تعلیم و تربیت کی تھی اب فوج کے کہنے ہی پر انہی لوگوں کے ذریعے طالبان کے جن کو دوبارہ بوتل میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اب یہ بات ہم سب پہ عیاں ہو گئی ہے کہ پاکستان میں پینتیس ہزار شہریوں کی ہلاکت کے ذمہ دار طالبان اپنی مرضی کے مالک خود نہیں تھے بلکہ انہیں کسی نہ کسی طرح سے کنٹرول کرنے والے کچھ لوگ پہلے ہی سے موجود تھے جو آجکل دوبارہ میدان میں کود پڑے ہیں لیکن یہ بات بلوچستان کے تناظر میں درست نہیں ہے۔ بلوچستان میں جو لوگ اپنی دفاع میں کھڑے ہوئے ہیں وہ ریاست کی نہیں بلکہ ریاستی جبر کی پیداور ہیں۔ پاکستان نے بلوچوں کے خلاف جنگ کا آغاز کیا تھا لہذا یہ فوج اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ بلوچستان میں غیر قانونی اور ماروائے عدالت کارروائیوں کا خاتمہ کرے۔

طالبان قیادت تو بہت جلد ہی مذاکرات پر راضی ہو گئی ہے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ بلوچوں کی جو قیادت ہے وہ حکومتی پیشکش پر اتنی جلد ہی لبیک کہے گی یا نہیں۔ ماضی قریب کے تجربات کی روشنی میں ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ بلوچ قیادت کو مذاکرات پر لانا اتنا آسان کام نہیں ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے بڑی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہو سکی۔ بلوچستان میں امن لانے کے لئے ریاست کو ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ، حیربیار مری اور براہمداغ بگٹی کے ساتھ مذاکرات کرنے ہونگے۔ وزیراعلٰی ڈاکٹر مالک بلوچ اور ان کے ساتھی میر حاصل خان بزنجو اپنی حیثیت بڑھانے کی خاطر یہ تاثر ضرور دینگے کہ ان کے اہم بلوچ رہنماوں کے ساتھ روابط ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے اور یہ معاملہ ان کی بساط سے باہر ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان نے ماضی میں کئی مواقع پر بلوچوں کے ساتھ مذاکرات کرتے وقت پنجاب میں مقیم بلوچ قبائلی رہنماوں کی خدمات حاصل کی ہیں۔ پنجاب میں کروڑوں بلوچ رہتے ہیں لیکن وہاں مقیم ہونے کی وجہ سے اب وہ بلوچی تو نہیں بولتے لیکن ان کے خاندانی روابط بلوچستان کے قبائل کے ساتھ ہیں۔ ان روابط کو مضبوط کرنے کی خاطر بدستور ان بڑے قبائل کے درمیان شادیاں بھی ہوتی ہیں۔ جس کی ایک مثال پچھلے ہفتے ذوالفقار علی کھوسہ کی خان آف قلات کی فیملی میں ہونے والی شادی ہے۔ کچھ سال پہلے جب ایک انٹریو میں بلوچستان کے اس وقت کے گورنر اویس احمد غنی سے پوچھا کہ حکومت نواب بگٹی کے ساتھ کس کے ذریعے رابطے میں ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ نواب صاحب کو کئی پیغامات بزرگ رہنما شیر باز مزاری کے فرزند شیر علی مزاری کے ذریعے بھیجے گئے تھے۔

آج سے دس سال پہلے چوہدری شجاعت حسین نگران وزیراعظم بنے تو ان کی زیرنگرانی وسیم سجاد اور مشاہد حسین سید کی قیادت میں بلوچستان پر دوپارلیمانی کمیٹیاں بنیں۔ اس وقت بلوچوں کی طرف سے مذاکرات کرنے والے اہم ترین شخص نواب اکبر بگٹی تھے اور مرحوم نے کہا تھا کہ اگر وفاقی حکومت ارشاد احمد حقانی (مرحوم)، مشاہد حسین سید اور ایاز امیر کو ثالث بن کر کوئی مذاکراتی عمل شروع کرتی ہے تو انہیں ان تینوں افراد پر پورا اعتبار ہوگا لیکن نواب بگٹی کی ہلاکت کے بعد اب بلوچستان میں ایک بہت بڑا خلیج پیدا ہو گیا ہے۔ نا بلوچوں کو نواب بگٹی جیسا کوئی رہنما ملا جو تن تنہا اسلام آباد کے ساتھ مذاکرات کرنے کا اہل اور خواہشمند ہو اور نا ہی آج حالات ایسے ہیں کہ بلوچ قیادت متفقہ طور پر تین پنجابیوں کو ثالث ماننے کو تیار ہو۔

المیہ یہ ہے کہ اسلام آباد کو بلوچوں کے ساتھ مذاکرات کی کوئی جلدی نہیں ہے اور نہ ہی بلوچ قیادت کو اس ضمن میں کوئی دلچسپی ہے۔ اور یوں صوبہ بدستور حالت جنگ میں رہے گا جس کا سب سے زیادہ نقصان عام شہریوں کو ہوگا۔ شاید ہمارے اور آپ کے لئے ایک یا دو دن کوئی معنیٰ نہیں رکھتے لیکن جن لوگوں کے عزیز و اقارب لاپتہ ہیں ان کے لئے ہر لمحہ کرب ناک ہوتا ہے۔ کاش میاں صاحب بلوچستان پر بھی عرفان صدیقی کی طرح اپنا کوئی نمائندہ مقرر کرتے جو وہان فوج کی غلط پالیسوں سے ہونے والے نقصان کا تخمینہ لگا کر انھیں مطلع کرتے کہ بلوچستان میں جمہوری دور حکومت میں بھی حالات اتنے ہی ابتر ہیں جیسے آمرانہ دورِ حکومت میں تھے۔

خبر کا کوڈ : 352356
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش