1
0
Sunday 23 Nov 2014 19:33

بے سہارا دہشت گردوں کے جواب میں داعش کی خاموشی؟

بے سہارا دہشت گردوں کے جواب میں داعش کی خاموشی؟
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

ریاست پاکستان کے سپہ سالار اعظم راحیل شریف نے امریکہ میں کہا ہے کہ پاکستان پر داعش کا سایہ بھی نہیں پڑنے دیں گے، اس کا مطلب ہے کہ دنیا محسوس کرتی ہے کہ نہ صرف پاکستانی دہشت گرد عراق اور شام جا رہے ہیں، بلکہ داعش کے عربی، یورپی، آسٹریلین، امریکی اور افریقی دہشت گرد پاکستان آ رہے ہیں۔ ورنہ جنرل راحیل شریف کو یہ کہنے کی ضرورت کیوں پیش آتی۔ جبکہ حکومتی موقف یہ ہے کہ معاملہ پوسٹر بازی اور دیوار نویسی سے آگے نہیں بڑھا۔ جیسا کہ ملک میں داعش کی موجودگی کو مسترد کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بتایا ہے کہ ملک کے سویلین اور فوجی ادارے پاکستان میں دولت اسلامیہ کے نیٹ ورک کی موجودگی کی رپورٹس کی تردید کر رہے ہیں، البتہ کچھ عسکریت پسند گروپس ملک میں انتشار پھیلانے کے لیے داعش کا نام استعمال کر رہے ہیں، کچھ شہروں کی دیواروں پر اس کے نعروں کا منظر عام پر آنا عسکریت پسند گروپ کی ملک میں موجودگی کو ثابت نہیں کرتا لیکن پاکستان میں عراق اور شام کی طرز پر نیا نیٹ ورک بنائے جانے کے امکان کی تصدیق کرتے ہوئے، انہوں نے کہا ہے کہ حکومت، انٹیلی جنس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے صورتحال پر نظر رکھتے ہوئے ہیں، اس بات کو یقینی بنا رہے ہیں کہ داعش پاکستان میں جڑیں نہ پھیلا سکے۔ یہ خدشہ اس لیے بھی ذہنوں کو جکڑے ہوئے ہے کہ ہمارا ملک، تین عشروں سے جاری غیر ریاستی عناصر کے ذریعے خارجہ پالیسی کے مقاصد کے حصول کے لیے اپنائی جانے والی پالیسی کے نتیجے میں دہشت گردوں کی دستیابی سے متعلق کافی زرخیز ہو چکا ہے۔ اس حقیقت کو مد نظر رکھیں تو داعش کو بھرتی کے لیے صرف تنخواہوں کے اعلان کی ضرورت ہے۔

وزرستان میں ضرب عضب آپریشن کیوجہ سے پاکستانی دہشت گرد تتر بتر ہو رہے ہیں اور مختلف ملکوں کا رخ کر رہے ہیں۔ سکیورٹی ذرائع سے چھپنے والی رپورٹ کے مطابق جنگجوﺅں نے خاموشی سے ایک سمت اختیار کر لی ہے، وہ کسی ہجوم کی بجائے ایک یا دو کی شکل میں کام کر رہے ہیں، دہشت گردوں کی ایک تعداد دولت اسلامیہ کی دولت اور شہرت سے متاثر ہو کر لڑنے کے لیے عراق اور شام کا رخ کر رہے ہیں مگر پاکستانی حکام اس پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں کہ عسکریت پسند ملک سے جا کر واپس آ رہے ہیں، وہیں مر رہے ہیں یا وہاں سے کہیں اور منتقل ہو رہے ہیں، حالانکہ افغانستان بھاگ جانے والے وہ دہشت گرد جو سوات، باجوڑ، خیبر اور وزیرستان میں سیکورٹی فورسز پر حملے کرتے ہیں، ان سے متعلق افغانستان کو ہمیشہ اپنے تحفظات سے آگاہ کیا جاتا رہا ہے۔ یہ سوال بھی باقی ہے کہ آیا داعش اور اس کے خلیفہ ابوبکر البغدادی پاکستانی عسکریت پسندوں کے دل و دماغ میں جگہ بنا چکے ہیں، یا خود داعش کے مبینہ خلیفہ کے دل میں انکے لیے کوئی جگہ ہے یا نہیں۔ اب تک کی صورتحال سے یہ تو واضح ہے کہ پاکستانی عسکریت پسندوں نے اپنے طور پر داعش کی اطاعت قبول کرنا شروع کر دی ہے، لیکن دوسری طرف خاموشی ہی ہے۔ یہ پہلو بھی اہم ہے کہ پاکستان کے مذہبی شدت پسند کمپنی کی مشہوری کے لیے داعش کا نام استعمال کر رہے ہیں، حقیقت میں یہ خود بھی جنگ آزمائی کی صلاحیت سے عاری ہیں۔ میڈیا میں بے محابہ شور، داعش کے نام سے پاکستان کے مختلف شہروں میں چاکنگ اور دولت اسلامیہ کے پرچم لہرائے جانے کے بعد سکیورٹی حکام، مذہبی و سیاسی رہنماوں اور عوامی حلقوں میں یہ بحث زور پکڑ گئی ہے کہ پاکستانی اور پاکستان میں مقیم غیر ملکی دہشت گردوں کا عراق اور شام میں تباہی مچانے والے سلفی تکفیری گروپ سے کیا تعلق ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ خود داعش کے رہنما پاکستانی علاقوں میں پائے جانے والے دہشت گرد گروہوں کو کیا حیثیت دیتے ہیں، بالخصوص دولت اسلامیہ کے مبینہ خلیفہ ابوبکر بغدادی کا اس سلسلہ میں کیا نقطہ نظر ہے۔

جب پاکستان میں داعش کے نیٹ ورک کی بات کی جاتی ہے تو دھیان رہنا چاہیئے کہ داعش کے مبینہ خلیفہ ابوبکر بغدادی نے دنیا بھر سے تکفیری عناصر کو عراق اور شام آنے کی دعوت دی تھی کہ لوگ آئیں اور انکی بیعت میں قائم کردہ تکفیری خلافت کو چلانے اور بعد ازاں پھیلانے میں مدد دیں، بعض مبصرین کا خیال ہے کہ وہ صرف بلا رہے ہیں، ہر کوئی، جو ان سے ملنا چاہتا ہے، عراق آئے، خلافت قائم ہوگی اور پھر اسکو وسعت دی جائے گی، ایسے کوئی شواہد نہیں کہ انہوں نے کسی ملک میں اپنے کارندے بھیجے ہوں، جو وہاں جا کر خلافت قائم کرنے کے لیے دہشت گردی کا فریضہ انجام دیں، یہ باتیں صرف شہہ سرخیوں تک محدود ہیں کہ پاکستان میں غیر ملکی آئے ہیں جو یہاں داعش کا نیٹ ورک بنائیں گے، یا اس بات کا جائزہ لیں گے۔ اس کی تصدیق بھی مشکل ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان ابو عمر مقبول الخراسانی المعروف شاہد اللہ شاہد نے جن پانچ کمانڈرز کے ساتھ داعش کی اطاعت قبول کرنے کا اعلان کیا، ان سے متعلق داعش کے مبینہ خلیفہ کا کوئی ردعمل آیا یا نہیں۔ حالانکہ شاہد اللہ شاہد کا کہنا ہے کہ میں نے متعدد بار اطاعت کا یقین دلایا ہے اور بغدادی کا کوئی جواب نہیں آیا۔ اکتوبر میں شاہد اللہ شاہد نے اپنی ایک عربی زبان کی ویڈیو کے ذریعے داعش کے مبینہ سربراہ تک رسائی کی اپنی کوششوں کا ذکرکرتے ہوئے کہا تھا کہ میں نے پہلی اطاعت خلافت کے اعلان سے قبل ابو طیار الاردنی کے ہاتھوں کی تھی، دوسری اطاعت گذشتہ رمضان کے پانچویں روزے کے موقع پر کی گئی، جسے میں نے ابو ہدیٰ السوڈانی کے ذریعے بھجوایا اور تیسری بار رمضان کے اختتام پر ایسا ہوا، جسے میں نے ٹیلیفون پر عمر ابوالخطاب الشامی کے ذریعے بھجوایا، یہ چوتھا موقع ہے اور مجھے امید ہے کہ ابوبکر بغدادی اسے قبول کر کے جواب دیں گے۔ اسکا مطلب ہے کہ وال چاکنگ، کتابچے کی تقسیم اور پرچم لہرانا، پاکستانی عسکریت پسندوں کا ردعمل ہے، داعش اس حوالے سے خاموش ہے۔

افغانستان کے مشرقی صوبوں کنڑ اور نورستان کے کچھ افغان کمانڈرز نے بھی داعش کی اطاعت قبول کرنے کا اعلان کیا ہے، حکام کو فکر ہے کہ وسائل سے مالامال داعش اپنے ایجنڈے کو عالمی سطح پر پھیلانے کے لیے جنگجوﺅں کو بھرتی کر سکتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کے قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے تین اہم عسکریت پسند کمانڈروں مولوی فضل اللہ، حافظ گل بہادر اور خان سعید سجنا نے داعش کی موجودگی کو تسلیم کیا ہے، تاہم وہ تاحال ملاعمر کو ہی امیرالمومنین تسلیم کرتے ہیں۔ جماعت الاحرار کے عبدالولی المعروف عمر خالد خراسانی نے اپنی حالیہ اپیل میں داعش اور القاعدہ کے النصرہ گروپ سے اختلافات کو پس پشت ڈال کر مشترکہ دشمنوں کے خلاف ملنے کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ ضرب عضب میں طالبان کو انتشار اور افتراق کی وجہ سے شکست ہوئی۔ عمر خالد خراسانی اور اس کا گروپ ماضی میں ملا عمر کی اطاعت تسلیم کر چکا تھا اور اور اس نے اب تک اپنے ذہن بدلنے کا کوئی عندیہ نہیں دیا، مگر جماعت الاحرار کا اطراف بدلنے کا کوئی بھی فیصلہ پاکستانی میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں میں تبدیلی کا سبب بن سکتا ہے۔ یاد رہے کہ مذکورہ افغان اور پاکستانی گروپ پاکستان کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں اور سی آئی اے، را سے منسلک ہیں۔ داعش اسرائیلی منصوبہ سازوں کے ہاتھ میں ہے، افغانستان میں، پاکستان کیخلاف بھارت کی طرف سے لڑی جانے والی پراکسی وار میں اسرائیل براہ راست ملوث نہیں، انکا فوکس حزب اللہ کو الجھانے کے لیے، داعش کے ذریعے، عراق اور شام میں نئی ریاست کی تخلیق پر ہے۔

داعش عناصر کا پاکستان میں نیٹ ورک قائم کرنے یا نہ کرنے سے متعلق خاموشی کے اسباب کا جائزہ لیں تو نتیجہ یہ ہے کہ وزیرستان میں طالبان کی پسپائی کی طرح داعش میں شکست و ریخت کا شکار ہے، وہ دوسرے ملکوں میں بے آسرا ہونے والے دہشت گردوں کو سرپرستی فراہم کرنے کی متحمل نہیں۔ اسکا ایک سبب عراق اور شام میں داعش دہشت گردوں کی پسپائی اور انکے خلاف شامی اور عراقی افواج کی زمینی کاروائیوں کی بدولت پیدا ہونے والا دباو ہے، انکے لیے فی الحال ممکن نہیں کہ وہ کہیں اور توجہ دیں۔ دوسری وجہ ابوبکر بغدادی کی تنظیم میں اسرائیل کا اثر و رسوخ ہے، داعش کی ساختیاتی نوعیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ گروہ مکمل طور پر صہیونیوں کے کنٹرول میں ہے، اسکا مقصد تخلیق عراق کی تقسیم اور نئی ریاست کو وجود میں لانا ہے، اسرائیلی منصوبہ سازوں کا ہدف فقط نیابتی جنگ اور صرف ایران پر دباو ڈالنے اور تیل کے ذخائر ہتھیانے تک محدود نہیں، بلکہ قرین قیاس یہ ہے کہ یہ اسی طرز پہ مشرق وسطیٰ کے حصے بخرے کیے جانے کا منصوبہ ہے، جس طرز پہ لارنس آف عریبیہ نے آل سعود کے توسط سے سلطنت عثمانیہ کو ٹکڑے ٹکڑے کروایا تھا، ترکی کے وزیراعظم بھی اس امر کی طرف اشارہ کر چکے ہیں کہ داعش کی تشکیل، داعش کی امداد اور خود داعش کیخلاف کاروائی کے نام پہ مغربی ممالک سے آنے والے سفارت کاروں، فوجی کارندوں، صحافیوں، امدادی رضا کاروں اور ڈائریکٹ دہشت گردوں کا وہی کردار ہے جو لارنس آف عریبہ کا تھا۔

تیسری وجہ سعودی پشت پناہی کا خاتمہ ہے، جسکی وجہ سے بالخصوص پاکستان سے دہشت گردوں کی سپلائی میں لاجسٹک اخراجات بڑھ جاتے ہیں، انہیں ترکی جانے کے لیے ایران کا پر خطر راستہ طے کرنا ہوتا ہے، پہلے یہ ذمہ داری سعودی ائیر لائن انجام دیتی تھی۔ چوتھی وجہ القاعدہ سے اختلافات ہیں، جو پاکستانی اور افغانی علاقوں میں دیرینہ اثر و رسوخ رکھتی ہے اور پانچویں وجہ پاکستان میں تزویراتی پالیسی میں غیر ریاستی عناصر کے استعمال سے متعلق آنے والی تبدیلی ہے، کہ اب انہیں پذیرائی نہیں بخشی جا سکتی، چھٹی وجہ یہ ہے کہ قتل و غارت، عصمت دری، تباہی، اغوا برائے تاوان، اسمگلنگ، بھتہ خوری، وطن دشمنوں کے عزائم کی تکمیل اور مذہبی منافرت جیسے سارے کام، جو داعش عراق اور شام میں انجام دے رہی ہے۔ وہ طالبان، لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ جیسے گروہ پہلے ہی پاکستان میں انجام دے رہے ہیں، شاید اس لیے داعش کو نیا نیٹ ورک بنانے کی ضرورت نہیں، بس اشتراک قائم کرنا باقی ہے، مگر ممکن ہے کہ یہ اعلانیہ نہ ہو۔ المختصر پاکستانی دہشت گردوں کی جانب سے داعش کی اطاعت کا اعلان دراصل اسرائیل سے سرپرستی کی اپیل ہے، داعش یہاں نہ آئے تو یہ وہاں جائیں گے، داعش عناصر تب کہیں جائیں گے جب وہ عباس علمدار علیہ السلام کے جانثاروں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو پائیں، یہ وہاں جاتے ہیں تو وہاں خیبر شکنؑ کے متوالوں کی تلواریں انہیں جہنم رسید کرنے کے لیے تیار ہیں۔ آئمہ معصومین علیہم السلام کے مزارات مقدسہ کی حفاظت کے دوران شہید ہونے والے پاکستانی شہداء کی قربانی اس امر کی گواہی ہے کہ دنیا بھر سے جذبہ حسینی رکھنے والے مسلمان، صیہونی اور تکفیری لشکر کو شکست دینے کے لیے آمادہ ہیں۔
خبر کا کوڈ : 420974
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
DILCHASP!!!!!! VERY INTERESTING..//S
ہماری پیشکش