0
Tuesday 29 Sep 2015 00:45
اختلافات کے حل کیلئے باہمی تعاون اور رابطوں پر انحصار کرنا ہوگا

ایران کیساتھ عالمی طاقتوں کا جوہری معاہدہ بین الاقوامی نظام کی مضبوطی کا عکاس ہے، باراک اوباما

مسلمانوں کو داعش جیسے شدت پسند نظریات کو مسترد کرنا چاہیئے
ایران کیساتھ عالمی طاقتوں کا جوہری معاہدہ بین الاقوامی نظام کی مضبوطی کا عکاس ہے، باراک اوباما
اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر بارک اوباما نے کہا ہے کہ امریکہ شام کے تنازع کے خاتمے کیلئے ایران اور روس سمیت کسی بھی ملک کے ساتھ مل کر کام کرنے کیلئے تیار ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا کہ طویل خانہ جنگی ختم کرنے کیلئے سمجھوتہ ضروری ہے، لیکن حقیقت پسندی کے تحت منظم انداز میں اقتدار کی منتقلی کی جائے، جس میں شامی صدر بشار الاسد کو الگ کرکے ایک قابل قبول رہنما لایا جائے۔ پائیدار استحکام اس وقت ہوسکتا ہے جب شام کے لوگ پرامن طریقے سے ایک ساتھ رہنے کے معاہدے کا راستہ بنائیں۔ صدر اوباما نے کہا کہ امریکہ چاہے کتنا ہی طاقت ور ملک کیوں نہ ہو، پوری دنیا کے مسائل تنہا حل نہیں کرسکتا۔ امریکہ نے عراق سے سبق سیکھا ہے کہ طاقت اور پیسے کے زور پر کسی دوسرے ملک میں امن قائم نہیں کیا جاسکتا۔ مشرقِ وسطٰی اور شمالی افریقی ممالک کے مسائل پیچیدہ نوعیت کے ہیں، جنہیں حل کرنا صرف امریکہ کے بس کی بات نہیں۔ عالمی مسائل اور تنازعات کے حل کیلئے مختلف اقوام کو باہمی تعاون میں اضافہ اور بڑے ممالک کے رہنمائوں کو عالمی سفارت کاری میں فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔ عالمی سیاست تبدیل ہو رہی ہے، علاقوں اور ملکوں پر قابض ہونا اب طاقت کی علامت نہیں رہا۔ دنیا کے لئے تصادم اور طاقت کے پرانے طریقوں کی طرف واپس لوٹنا بھی ممکن نہیں رہا، اختلافات کے حل کے لئے باہمی تعاون اور رابطوں پر انحصار کرنا ہوگا۔

ایران کے جوہری تنازع نے ثابت کیا ہے کہ اصولوں پر مبنی سفارت کاری اور بین الاقوامی تعاون کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ ایران کے ساتھ عالمی طاقتوں کا جوہری معاہدہ بین الاقوامی نظام کی مضبوطی کا عکاس ہے، یہ عارضی نوعیت کا نہیں۔ صدر اوباما نے اس تاثر کی نفی کی کہ روس کے خلاف پابندیاں سرد جنگ والی ذہنیت کی علامت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ ایک مضبوط روس دیکھنا چاہتا ہے، جو عالمی سیاست میں امریکہ کے شانہ بشانہ کردار ادا کرسکے۔ شام کے تنازعہ کے حل کے لئے وہاں حکومت کی "منظم تبدیلی" ضروری ہے۔ امریکی صدر نے بشار الاسد کو "غاصب اور ظالم آمر" قرار دیا۔ مشرقِ وسطٰی کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے صدر اوباما کہنا تھا کہ مسلمانوں کو داعش جیسے شدت پسند نظریات کو مسترد کرنا چاہیے۔ جدید دنیا میں داعش جیسے خونخوار گروہوں کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ داعش کے مقابلے کے لئے ضروری ہے کہ فوجی طاقت کے استعمال کے ساتھ ساتھ تمام ممالک شام کی خانہ جنگی کا سیاسی حل نکالنے کی کوششوں میں بھی باہم تعاون کریں۔ جدید دنیا میں خونخوار گروپوں کی کوئی جگہ نہیں، مسلمان داعش جیسے شدت پسند نظریات رد کر دیں، عالمی سیاست تبدیل ہو رہی ہے۔ مشرق وسطٰی اور شمالی افریقی ممالک کے مسائل پیچیدہ نوعیت کے ہیں، حل کرنا صرف امریکہ کے بس کی بات نہیں، سب کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ اقوام متحدہ کے اصولوں نے جمہوریت کو فروغ دینے میں مدد دی ہے۔ ہم کئی بڑی اقوام کو تباہ ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ عالمی سطح پر پناہ گزینوں کا مسئلہ پیدا ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی کامیابیوں پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے، ہماری منزل ابھی دور ہے۔

انسانیت کی ترقی کیلئے بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ دنیا میں لوگوں کے خوف کا فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ ضرورت پڑی تو اپنے ملک اور اتحادیوں کی طاقت سے حفاظت کروں گا، دنیا کو شامی صدر بشار الاسد جیسے لوگوں کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ شام کے صدر نے اپنے ہی لوگوں پر بم گرا کر قتل عام کیا۔ چیلنجز سے نمٹنے کیلئے متحد ہونا ہوگا۔ دنیا کی ترقی کیلئے اکٹھے ہو کر چلنا ہوگا۔ فوجی حل ہمیشہ عارضی ہوتا ہے۔ آمرانہ ادوار ہمیشہ کمزور ہوتے ہیں۔ اپنے وطن کے دفاع کیلئے مجھے کبھی ہچکچاہٹ نہیں ہوسکتی۔ یوکرین کے عوام روس کی بجائے یورپ سے تعلقات بڑھانا چاہتے ہیں۔ مسلمانوں کو داعش جیسے نظریات کو مسلسل رد کرنا چاہئے۔ داعش زہرآلود ذہنیت کی مالک ہے، اسلام ہمدردی اور تحمل کا درس دیتا ہے، داعش نے اسلام کا چہرہ مسخ کرنے کی کوشش کی۔ کچھ ممالک عالمی قوانین کی پاسداری نہیں کر رہے، ایران پراکسی وار کے ذریعے پڑوسیوں کے حالات خراب کر رہا ہے۔ یوکرین سے متعلق تحفظات کو بیٹھ کر حل کرنے کی ضرورت ہے، پناہ گزینوں کو امریکہ آنے کی اجازت ہے، امریکی کانگریس کیوبا پر عائد پابندیاں ختم کرے۔ جو کچھ شام میں ہو رہا ہے یہ جمہوریت نہیں، عوام کو دبانے والی حکومتیں اپنے اندر کے خوف کو ظاہر کر رہی ہیں، جمہوریت سے ملک کو مضبوط بنایا جاتا ہے، پناہ گزینوں کی مدد صرف فلاحی کام نہیں۔ یہ ملکوں کے اپنے مفاد میں بھی ہے، مسائل کا حل مذاکرات میں ہے فوجی کارروائی میں نہیں، امریکہ پناہ گزینوں کی بھرپور امداد کا سلسلہ جاری رکھے گا۔

مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کے مسائل کا آسان حل نہیں، صرف متحد ہو کر ہم دنیا سے غربت ختم کرسکتے ہیں، آگے بڑھنے کیلئے ہمیں جمہوریتوں کا تحفظ کرنا ہوگا۔ کوئی بھی ملک موسمیاتی تبدیلیوں کے نقصانات سے نہیں بچ سکتا، امریکہ 50 ملکوں سے مل کر اقوام متحدہ کی امن فورس میں اضافہ کرے گا۔ اقوام متحدہ کے زیراہتمام پائیدار ترقی کے بارے میں تین روزہ سربراہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر اوباما نے عالمی رہنمائوں پر زور دیا ہے کہ وہ غربت، ماحولیاتی تبدیلیوں اور یورپ میں پناہ گزینوں کے بحران سمیت دیگر عالمی مسائل حل کرنے کے لئے اقدامات کریں، اس وقت جب دنیا بھر میں 80 کروڑ افراد کی یومیہ آمدنی 1.25 ڈالر سے کم ہے اور ایک منٹ میں 11 بچے ایسی وجوہات کے سبب موت کے منہ میں جا رہے ہیں، جن پر قابو پایا جاسکتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ دنیا بھر کے رہنمائوں کو ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ بارک اوباما نے دنیا بھر کے ممالک سے کہا کہ وہ مہاجرین کے لئے اپنی سرحدیں کھول دیں، کیونکہ ان کے بچے بھی ہمارے بچوں جیسے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کے نتیجہ میں بھی بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوسکتے ہیں اور اس سے تمام ممالک متاثر ہوں گے، لیکن غریب ترین ممالک اس صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کم کرنے کے لئے ترقی پذیر ممالک کی توانائی کے ماحول دوست ذرائع اختیار کرنے کے لئے مدد کی جائے۔ انہوں نے عالمی رہنمائوں سے شفافیت اور قانون کی حکمرانی کو فروغ دینے کی بھی اپیل کی۔
خبر کا کوڈ : 487998
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش