0
Tuesday 15 Apr 2014 10:04

کالعدم سپاہ صحابہ کے رہنماوں کا قتل کالعدم لشکر جھنگوی کی کارستانی ہے

کالعدم سپاہ صحابہ کے رہنماوں کا قتل کالعدم لشکر جھنگوی کی کارستانی ہے
روزنامہ امت کی رپورٹ

لاہور اور راولپنڈی میں فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ میں کالعدم لشکر جھنگوی کے قاری عمران گروپ کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ اس سلسلے میں قومی سلامتی کے اداروں کی مدد سے لاہور، شیخوپورہ، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور بٹ گرام سے 8 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ جنہوں نے دوران تفتیش اعتراف کیا ہے کہ ان کو دونوں فرقوں کی اہم شخصیات کو ٹھکانے لگانے کا ہدف ملا تھا۔ تفتیش کرنے والے ایک اعلٰی پولیس افسر نے بتایا ہے کہ ملزمان نے کالعدم سپاہ صحابہ پنجاب کے صدر مولانا شمس الرحمن معاویہ اور کالعدم سپاہ صحابہ اسلام آباد کے سیکرٹری جنرل مفتی منیر معاویہ جبکہ اہل تشیع ذاکر اہل بیت ناصر عباس اور جسٹس افضل حیدر کے بھتیجے ڈاکٹر حیدر کے قتل کا اعتراف کیا ہے۔

مذکورہ تفتیشی افسر کا کہنا ہے کہ شمس الرحمن معاویہ کے قتل کے فوراً بعد لاہور سے لشکر جھنگوی کے ایک سرگرم کارکن قاری رفیق کو گرفتار کیا گیا تھا، جس پر کالعدم سپاہ صحابہ کی مرکزی قیادت سے اختلاف رکھنے والے قاری عمران گروپ کے ایک رہنما نے کالعدم سپاہ صحابہ کے رہنما مسعود الرحمن عثمانی سے احتجاج کیا اور کہا کہ انکے لوگوں کو گرفتار کیوں کیا جا رہا ہے، لیکن پولیس نے اپنی تفتیش کو جاری رکھا اور قاری رفیق کے ڈرائیور کو بھی گرفتار کر لیا۔ اس دوران پولیس تمام مشکوک افراد کی فون کالز اور دیگر سرگرمیوں کی نگرانی بھی کرتی رہی، جبکہ شمس معاویہ کے قتل کے فوراً بعد دبئی چلے جانے والے ہارون بھٹی کو بھی پاکستان واپسی پر گرفتار کر لیا گیا۔ 

ہارون بھٹی لشکر جھنگوی کا ایک پرانا کارکن ہے اور 90ء کی دہائی میں لاہور میں مومن پورہ قتل کیس کا نامزد ملزم بھی تھا، جو اس واردات سے پہلے ویزہ لے کر دبئی گیا تھا اور وہاں سے اپنے پاسپورٹ پر ایگزٹ کی مہر لگوائے بغیر ہی کسی دوسرے ذریعے سے پاکستان آیا اور اطمینان کے ساتھ مومن پورہ والی واردات کی اور دوبارہ واپس دبئی چلا گیا۔ کچھ عرصے بعد وہ اپنے پاسپورٹ پر ایگزٹ کی اسٹمپ لگوا کر پھر واپس آیا، تاہم مومن پورہ کیس میں نامزد ملزم ہونے کے سبب پکڑا گیا تھا۔ بعد ازان عدم ثبوت کی بنا پر اسے رہا کر دیا گیا تھا۔ مگر اب اسے شمس معاویہ کیس میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔

تفتیشی افسر نے بتایا ہے کہ اسلام آباد میں مفتی منیر معاویہ قتل کے بعد بعض ثبوت ملنے پر پولیس نے شیخوپورہ سے اسد چھوٹو نامی ایک نوجوان اور لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک ملزم شفاقت کو بھی گرفتار کیا تھا، جس کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ وہ 2002ء سے وزیرستان میں ٹی ٹی پی کے ساتھ کام کر رہا تھا۔ انہی کے ایک ساتھی آفتاب کو بھی گرفتار کیا گیا ہے، جس کا تعلق بٹ گرام سے بتایا جاتا ہے۔ تفتیشی افسر کے بقول تمام ملزموں نے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ذاکر اہل بیت ناصر عباس اور ڈاکٹر علی حیدر کو ان کے نظریات کے سبب شہید کیا گیا جبکہ شمس الرحمان معاویہ اور مفتی منیر معاویہ کو انتہا پسندانہ جذبات کے خلاف مضبوط موقف اور مزاحمت کے سبب انھوں نے نشانہ بنایا۔ 

ملزمان سے کالعدم سپاہ صحابہ کے بعض دیگر رہنمائوں اور اہل تشیع افراد کی فہرست بھی ملی ہے جن کی نگرانی کی جا رہی تھی اور کسی بھی وقت انہیں نشانہ بنایا جاسکتا تھا۔ تفتیشی افسر کے مطابق ملزموں کا ایک ساتھی لودھراں کا رہائشی سرکاری ملازم ہے، تاہم اسے بیرون ملک ہونے کے سبب گرفتار نہیں کیا جا سکا۔ البتہ سٹی کورٹ سے پولیس نے سہیل معاویہ نامی ایک شخص کو گرفتار کیا تھا، جسے ذہنی معذور قرار دے کر رہا کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تفتیشی افسر کے بقول یہ پورا گروپ لشکر جھنگوی کے قاری عمران گروپ کے لیے کام کرتا تھا اور انہیں ہر قتل کے عوض مخصوص رقم دی جاتی تھی اور یہ کہ شمس الرحمان معاویہ کے قتل کے فوراً بعد ایک انٹیلی جنس ادارہ نے اس قتل کو اندرونی لڑائی کا شاخسانہ قرار دے کر بعض شواہد کی بنا پر قاری رفیق کو گرفتار کیا تھا۔ بعد میں کی گئی تفتیش اور ریکارڈ شدہ فون کالز کی مدد سے دیگر گرفتاریاں کی گئیں جبکہ مزید گرفتاریوں کا بھی امکان ہے۔

لاہور میں سی آئی اے پولیس کے ایس پی عمر ملک نے ذرائع کو بتایا کہ معاملات کا آغاز اس طرح سے ہوا کہ ٹریفک وارڈن عظیم نے لاہور سے چیف ٹریفک آفیسر کو درخواست بھیجی کہ اسکا تبادلہ وی آئی پی سکیورٹی کے ساتھ کر دیا جائے، اس پر سی ٹی او نے اس سے انٹرویو کیا اور اس طویل انٹرویو میں مقتول گورنر سلمان تاثیر کے حوالے سے بھی سوالات کئے، جس پر ملزم عظیم کے جوابات نے اسے مشکوک بنا دیا۔ بعد ازاں نگرانی کے بعد اسے گرفتار کر لیا گیا۔ عمر ملک کے مطابق پولیس نے ابتدائی تفتیش کے بعد ملزم کو حساس ادارے کے حوالے کر دیا اور اس کے فون ڈیٹا اور تفتیش کی روشنی میں بعض دیگر لوگوں کو بھی گرفتار کیا گیا۔ ملزم نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے ذاکر اہل بیت ناصر عباس کے قتل میِں ملزموں سے تعاون کیا تھا۔ عمر ملک کا کہنا تھا کہ مزید گرفتاریاں بھی کی جا رہی ہیں، تاہم ابھی نہ تو گرفتار ملزموں کے نام بتائے جاسکتے ہیں اور نہ ہی یہ کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے کس کس کو قتل کیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 372958
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش